ایمان والے

مصنف : حبیب اشرف صبوحی

سلسلہ : چھوٹے نام بڑے لوگ

شمارہ : اپریل 2008

            میری والدہ صاحبہ ایک بڑی عبادت گزار اور اللہ پر توکل کرنے والی ،بڑی سلیقہ شعار اور باہمت خاتون تھیں ۔والد صاحب کی تنخواہ بہت کم تھی ،لیکن والدہ صاحبہ نے اس مختصر تنخواہ میں بھی ہم سب بہن بھائیوں کی تعلیم و تربیت کی اور کبھی اللہ کی ناشکری نہیں کی ۔میں اپنی والدہ صاحبہ کے چند واقعات لکھ رہاہوں ،جن سے ان کی عظیم شخصیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔میرے والد صاحب ڈاک خانے میں ملازم تھے ،بڑی قلیل تنخواہ تھی ۔ بس کسی نہ کسی طریقے سے گزر بسر ہو رہی تھی ۔والدہ صاحبہ اکثر والد صاحب سے کہتی تھیں کہ اگر کسی مہینے گھر کے اخراجات سے کچھ پیسے بچ جائیں تو گھر کا فلاں فلاں کام ہو جائے ،لیکن اخراجات ہر مہینے کسی نہ کسی وجہ سے بڑھ جاتے تھے ۔

            ایک روز والد صاحب شام کو دفتر سے گھر واپس آئے تو والدہ صاحبہ کو بڑی خاموشی سے ایک بڑی رقم دی اور کہا :‘‘یہ رقم اپنے استعمال میں لاؤ اور جتنے بھی کام رکے ہوئے ہیں ،کر لو ۔یہ سب رقم تمھاری ہے ۔ماضی کے جتنے بھی گلے شکوے ہیں اور خواہشات ہیں ،اس سے پوری کراؤ ۔’’والدہ صاحبہ نے خوشی سے پوچھا :‘‘اتنی بڑی رقم کہاں سے آئی ہے ؟’’والد صاحب نے بتایا :‘‘آج ایک صاحب آئے تھے ۔کافی دیر میرے پا س بیٹھے رہے ۔جب جانے لگے تو یہ رقم میرے پاس بھولے سے چھوڑ گئے ۔میں نے یہ رقم چھپائی ۔کچھ دیر بعد وہ صاحب گھبرائے ہوئے میرے پاس آئے اور کہا :‘‘میں اپنا ایک تھیلا جس میں کچھ رقم تھی ،یہا ں تو نہیں بھول گیا ؟’’میں نے کہا :‘‘نہیں ،آپ کہیں اور بھول آئے ہوں گے ۔تو وہ صاحب چلے گئے ۔’’والدہ صاحبہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ یہ رقم اس طریقے سے آئی ہے تو ایک دم ان کا رنگ غم اور پریشانی کی وجہ سے سفید ہوگیا ۔وہ والد صاحب سے کہنے لگیں : ‘‘آپ نے اتنی بڑی بے ایمانی کیسے کی ؟ یہ بات آپ کوزیب نہیں دیتی ۔میں یہ رقم نہیں لوں گی اس رقم کو واپس کر کے آئیں ۔’’والد صاحب نے کہا :‘‘اس عمل کا گناہ اور ثواب سب میرے ذمے ہے ۔بس تم اس رقم کو استعمال کرو ۔’’والدہ صاحبہ نے بڑی سختی سے انکار کیا اور کہا:‘‘میں یہ رقم استعمال نہیں کروں گی ۔میرا ضمیر گوارا نہیں کرتا ۔’’

            جب والد صاحب نے دیکھا کہ وہ بہت زیادہ پریشان ہوگئی ہیں ،تو کہا :‘‘میں مذاق کررہا تھا اور تمھیں آزمانا چاہتا تھا ۔دراصل آج ڈاک خانے کی گا ڑی نقد رقم لینے نہیں آئی ۔اس وجہ سے میں یہ رقم گھر لے آیا کہ کہیں ڈاک خانے سے یہ رقم چوری نہ ہوجائے ۔یہ سر کاری امانت ہے ۔صبح واپس لے جاؤں گا ۔’’والدہ صاحبہ نے جب یہ سنا تو سکھ کا سانس لیا اور رقم حفاظت سے رکھ لی ۔

