خواب کہانی

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : جون 2008

 

 خواب لے لو ، خواب۔۔۔۔
    وطن عزیزمیں آنے والی ہر حکومت عوام کو کچھ خواب دکھاتی ہے ، کچھ خواب سناتی ہے ،انہی خوابوں سے انہیں کچھ دیر کو بہلاتی ہے اور پھر خواب ہی خواب میں رخصت ہو جاتی ہے ۔ہمیں امید تھی کہ نئی بننے والی حکومت تو لازماً اس ‘‘سنت ’’پر عمل کرے گی کیونکہ یہ ان لوگوں کے وارث ہیں جو عوام کو روٹی کپڑے اور مکا ن کے خواب دکھایا کرتے تھے ، جو مساوات ، انصاف اور مزدور کی حکومت کی نوید لایا کرتے تھے اور جو خوشحالی ،ترقی اور معیشت کی بحالی کی داستانوں سے بہلایا کرتے تھے ۔مگر عجب بات ہے کہ اس حکومت نے سوائے ایک تقریر کے کوئی خواب نہیں سنایا ۔ لگتا ہے کہ ان کے مسائل کچھ اور ہیں۔ مگر اس کے باوجود ہم انہیں یاد دلاتے ہیں کہ جنا ب والا،آپ کے مسائل جوبھی ہوں، ہمارے مسائل اب بھی وہی ہیں جو پہلے تھے ۔ ہمیں تو خواب دیکھنے کی عادت سی ہو گئی ہے ۔ ہمیں تواب وہ حکومت اچھی ہی نہیں لگتی جو ہمیں خواب کہانی نہ سنائے ۔اس لیے کہ ہمارے پاس اک سپنے ہی تو ہیں جو سب اپنے ہیں باقی تو اب کچھ بھی اپنا نہیں۔پھر ہم اپنی چیز سے ہاتھ کیوں دھوئیں؟
    جنا ب والا، ہم بڑے مستقل مزاج ہیں۔ جب ہم پر گولی چلتی ہے تو ہمارے بچے مرتے بابا کے سرہانے یہ بین کرتے ہیں کہ بابا اب ہم آٹا نہیں مانگیں گے تم واپس آ جاؤ مگر جلد ہی ہم یہ سب بھول کر پھر آٹا مانگنے لگتے ہیں۔ ماں جب گاڑی تلے سر رکھ کر جان دے دیتی ہے تو بچے ماں کی لاش پر یہ وعد ہ کرتے ہیں کہ ماں اب ہم تم سے نئے کپڑ ے نہیں مانگیں گے تم واپس آجاؤ مگر جلد ہی یہ سب بھول کر ہم پھرنئے کپڑے مانگنے لگتے ہیں۔بھائی جب سخت بخار کی حالت میں بھی مزدوری کرتے ہوئے جان سے چلا جاتا ہے تو بہنیں اس کی چارپائی پکڑ کر یہ عہد کر تی ہیں کہ اب ان کے کان شہنائی کی آس نہیں رکھیں گے، بس تم واپس آ جاؤ مگر جلد ہی ہم پھر شہنائی کی امید کرنے لگتے ہیں۔پردیس جاتے ہوئے باپ سے لپٹ کر بیٹی جب یہ کہتی ہے کہ باباسات سمندر پار سے، گڑیوں کے بازار سے ، اچھی سی گڑیابے شک نہ لانا ، بس تم جلدی آجانا، تو بابا سب بھول کر واپسی کی پھر کوشش کرنے لگتا ہے حالانکہ اسے علم ہوتا ہے کہ پچھلے برس وہ اس کوشش میں کتنا ذلیل ہواتھا۔جناب والا، دیکھا آپ نے ہماری مستقل مزاجی ، اسی مستقل مزاجی سے ہم اب بھی خواب دیکھ رہے ہیں۔ہمارے خواب دریچے بند ہی نہیں ہو پاتے۔ خدا کے لیے یا تو انہیں بند کرنے کا کوئی سامان کریں یا پھر ہمیں خواب دکھاتے رہیں ۔جان ، مال اور آبروکے تحفظ کا خواب ،روٹی ،کپڑے، مکان کا خواب، بیمار کے لیے دوااور علاج کا خواب، پڑھے لکھے ، جدید پاکستان کا خواب،حصول انصاف کا خواب، کرپشن ، رشوت ، چور بازاری ، سینہ زوری کے خاتمے کا خواب، ملک میں ایک ہی تعلیمی نظام ہونے اور تعلیم سب کے لیے عام ہونے کا خواب،فرقہ واریت ، تشد د اور نفرتوں کے خاتمے کا خواب ، سیاست دانوں کے محب وطن ہونے اور جرنیلوں کی ہو س اقتدار ختم ہونے کا خواب، بے گھروں کو گھر ملنے کاخواب،غریب کی بیٹیوں کی شادی کا خواب،سرداروں ، وڈیروں اور جاگیرداروں کے جبر مسلسل کے خاتمے کاخواب ،بے زمین کسانوں کو زمین ملنے کا خواب ، کسانوں کی محنت رنگ لانے کا خواب ،مذہبی طبقے کی نفرتوں کے خاتمے کا خواب، دین کے صحیح تصور کے عام ہونے کاخواب، ، پولیس اور طاقت ور ایجنسیوں کے ظلم کے خاتمے کا خواب، پاکستانی شہریوں کا پاکستانی حکومتوں کے ہاتھوں اغوا نہ ہونے کا خواب، بچھڑ ے ہوؤں کو ملانے کا خواب، جنگ تشد د بم دھماکے ،قتل و غارت کے رک جانے کا خواب، امن کی فاختہ کے اڑنے کا خواب ،وطن میں اور وطن سے باہربے گناہ پاکستانی قیدیوں کی رہائی کا خواب،ہر سطح پر میرٹ کی بالا دستی کا خواب، علم و شرافت کو عزت ملنے کا خواب، معاشرے میں عزت کے پیمانے بدلنے کا خواب،سکون کی نیند سونے کاخواب، پڑھانے والے استاد ،وطن کی خدمت کرنے والے سیاست دان اور خوف خدا رکھنے والے حکمران کا خواب، ڈیموں کے بننے کا ، انڈسٹری کے پھلنے پھولنے کا،اور زراعت کی خوشحالی کا خواب،لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا خواب، بجلی، پانی آٹے کے دستیاب ہونے کا خواب اورپردیسیوں کا وطن لوٹنے کا خواب ۔شاید ،ن م راشد اسی لیے یہ کہا کرتا تھاکہ:
خواب لے لو ،خواب
صبح ہوتے ہی چوک میں جاکر لگاتا ہوں صدا
خواب لے لو، خواب
خواب اصلی ہیں کہ نقلی
خواب لے لو خواب۔۔۔۔
ہاں مگر میری معیشت کا سہارا خواب ہیں
خواب لے لو خواب۔۔۔۔