آزادی کے لیے 'غلامی' ضروری ہے!

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : اگست 2008

اُس کے گھر میں بہت سے غلام رہ چکے تھے مگر اس وقت اسے یوں محسوس ہو رہاتھا کہ یہ نیاغلام سب سے جدا ہے ۔ اس نے اس سے پوچھا ، کیا کھاؤ گے؟ غلام نے جواب دیا ، آقا، جو آپ کھلائیں۔ پوچھا، کیا پیو گے ؟ آقا ، جو آپ پلائیں۔ کیا پہنو گے ؟ آقا، جو آپ پہنائیں۔ کہاں رہو گے ؟ آقا، جہاں آپ رکھیں۔کیا کیا کام کرو گے ؟ آقا ، جو آپ کروائیں۔اس کے ہر سوال کے جواب میں غلام کے پاس ایک ہی جواب تھا کہ آقا جو آپ کی پسند ، وہی اس کی پسند ، جو آپ کی چاہت وہی اس کی چاہت ، جو آپ کی منشا ، وہی اس کی منشا ، جو آپ کا ارادہ ، وہی اس کا فیصلہ۔ مالک اس کے جواب سن کر گہری سوچ میں ڈوب گیا۔جب بہت دیر گزرگئی تو غلام نے عر ض کیا مالک، کیا میں نے کوئی نامناسب بات کہہ دی۔ مالک نے کہا ، نہیں تو ، بلکہ تونے تو مجھے آداب غلامی سکھا دیے۔ سوچ رہا ہوں ،میں بھی توکسی کا غلام ہوں ۔ مجھے بھی آخر کچھ کرنا چاہیے ۔ اسی سوچ نے اس ‘مالک’کی زندگی بدل کر رکھ دی۔اور اس پر یہ حقیقت آشکار ہو گئی کہ وہ بھی اصل میں آزاد نہیں غلام ہے ، دولت و شہرت کا، عزت و وجاہت کا، اقتدارواختیارکا، حرص و ہوس کا اور اپنی خواہشات کاغلام ۔اس نے اپنے نئے غلام سے پوچھا کہ وہ ان بہت سی غلامیوں سے کیسے نجات حاصل کر سکتا ہے ۔ غلام نے جواب دیا ، آقا ، آزادی اصل میں ایک مالک کی غلامی میں آجانے کا نام ہے ۔جیسے مجھے دیکھیں کہ میں آپ کا غلام ہوں ، مجھے صرف آپ کا حکم پورا کرنا ہے باقی میری ہر ضرورت کے ذمہ دار آپ ہیں۔ ایسے ہی انسان اگر‘‘ ایک مالک’’ کا غلام بن جائے تو وہ مالک اسے ہر غلامی سے نجات دے دیتا ہے ۔حقیقی آزادی کا مزہ تو آتا ہی تب ہے جب انسان بس ‘‘اس’’ کا غلام بن کر رہے ۔اس دن کے بعد سے اس مالک نے یہ مشن بنا لیا کہ وہ یہ پیغا م دنیا کے ہر انسان ، ہر گروہ ، ہر جماعت ، ہر قوم، ہر ملک اور ہر ملت تک پہنچائے گاکہ حقیقی آزادی کے حصول کے لیے ‘‘مالک’’ کا غلام بن کر رہنا لازم ہے ۔‘ سوئے حرم’ کو بھی اسی نے یہ پیغام پہنچا یاہے کہ اہل پاکستا ن کو ان کے باسٹھویں یوم آزادی کے حوالے سے یہ بتا دیا جائے کہ ان کو بھی حقیقی آزادی اُس دن نصیب ہو گی جب وہ ایک ‘‘مالک ’’کے غلام بن کر زندگی گزارنے کا فیصلہ کر لیں گے ۔ اس کے علاوہ وہ جتنے بھی فیصلے اور کوششیں کر لیں، جتنابھی زور لگا لیں ، جتنے بھی فلسفے بھگار لیں اور جتنی بھی حکومتیں تبدیل کر لیں وہ نہ عالمی طاقتوں کی غلامی سے نجات حاصل کر سکتے ہیں اور نہ معاشی ، تہذیبی اور ذہنی غلامی سے۔ہاں جس دن وہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر یہ اعلان کر دیں گے کہ وہ آج سے صرف ایک ہی مالک کے غلام ہیں تو باقی مالک ان کا گھر چھوڑکر یوں ہی خاموشی سے رخصت ہو جائیں گے جیسے ابھرتے سورج کے سامنے سے دھند چھٹ جایا کرتی ہے۔البتہ ان کا اعلان اس ‘ایک مالک’ کے نزدیک موثر اسی دن اور اسی وقت سے سمجھا جائے گا جس دن اور جس وقت سے ان کی زندگیوں ، ان کے گھروں ،ان کے معاشروں ،ا ن کے ملکوں اور ان کی حکومتوں میں اس اعلان کی تنفیذ کا آغاز ہو گا۔