کریڈٹ کارڈ

مصنف : میاں محمد ابراہیم طاہر

سلسلہ : عبرت کدہ

شمارہ : مئی 2008

            انسانی تاریخ ایسی ہزاروں بلکہ لاکھوں داستانوں سے بھری پڑی ہے جہاں خوشحال ، خوش و خرم او رعیش و طرب کی زندگی گزارنے والوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنی تباہی و بربادی کا بیج بویا اور انتہائی عبرت ناک انجام سے دوچار ہوئے۔

            قارئین کرام! ہم آپ کو موجودہ دور کے ایک مشہور و معروف ، ہر دل عزیز اور ٹیلی ویژن کے پسندیدہ پیش کار صحافی کی زندگی کی ایک جھلک دکھاتے ہیں جوماضی قریب میں بڑے بڑے سیاسی رہنماؤں ، بادشاہوں ، ہر میدان فن کے ہر دلعزیز فنکاروں کے لیے ملکوں ملکوں گھومتا ، ہواؤں میں اڑتا او رلاکھوں پونڈ میں کھیلتا تھا…… اور …… آج کل لندن کے ایک پارک کی چاردیواری کے اندر جسم میں خون منجمد کر دینے والی سردی میں ایک بنچ پر سوتا ہوا پایا جاتا ہے۔ اس کے پاس اس وقت اس کا کل اثاثہ ایک پرانا تھیلا، سوس آرمی کی یادگار ایک چاقو ، ایک ٹارچ ، اپنے کنبے کی چند پرانی تصویریں ، چار عدد انڈر وئیر ، جسم پر پہنے ہوئے کپڑے اور ایک عدد سلیپنگ بیگ ہے جس میں گھس کر وہ سوتا ہے۔

            حال ہی میں بی بی سی میں اس کے ساتھ کام کرنے والے اور صبح کی نشریات کے پیش کار جان ہمفرے نے اس کاانٹرویو کیا ہے جس سے دنیا کو اس کی موجودہ حالت کا پتا چلا ہے۔ آئیے ہم آپ کو ایڈمیچل سے ملاتے ہیں:

            اصل میں ایڈمیچل وہ نہیں ہے جو آج کل لندن کے ایک پارک کی چاردیواری کے اندر ایک بنچ پر سلیپنگ بیگ میں سوتا ہوا پایا جاتا ہے ، جو بے گھر اور بے در ہے ، جس کے پیٹ کی آگ خیرات میں ملنے والے کھانوں پر ہے۔ وہ کوئی پیشہ ور بھکاری نہیں ہے اس کاانگریزی بولنے کا لب و لہجہ انتہائی شستہ ، درست اور صحیح ہے ۔ اس کے دوستوں میں بی بی سی کے مشہور صحافی اور پیش کار جیسے جان ہمفرے ، کیرول بارئس ، آلاس ٹیئرسٹواٹ ، ڈرموٹ مرنا گھان جیسی شخصیات شامل ہیں اور اسے انگلستان کے سابق وزرائے اعظم ٹونی بلیئر ، مارگریٹ تھیچر ، جان میجر اور موجودہ وزیر اعظم گورڈن براؤن سمیت بے شمار اہم شخصیات کے انٹرویو کرنے اور ٹی وی پر پیش کرنے کااعزاز حاصل ہے۔ اس کی اپنی تنخواہ چھ ہندسوں پر مشتمل ہوتی تھی۔

            ایڈمیچل کی تباہی اورزوال کی کہانی نہ صرف اس کی اپنی ذات کے لیے بلکہ ہر شخص کے لیے عبرت آموز ہے جو آج کے دو رکی نہایت پرکشش مگر ایک بڑی لعنت…… کریڈٹ کارڈ سے بے سوچے سمجھے اندھا دھند خرچ کیے جاتے ہیں۔ ایڈمیچل کے کہنے کے مطابق اس پر ا یک ایسا وقت بھی آگیا جب اس کا قرضہ بڑھتے بڑھتے اڑھائی لاکھ پونڈ تک پہنچ گیا۔ آج کل کرسمس کی خوشی کے جوش میں لوگ اندھا دھند ضروری غیر ضروی تحفے تحائف کی خریداری کے لیے کریڈٹ کارڈ استعمال کیے جارہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ عنقریب بہت سے کھاتے پیتے خوشحال لوگوں کا حشر بھی میرے جیسا ہی ہو۔ اس وقت بھی میرے جیسے بہت سے لوگ موجود ہیں۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق میرے علاقے براٹن اور ہود میں 25 بے گھر افراد موجود ہیں لیکن آپ میری بات کا یقین کریں کہ یہ تعداد کہیں زیادہ ہے اور بیشتر میرے جیسے حالات کا شکار ہوئے ہیں۔

