سید مودودیؒ

مصنف : آباد شاہ پوری

سلسلہ : مشاہیر اسلام

شمارہ : جنوری 2008

            ستمبر کی تاریخ اور منگل کا دن۔ میں ابھی ابھی بلدیاتی انتخابات میں ووٹ ڈال کر آیا ہوں اور فیروز پور روڈ کی اس مشہور گلی کی نکر پر کھڑا ہوں جس میں ۵ ذیلدار پارک کی شہرہ آفاق عمارت ہے۔ وہ عمارت جو چودھویں صدی ہجری کے آخری نصف میں دنیا بھر کی سب سے بڑی اسلامی تحریک کا دعوتی مرکز بنی رہی ہے اور جس کی کرنیں یہاں سے نکل نکل کر مشرق و مغرب ہر جگہ پھیلتی چلی گئی ہیں۔ میرے ارد گرد چاروں طرف دور دور تک انسانوں کا وسیع سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے جس میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ آج سیدی و مرشدی مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ تشریف لا رہے ہیں۔ انسانوں کے اس بے کراں سمندر کی موجیں انھیں کی پذیرائی کو امڈتی چلی آتی ہیں۔ میں ان کے استقبال کے لیے ائیر پورٹ جانا چاہتا تھا، لیکن سیدؒ نے ہمیں دینی و ملی فرائض کو ہر دوسری شے پر ترجیح دینے کی تعلیم دی ہے۔ چنانچہ پولنگ اسٹیشن پر طوفان بدتمیزی نے کئی گھنٹے ضائع کر دیے اورجب میں ووٹ ڈال کر گھر کی طرف روانہ ہوا تو ائیر پورٹ جانے کا وقت ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ وقت ہے بھی بڑا گریز پا۔ ہوا کی طرح اڑتا چلا جاتا ہے اور ایک بار ہاتھ سے نکل جائے تو کبھی واپس نہیں آتا۔ ایک لمحے کی تاخیر انسان کو صدیوں پیچھے چھوڑ دیتی ہے۔ ذرا سی غفلت اور تاخیر اسے بڑی بڑی سعادتوں سے محروم کر ڈالتی ہے۔ ایسی ہی تاخیر نے مجھے ایک عظیم سعادت سے محروم کر دیا ہے۔ ائیر پورٹ جانے کے بجائے میں ان کی گلی کے موڑ پر کھڑا ہوگیا ہوں۔ ایک نظر سڑک کے دونوں جانب حد نگاہ تک کھڑے ہجوم پر ڈالتا ہوں جو اب لمبی قطاروں میں ڈھلتا جارہا ہے اور پھر میری نگاہیں گردو پیش کی بلند وبالا عمارتوں پر کمند ڈال دیتی ہیں۔ بالکونیاں اور چھتیں خلق خدا سے پٹی ہوئی ہیں۔ ان میں مرد بھی ہیں اور خواتین بھی۔ ہر شخص سراپا انتظار ہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوان بازو پر سبز پٹیاں باندھے مجمع کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ میں ایک نوجوان سے پوچھتا ہوں‘‘کیامولانا کا طیارہ آچکا ہے؟’’ ‘‘جی ہاں۔’’ نوجوان جواب میں کہتا ہے، اس کی آواز غم میں رندھی ہوئی ہے۔ ‘‘مولانا ائیر پورٹ سے روانہ ہوچکے ہیں۔’’ آخری الفاظ جیسے اس کے حلق ہی میں دم توڑ دیتے ہیں۔ اس کی پلکوں پر آنسوؤں کے ستارے جگمگانے لگتے ہیں اور وہ اپنا رخ حزیں پھیر کر مجمع کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔

            صبر کا بند توڑ کر میری سسکیاں نکل جاتی ہیں۔ میرا ذہن پکار اٹھتا ہے۔ ‘‘مرشدی، آج آپ کیسی سج دھج کے ساتھ تشریف لا رہے ہیں، دیکھیے کہاں کہاں کے اور کس قدر لوگ آپ کی آمد پر نگاہ ودل فراش راہ کیے کھڑے ہیں، نگاہیں جو آنسوؤں کی رم جھم میں نہائی ہوئی ہیں اور دل جو زخمی ہیں۔’’ اور سسکیاں گریہ میں بدل جاتی ہیں۔ میری پشت پر سے بھی سسکیاں بلند ہوتی ہیں۔ کسی نے اپنا ہاتھ میرے کندھے پر رکھ دیا ہے۔ میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں۔ آنکھوں کے جھرنوں سے جھانکتی ہوئی نگاہوں کے آگے دھندلاہٹ چھائی ہوئی ہے۔ اس دھندلاہٹ میں رفتہ رفتہ اس شخص کا غم میں ستا چہرہ نظر آنے لگتا ہے۔ وہ میری ہی عمر کا آدمی ہے، چھپن ستاون برس کا۔ نکلتا ہوا قد، گورا رنگ جس میں بڑھاپے کی ملاحت گندھ سی گئی ہے، چھوٹی سفیدداڑھی۔ نگاہوں میں اجنبیت نہیں، رفاقت کی اپنائیت ہے۔ میں پھر اپنے سامنے نظر ڈالتا ہوں۔ پولیس کے سپاہی ہجوم کو جو سڑک پر بہت آگے بڑھ آیا ہے، پیچھے ہٹا رہے ہیں اور پھر جیسے میں اپنے آپ میں ڈوب جاتا ہوں۔ گزرے ہوئے ماہ و سال ایک ایک کر کے میرے ذہن میں ابھرنے لگتے ہیں۔ ۲۳ برس کا تھا جب میں نے مرشد کا دامن تھاما تھا۔ ۳۳ برس کے بوجھل لمحات مجھے کچلے دے رہے ہیں۔ میرے بال سفید ہوچکے ہیں۔ اعصاب کمزور پڑگئے ہیں اور قوتوں میں دم خم نہیں رہا... یہ تو کبھی تصور ہی نہیں کیا تھا کہ ہم اپنی زندگی میں مرشدؒ کا یوں استقبال کرنے بھی نکلیں گے۔ میں اپنے آپ سے ہم کلام ہوں۔

            ‘‘میں قصور سے آیا ہوں۔ میں نے ۵۱ء میں اس مردِ حق کی آواز پر لبیک کہی تھی۔’’ وہی رفیق کہتے ہیں اور سسکیاں بھرنے لگتے ہیں ‘‘عجب استقبال ہے یہ....’’ میں گریاں دل و دماغ کے ساتھ سوچ رہا ہوں۔ طورخم سے کراچی اور بلوچستان کے آخری سرے تک سے لوگ اس مرد حق کا استقبال کرنے آئے ہیں۔ اچھرہ موڑ سے ائیر پورٹ تک پھیلا ہوا ہجوم، بے قرار و مضطرب ہجوم، ان کی راہ تک رہا ہے۔ اس مرد خدا کا استقبال پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔ ائیر پورٹ سے ۵ ۔اے ذیلدار پارک تک کے فرش اپنے عقیدت مندوں کے جھرمٹ میں کئی بار آئے ہیں، لیکن آج کا استقبال بالکل ہی نرالا ہے۔ ایک دنیا دیوانہ وار ٹوٹ پڑی ہے۔ مغموم و محزون ہر آنکھ اشک بار ہے، ہر دل رو رہا ہے۔ قلب و روح کے زخموں سے اٹھنے والی ٹیسیں، چیخیں بن کر فضا میں پھیل پھیل جاتی ہیں۔ مرشد تشریف لا رہے ہیں اور لوگ ان کے راستے میں مسکراہٹوں کے پھول بکھیرنے کے بجائے اشکوں کے چراغ روشن کیے کھڑے ہیں...

