صلی علی محمد صلی علی محمد

مصنف : اکبر الہ آبادی

سلسلہ : نعت

شمارہ : مئی 2008

 

ذکر رسولِ پاکؐ ہے فخر زبان انس و جن
روح کو اس سے ہے سرور قلب ہے اس سے مطمئن
ولولہ دلِ جواں ، قوت خاطر مسن
سنیے اگر بہ گوشِ ہوش وردِ َملک ہے رات دن
صلی علی محمد ،صلی علی محمد 
 
خضرِ رکوع ہے یہی ، شوقِ سجود اسی سے ہے
حالتِ فوق و وجد کا دل میں ورود ، اسی سے ہے
دین خدائے پاک کی شان و نمود اسی سے ہے 
منبع خیر ہے یہی ہمتِ جود اسی سے ہے
صلی علی محمد ،صلی علی محمد 
 
شافعِ عاصیاں ہیں وہ تائبوں کے کفیل ہیں 
فیض رسانِ خلق ہیں حامی بے عدیل ہیں
شکل میں وہ جمیل ہیں شان میں وہ خلیل ہیں
منظرِ نورِ حق ہیں وہ مہبطِ جبرئیل ہیں
صلی علی محمد ،صلی علی محمد 
 
حالت ملک و قوم پر ہوں شب و روز بے قرار
دین سے دل کو پھیر دیں ایسے سبب ہیں بے شمار
مرکز طبع کیا بنے جس سے ہو کم یہ انتشار
آئی صدا فلک سے یہ پڑھ تو ، اسی کو بار بار
صلی علی محمد ،صلی علی محمد 
 
ہے یہ وہ نام خاک کو پاک کرے نکھار کر 
ہے یہ وہ نام خار کو پھول کرے سنوار کر
ہے یہ وہ نام ارض کو کر دے سما ابھار کر
اکبر اسی کا ورد تو صدق سے بے شمار کر 
صلی علی محمد صلی علی محمد 
 
 اکبر الہ آبادی 
سید اکبر حسین اکبر الہ آبادی اکتوبر ۱۸۴۵ء میں بمقام بارہ ، الہ آباد (بھارت) میں ایک معزز سادات خاندان میں پیدا ہوئے۔اکبر کے والد سید تفضل حسین عالم فاضل اور صوفی منش انسان تھے ۔ ان کی والدہ بھی دین دار ، پارسا اور صالح خاتون تھیں لہذا دین سے شغف اور مذہب سے محبت اکبر کو ورثے میں ملی ۔ سید تفضل حسین زمانے کی تبدیلیوں پر گہری نظر رکھتے تھے ۔ انہوں نے اپنے ذہین و فطین بیٹے اکبر حسین کو انگریزی تعلیم کے لیے مشن سکول میں داخل کروایا تھالیکن دو سال بعد ہی ۱۸۵۷ء کا ہنگامہ دارو گیر ہوا اور یہ تعلیمی سلسلہ تو منقطع ہو گیا مگر اکبر کے لیے تحصیل علم کی ایک نئی کھڑکی کھول گیا۔ انہوں نے مشرقی علوم کی تحصیل کے ساتھ انگریزی زبان و ادب کا مطالعہ جاری رکھا اور اس میں اچھی دست گاہ بہم پہنچائی ۔ چود ہ سال کی عمر میں( ۱۸۵۹) میں نقل نویس کی معمولی اسامی سے عملی زندگی کا آغاز کرنے والے اکبر اپنی محنت اور خداداد ذہانت کی بدولت ترقی کر تے کرتے ڈسٹر کٹ اینڈ سیشن جج کے عہد ے سے ۱۹۰۳ میں ملازمت سے ریٹائر ہوئے۔اکبر نے بارہ سال کی عمر سے ہی شعر گوئی کا آغاز کر دیا تھا۔ ابتدا میں روایتی انداز میں غزلیں کہتے رہے لیکن بعدازاں انہوں نے طنز و ظرافت کو اپنا میدان ٹھہرایا۔ سرسید کی مغربیت پر طنز کے تیر چلائے اور مشرقی تہذیبی اقدار کی حمایت اور مدافعت میں زور قلم صرف کیا مداحوں نے انہیں لسان العصر کا خطاب دیا ۔ انہوں نے ناصحانہ ، مصلحانہ اورظریفانہ انداز میں سمجھایا کہ مغربی تہذیب کی اندھا دھند تقلید ہمارے لیے سخت مضر ہے ۔ ۲۱ ستمبر ۱۹۲۱ء کو اکبر نے اس جہان فانی سے عالم جاودانی کی طرف رحلت کی ۔ کلام ‘ کلیات اکبر ’ کے نام سے دستیاب ہے۔
( انتخاب نعت اور تعارف از پروفیسر خضر حیات ناگپور)