            دوسرا واقعہ یہ ہے کہ ایک بار والدہ صاحبہ ایک شادی میں شرکت کے لیے لاہور سے کراچی گئیں ۔اپنے کپڑے ،شادی میں دینے کے لیے زیور اور پیسے ایک اٹیچی کیس میں رکھ لیے جب کراچی کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچیں تو دیکھا کہ اٹیچی کیس غائب ہے ۔وہ بڑی پریشان ہوئیں معلوم یہ ہوا کہ جب صبح اذان کے وقت ٹرین حیدرآباد پہنچی تو ایک فیملی جو لاہور سے بیٹھی تھی ،جلدی میں اپنے سامان کے ساتھ والدہ صاحبہ کا ٹیچی کیس بھی لے گئی ۔والدہ صاحبہ کہنے لگیں :‘‘مجھے اللہ پر بھروسہ ہے کہ میرا سامان ان شاءاللہ مل جائے گا ۔’’

            میرا بھانجا جو اسٹیشن پر والدہ صاحبہ کو لینے آیا ہوا تھا ،اس نے کہا :‘‘میں حیدرآباد جاتا ہوں ۔آپ مجھے اٹیچی کیس کی چابی دے دیں میں ان شاءاللہ آپ کا سامان واپس لے کر آتا ہوں ۔’’میری والدہ نے کہا کہ اس فیملی نے یہ بتایا تھا کہ اگلے روز ان کے بھائی کی شادی ہے ۔ان کابھائی ڈاکٹر ہے ۔او ر لطیف آباد میں ان کی رہائش ہے ۔میرا بھانجا حیدر آباد دوسرے روز پہنچا اور اپنے ایک دوست کے گھر گیا اور اس سے کہا کہ ایک فیملی ہماری نانی کا اٹیچی کیس لے آئی ہے ،میں وہ واپس لینے آیا ہوں ۔تم میری مدد کرو ۔دوست نے کہا :‘‘ہم صبح لطیف آباد میں تمام ڈیکوریشن والوں کے پاس جاتے ہیں اور ان سے پوچھتے ہیں کہ آپ نے کسی ڈاکٹر صاحب کے گھر دعوتی سامان پہنچایا ہے ۔’’چنانچہ صبح کو وہ دونوں اپنے مشن پر نکلے اور تمام ڈیکوریشن والوں سے معلوم کیا ، لیکن کچھ معلوم نہ ہو سکا ۔دوسرے روز وہ لطیف آباد میں تمام نکاح خوانوں سے ملے اور پوچھا کہ آپ نے کسی ڈاکٹر صاحب کا نکاح پڑھایا ہے ۔آخرایک نکاح خواں نے بتایا کہ میں نے فلاں پتے پر ایک نکاح پڑھایا ہے اور لڑکا ڈاکٹر ہے ۔یہ لوگ نکاح خواں سے ڈاکٹر کا پتہ لے کر اس کے گھر گئے اور پوچھا کہ کیا آپ کے رشتے دار لاہور سے فلاں ٹرین سے فلاں وقت پر آئے ہیں ؟ڈاکٹر نے بتایا :‘‘ہاں آئے ہیں ۔’’میرے بھانجے نے کہا کہ وہ غلطی سے اپنے سامان کے ساتھ میری نانی کا اٹیچی کیس بھی لے آئے ہیں ۔ڈاکٹر صاحب نے چونک کر کہا ‘‘لائے تو ہیں ۔آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ وہ اٹیچی کیس آپ ہی کا ہے ؟’’میرے بھانجے نے اٹیچی کیس کی چابی ان صاحب کو دی اور کہا :‘‘اسے لگا کر دیکھ لیں ۔اگر یہ چابی اٹیچی کیس میں لگ جاتی ہے تو وہ ہمارا ہے اور اس میں فلاں فلاں سامان بھی ہے ۔ڈاکٹر صاحب نے اٹیچی کیس میں جب چابی لگائی تو وہ لگ گئی ،اس لیے انہوں نے اٹیچی کیس میرے بھانجے کو دے دیا ۔اس طرح وہ اٹیچی کیس باحفاظت والدہ صاحبہ تک پہنچ گیا ،یہ ان کا اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ،نیک نیتی اور حق حلال کی کمائی کا نتیجہ تھا کہ سامان بخیریت مل گیا ۔

