بڑا بھائی

مصنف : ذکیہ بلگرامی

سلسلہ : معاشرتی کہانی

شمارہ : اگست 2008

ایک خاندان کی سبق آموز کہانی جہاں بڑے بھائی سے تمام تلخیاں جھلا کر بڑے بھائی کا فرض ادا کیا

جب کبھی میں ناصر بھائی سے لڑتا اور اُونچی آواز میں انھیں جواب دیتا، تو ابو مجھے دھیمی آواز میں سمجھاتے: ‘‘بیٹا! ناصر تمہارا بڑا بھائی ہے۔ اس سے مت جھگڑا کرو، اس کا کہنا مانو اور اس سے محبت کرو۔ تم دونوں محبت سے رہو گے تو میرا دل خوش رہے گا۔ بڑھاپے میں جب میرے بازو کمزور ہوجائیں گے تو تم دونوں میرے بازو بنو گے۔ بھائی بھائی میں پیار نہ ہو تو زندگی کی ناؤ کیسے پار لگے گی’’۔

لیکن ابو کی بات کا میرے اُوپر کوئی اثر نہ ہوتا۔ میں جانتا ہوں کہ ناصر بھائی میرے سگے بھائی نہیں، وہ میرے سوتیلے بھائی تھے۔ امی نے مجھے سب کچھ بتا دیا تھا۔ ناصر بھائی کی امی فوت ہوچکی تھیں۔ ان کا رنگ بھی سانولا تھا، اسی لیے تو ناصر بھائی بھی کالے تھے، اپنی ماں جیسے! میری امی بہت خوبصورت تھیں، گوری رنگت والی۔ وہ کوئی کام نہیں کرتی تھیں، ابو کے کام بھی ملازم ہی کرتا تھا۔ وہ ہروقت بنی سنوری رہتیں۔ کتنی اچھی تھیں میری امی! بالکل شہزادی جیسی!!

ناصر بھائی بہت ذہین تھے ، اپنی جماعت میں اول آتے مگر وہ شریر بھی تھے۔ ان کی شرارت کا نشانہ اکثر میں ہی ہوتا۔ میرے سوا اور گھر میں تھا بھی کون؟جب کبھی ناصر بھائی مجھے تھوڑا سا تنگ کرتے، میں امی کے پاس روتا ہوا جاتا اور ناصر بھائی کے خلاف جو کچھ منہ میں آتا، کہہ ڈالتا۔ امی ناصر بھائی کو بلا کر خوب ڈانٹتیں، برا بھلا کہتیں اور میرے آنسو خشک کر کے مجھے گلے لگاتیں۔ میں اپنی جیت پر خوش ہوتا اور پہلے سے زیادہ نڈر اور بدتمیز بن جاتا۔ اب آئے دن یہی ہونے لگا۔ بات بات پر امی ناصر بھائی کو ڈانٹنے لگیں۔ ناصر بھائی جواب میں کچھ نہ کہتے، خاموشی سے امی کی ڈانٹ سن لیتے۔ امی ناصر بھائی کی شکایت ابو سے بھی کرتیں، مگر ابو ناصر بھائی کو کچھ نہ کہتے۔ ایک روز عجیب تماشا ہوا۔

شام کو میں بلّا اُٹھا کر کرکٹ کھیلنے گلی میں آیا۔ سب لڑکے جمع تھے۔ مجھے دیکھا تو زور زور سے ہنسنے لگے۔ پھر سب نے مل کر ‘‘بندر، بندر’’ کی رَٹ لگائی۔ میں پریشان ہوگیا۔ میں نے کہا: ‘‘تمہیں میری شکل بندر جیسی لگتی ہے؟’’ میرے پڑوسی نادر نے کہا: ‘‘حامد! تمہاری قمیص کے پیچھے بندر کا اسٹکر چپکا ہوا ہے اس لیے لڑکے تمہیں چھیڑ رہے ہیں’’۔میں نے اپنا ہاتھ پیچھے پھیرا،واقعی اسٹکر چپکا ہوا تھا۔ میں سمجھ گیا کہ یہ ناصر بھائی کی شرارت ہے۔ میں پاؤں پٹختا ہوا گھر پہنچا۔ بلّا اُچھال کر ایک طرف پھینکا اور دندناتا ہوا امی کے پاس پہنچا۔ ‘‘امی! آج ناصر بھائی نے مجھے بری طرح ذلیل کروایا ہے۔ لڑکے میرا مذاق اُڑا رہے ہیں۔ ناصر بھائی نہیں چاہتے کہ میں بھی کرکٹ کھیلوں، وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ میں گھر سے نکلوں ہی نہیں’’۔ میں نے امی کو پوری بات بتائی، تو انھیں بھی تاؤ آگیا۔ بات چھوٹی تھی مگر بڑھ گئی۔ امی نے ناصر بھائی کو بلا کر اچھی طرح ڈانٹا اور دو ہاتھ بھی جڑ دیئے، پھر بولیں: ‘‘تم حامد سے نفرت کرتے ہو، اسی لیے ایسی حرکتیں کرتے ہو’’۔‘‘حامد میرا بھائی ہے، میں اس سے پیار کرتا ہوں امی!’’ ‘‘خبردار جو تم نے حامد کو اپنا بھائی کہا۔ تم حامد کے بھائی نہیں اور ہاں مجھے امی مت کہا کرو، مجھے نفرت ہے تمہاری صورت سے’’۔ ناصر بھائی کی آنکھوں میں آنسو آگئے، وہ چپ چاپ وہاں سے چلے گئے۔ امی نے ابو سے نہ جانے کیا کچھ کہا، انھوں نے بھی ناصربھائی کو ڈانٹا۔ اس روز سے ناصر بھائی بالکل بدل گئے۔