            میں کئی ایسے بدنصیب افراد سے مل چکا ہوں جو اپنے وقت کے کامیاب وکیل، تاجر اور دیگر شبہ ہائے زندگی کے کامیاب ترین افراد میں شمار ہوتے تھے لیکن آج کوڑی کوڑی کے محتاج بے گھر اور بے در ہیں۔ میری ایک ایسے شخص سے بھی ملاقات ہو چکی ہے جو کسی وقت کروڑ پتی تھا اور آج ‘ککھ پتی ’ہے۔

            میرے خیال میں آپ اس دور کو سفید پوش بھکاریوں کا دور کہنا پسند کریں گے ۔ میری زندگی کا یہ انتہائی خوف ناک دور ہے۔

            میچل کی عمر 54 سال ہے اور دو بچوں کا باپ ہے۔ وہ کلین شیو اور صاف ستھرا رہتا ہے ( اس کی وجہ اس نے یہ بتائی کہ اس کی ‘‘رہائشگاہ’’ (بنچ) کے قریب اسے ایک پبلک ٹائلٹ کی سہولت میسر ہے جہاں نہانے دھونے کی جگہ موجود ہے) وہ جین کی پینٹ اور چمڑے کی جیکٹ ‘‘اسدا’’ سٹور کے ڈیزائنر شوز جارج مارکہ اور اونی ٹوپی پہن کر پارک کے بنچ پر سلیپنگ بیگ میں سوتا ہے۔ اس کی بدقسمتی کا آغاز سال 2001 میں اس وقت ہوا جب امریکی ٹی وی چینل (CNBC ) نے اسے فالتو قرار دے کر کام سے اچانک فارغ کر دیا۔ اس وقت تک میچل اور اس کا کنبہ نہایت خوشحال زندگی گزار رہے تھے۔ وہ اپنی بیوی جوڈی اور دوبچوں فریڈی والیگزینڈر (جن کی عمریں اب تقریبا بیس سال کے قریب ہیں) کے ساتھ رہتا تھا اور ان کے ہوو کے علاقے میں واقع گھر کی مالیت پانچ لاکھ پونڈ تھی۔

            میچل کہتا ہے…… ہماری زندگی بڑے مزے اور بے فکری میں گزر رہی تھی ۔ سال میں دو دفعہ سیر و تفریح کی تعطیلات ، ڈنر پارٹیاں اور ہلہ گلہ زندگی کے معمولات میں شامل تھے۔ میں نے تقریباً پوری دنیا کا سفر کیا ہے۔ میرے بچے بڑے مہذب اور بااخلاق ہیں یقینا زندگی میں مجھ سے کوئی اچھا اور نیک عمل بھی ہوا ہوگا۔

            میچل اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ اس کی بربادی میں اس شراب نوشی کا بھی عمل دخل ہے لیکن بنیادی وجہ کریڈٹ کارڈ پر آسانی سے قرضہ حاصل کرتے رہنے کی سہولت تھی۔ نوکری سے جواب ملنے کے بعد اس کا تمام تر انحصار کریڈٹ کارڈ پر ہی تھا جس کی وجہ سے اس کی ہر چیز قرضے میں ڈوب گئی۔