            ایک اور واقعہ بھی ہے ، جس سے میں بہت متاثر ہوا ۔وہ یہ ہے کہ ایک عزیز کی شادی کے سلسلے میں والدہ صاحبہ کو لے کر ایک فائیوسٹار ہوٹل میں جانے کا اتفاق ہو ا ۔وہاں ہمارے ایک ملنے والے آئے ۔انہوں نے والدہ کو ایک بڑی رقم دی اور کہا کہ یہ امانت ہے او ر جب مجھے ضرورت ہوگی ،میں لے لوں گا ۔جب تقریب ختم ہوگئی اور ہم واپسی کے لیے کارپارکنگ میں آئے تو والدہ صاحبہ گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے اوڑھنے کے لیے برقع درست کرنے لگیں اور اپنا پرس جس میں کافی رقم تھی ،ایک اسکوٹر کی سیٹ پر رکھ دیا برقع ٹھیک کرنے کے بعد انہیں پرس اٹھانا یاد نہ رہا اور وہ گاڑی میں بیٹھ گئیں ۔جب آدھا راستہ طے ہوگیا تومیں نے ایک جگہ پٹرول بھروانے کے لیے گاڑی روکی ۔پٹرول ڈلوایا تو میں نے والدہ سے کہا کہ آپ اپنے پرس سے کچھ پیسے دے دیں اس پر انہیں یاد آیا کہ وہ اپنا پرس تو وہیں بھول آئی ہیں ،جہاں انہوں نے برقع درست کیا تھا ۔میں نے پریشانی سے کہا : اس میں تو کافی رقم تھی ،اب وہ پرس کہاں ملے گا ۔وہ کہنے لگیں :مجھے اللہ کی ذات سے امید ہے کہ وہ پرس کہیں نہیں جائے گا جب ہم آدھے گھنٹے بعد وہاں پہنچے تو دیکھا کہ پرس اسی جگہ اسکوٹر کی سیٹ پر رکھا ہو اتھا اور رقم بھی پوری تھی ،حالانکہ اس دوران میں بے شمار لوگ کار پار کنگ میں آئے ہوں گے ،لیکن کسی کی پرس پر نظر نہیں پڑی ۔اسے اللہ تعالیٰ کی خاص مہر بانی سمجھ لیں ۔

            ایک اور کردا ر جس نے مجھے بہت متاثر کیا ،وہ میرے دفتر میں کام کرنے والے چاچا عزیز تھے ۔وہ گزشتہ چھ سات سال سے میرے آفس میں ایک چوکیدار کی حیثیت سے کام کررہے تھے ۔ان کے ساتھ چار چوکیدار اور بھی تھے ۔یہ چوکیدار مجھ سے سفارشیں کراتے اور مجھ سے پوچھتے کہ صاحب !ہماری نوکری کب پکی ہوگی اور ہمارا مستقبل کیسے روشن ہوگا ۔لیکن چاچا عزیز نے نہ تو کبھی مجھ سے یہ بات پوچھی اور نہ کبھی سفارش کرائی ۔میں نے ایک دن چاچا عزیز سے پوچھا :آپ نے مجھ سے کبھی نوکری کے بارے میں نہیں پوچھا اور نہ اپنے پکے ہونے کی سفارش کرائی ۔اس سوال پر انہوں نے جو جواب دیا ،وہ میں کبھی بھی نہیں بھولوں گا ۔انہوں نے کہا:صاحب !اللہ تعالیٰ جہاں رحیم و کریم ہے ،وہاں رزاق بھی ہے ۔رزق دینے کا کام اس نے اپنے ذمے لے رکھا ہے ،ہم کون ہوتے ہیں کہ اس کے کام میں دخل دیں ۔اگر اس نے رزق میں کمی کرنی ہوگی تو کر دے گا اور اگر بڑھانا ہوگا تو بڑھا دے گا ۔میری عمر پچاس سال ہوگئی ہے آج تک میں بھوکا نہیں سویا ۔میری ساری ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں ۔مجھے کس بات کی فکر ۔’’

            چاچا عزیز کا یہ جواب سن کر میں اتنا متاثر ہو ا کہ بتا نہیں سکتا ۔ایک غریب اور ان پڑھ شخص کا اللہ تعالیٰ پر اتنا بھروسہ اور ایمان ۔اتنی زیادہ تنخواہ اور سہولتیں میسر ہونے کے باوجود ہم پریشان اور تنگ دست رہتے ہیں اور آمدنی میں اضافے کی خواہش رہتی ہے ۔کتنے عظیم ہیں وہ لوگ جو قناعت پسند ہیں اور اللہ تعالیٰ پر توکل رکھتے ہیں ۔