اب گھر میں ہر وقت سناٹا رہتا تھا۔ ناصر بھائی نے شرارتیں کرنی چھوڑ دیں۔ وہ ہروقت پڑھائی میں لگے رہتے تھے۔ اس سال وہ آٹھویں جماعت کا بورڈ کا امتحان دے رہے تھے۔ میں چوتھی جماعت میں تھا۔ ہمارے امتحانات ہوئے اور نتیجے بھی آگئے۔ ناصر بھائی نے بورڈ میں پہلی پوزیشن حاصل کی اور میں معمولی نمبروں سے پاس ہوگیا۔ اس روز ابو بے حدخوش تھے مگر امی چھپ چھپ کر روئی تھیں۔ مجھے بھی ناصر بھائی کے اول درجے آنے کی کوئی خوشی نہ تھی۔ پھر دن اسی انداز سے گزرنے لگے۔ اب امی کے دل میں ناصر بھائی کے لیے نفرت اور بڑھ گئی۔ میں امی کے خیالات میں برابر کا شریک تھا۔ مجھے بھی ناصر بھائی بہت برے لگتے تھے۔ انھیں اب تعلیم حاصل کرنے کے لیے وظیفہ بھی ملتا تھا۔ ہر جگہ ان کی عزت ہوتی۔ ہر کوئی ناصر بھائی کے گن گاتا۔ یہ صورت حال امی کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ انھوں نے اب ناصر بھائی کے خلاف محاذ کھول دیا۔بات بے بات ناصر بھائی کو برا بھلا کہا جاتا، ابو کے کان بھرے جاتے اور اب تو امی کے کہنے کے مطابق ناصر بھائی نے گھر میں چوری بھی شروع کر دی تھی۔ امی کے پرس سے روزانہ روپے غائب ہونے لگے تھے۔ امی مستقل ابو کے کان کھاتیں: ‘‘ناصر بہت بگڑ گیا ہے، اس کی غلط صحبت ہے۔ میرے روپے چوری کر کے تاش کھیلنے اور سینما میں اڑاتا ہے’’۔

ابو شاید امی کی بات پر یقین نہیں کرتے تھے، اس لیے ناصر بھائی کو کچھ نہ کہتے۔ ابو اکثر سرکاری کام سے کراچی سے باہر جایا کرتے تھے۔ ایک دن ابو تین دن کے لیے اسلام آباد گئے۔ امی کے لیے یہ بہترین موقع تھا۔ ناصر بھائی کے میٹرک کے امتحان نزدیک تھے اور میں چھٹی کا امتحان دینے والا تھا۔ امی نے اپنے زیورات کا ڈبہ کھولا، تو اس میں سے ایک قیمتی ہار غائب تھا۔ امی نے ناصر بھائی پر ہار کی چوری کا الزام لگا کر انہیں گھر سے نکال دیا اور کہا:‘‘آیندہ اس گھر میں کبھی قدم نہ رکھنا، میں نہیں چاہتی کہ حامد پر تمہارا بُرا اثر پڑے’’۔