            تصور مجھے چار مہینے پیچھے لے جاتا ہے، مئی کی ۲۳ تاریخ ہے، میں اردو ڈائجسٹ کے دفتر میں بیٹھا قلم و قرطاس لیے ذہن میں ابھرنے والی سوچ کی لہروں کو الفاظ کا پیکر دینے میں مصروف ہوں، اچانک جیسے وجدان کے تارچھڑ جاتے ہیں۔ ‘‘عصر کی نماز آج مرشد کی معیت میں پڑھنی چاہیے۔’’ دل میں تمنا بیدار ہوتی ہے اور میں فوراً اٹھ کھڑا ہوتا ہوں۔ نماز میں تھوڑا سا وقت رہ گیا ہے۔ جلدی جلدی مرشدؒ کے آستانے پر پہنچتا ہوں۔ لیکن آج وقت سے کچھ پہلے نماز ہوچکی ہے۔ ۵۔اے ذیلدار پارک میں چہل پہل اور شگفتگی کے بجائے عجیب سی اداسی رینگ رہی ہے۔آٹھ دس رفیق ادھر ادھر برآمدے کے پاس کھڑے ہیں۔ چہروں پر گھمبیر سکوت کے لہراتے ہوئے سایوں نے اداس و ویران فضا کا رنگ اور گہرا کر دیا ہے۔ انکشاف ہوتا ہے مرشد آج امریکہ تشریف لے جا رہے ہیں۔ پچھلے کئی روز سے خبریں آرہی تھیں کہ ان کے صاحبزادے ڈاکٹر احمد فاروق انہیں علاج کے لیے اپنے ساتھ لے جانا چاہتے ہیں، لیکن مرشد آمادہ نہیں ہو رہے، وہ ملک ہی میں رہنا چاہتے ہیں۔ لیکن پھر خبر آئی کہ مرشد جانے پر رضا مند ہوگئے ہیں، کب تشریف لے جائیں گے؟ اس کا کسی کو علم نہ تھا، روانگی کی تاریخ بڑے اہتمام سے مخفی رکھی گئی تھی۔ مقصد یہ تھا کہ مولانا خاموشی سے پورے سکون کے ساتھ رخصت ہوں۔

            ۵۔اے ذیلدار پارک کی عصری مجالس جب سے ختم ہوئی ہیں، ارادت مندوں میں مرشد سے ملاقات کا جذبہ فزوں تر ہوگیا ہے۔ وہ نماز کے لیے ‘‘واکر’’ کے سہارے باہر تشریف لاتے ہیں تو ہر شخص کوشش کرتاہے کہ ان سے مصافحہ کرنے کی سعادت حاصل کرے۔ بسا اوقات یہ عمل اتنا طویل ہوجاتا ہے کہ مولانا نڈھال ہوجاتے ہیں اور لوگوں سے گزارش کرنا پڑتی ہے کہ وہ مولانا کو مزید زحمت نہ دیں۔ خود مولانا نڈھال ہونے کے باوجود ہر شخص سے مصافحہ کرتے ہیں۔ بعض اوقات اس کی خیر و عافیت بھی دریافت کرتے ہیں۔ وہ کچھ پوچھتا ہے تو جواب بھی دیتے ہیں۔ چہرے پر تھکاوٹ کے آثار نمودار ہوجاتے ہیں، لیکن نا گواری کی ذرا سی پرچھائیں بھی نہیں ابھر پاتیں۔مولانا کے اس مزاج اور عقیدت مندوں کے جذبہ والہیت کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا گیا ہے کہ مولانا کی روانگی کی خبر پوشیدہ رکھی جائے گی۔ اس اہتمام کے باوجود چند رفقا پھر بھی پہنچ گئے ہیں اور میری خوش بختی نے مجھے بھی ان اصحاب کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔ چہرے کہہ رہے ہیں کہ گزرنے والا ایک ایک لمحہ ان پر بھاری اثرات چھوڑتا جا رہا ہے اور آنے والے لمحات انہیں پریشان کیے دے رہے ہیں۔ سب کی نگاہیں دروازے پر جمی ہوئی ہیں۔ کار بغلی دروازے کے پاس تیار کھڑی ہے۔ پھر دروازہ کھلتا ہے۔ مولانا واکر کے سہارے برآمد ہوتے ہیں۔ ایک ایک قدم مشکل سے اٹھ رہا ہے۔ بڑی دقت سے کار میں سوار ہوتے ہیں۔ دعوت حق کے ساتھی مصافحہ کرنے آگے بڑھتے ہیں، معاً ڈاکٹر احمد فاروق کی کرخت آواز بلند ہوئی ہے‘‘کوئی صاحب مصافحہ نہ کریں ’’ اور بڑھتے ہوئے قدم رک جاتے ہیں۔ مولانا ایک نظر اپنے رفقا پر ڈالتے ہیں۔ ان کے ہمیشہ سے روشن و منور چہرے پر میں کرب کا ہلکا سا تاثر ابھرتے ڈوبتے محسوس کرتا ہوں۔ وہ دور ہی سے اپنے ساتھیوں کے سلام کا جواب دیتے ہوئے بڑے گیٹ سے نکل جاتے ہیں۔ مختلف اصحاب اپنی اپنی سواریوں پر ان کی کار کے پیچھے پیچھے ایئر پورٹ روانہ ہوجاتے ہیں، میں تنہا رہ گیا ہوں۔ ۵۔اے ذیلدا ر پارک میں رینگتی ہوئی اداسی کچھ اور گھمبیر ہوگئی ہے۔

            نماز پڑھ کر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا باہر گلی میں آتا ہوں۔ جانے کیوں گلی ویران سی لگتی ہے حالانکہ لوگ آجا رہے ہیں، اس گلی کی رونقیں تو اسی مرد جلیل کے دم سے ہیں جو ابھی ابھی یہاں سے گیا ہے۔ مجھے اس کے سانسوں کی خوشبو آرہی ہے۔ اس کا روشن و تابندہ چہرہ میری نگاہوں میں پھر رہا ہے۔ اس کی عینک کے پیچھے اللہ کے نور سے دیکھنے والی چمکتی ہوئی آنکھیں ابھی میری نظروں میں ہیں۔ میں نے ان نگاہوں سے فیض حاصل کیا ہے اور ان سے پھوٹنے والے نور کی کرنوں کو اپنے دامن دل میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ مرشد دیکھنے میں بالکل تندرست ہیں۔ چہرے پر بڑھاپے کا اضمحلال ضرور ہے، لیکن وہ ہمیشہ کی طر ح آج بھی ہشاش بشاش ہیں۔ بیماری جوڑوں کی ہے جس نے انہیں چلنے پھرنے سے لاچار کر دیا ہے۔ اس کے بڑھتے ہوئے چنگل سے ان کی عام صحت بھی متاثر ہونے لگی ہے، لیکن ایسی بھی نہیں کہ تشویش ذہنوں میں کلبلانے لگے۔ خیال ہے کہ ستمبر اکتوبر تک واپس آجائیں گے... میں جدائی سے پیدا ہونے والی اداسی کو دل و دماغ سے جھٹک دیتا ہوں‘‘تین چارمہینے ہی تو بیچ میں ہیں۔’’ میں اپنے آپ سے کہتا ہوں۔ ‘‘مرشد صحت یاب ہو کر آئیں گے تو ۵۔ اے ذیلدار پارک کا سر سبز و شاداب لان ہوگا اور عصری مجالس کی ایمان افروز گھڑیاں۔’’

            .....اور آج مرشدمودودیؒ تشریف لے آئے ہیں اور کس آن بان سے آئے ہیں! ان کی گلی کی رونقیں ہی نہیں، پورے شہر کی رونق بھی دوبالا، سہ بالا ہوگئی ہے کہ وارفتگان محبت ملک کے گوشے گوشے ہی سے نہیں دنیا کے ہر اس گوشے سے جہاں ان کی دعوت پہنچی ہے۔ ’’ جوق در جوق اس کی طر ف چلے آئے ہیں۔

            مرشد ۲۶ مئی کو یہاں سے چپ چاپ گئے تھے اور ۲۵ ستمبر کو واپس آئے ہیں تو ایک دنیا پذیرائی کو موجود ہے۔ ۲۶ مئی کو جب میں نے ان کی زیارت کی تھی تو کیا خبر تھی کہ یہ زندگی میں آخری زیارت ہے، پھر زیارت تو ہوگی، مگر ایک دوسرے ہی عالم میں ... اور آج مرشدؒ آرہے ہیں، ایسے عالم میں کہ ان کی پاک روح اپنے آقا و مولا سے جا ملی ہے اور ان کا جسد خاکی ہوا کے دو ش پر سوار سمندروں پر سے گزرتا، صحراؤں کو عبور کرتا، مشرق و مغرب کے ملکوں پر اپنا پرتو ڈالتا لاہور کے ہوائی اڈے پر اترا ہے اور اب فیروز پور روڈ کی اس گلی کی طرف بڑھ رہا ہے جس کی ایک عمارت میں بیٹھ کر وہ اپنے دیس والوں ہی کو نہیں دنیا بھر کو اسلام کی زندگی بخش دعوت کی طرف بلاتے رہے تھے۔