            یہ چیز بہت آسان ہے کہ آپ کریڈٹ کارڈوں کی وجہ سے اپنی چادر سے باہر پاؤں پھیلاتے چلے جائیں او ریہ اندازہ ہی نہ کر پائیں کہ آپ کس قدر ڈوبتے چلے جا رہے ہیں ۔ آپ کا اپنے مالی معاملات پر کوئی کنٹرول نہیں رہتا۔ اگر میں نشے سے پرہیز کرتا تو حالات مختلف ہو سکتے تھے۔

            جب آپ ایک ادارے یا بینک کا قرضہ اتارنے کے لیے کسی دوسرے ادارے یا بینک کا کریڈٹ کارڈ استعمال کرنا شروع کر دیں اور اسی طرح پھر تیسرا چوتھا بلکہ بے شمار کارڈ حاصل کرتے اور پرانے قرضے اتارنے کے لیے استعمال کرتے چلے جائیں تو اس کے نتیجے میں قرضے پر قرضہ چڑھتا چلا جاتا ہے۔ میرے اوپر ایک ایسا وقت آگیا کہ میرے پاس 25 کریڈٹ کارڈ تھے۔ میرے ماضی کے حالات اور آمدنی کو مدنظر رکھتے ہوئے مجھے نئے کریڈٹ کارڈ حاصل کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آرہی تھی اور میں ایک کارڈ کا قرضہ دوسرے کارڈ سے ادا کرنے کا عادی ہو چکا تھا۔ جب بینک میں میری تنخواہ کا چیک جانا بند ہو گیا تو تمام قرض خواہوں نے ایک دم میرے گھر پر یلغار کر دی ۔ سولہ ہزار پونڈ کا قرضہ ایک کارڈ پر تھا۔ ہالیفیکس اور برکلے بینکوں کے کارڈوں پر تیس ہزار پونڈ واجب الادا تھے۔ ایک کمپنی نے مجھے نوٹس بھیجا کہ میں ان کے قرضے میں سے صرف دو ہزار پونڈ ادا کر دوں۔ لیکن میرے پاس تو پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی دوہزار کہاں سے ادا کرتا۔ مالی پریشانیوں کے نتیجے میں گھر میں تناؤ اور بیوی سے لڑائی جھگڑا رہنے لگا ۔ بھلا یہ کیسے نہ ہوتا۔ میچل نے کہا آخر دو سال قبل اس کی 25 سالہ شادی شدہ ازدواجی زندگی طلاق پر ختم ہو گئی ، یہ تو ہونا ہی تھا۔ میچل نے کہاہم نے کسی وکیل کی خدمات حاصل کرنے کی بجائے ایک ثالث بیچ میں ڈالا تھا۔ ہماری شادی مالی پریشانیوں کا بوجھ برداشت نہ کر سکی۔ جب ہماری علیحدگی ہوئی تو تمام قرضے میرے ہی نام پر تھے اور میں دلی طور پر چاہتا تھا کہ میری سابقہ بیوی مطمئن اور مامون و محفوظ رہے۔

             نتیجتاً انہیں اپنا مکان فروخت کرنا پڑا ۔اس کی بیوی نے اپنے بیٹے کے ساتھ ایک فلیٹ میں رہائش اختیار کر لی (اس کی بیٹی انگریزوں کی روایت کے مطابق پہلے ہی گھر چھوڑ کر جا چکی تھی ) اورایڈ کو اپنی پہلی رات قریبی پارک کے بینچ پر سو کر گزار نی پڑ ی ۔یہ ایک نہایت خوفناک تجربہ تھا ۔ایک وہ دن تھا کہ میرا اپنا گھر تھا ،نرم و گرم صاف ستھری چادروں سے آراستہ بستر تھا ۔غرضیکہ دنیا کی ہر آسائش موجود تھی اور اگلے لمحے میں بالکل کنگلا ،تنہا گٹر میں اوندھا پڑا تھا ۔میچل نے فضاؤں میں گھورتے ہوئے کہا : ایک سال تو ایڈ میچل نے مختلف دوستوں کے گھروں میں ان کے صوفوں پر سوتے ہوئے گزارا لیکن وہ دوستوں پر ہمیشہ کے لیے بوجھ نہیں بننا چاہتا تھا گزشتہ نو ماہ سے وہ انتہائی تلخ زندگی گزار رہا ہے تاہم بینک رپٹ (کنگلا) قرار دئیے جانے کی وجہ سے اب وہ بینکوں اور سو سائیٹیوں کے قرضوں کی ادائیگی سے بے نیاز ہے ۔اس کا کہنا ہے اس طرح کی بے کیف زندگی میں سونا انتہائی تکلیف دہ اور ذہنی اذیت کا باعث ہے ۔میں تو کبھی بھی سخت جان آدمی نہیں تھا ۔میرے برائٹن کے علاقے شاید کوئی آدمی بھوک سے نہ مرے لیکن سردی سے ٹھٹھر کر ضرور مر سکتا ہے رات کو اتنی شدید سردی پڑتی ہے جو نا قابل برداشت ہے لیکن اپنے آپ کو ا سکا عادی بنانا پڑتا ہے ۔