ناصر بھائی ہمارے گھر سے چلے گئے۔ اب امی مطمئن ہوگئیں۔ میں بھی خوش تھا۔ ابو جب اسلام آباد سے واپس آئے تو انھیں امی نے بتایا کہ ناصر گھر سے بھاگ گیا ہے۔‘‘مگر کیوں؟’’ ابو بے حد حیران تھے۔ ‘‘وجہ تو آپ ہی کو پتا ہوگی۔ ناصر کی صحبت اچھی نہ تھی۔ وہ پڑھائی کے بہانے گھر سے باہر رہتا اور چوریاں کرتا تھا۔ ہوسکتا ہے پولیس اسے پکڑ کر لے گئی ہو۔ میرا ایک قیمتی ہار بھی گم ہوچکا ہے۔ ناصر کے سوا اور کون میری الماری کھول سکتا ہے؟’’غرض یہ کہ امی نے ناصر بھائی کے خلاف بہت کچھ کہا۔ ابو صدمے سے نڈھال ہوگئے۔ کئی روز تک ابو بے حد پریشان رہے۔ وہ پہلے ہی سنجیدہ تھے، اب اور زیادہ خاموش ہوگئے۔ ناصر بھائی کے سلسلے میں انھوں نے ایک لفظ بھی نہ کہا۔ ناصر بھائی کے جانے کے بعد مجھے من مانی کرنے کی آزادی مل گئی۔ میں گھنٹوں گھر سے باہر لڑکوں کے ساتھ کھیلتا رہتا اور پڑوس کے وی سی آر پر فلمیں دیکھتا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ میں ہر بار امتحان میں فیل ہوجاتا۔ ابو جب نتیجہ دیکھ کر مجھے کچھ کہتے، تو میں فوراً کہہ اُٹھتا:‘‘ابو اس اسکول کی استانیاں ہی عجیب ہیں، کچھ پڑھاتی ہی نہیں۔ میں کس طرح سے پاس ہوسکتا ہوں’’۔امی بھی میری حمایت میں بول اُٹھتیں، ‘‘حامد ٹھیک کہتا ہے۔ آج اسکولوں میں پڑھائی ہوتی ہی نہیں۔ بچے کس طرح پڑھیں؟’’ابو خاموش ہوجاتے۔ امی کی شہ پا کر میں اور بھی اکڑ جاتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سالانہ امتحان میں بھی فیل ہوگیا۔

امی نے اسکول والوں کو خوب برا بھلا کہا۔ میں بھی زور شور سے بولتا رہا۔ ابو نے مجھے ہمیشہ کی طرح سمجھانا چاہا مگر میں کچھ سننا نہیں چاہتا تھا۔ فیل ہونے کے بعد میں اور بھی نڈر ہوگیا۔ پڑھائی سے دلچسپی ختم ہوگئی تھی۔ جب ناصر بھائی گھر میں رہتے تو مجھے ٹوکتے رہتے تھے۔ وہ مجھے پکڑ کر گھر لے آتے۔ خود پڑھنے بیٹھتے، تو مجھے بھی پڑھنے بٹھا لیتے اور اسکول کا کام کرنے میں میری مدد کرتے تھے۔ مگر اب میں آزاد تھا، مجھے ٹوکنے والا کوئی نہ تھا۔ اب میں امی سے جھوٹ بولنے لگا اور اکثر اسکول سے غائب ہوکر دوستوں کے ساتھ کھیلتا رہتا۔

امی سمجھتیں کہ میں پڑھنے گیا ہوں، انھیں کچھ خبر نہ تھی۔ رفتہ رفتہ میں نے امی کی بات بھی سننی چھوڑ دی۔ وہ کوئی بات کہتیں، تو میں تڑاخ کر جواب دے دیتا۔ سارا دن دوستوں کے ساتھ آوارہ پھرتا۔ ابوصبح کے گئے شام کو گھر واپس آتے، انھیں میرے بارے میں کچھ زیادہ علم نہیں تھا۔ امی تو ان سے ہمیشہ میری تعریف ہی کرتی تھیں۔دوسری بار جب میں فیل ہوا تو امی نے رو رو کر گھر سر پر اُٹھا لیا۔ ابو نے مجھے ڈانٹا اور سمجھایا بھی۔ مجھ پر کچھ اثر ہوا اور میں نے پڑھائی میں تھوڑی بہت دلچسپی لینی شروع کی مگر میری عادتیں بگڑ چکی تھیں، اب کتابیں مجھے بوجھ لگتیں۔