            اژدہام میں بدستور اضافہ ہورہا ہے۔ میں سڑک کے کنارے لگی ہوئی قطار کے ساتھ ساتھ قدم اٹھاتا اچھرہ اڈے کی جانب بڑھتا ہوں۔ چند قدم آگے روالپنڈی سے آئے ہوئے ایک دوست سے ملاقات ہوتی ہے۔ ہم گلے لگ جاتے ہیں، سسکیاں بلند ہوتی ہیں اور آنکھوں سے اشکوں کے دھارے بہہ نکلتے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ہماری زبانیں ایک ساتھ کہتی ہیں ‘‘ہم اللہ کے ہیں اور اسی کی جانب لوٹ کر جانے والے ہیں۔’’ کتنی بڑی سچائی ہے جو ان چند الفاظ میں سمو دی گئی ہے۔ ایسی سچائی جو اپنے اندر زخمی دلوں کے لیے تسکین کا پیغام بھی رکھتی ہے اور انہیں یہ احساس بھی دلا تی ہے کہ ان کی زندگی کے شب و روز اور صلاحیتیں اللہ ہی کے لیے وقف ہونی چاہییں کہ یہ زندگی اور اس کی نعمتیں اور صلاحیتیں ان کی اپنی نہیں ہیں۔ سب اللہ کی عطا کردہ ہیں۔ اگر وہ ان میں سے کوئی شے واپس لے لیتا ہے تو اپنی ہی دی ہوئی متاع واپس لیتا ہے۔ ہمیں فکر ہونی چاہیے تو یہ کہ ایک روز ان کا حساب کتاب دینے کے لیے اسی کے پاس لوٹ کر جانا ہے۔ اس مرد حق نے اپنی زندگی خالصتاً اللہ کے لیے وقف کر دی تھی اور اب وہ اپنے اللہ کے حضور کامران و سرخرو جا پہنچا ہے۔لاکھوں کے اس مجمع میں لاکھوں ہی آدمی گواہی دیں گے کہ ان کی زندگیوں کو اللہ کے اس بندے نے بدل کر رکھ دیا اور نہیں حق و ہدایت کی اس راہ پر گامزن کر دیا جسے وہ مسلمان گھروں میں پیدا ہونے کے باوجود بھول چکے تھے...

            ہم دونوں ساتھی بہتی آنکھوں کے ساتھ ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں اور پھر زبان خموشی میں ایک دوسرے کو پرسا دیتے ہیں۔ اتنے میں موٹر سائیکل پر ایک نوجوان دوڑتے ہوئے آتا ہے وہ کہہ رہا ہے۔ مولانا کی سواری گورنر ہاؤس سے آگے بڑھ چکی ہے۔ میرا دل ڈوبنے لگتا ہے۔ آنکھوں کے جھرنے پھر رسنے لگتے ہیں اور پھر وہ پھوٹ بہتے ہیں... مولانا تشریف لا رہے ہیں.... یا مرشدی آپ کی آمد آمد کا یہ منظرہم کبھی نہ بھول سکیں گے... یہ غم کا داغ بن کر ہمارے سینوں میں ہمیشہ چراغاں کرتا رہے گا۔ مرشدی، آپ ہمارے لیے حالات کے گھمبیر اندھیروں میں روشن چراغ تھے۔ ملک و ملت پر پھیلتی ہوئی تاریکیاں جب ہمارے دلوں کو مایوسی کی کہر میں لپیٹنے لگتیں، تو ہم آپ کے آستانے کا رخ کرتے اور آپ کی گلی میں داخل ہوتے ہی جیسے اندھیرے چھٹنے لگتے اور آپ کے منور چہرے پر نظر پڑتے ہی امید و رِجا کی روشنی بکھرنے لگتی اور پھر جب ہم آپ کی محفل میں بیٹھتے تو ایمان و عزیمت کی لو میں تپے ہوئے آپ کے ارشادات سے ہمارے دلوں پر چھائی ہوئی پریشانیوں اور مایوسیوں کی کہر ہوا ہوجاتی۔ آپ کا عزم و یقین ہمارے اندر نئی توانائیاں بھر دیتا اور جب آپ سے رخصت ہوکر ۵۔ اے ذیلدار پارک سے نکلتے تو عزم جواں لے کر نکلتے۔

            وہ دن آج بھی سب کو اچھی طرح یاد ہے۔ آپ لندن سے اپنے ایک گردے کے ساتھ صحت یاب ہوکر تشریف لائے تھے۔ملک و ملت ان دنوں ایک زبردست آفت سے دوچار تھے۔ سوشلزم کے گماشتے بے لگام ہوگئے تھے۔ وہ علانیہ کہہ رہے تھے کہ پاکستان میں یہی کافرانہ نظام قائم ہو کر رہے گا۔ وہ اس کے لیے ہر مذموم ہتھکنڈے سے کام لے رہے تھے۔ روٹی کپڑے اور مکان کے نعرے ہر طرف گونج رہے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا طوفان جو امڈا چلا آرہا ہے، اس کے آگے کوئی شے نہ ٹک سکے گی۔ جن بنیادوں پر یہ ملک قائم ہوا تھا وہ خس و خاشاک کی سی بے بسی کے ساتھ اس کے تندو تیز ریلے میں بہہ نکلیں گی۔ حالات کے خوف ناک اتار چڑھاؤ کے آگے حوصلے پست ہورہے تھے اور مایوسی کے اندھیروں میں ہمتیں جواب دیے جاتی تھیں۔ایسے عالم میں آپ تشریف لائے اور آپ کی ایک مومنانہ للکار نے ساحروں کے سارے حربے کار کر کے رکھ دیے۔ آپ نے کہا تھا کہ ‘‘یہ ملک مارکس اور لینن کا نہیں، محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا ملک ہے جو لوگ یہاں مارکس اور لینن کا دین نافذ کرنا چاہتے ہیں وہ کان کھول کر سن لیں کہ جب تک ہماری گردنوں پر سر موجود ہیں اس ملک میں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے سوا کوئی اور دین نافذ نہیں ہوسکتا۔’’

            آپ کی یہ للکار رعد بن کہ ملک کے کونے کونے میں گونج گئی۔ دلوں میں حوصلے جاگ اٹھے، مایوسیوں کے تیرہ و تار بادل کافور ہوگئے اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے شوق شہاد ت میں سرشار میدان میں نکل آئے۔ پھر آپ نے ان جذبوں اور ولولوں کو شوکت اسلام کے مظاہرے میں ڈھال دیا اور یوں دنیا پر عملاً آشکار کر دیا کہ یہ ملت مارکس اور لینن پر نہیں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتی ہے۔ اگر ملت اپنے پاس اس اتحاد کو برقرار رکھتی تو وہ گھاؤ نہ کھاتی جو اس نے پاکستان کے دولخت ہونے کی صورت میں کھایا۔

 ٭٭٭

            مرشدی، آپ سراپا امید تھے۔ آپ نے امید کی مشعل پہلی مرتبہ ۴۸ برس پہلے جلائی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب برصغیر کے مسلمان رہنما اپنی ملت سے مایوس کر یا تو گاندھی کے پرچم تلے جا کھڑے ہوئے تھے یا انگریز کا دامن تھام کر قوم کے نام پر اپنے ذاتی مفادات کی آبیاری کر رہے تھے۔ ایک مرد درویش تھا جس کے جوہر اخلاص اور جذبہ ملی میں کندن کی آب و تاب تھی ، وہ بھی رخصت ہوچکا تھا۔ تحریک خلافت کی ناکامی اور خود ترکوں کے اپنے ہاتھوں خلافت عثمانی کی چاک دامانی نے پہلے ہی ملت اسلامیہ ہند کومایوس کر دیا تھا ، اب قیادت کے فقدان سے صورت حال سنگین ہو گئی تھی ۔ یہ تھے وہ شب و روز جب آپ نے ملت کو پکارا اور کہا کہ اس کی زندگی اور سربلندی کتاب و سنت کی طرف پلٹنے اور اسے اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کا منہاج عمل بنانے میں ہے ۔ مایوسی کے ان لمحات میں آپ کی آواز لوگوں کو شروع شروع میں اجنبی محسوس ہوئی اور انہوں نے سنی ان سنی کر دی ۔ متوجہ ہوئے بھی ، تو کسی نے کہا اس کا م کے لیے صحابہ کرامؓ ایسے بلند مرتبت لوگ درکار ہیں ۔ کسی نے کہا ہم اس کام کے مکلف ہی نہیں ہیں ، حکومت تو خدا کی دین ہے بہت سے ایسے تھے جنہوں نے قوم کو قبول حق کرنے کی صلاحیت ہی سے عاری قرار دیا ۔ اکثر نے اسے محض ایک دیوانگی گردانا کہ تہ بہ تہ مایوسیوں میں امید و رجا کی باتیں ہمیشہ دیوانگی ہی سمجھی جاتی رہی ہیں ۔ بہت سے لوگوں نے اسے امت کے لیے فتنہ قرار دیا لیکن آپ اپنے دل میں امید کی شمع روشن کیے دن رات کام کرتے رہے ۔ اس ایک شمع سے دوسری شمعیں جلتی رہیں اور اب کیفیت یہ ہے کہ مشرق و مغرب میں ہر اس جگہ جہاں مسلمان بستے ہیں یہ شمعیں لودے رہی ہیں ۔ اور یہ جو لاکھوں لوگ آپ کا استقبال کرنے آئے ہیں ، انہیں بھی آپ کی جلائی ہوئی شمع کی حرارت ہی یہاں لائی ہے ۔