            یقینااس کا نیا ‘‘گھر ’’ پارک کا بینچ ہے جو اس کے پہلے گھر سے چند قدم کے ِِِفاصلے پر واقع ہے ۔آج رات کو ،ہر رات کی طرح وہ آٹھ بجے ایان رینکن کی کتاب کے ساتھ اپنے سلیپنگ بیگ میں گھس جائے گا ساڑھے آٹھ بجے رضاکار اسے سینڈوچ اور کافی کا ایک کپ دے جائیں گے کھانے کے بعد وہ سونے کی کوشش کرے گا ۔ میں بمشکل تین گھنٹے سوتا ہوں ’’اس نے بتایا ۔

            اس کے دن کا بڑا حصہ کام کی تلاش یا لائبریری کے چکر لگانے میں گزرتا ہے ۔میں نے ہر طرح کی نوکری کے لیے درخواستیں دی ہیں حتیٰ کہ سڑکوں کی صفائی کیلئے بھنگی کاکام کرنے کی بھی پیشکش کی ہے لیکن لوگ جب میرے سر ٹیفکیٹ ڈگریاں اور ڈپلومے اور سابقہ تجربہ کی دستاویزات دیکھتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں ہیں کہ میں کوئی ‘‘انڈر کور ’’ ہوں جو ان کی کرپشن کی ٹوہ لگانے اور طشت ازبام کرنے کیلئے ان کے پاس نوکری کرنا چاہتا ہوں لہذا وہ کام دینے سے معذرت کر لیتے ہیں حالانکہ مجھے صرف اپنی روٹی کیلئے نوکری چاہیے۔

            میچل نے مزید کہا :ہوسکتا ہے کسی وقت بینچ پر سویا ہوامیں لاغرو ناتواں اور ٹھٹھر ا ہوا دکھائی دوں لیکن میرے لئے یہ ایک امتحان ہے ۔اگر میری کہانی سے کریڈٹ کارڈ کی وجہ سے قرضوں کے گرداب میں ڈوبنے والوں میں سے کوئی عبرت حاصل کر کے اس شکنجے سے نکل آئے تو میرے لئے یہ بھی اطمینان کی بات ہوگئی ۔