کئی سال گزر گئے۔ میں نے کسی نہ کسی طرح معمولی نمبروں سے میٹرک پاس کرلیا مگر اب زیادہ پڑھنا نہیں چاہتا تھا۔ میں نے امی ابو سے صاف کہہ دیا کہ پڑھائی میرے بس کی نہیں۔امی ابو میری وجہ سے پریشان رہتے مگر مجھے کوئی پروا نہ تھی۔ اب تو تعلیم کا بھی مسئلہ نہ تھا۔ یوں خوب گل چھرے اُڑاتا میں جوان ہوگیا۔ میری زندگی ٹھاٹ سے گزر رہی تھی۔ میں بے حد خوش رہتا۔ ناصر بھائی کا ہمارے گھر میں کبھی ذکر نہیں ہوا تھا۔ انھیں اس گھر سے گئے دس سال گزر چکے تھے۔ ابو کی صحت آہستہ آہستہ گر رہی تھی۔ شاید وہ اندر سے ٹوٹ رہے تھے۔ ایک روز اچانک انھیں دل کا دورہ پڑا۔ میں گھبرا گیا۔ امی بے حد پریشان تھیں۔ انھیں ہسپتال داخل کروا دیا گیا۔ ان کی حالت بہت تشویش ناک تھی۔ہسپتال کے سبھی ڈاکٹر ابو کا خیال کر رہے تھے، مگر ایک ڈاکٹر ایسا بھی تھا جو چوبیس گھنٹے ابو کی دیکھ بھال کرتا۔ اس ڈاکٹر کی شکل ناصر بھائی سے بہت ملتی تھی۔ مجھے ایسا ہی لگتا تھا مگر میں نے اس سے کوئی بات نہیں کی۔ اس کا زیادہ موقع ہی نہیں آیا۔ ایک ہفتے ابو ہسپتال میں رہے اور پھر انھوں نے ہم سے ہمیشہ کے لیے منہ موڑ لیا۔ ہم پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ امی عدت کے دن گزارنے لگیں۔ ان کے خوبصورت لباس الماریوں میں بند ہوگئے۔ امی کی سونی کلائیاں دیکھ کر میرا کلیجہ منہ کو آتا۔ جس مکان میں ہم رہتے تھے وہ سرکاری تھا۔ چھ مہینے بعد ہمیں یہ مکان خالی کر دینا تھا۔

‘‘اب کیا ہوگا! ہم کہاں جائیں گے؟ ہمارے پاس تو سر چھپانے کی جگہ بھی نہیں۔ تمہارے ابو کی بے وقت موت نے ہم سے ہمارا سب کچھ چھین لیا’’۔ امی کی بات کا میرے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ میں کیا کہتا؟ کاش میں نے پڑھ لکھ کر کوئی مقام بنایا ہوتا تو آج میں اپنی بیوہ ماں کا سہارا ہوتا مگر اب کیا ہوسکتا تھا، وقت گزر چکا تھا اور میں خالی ہاتھ تھا۔

ابو کی موت کو چھے مہینے گزر گئے۔ اب ہمیں ایک ہفتے کے اندر اندر گھر خالی کرنا تھا۔ سب رشتے داروں کو ہماری مجبوری کا علم تھا مگر کوئی بھی ہماری مدد کے لیے آگے نہ بڑھا۔ مجھ جیسے آوارہ نوجوان اور اس کی ماں کو بھلا کون اپنے گھر میں رکھنا پسند کرتا؟ایک شام ہم دونوں اُداس بیٹھے تھے کہ دروازے کی گھنٹی بج اُٹھی۔ میں نے دروازہ کھولا تو سامنے وہی ڈاکٹر کھڑا تھا جو ناصر بھائی جیسا لگتا تھا۔‘‘کون ہے حامد؟’’ امی نے پوچھا۔‘‘ہسپتال کے ڈاکٹر صاحب آئے ہیں’’۔‘‘کون ڈاکٹر؟’’ امی نے کہا۔ڈاکٹر صاحب اندر آگئے۔ کہنے لگے: ‘‘میں ناصر ہوں، آپ نے مجھے پہچانا نہیں، میں سول ہسپتال میں ڈاکٹر ہوں’’۔امی ناصر بھائی کو اپنے سامنے دیکھ کر حیران ہوگئیں، میں بھی دم بخود تھا۔

‘‘مجھے آپ کے تمام حالات کا علم ہے بلکہ میں ہمیشہ اس گھر کے حالات سے باخبر رہا۔ ابو سے میں ہمیشہ پابندی سے ملتا رہا اور آخری دنوں میں مجھے اللہ نے ان کی خدمت کرنے کا بھی موقع دیا ۔ میں اس لیے پہلے یہاں نہیں آیا تھا کہ آپ لوگوں کو میری ضرورت نہ تھی، ابو کا سایہ آپ کے اُوپر موجود تھا مگر اب جب کہ ابو اس دنیا میں نہیں یہ میرا فرض بھی ہے کہ میں اپنی بیوہ ماں کا سہارا بنوں اور چھوٹے بھائی کے سر پر ہاتھ رکھوں۔ آج میں آپ دونوں کو لینے آیا ہوں۔ آیئے آپ لوگ میرے گھر چلیے اور اسے آباد کیجیے’’۔

ناصر بھائی کی باتیں سن کر امی کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ میری آواز حلق میں پھنسنے لگی۔ میں نے کہا: ‘‘ناصر بھائی! ہم بہت بُرے ہیں، بے حد بُرے ہیں اور آپ بہت عظیم ہیں’’۔

ناصر بھائی نے محبت سے مجھے دیکھا اور کہا: ‘‘میں کچھ نہیں ہوں، صرف تمہارا بڑا بھائی ہوں’’۔ یہ کہہ کر انہوں نے مجھے گلے لگا لیا۔ میں ان کے کاندھوں پر سر ٹکا کر آنسو بہانے لگا۔