            خیالات کا ایک سیل ہے جو امڈ آتاہے۔ اچانک اژدھام کا ریلا مجھے دھکیل کر پیچھے کر دیتا ہے ۔ میں تصور کی دنیا سے نکل آتا ہوں ۔ مرشد کے جیالوں کا ہراول دستہ اسکوٹروں اور موٹر سائیکلوں پر سوار میرے سامنے سے گزر رہا ہے ۔ ان کی آمد بتا رہی ہے کہ مولانا کی سواری قریب آن پہنچی ہے ۔ اور یہ سواری جیسے جیسے قریب تر آتی جاتی ہے ، سڑک کے دونوں جانب کھڑے ہوئے بے پناہ ہجوم میں سمندر کی موجوں کا سا مدو جزر پیدا ہوتا جاتا ہے ۔ پھر چیخیں بلند ہوتی ہیں ، لوگ جو اب تک صبر کی عنان تھامے کھڑے تھے ، بے قابو ہو گئے ہیں اور دھاڑیں مار مار کر رو نے لگے ہیں ۔ مولانا کی سواری اب بالکل سامنے آچکی ہے ۔ ‘‘مرشدی ، آپ تشریف لے آئے!’’ میں خوش آمدید کہتا ہوں اور پھر میری چیخیں نکل جاتی ہیں ۔ میں اپنے تن ناتواں کے باوجود بڑا کٹھور دل واقع ہوا ہوں ، اپنے قریب ترین عزیزوں کی موت پر بھی شاذ ہی میری آنکھیں پر نم ہوئی ہیں ۔ میں زندگی میں صرف تین بار دھاڑیں مار مار کر رویا ہوں۔ ایک اس وقت جب سید قطب شہید کیے گئے۔دوسرے سقوط ڈھاکہ کے وقت اور تیسرے آج ۔ مرشد مودودی کی سواری آگے نکل چکی ہے ۔میں اس سواری کے پیچھے موجزن انسانی سمندر میں شامل ہو گیا ہوں اور دھاڑیں مار کر روتا چلا جاتا ہوں۔ پورے مجمع کی یہی کیفیت ہے ۔ پھر جیسے مجھے کچھ خبر نہیں رہتی کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے میں نڈھال ہو کر گرنے لگتاہوں کہ ایک دوست مجھے سہارا دیکر اس روتے دھوتے انسانی سمندر سے نکال لاتے ہیں ۔

            مرشد کی سواری ان کے گھر کی طرف مڑ گئی ہے ۔ میں بٹ مینشن کے قریب کھڑا دور تک پھیلے ہوئے انسانوں کو آنسوؤں میں ڈوبی نظر سے دیکھ رہا ہوں ۔ ان میں نوجوان بھی ہیں اور بوڑھے بھی۔سب غمزدہ و دل فگار ہیں اور مرشد مودودی کو اشکوں کا خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں ۔

            ہفتے کی رات تھی جب ان آنکھوں سے دلوں کا خون آنسو بن کر بہنا شروع ہوا ۔ اس رات اپنے عہد کے سب سے اندوہناک سانحے کی خبر ہوا کی لہروں پر بلند ہوئی تھی ۔ جس نے بھی یہ خبرسنی ،سن ہو کر رہ گیا ۔ ہر اس گھر میں صف ماتم بچھ گئی جس کو اس مرد حق کی تحریر و بیان نے لذت ایمان اور شعور ملی سے بہرہ ور کیا تھا اور ہر وہ دل تڑپ اٹھا جو نفس کی کبریائی سے پاک تھا اور جس میں حق و صدق سے محبت کا جذبہ کسی نہ کسی درجے میں موجود تھا ۔ لاہور شہر اور مضافات سے ہزاروں بوڑھے اور جوان روتے ، دھاڑیں مارتے ۵۔ اے ذیلدار پارک میں جمع ہو گئے اور ہزاروں، ملک اور بیرون ملک کے دور دراز گوشوں سے لاہور کی طرف چشم نم اور دل گریاں لیے چل پڑے …… آج وہ تعداد لاکھوں میں جا پہنچی ہے اور ابھی چاروں طرف سے سوگواروں کے قافلے چلے آرہے ہیں ۔ پچھلی تین راتیں اور تین دن ان لاکھوں انسانوں نے گریہ و زاری میں کاٹے ہیں اور اب غم و اندوہ کی چوتھی رات سر پر آگئی ہے ۔ آنکھوں کے چشمے ہیں کہ بہتے چلے جاتے ہیں ۔ ہاں انہیں بہنا ہی چاہیے۔ یہ مرشد مودودی کے فراق میں نہیں بہیں گے ، تو کس کے فراق میں بہیں گے ؟ اس سے بڑا غم بھی کوئی ہو سکتا ہے! یہ غم ، غم فرد نہیں ، غم جہاں ہے کہ سیدی و مرشدی محض ایک فرد نہ تھے جو ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں دنیا میں روز پیدا ہوتے اور روز مرتے ہیں اور جن کا وجود اور عدم وجود اہل جہاں کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا ۔ وہ تو جان جہاں تھے ، اللہ کے ان بندوں میں سے ایک جو صدی کی روح بن کردنیا میں آتے ہیں ، اسے اپنے فکر کے نور سے تابندگی بخشتے ہیں اور جب رخصت ہوتے ہیں ، تو زمانے کی گود اس ماں کی طرح خالی ہو جاتی ہے جس کا در یتیم چھن گیا ہو۔ سیدی و مرشدی اپنے دور کے در یتیم تھے ۔ وہ چودھویں صدی کے گوہر شب چراغ تھے ۔ زمانے کی گود کا ایسے گراں مایہ وجود سے محروم ہو جانے کا سانحہ کوئی ادنی سا نحہ نہیں …… پھر ہم لوگ جو اس کے چھوڑے ہوئے خلا میں سرگردانی کے لیے پیچھے رہ گئے ہیں ۔ اپنی اس بدنصیبی پر کیوں نہ روئیں اور کس لیے نہ تڑپیں؟