            کریڈٹ کارڈکے قرضے بے شمار لوگوں کو خود کشی کے کنارے تک پہنچادیتے ہیں اگر میری کہانی ان کیلئے ایک انتباہ اور آنکھیں کھولنے کے باعث بن جائے تو یہ بڑی اچھی بات ہوگی ۔میچل کا اپنی سابقہ بیوی سے کوئی رابطہ نہیں ہے لیکن اس کا کہنا ہے کہ وہ بچوں سے مہینے میں ایک دفعہ ضرور ملتا ہے اور اکھٹے ڈنر کرتے ہیں ۔اس کا بیٹا ویب ڈیزائنر اور بیٹی ایک پبلک سکول کے نواح میں فارم چلاتی ہے ۔دونوں میں سے کوئی بھی اسے رکھنے کو تیار نہیں۔(یہ صرف اسلامی تہذیب ہے جہاں بچے ماں باپ کو قیمتی سرمایہ سمجھ کر گھرکی زینت بناتے ہیں) شروع شروع میں تو اس نے اپنے بچوں کو اپنے بے گھر ہونے کے بارے میں بتایا ہی نہیں تھا ۔اس کے کہنے کے مطابق وہ اپنی حالت کو اشتہار بناکر اپنے بچوں کا سکون برباد کرنا نہیں چاہتا تھا ۔لیکن اب وہ سب کچھ جانتے ہیں اورصرف میری دلجوئی کرتے ہیں ۔وہ اپنے ڈیڈ سے بہت پیار کرتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ ہمارے والد بہت اچھے ہیں اور ایک نہ ایک دن اس مشکل صورت حال سے نکلنے میں کامیاب ہوجائیں گے ۔گزشتہ دنوں ۱۹۸۰ ء سے میچل کے ساتھ کام کرنے والے ایک صحافی ساتھی جان ہمفرے نے بی بی سی کے پروگرام بی بی سی ٹو ڈے کے لئے اس کا انٹر ویو کیا ۔میچل نے ہنستے ہوئے جان کو بتایا ......... مجھے یاد ہے جان نے مجھے ایک بہت اچھا مشورہ دیا تھا کہ کبھی بھی ٹیلی ویژن کا پیش کار پریزنٹر (Presenter) نہ بننا ۔سو اب جب کبھی میں اس سے بات کرتا ہوں تو وہ یاتو میری حالت پر خوب ہنستا ہے یا میرے خوب لتے لیتا ہے (کہ کیوں اس کی نصیحت پر عمل نہیں کیا ) لیکن میں اپنی موجودہ حالت سے خوفزدہ نہیں ہوں کیونکہ کوئی انسان بھی ایسے حالات کا شکار ہو سکتا ہے ۔

            میچل کا ایک اور پرانا ساتھی اور شریک کارڈ رموٹ مونا گھن ہے یہ دونوں اکٹھے بی بی سی کا صبح کا پرو گرام پیش کیا کرتے تھے ۔ڈرموٹ نے ایک دفعہ میرے بارے میں یہ کہا تھا کہ براڈ کاسٹنگ کے بارے میں میرا جو کچھ علم اور تجربہ ہے سب ایڈ میچل کا سکھایا ہو اہے اور میں اس کی اس بات کی تردید نہیں کرتا ۔میں جب کبھی اسے ٹی وی پرو گرام پیش کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو کبھی کبھی دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کاش اس کی جگہ میں پرو گرام کر رہا ہوتا لیکن ہر صبح اسے دیکھ کر رشک کرتا ہوں۔میری کتاب زندگی کا یہ ایک دوسرا باب ہے اور نیا چیلنج ہے ۔فی الوقت تو زندہ رہنے کا چیلنج درپیش ہے نہ کہ آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کا ۔ہر صبح زندہ سلامت جی اٹھنے کا چیلنج ہے اب تک کا عام تاثر یہ رہا ہے کہ بے گھر افراد پیشہ ور بھکاری کام چو ر اور ہڈ حرام لوگ ہیں لیکن اب تاثر درست نہیں رہا ۔۲۱ ویں صدی میں بے گھر افراد کی اکثریت میرے جیسے سفید پوش لوگوں پر مشتمل ہوگی کیونکہ بینک اور قرض دینے والے دوسرے ادارے جس طرح آسان شرائط پر لوگوں کو کریڈٹ کارڈوں کے جال میں پھانسنے کی مہم چلا رہے ہیں ۔اس سے یقینا میرے جیسے لوگوں کی تعدا د میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ میں لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں کو اس جال میں پھنسنے سے پہلے انتباہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ میرے حشر کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کریں ۔آپ سوچتے ہوں گے کہ اونچائی پر اڑنے والا ایک شخص اچانک پارک کے ننگے اور ٹھنڈے بنچ پر کیسے آن گر ا؟لیکن آپ یقین کریں کہ کریڈ ٹ کارڈ سے تعلق رکھنے کے بعد یہ بینچ آپ میں سے کسی کا بھی مقدر بن سکتا ہے۔............!

(بشکریہ نوائے وقت میگزین ۲۷جنوری ۲۰۰۸)