میں ہی کیوں

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : اکتوبر2016

میں ہی کیوں؟
آرتھر رابرٹ ایشے، ٹینس کا وہ امریکی کھلاڑی تھا جس نے تین بار grand slam کا ٹائٹل جیتا۔یوں وہ امریکا کا ہمیشہ کے لیے مایہ ناز کھلاڑی قرار پایا۔اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق اگر ہر کھیل کے بہترین کھلاڑیوں کا انتخاب کیا جائے تو آرتھر کا شمار دنیا کے پہلے ا۲ کھلاڑیوں میں کیاجاتا ہے۔ اس نے نہ صرف امریکا بلکہ پوری دنیا میں بے شمار شہرت ، عزت اور دولت پائی۔ایک سرجری کے دوران میں اسے infected blood ملا جس سے وہ ایڈز کے مرض کا شکار ہو گیا اور کچھ دیر اس میں مبتلا رہ کر فروری ۹۹۳ا میں پچاس برس کی عمر میں موت کی آغوش میں چلا گیا۔ اس کی بیماری کے زمانے میں اسے دنیابھر سے محبت بھرے پیغامات پر مبنی ڈھیروں خطو ط موصول ہوئے ۔ان میں سے ایک خط میں لکھا تھا کہ ’’آخر اللہ نے اتنی موذی مرض کے لیے تمہارا انتخاب ہی کیوں کیا؟‘‘ آرتھر نے اس کے جواب میں لکھا، ’’ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں ہر سال پانچ کروڑ بچے ٹینس کھیلنے کا آغاز کرتے ہیں۔پانچ کروڑ میں سے پچاس لاکھ ٹینس کھیلنا سیکھ پاتے ہیں، ان میں سے صرف پانچ لاکھ پروفیشنل ٹینس تک پہنچ پاتے ہیں۔اوران پانچ لاکھ میں سے پچاس ہزار ہی سرکٹ تک جاپاتے ہیں۔پھر صرف پانچ ہزار grand slam تک پہنچ پاتے ہیں اور ان پانچ ہزار میں سے بھی صرف پچاس ومبلیڈن تک پہنچتے ہیں، پھر چار سیمی فائنل میں پہنچتے ہیں اور دو فائنل میں۔او ر جب میں فائنل جیت کرتنِ تنہا کپ اٹھائے ہو ئے تھا تو میں نے خدا سے یہ نہیں پوچھا تھا کہ آخر اتنی بڑی کامیابی کے لیے آپ نے پانچ کروڑ لوگوں میں سے میرا انتخاب ہی کیوں کیا؟ اسی طرح جب کامیابی اور نعمت کے وقت میں نے اللہ سے یہ نہ پوچھا کہ آخر میں ہی کیوں؟ تو آج بیماری اورتکلیف میں بھی مجھے یہ نہیں پوچھنا چاہیے کہ آخر اس بیماری کے لیے میں ہی کیوں؟
انسانی طبیعت کی یہ کمزوری ہے کہ وہ نعمت اور راحت کو تو اپنا حق سمجھ کر استعمال کرتا رہتا ہے مگر جب کوئی تکلیف یا مصیبت پہنچتی ہے تو پھر شکایت کرتا ہے کہ کیا اس مصیبت کے لیے وہ ہی رکھا ہوا تھا؟ عموماً انسانوں کی زندگی میں اچھے حالات کا دورانیہ زیادہ ہوتا ہے لیکن برے حالات کے وقت وہ اس دورانیے کو یکسر بھول جاتے ہیں اور برے حالات کا تھوڑا سا وقت اچھے حالات کے زیادہ وقت کے شکر میں حجاب بن جاتا ہے ۔ایک دوست نے دوسرے سے کہا کہ جب اللہ لوگوں کو بنگلے اور گاڑیاں تقسیم کر رہا تھا تو میں کہاں تھا؟ دوسرا دوست اسے ہسپتال لے گیا اور اس سے کہا اب بتاؤ جب اللہ ان لوگوں میں بیماریاں اور تکلیفیں تقسیم کر رہا تھا تو تم کہاں تھے ؟ یہ تمہارے حصے میں کیوں نہیں آئیں؟ جس طرح تکلیف میں ہم پوچھتے ہیں کہ میں ہی کیوں؟ اس طرح اگر ہم راحت میں بھی خیال کر لیا کریں کہ میں ہی کیوں؟ تو انسان اس ناشکری سے بچ جائے گا جس کا وہ اکثر شکار ہوتا رہتا ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ جب انسان اپنا بندہ ہونا اور خدا کا خالق اور مالک ہونا بھول جاتا ہے تو اس کو اس طرح کی شکایت پیش آتی ہے ۔مالک کو اپنی مِلک پرپورا اختیار ہوتا ہے وہ اسے جیسے بھی رکھے، مِلک کو کوئی اختیار حاصل نہیں کہ وہ شکایت کرے ۔ اللہ ہمارا مالک ہے اگر وہ اچھے حالات میں رکھے تو یہ اس کا احسان ہے، ہمارا حق ہر گز نہیں ۔ اگر وہ برے حالات میں رکھے تو یہ مالک کا حق ہے ہمیں یہ زیب نہیں دیتا کہ شکایت کریں ۔جس طرح اچھے حالات کو خوشی سے قبول کرنے میں ہم کوئی تامل نہیں کرتے ،اسی طرح برے حالات کو بھی تسلیم و رضا سے قبول کرکے ہمیں اُسی کابندہ ہونے کاعملی اظہار کرناچاہیے۔یہی وہ پیغام ہے جسے آرتھر نے بہت خوبصورتی سے بیان کردیا ہے ۔ اگرچہ قرآن و حدیث بھی اسی پیغام سے بھرے پڑے ہیں لیکن اچھی بات جہاں سے بھی ملے، لے لینی چاہیے کہ یہی میرے نبیﷺ کی تعلیم ہے ۔