 ٭٭٭

            رات کی زلفیں دراز ہو چلی ہیں ، فیروز پور روڈ پر سوگوار ارادتمندوں کی طویل قطار لگی ہے جو ۵۔ اے ذیلدار پارک کے گیٹ سے سکھ نالے کے آگے تک چلی گئی ہے ۔ اس قطار میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ ہو رہا ہے ۔ یہ سب مرشد مودودی کے آخری دیدار کے لیے کھڑے ہیں ۔ نماز مغرب کے بعد سے ساڑھے نو بجے تک خواتین اور بچیاں اپنے بزرگ باپ کا دیدار کرتی رہی ہیں اور اب مردوں کی باری ہے ۔ میں بھی اس قطار میں جا کھڑا ہوتا ہوں جو آہستہ آہستہ چیونٹی کی رفتار سے رینگ رہی ہے ۔ فیروز پور روڈ پر آنے جانے والے لوگ یہ حیرت ناک منظر دیکھ کر ٹھٹھکتے ہیں اور پھر انگشت بدنداں کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ منظر ہے بھی واقعی حیرت ناک ! اتنا بے پناہ ہجوم اور کہیں بھی ذرا افراتفری نہیں ، کہیں قطار ٹوٹنے نہیں پاتی ، کوئی بھی ایک دوسر ے سے آگے بڑھنے کے لیے بے تاب نظر نہیں آتا ، کوئی شخص اس لیے قطار میں گھسنے کی کوشش نہیں کرتا کہ آخری سرے پر جا کر کھڑا ہوا تو گھنٹوں انتظار کی زحمت اٹھانا پڑے گی ۔ ہر شخص قطار میں شامل ہونے کے لیے آخری سرے پر پہنچ رہا ہے۔ لوگوں نے تو یہ منظر دیکھا ہے کہ جہاں تیس چالیس آدمی جمع ہو جاتے ہیں نفسا نفسی کا عالم برپا ہو جاتا ہے ، دھکم پیل شروع ہو جاتی ہے ، ہر شخص کوشاں ہوتا ہے کہ قطار میں سب سے آگے جا کر کھڑا ہو اور انتظار کی مشقت سے بچ جائے۔ یہاں ہزاروں کا ہجوم ہے اور ایسی کوئی بات دکھائی نہیں دیتی ، سب لوگ بڑے سکون کے ساتھ قطار میں قدم بہ قدم آگے رینگ رہے ہیں ۔ اتنا عظیم الشان ڈسپلن اور اس قدر بے پناہ نظم و ضبط ، دیکھنے والے پہلی بار دیکھ رہے ہیں…… اور یہ ادنی کارنامہ ہے سیدی و مرشدی کا ۔ ان کی اپنی زندگی بڑی منضبط تھی ۔ انہوں نے جس تحریک کی بنیاد رکھی اس میں نظم و ضبط کو بنیادی اہمیت دی ۔ غیر منظم اور منتشر انسانوں کی بھیڑ دنیا میں کوئی معرکہ سر نہیں کر سکتی خواہ وہ لاکھوں پر مشتمل ہو ۔ تاریخ ہمیشہ کڑے نظم و ضبط کی حامل مٹھی بھر گروہوں نے بنائی ہے اور اسلام تو نماز کے ذریعے پہلا سبق ہی نظم و ضبط کادیتا ہے ۔ سید مودودی نے اس قوت کوجماعت اور تحریک کی رگوں میں یوں خون کی طرح دوڑایا ہے کہ جذبات کے بھڑکتے ہوئے شعلوں میں بھی کارکن نظم و ضبط کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑتے ۔ اس وصف نے تحریک کو ایک مضبوط اور نامسخر چٹان بنا دیا ہے اور دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں کہ سید مودودی کی تحریک اسلامی ایک منظم ترین قوت ہے ۔

            نظم و ضبط کا یہ پر اثر نظارہ مجھے پندرہ برس پیچھے لے جاتا ہے ۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کی آہنی آمریت کا دور دورہ ہے ۔ وہ بنیادی جمہوریتوں کے نظام کے تحت انتخابات کروانا چاہتا ہے ۔گزشتہ چھ برس میں وہ ہر اہم سیاسی قوت کو کمزور کر چکا ہے ۔ صرف ایک اسلامی قوت کو نہ خریدا جا سکتا ہے اور نہ ڈرا دھمکا کر اپنے آگے جھکایا جا سکتا ہے ۔ وہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ اسے بالکل اسی طرح کچل دیا جائے جس طرح مصر میں ناصر ، اخوان کو کچل چکا ہے ۔ کالا باغ کا مستبد جاگیردار نواب امیر محمد خان مغربی پاکستان کا گورنر ہے ۔ وہ ایک ‘‘ماسٹر پلان’’ مرتب کرتا ہے بھاٹی گیٹ کے باہر جماعت اسلامی کا اجتماع ہو رہا ہے ۔ حکومت نے بڑے لیت و لعل کے بعد اجتماع کی اجازت دی ہے اور ایک ایسے مقام پر اجازت دی ہے جہاں غنڈوں سے اپنے پلان کے مطابق آسانی سے کام لیاجاسکے ۔ پھر اجتماع کے انعقاد کی اجازت تو دے دی ہے ، لیکن لاؤڈ اسپیکر استعمال کرنے کی ممانعت ہے ۔ سید مودودی کے ذہن رسا نے لاؤڈ اسپیکر کا ایک نرالا متبادل تلاش کر لیا ہے ۔ سیدی و مرشدی سٹیج پر کھڑے اپنی لکھی ہوئی تقریر پڑھ رہے ہیں اور پنڈال میں جگہ جگہ کھڑے ہوئے ‘‘مکبر’’ اس تقریر کو دھراتے جاتے ہیں ۔ پندرہ بیس ہزار سامعین ان مکبرین کے ادرگرد بیٹھے بڑے انہماک سے تقریر سن رہے ہیں ۔ مرشدی کارکنوں کو تلقین کر رہے ہیں کہ راستے میں رکاوٹ آجائے ، تو اس سے ٹکرا کر سر پھوڑ لینے کے بجائے حکمت سے کام لیتے ہوئے اس طرح نیا راستہ بنا لینا چاہیے جس طرح دریا ، پہاڑوں میں چٹانوں کو راہ میں حائل پاکر اپنا رخ بدل دیتا اور منزل مقصود کی طرح بڑھتا چلا جاتا ہے ۔ اچانک غنڈے جلسہ گاہ میں ہنگامہ برپا کردیتے ہیں اور گولیوں کی آواز گونجتی ہے ۔ ایک گولی مرشد کے سر کے اوپر سے گزر جاتی ہے ۔ غنڈے پنڈال میں دوڑنے لگتے ہیں اور قناتوں کو کاٹ کاٹ کر گرانے ، انہیں نذر آتش کرنے اور اپنے راستے میں آنے والی ہر شے کو توڑنے پھوڑنے لگ جاتے ہیں ۔ وہ تین چار سے زیادہ نہیں ہیں ۔ پولیس کھڑی تماشا دیکھ رہی ہے، گولی کی آواز پھر گونجتی ہے اور تحریک کا ایک کارکن اللہ بخش شہید ہو جاتا ہے ۔ پولیس اب بھی ٹس سے مس نہیں ہوتی ۔ ہو بھی تو کیسے؟ وہ تو منتظر ہے کہ سید کے ساتھی مشتعل ہوں اور غنڈے ان پر پل پڑیں ۔ اور وہ اسے دو مخالف گروہوں میں تصادم کا نام دیکر سید مودودی اور ان کے ساتھیوں کو خون میں نہلا دے۔ گول باغ اور ضلع کچہری کی سڑک پر رینجرز اور فوج کی گاڑیوں کو گشت کرتے ہوئے سینکڑوں ہزاروں شہری اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ انہیں اس لیے بلایا گیا ہے کہ پولیس اگر ‘‘ماسٹر پلان’’ پر عمل کرنے میں ناکام رہے اور جلسے کے شرکا جن میں صوبہ سرحد کے مسلح کارکن بھی ہیں ، مزاحمت پر اتر آئیں تو انہیں فورا ‘‘مقام جنگ’’ پر پہنچایا جا سکے ۔ لیکن کارکنان نے سیدی و مرشدی کے دیے ہوئے نظم و ضبط سے کام لیا ہے ۔ ایک شخص بھی تو اپنی جگہ سے نہیں ہلا ، غنڈے ہلڑ مچاتے اور قناتیں گراتے ہوئے نکل گئے ہیں اور امڈتا ہوا خونی طوفان ناکام اور نامراد پلٹ گیا ہے۔

 ٭٭٭

            قطار چند گز آگے بڑھ چکی ہے ۔ مجھے سیدی و مرشدی کے وہ الفاظ یاد آرہے ہیں جو انہوں نے گولیوں کی اس بوچھاڑ میں فرمائے تھے اسٹیج پر موجود ایک کارکن نے کہا تھا کہ مولانا بیٹھ جائیے ۔ آپ نے فرمایا: ‘‘میں ہی بیٹھ گیا تو پھر کھڑا کون رہے گا؟’’

            اور سب نے دیکھا کہ اس دیس میں سیاست کے بڑے بڑے رستم و اسفند یار اور زہد و تقوی کے کتنے ہی گراں ڈیل مدعی سرنگوں ہو گئے۔ کوئی کسی صاحب اقتدار کے آگے اور کوئی کسی کے آگے، لیکن یہ مرد درویش ہمیشہ ہر دور میں سر اٹھائے کھڑا رہا ۔ اسے کوئی بڑے سے بڑا مستبد حکمران اپنے حضور نہ جھکا سکا۔ انہوں نے کٹھن سے کٹھن ادوار میں حق کی طرف اپنی دعوت جاری رکھی۔ ان کا راستہ روکنے کے لیے ان کے خلاف سازشیں کی گئیں ۔ ان کی کردار کشی کی گئی۔ انہیں تحریک پاکستان کا مخالف بتایا گیا (حالانکہ وہ سیدی و مرشدی ہی کے افکار تھے جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو دو قومی نظریے کا حقیقی شعور بخشا اور انہیں متحدہ قومیت کے خلاف مضبوط دلائل فراہم کیے) ان کی طرف جہاد کشمیر کے بارے میں غلط بیان منسوب کیا گیا۔ (یہ اتنا سفید جھوٹ تھا کہ کشمیر کے قائد چوہدری غلام عباس مرحوم کو کہنا پڑا کہ مجھے کشمیر کے مستقبل کے بارے میں ہر شخص نے مایوس کیا ہے ، امید کی روشنی اگر ملی ہے تو سید ابو الاعلی مودودی سے ) اور جب ان کے قدم بڑھتے چلے گئے اور اسلامی دستور کے مسئلے پر حکمرانوں کو ان کے آگے پسپا ہونا پڑا ، تو انہیں پھانسی کی کوٹھڑی میں پہنچا دیا گیا۔ وہاں بھی یہ عظیم انسان موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے سر بلند کھڑا رہا ۔ ان سے کہا گیا کہ وہ رحم کی درخواست کریں تو انہیں زندگی دے دی جائے گی۔ انہوں نے اس پیش کش کو جوتی کی نوک سے ٹھکراتے ہوئے وہی جواب دیا جو اصحاب دعوت و عزیمت ہمیشہ اپنے عہد کے فرعونوں کے دیتے رہے ہیں ۔ انہوں نے فرمایا: ‘‘اگر میرے پروردگار نے مجھے اپنے پاس بلانا منظو رکر لیا ہے تو بندہ بخوشی اپنے رب سے جا ملے گا اور اگر ابھی اس کا فیصلہ نہیں ہے تو پھر چاہے یہ لوگ خود الٹے لٹک جائیں ، مجھے نہیں لٹکا سکتے۔’’

            انہوں نے اپنے گھر والوں اور ساتھیوں سے دوٹوک کہہ دیا کہ کوئی شخص رحم کی اپیل نہ کرے (چنانچہ کسی شخص نے نہ کی) …… اور جو اس صاحب عزیمت کو اپنے آگے سرنگوں کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے ، پسپا ہو گئے ۔

            سیدی و مرشدی کی حیات کا ایک ایک لمحہ اس یقین محکم سے سرشار رہا ۔ باطل اور الحاد قوتوں کے خلاف جنگ شدید تر ہو گئی۔ فاشسٹ حکمران ان کی جان کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے تو رفقا اور عقیدت مندوں کو تشویش رہنے لگی ۔ وہ مولانا سے درخواست کرتے کہ کچھ حفاظتی اقدامات کر لیے جائیں ۔ آپ ہمیشہ یہی جواب دیتے کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ، جو گولی میرے لیے تیار کی گئی ہے وہ حفاظتی دیواروں کے پیچھے بیٹھے ہوئے بھی لگ سکتی ہے ۔ موت جب اور جس صورت میں لکھی جا چکی ہے ایک لمحہ آگے نہ پیچھے ، اسی صورت میں آکر رہے گی ۔ حافظ و نگراں اللہ کی ذات بے ہمتا ہے ۔ زندگی اور موت کے بارے میں ایسا یقین محکم اور اپنے اللہ پر ایسا اعتماد اور توکل صرف اللہ والوں ہی کی خصوصیت ہوتی ہے ۔ غیر اللہ کے بندے دوسروں کی زندگیوں سے کھیلنے میں تو بڑے جری ہوتے ہیں ، اپنی زندگی کی فکر انہیں ہر وقت کھائے رہتی ہے ۔ وہ اپنے سائے تک سے بدکتے ہیں ، اپنے چاروں طر ف آہن پوش انسانوں کی فصلیں کھڑی کر لیتے ہیں ۔ اپنے جسم پر ‘‘بلٹ پروف’’ فولاد مڑھ لیتے ہیں اور پھر بھی لرزاں و ترساں رہتے ہیں کہ کوئی ہاتھ انہیں موت کے گھاٹ نہ اتار دے۔

 ٭٭٭

            قطار کی رفتار قدرے تیز ہو کر پھر ہلکی پڑ گئی ہے ۔ مجھے قطار میں لگے تقریبا ًدو سوا دو گھنٹے ہو گئے۔ میں مرشد مودودی کی گلی کے موڑ پر پہنچ چکا ہوں اور سوچ رہا ہوں میں اس مرد خدا کی خدمت میں حاضر ہونے والا ہوں جس کے چہرے پر نظر پڑتے ہی قلب و روح تسکین و طمانیت سے ہمکنار ہو جایا کرتے تھے ۔ وہ دوسروں کو اطمینان اور سکون فراہم کرتا تھا اور خود امت کے غم اور اس کی بہتری اور فلاح کی فکر میں دن رات بے چین اور مضطرب رہتا تھا ۔ اس نے زندگی کے تقریباً پچاسی برس اسی فکرو اضطراب کے بھنور میں جاگ کر کاٹے تھے ۔ اس کے انقلابی لٹریچر کا بڑا حصہ انہی رت جگوں کے دوران کتاب وسنت کی کٹھالی میں تیار ہوا تھا ۔ اللہ نے اسے گہری بصیرت و فراست سے نوازا تھا حالات کی نبض پر ایک حاذق طبیب کی طرح اس کا ہاتھ رہتا تھا ۔ مسائل کی الجھنیں اور پیچیدگیاں اس کی نگاہ بصیرت کے آگے یوں تحلیل ہو جاتی تھیں جیسے سورج کی کرنیں پڑتے ہی رات بھر کی چھائی ہوئی دھند ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہے ۔ بڑے بڑے پیچیدہ عقدے آسانی سے کھل جاتے ۔ اللہ نے اپنے بندے کو ایسی نگاہ عطا کی تھی جو حال کے پردے چیر کر مستقبل کو دیکھ لیتی۔ اس کی کتنی ہی باتیں درست ثابت ہوئیں ۔ 1970 کی انتخابی مہم میں اللہ کا یہ بندہ بار بار پکارتا رہا کہ اگر قوم نے ایسی جماعتوں کو ووٹ دیے جنہوں نے ملک کے صرف ایک حصے میں اپنے نمائندے کھڑے کیے ہیں ، تو ملک دو ٹکڑے ہو جائے گا اور اسے فوج بھی نہ بچا سکے گی۔ قوم نے اس کی اس پکار پر کان نہ دھرے ۔ مشرقی اور مغربی دونوں خطوں میں وہی جماعتیں اکثریت میں کامیاب ہوئیں جن کے نمائندے دوسرے خطے میں نہ تھے اور نتیجہ وہی نکلا جس سے اس مرد خدا نے آگاہ کر دیا تھا ۔ ملک دولخت ہو گیا اور فوج بھی اسے نہ بچا سکی بلکہ اس نے رسوائی کا داغ اپنی جبین حسین پر لگا لیا۔

 ٭٭٭

            اور اب میں اس مرد عظیم کے آستانے پر پہنچا ہوں ۔ یہاں اس عظیم انسان نے اپنی زندگی کے انتہائی ہنگامہ خیز ماہ وسال گزارے ۔ نصف صدی پہلے اس نے کفر وباطل کی تہذیبی و نظریاتی برتری کو چیلنج کر کے جس جنگ کا آغاز کیا اس کے بڑے بڑے معرکے یہیں بیٹھ کر کامیابی سے لڑے ۔ یہیں یہ مرد درویش تندو تیز طوفانوں میں حق کا چراغ جلائے دنیا بھر کے مجاہدین حق کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتا رہا۔ اس مسلسل جہاد کی عظیم روداد اس آستانے کی ایک ایک اینٹ اور ایک ایک پتھر پر ثبت ہے ۔ یہ آستانہ عظیم آستانہ ہے ۔ یہاں ملک اور بیرون ملک سے آنے والے بڑے بڑے دانشور ، علما ، لیڈر ، مشائخ ، شہزادے اور حکمران حاضر ہوتے رہے ہیں ۔ وہ لوگ بھی جو عقیدت کے جذبوں کے ساتھ اس مرد درویش کی نگاہ کا فیض حاصل کرنا چاہتے تھے اور وہ کم سواد بھی جن کی اکڑی ہوئی گردنیں اسے خاطر میں نہ لاتی تھیں اور جو اسکے خلاف سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا جال بچھاتے رہتے تھے ۔ یہاں وہ اہل علم بھی حاضر ہوئے جو اپنے اپنے ملکوں کا سرمایہ افتخار تھے مگر اس کے غائبانہ تلمذ پر ناز کرتے تھے ۔یہاں حاضری دینے والوں میں وہ فوجی افسر بھی تھا جس نے 1953 میں سید کو ‘‘قادیانی مسلہ’’ لکھنے کے جرم میں موت کی سزا سنائی تھی ۔ اسے فوج سے نکال دیا گیا تھا اور اب وہ ملازمت کے لیے مرشد سے سفارش کروانے آیا تھا ۔ یہاں جمہوری قبا میں پائے کوبی کرنے والے حکمران بھی حاضر ہوئے ا ور اپنی غلط پالیسیوں اور کرتوتوں کے پیدا کردہ جس گرداب میں وہ گھر گئے تھے اس سے نجات پانے کے لیے دستگیری چاہی…… وہ لوگ بھی اس آستانے پر حاضر ہونے کے لیے مجبور ہوئے جن کے تنگ دلوں میں اس مرد عظیم کی عظمت سمائی نہ تھی ۔ اس مرد درویش نے ہر آنے والے کوخوش آمدید کہی اور کھلے دل سے پذیرائی کی ۔ جب کارکن تحریک کے کسی کٹر مخالف کی آمد پر احتجاج کرتے …… تو یہ عظیم انسان جواب دیتا: اگر کوئی مجھ درویش کے تکیے پر خود آنے کی خواہش کرتا ہے ، تو میں اسے کیسے روک سکتا ہوں ، یہ میرا مسلک نہیں ۔ میرے دروازے دوست اور دشمن ہر ایک پر کھلے ہیں۔

            میں بوجھل قدم اٹھاتے مرشد کی بالیں پر جا کھڑا ہوتا ہوں ۔ مرشد پرسکون نیند سور رہے ہیں ، جیسے ابھی ابھی کام سے فارغ ہو کر لیٹے ہوں اور آنکھ لگ گئی ہو ۔ ان کا چہرہ کچھ اور روشن ومنور ہو گیا ہے۔ اس پر نور چہرے پر بڑا ہی دلکش اطمینان کھیل رہا ہے اس مسلمان سپاہی کا اطمینان جومیدان جنگ میں باطل کے خلاف آخری دم تک نبرد آزمائی کرتے ہوئے جان دے دیتا ہے اور فرشتے اس کی روح کا استقبال کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔ یایتھا النفس المطمئنتہ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی (اے نفس مطمئن اپنے رب کے پاس خوش و خرم لوٹ چل، اس حال میں کہ تو اپنے رب کے نزدیک محبوب اور پسندیدہ ہے ۔ شامل ہو جا میرے نیک بندوں میں اور داخل ہو جا میری جنت میں)

            اور یہ خوش خبری اس کے چہرے پر ایک پرسکون وقار اور بشاشت کی صورت میں مرتسم ہو جاتی ہے۔میرا جی چاہتا ہے کہ میں اپنے اس عظیم قائد کی پیشانی چوم لوں اور پھر اپنی فکر اور فن کی ساری قوت سے کام لیکر اس کی عظمت کو خراج پیش کروں ، لیکن پیشانی اس لیے نہیں چومتا کہ مرشد کی نیند میں خلل نہ آجائے اور خراج پیش کرنے کا وقت کہاں ہے۔ آدھی رات گزر چکی ہے اور میرے پیچھے سکھ نالے سے کہیں آگے تک مشتاقان دیدار کی ایک لمبی قطار لگی ہے ۔ وقت اور فرصت ہو بھی تو جانتا ہوں میری زبان ، دل میں امڈتے ہوئے جذبات کا صرف چند قدم ساتھ دینے کے بعد لڑکھڑا جائے گی۔ میں زیر لب صرف اتنا کہتا ہوں ‘‘مرشدی! آپ میرے محسن ہیں ، میں گمراہ تھا ، آپ کے افکار نے مجھے حق کا راستہ دکھایا ۔ میرے اندر خیر وخوبی کی جوبات بھی ہے وہ آپ کی دعوت اور صحبت کا فیضان ہے ۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔’’

            مرشد کے چہرے پر آخری نگاہ ڈالتا ہوں اور بھیگی پلکوں کے ساتھ دوسرے دروازے سے باہر آجاتا ہوں ۔ آنکھیں پھر رم جھم برسنے لگتی ہیں ۔

 ٭٭٭

 (۲)

اے لوگو!

یہ چارپائی اب کس کو اٹھا کر لے جا رہی ہے

تم جانتے ہو ؟ اسی انسان نے

وادی وادی میں ، دنیا کے گوشے گوشے میں

کتنی روشنی پھیلائی

میں تمہیں کیسے بتاؤں

آج مسلمان کے دل و دماغ اور آنکھیں مجروح اور لہو لہو ہیں (ایک اردنی شاعر کا اظہار عقیدت )

            26 ستمبر ہے اور بدھ کی صبح۔ مشتاقان دیدار رات بھر قطار میں کھڑے مرشد کی زیارت کرتے رہے ہیں ۔ اب ساڑھے آٹھ بج رہے ہیں اور قطار کا وہی عالم ہے ۔ مرشد کے آخری سفر کا وقت ہو چلا ہے اور مرشد زندگی بھر وقت کے بڑے پابند رہے ہیں ۔ زیارت موقوف ہوتی ہے ۔ ہزاروں ارادت مند مرشد کے چہرے پر الوداعی نظر ڈالنے کی حسرت دل میں لیے رہ جاتے ہیں ۔ فیروز پور روڈ پر دور دور تک انسان ہی انسان ہیں ۔ کوئی انہیں گن نہیں سکتا، کوئی ان کا ٹھیک ٹھیک اندازہ نہیں کر سکتا ۔ او رپھر مرشد کاجنازہ ۵۔ اے ذیلدار پارک سے برآمد ہوتا ہے۔ ضبط کے بندھن ایک بار پھر ٹوٹ جاتے ہیں ، آہوں ، سسکیوں اور گریہ بے اختیار کا وہی طوفان برپا ہو جاتا ہے جو کل شام دیکھنے میں آیا تھا جنازہ آہستہ آہستہ قذافی اسٹیڈیم کی طرف بڑھتا ہے ۔ انسانوں کا سمندر جنازے کے آگے پیچھے کشادہ و فراخ دو رویہ فیروز پور روڈ پر رواں ہے ۔ اس سمندر کا ایک سرا قذافی اسٹیڈیم کے دروازوں کے ا ندر داخل ہو رہا ہے جہاں صبح آٹھ بجے سے ہزاروں افراد پہنچ چکے ہیں اور دوسرا ابھی اچھرہ موڑ سے آگے نہیں بڑھا۔ جذبات محبت کا عجب رنگ ہے ۔ کسی کو کچھ ہوش نہیں کہ وہ کیا کر رہا ہے ، کیا کہہ رہا ہے ۔ ہلال احمر کی گاڑیاں تو تین بار آتی جاتی نظر آتی ہیں ۔ کل کی طرح آج پھر کچھ نوجوان فرط غم سے بیہوش ہو گئے ہیں ۔ ایک وارفتہ حال نوجوان بابا…… بابا…… پکار رہا ہے۔ اس کے ساتھی اسے سہارا دے رہے ہیں ، صبر کی تلقین کر رہے ہیں ۔ مگر یہ تلقین اسے اور تڑپائے دیتی ہے۔ اکثر لوگ آنسوؤں میں رندھی ہوئی آواز میں کلمہ طیبہ کا ورد کر رہے ہیں ۔ جیسے شہد کی ہزاروں مکھیاں اڑ رہی ہوں ۔ فضا میں کلمہ طیبہ کی حلاوت اور مہک جیسے گھل مل گئی ہے ۔ گاہے گاہے مرشدی! مرشدی! الوداع، الوداع کی پکار بلند ہوتی ہے …… آنکھیں اشکبار ہیں اور دل غم و کرب سے بوجھل اور افسردہ! …… نوجوانوں کا ایک گروہ دل میں اتر جانے والی لے میں لا الہ الا اللہ کا ورد بلند آواز میں کرتا ہوا آگے تابوت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مرشدی اس ورد کو سن کر یقینا وجد میں آگئے ہونگے کہ اس کلمہ کو بلند کرنا ہی ان کی زندگی کا مشن تھا۔ یہ کلمہ مسجدوں ، خانقاہوں اور زاویوں میں الا اللہ کی ضربوں تک محدود ہو کر رہ گیا تھا ، مرشد نے اسے پھر اجتماعی زندگی کارہنما بنانے کی دعوت دی اور آج اس کلمے کا پرچم اٹھائے ، ہر مسلمان ملک میں نوجوان نسل ، اسلامی نظام قائم کرنے کی جدوجہد کر رہی ہے۔

            جنازہ آہستہ آہستہ قذافی اسٹیڈیم کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ ۵۔ اے ذیلدار پارک سے قذافی اسٹیڈیم تک چند فرلانگ کا فاصلہ کوئی سوا گھنٹے میں طے ہوتا ہے ۔ آخر جنازہ اسٹیڈیم میں داخل ہوتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اسٹیڈیم کی وسعتیں تنگ ہو جاتی ہیں ۔ تل دھرنے کو جگہ نہیں رہتی اور انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کے ایک بڑے حصے کو اسٹیڈیم سے باہر ہی رکنا پڑتا ہے ۔ اسٹیڈیم کی سیڑھیاں تک بھر گئی ہیں اور باہر دور دور تک لوگ کھڑے ہیں ، جنازہ کی آمد کے ساتھ اسٹیڈیم میں موجود انسانوں کے سمندر میں تلاطم برپا ہوتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ غمناک سکوت طاری ہو جاتا ہے ۔ اگلی صفوں میں بین الاقوامی شخصیات ، اکثر اسلامی ملکوں کے سفیر اور نمائندے ، دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے رہنما بیرون ملک سے آئے ہوئے وفود ، مقامی و ملکی و دینی و سیاسی قائدین اور اعلی فوجی حکام موجود ہیں اور اب صدر مملکت جنرل ضیاء الحق بھی گورنر پنجاب کے ہمراہ پہنچ گئے ہیں ۔ خطاب عربی زبان میں ہے لیکن دلوں کی زبان کا اپنا انداز ہوتا ہے اور وہ دلوں کے راستے ہی سے روح کی گہرائیوں میں اتر کر اپنے مفہوم خود پیدا کر لیتی ہے ۔ الازہر کے فاضل ، قطر یونیورسٹی کے ڈائریکٹر علامہ یوسف قرضاوی ، مرشد مودودی کو بڑے شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں۔ غم وحزن کے ساتھ ساتھ عربوں کی روایتی فصاحت اور جوش ان کی خطابت میں موجزن ہے ۔ وہ کہہ رہے ہیں :

            ‘‘ہم ہر حال میں اللہ کی تعریف بیان کریں گے ، ہر حال ، ہر مصیبت اور ہر تکلیف میں اسی سے مدد کے طالب ہونگے ، اس ذات واحد سے جس نے صبر کرنے والے اہل ایمان کو اپنی رحمت بے پایاں اور عنایت بے کراں سے نوازنے کی خوش خبری دی ہے کہ جب انہیں کوئی مصیبت اور تکلیف پہنچتی ہے تو شکوہ و شکایت زبان پر لانے کے بجائے انا للہ وانا الیہ راجعون پکار اٹھتے ہیں ۔ اس کے بعد درود وسلام ہو نبی ﷺ کی ذات اقدس پر جو تمام دنیا کے رہنما اور انبیا و رسل کے امام بنا کر بھیجے گئے اور جو ہماری تکلیف کے وقت خود ہماری تعزیت فرمانے والے ہیں ۔ درود وسلام ہو آپ کے اصحابؓ اور آپ کی آل پر اور سلام ہو ان تمام لوگوں پر جو دنیا میں اللہ تعالی کے دین کے علمبردار ہیں ۔

            میرے بھائیو! میں قطر یا ازہر سے یا کسی اور مقام سے صرف اپنا افسانہ غم بیان کرنے نہیں آیا ، شیخ مودودی تو آج کی دنیا کے امام ہیں ،اس نسل کے استاد ہیں ، اس ملت کے رہبر ہیں ، انہیں کیا ضرورت ہے کہ ہم ان کے لیے اپنے رنج و غم کا اظہار کریں ۔ وہ ان باتوں سے بلند و برتر ہیں ، میں تو آپ کو یہ بتانے آیا ہوں کہ تمام دنیا کے مسلمان شیخ مودودی کے فراق میں گریہ کناں ہیں ۔ شیخ محض پاکستان کے فرد نہیں ہیں، نہ وہ محض عالم اسلام کے فرد ہیں بلکہ وہ پوری ملت انسانیہ کے فرد ہیں اور یہ نقصان کسی ایک کا نقصان نہیں ہے پوری ملت اسلامیہ کا نقصان ہے ، اقصائے عالم میں بسنے والے تمام مسلمانوں کا نقصان ہے۔ یہ اللہ ہی ہے جو اس نقصان کی تلافی فرما سکتا ہے اور ہم اسی سے اس کے طلب گار ہیں ۔ استاذ مودودی فوت نہیں ہوئے ، ہم صرف ان کاجسد خاکی…… سپرد خاک کر رہے ہیں ۔ وہ زندہ ہیں اپنے افکار میں ، اپنے اصولوں میں اور اپنی دعوت میں ۔ جب تک ان کے افکار، اصول اور دعوت زندہ ہے وہ زندہ و تابندہ رہیں گے ۔ ’’

            یہ خراج عقیدت تھا مسلمانان عالم کی بزرگ نسل کی طرف سے ۔ شیخ یوسف قرضاوی کے بعد مسلم نوجوانوں کے عالمی رہنما ، ورلڈ مسلم اسمبلی آف اسسٹنٹ یوتھ کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر احمد توتبخی نے لاکھوں افراد کو گواہ بنا کر سیدی و مرشدی کے افکار کی رہنمائی میں اسلام کی دعوت کو پھیلانے اور اسے اجتماعی زندگی میں عملاً نافذ کرنے کی جہدوجہد کا عہد کیا ۔ انہوں نے کہا :

            ‘‘میں تقریباً آدھی دنیا کا چکر لگا چکا ہوں۔ میں نے کوئی جنگل ، کوئی شہر ، کوئی یونیورسٹی ایسی نہیں دیکھی جہاں استاد مودودی کے افکار ان لوگوں کی اپنی زبان میں موجود نہ ہوں ۔ ہم نوجوان استاد مودودی کے افکار کو لیکر آگے بڑھیں گے اور بڑھتے چلے جائیں گے اور انہیں پوری دنیا میں پھیلا کر دم لیں گے۔’’

            ساڑھے دس بجنے کو ہیں ۔ لوگ صفیں باندھنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ۔ مرشد کی میت امریکہ ، یورپ اور ایشیا تین براعظموں کی فضا میں سفر کرتی ہوئی پہنچی ہے ۔ ایشیا تو ان کی دعوت کا مرکزہے ،اس کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے جہاں اس دعوت سے متاثر نوجوان کسی نہ کسی درجے میں سرگرم عمل نہ ہوں ، امریکہ اور یورپ میں بھی اس دعوت کے فیضان سے بہرہ یاب ہو چکے ہیں ۔ ان تین براعظموں میں …… بفیلو میں ، کینڈی ایئر پورٹ پر ، لندن کے ہیتھرو ایئر پورٹ پر او رپھر کراچی کے ہوائی اڈے پر …… دس سے زائد مرتبہ نماز جنازہ پڑھی گئی ہے۔ غائبانہ نماز جنازہ کا تو کوئی شمار نہیں ۔ خانہ کعبہ اور مسجد نبوی میں لوگوں کی بڑی تعداد غائبانہ نماز جنازہ میں شریک ہوئی ۔ حرمین شریفین اور سعودی عرب کے دوسرے شہروں کے علاوہ دنیا کے گوشے گوشے میں ، ایشیا اور افریقہ کے شہروں اور قریوں میں ہزاروں غائبانہ نماز جنازہ پڑھی گئیں ۔ دنیا میں جہاں کہیں حق کی سربلندی کی جدوجہد کرنے والے موجود ہیں وہاں الصلوۃ علی الشیخ المودودی رحمتہ اللہ کی پکار گونج اٹھی اور اب چھ سات لاکھ کا مجمع گیارہوں بارہویں بار نماز جنازہ پڑھنے کے لیے صف بستہ ہو چکا ہے۔ یہ پاکستان ہی نہیں پورے عالم اسلام کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ ہے ۔ ایک حق بین وحق آگاہ مرد درویش کا جنازہ جس کے پاس نہ اقتدار تھا اور نہ دولت کہ اس نے لوگوں کے مفاد کی آبیاری کر کے دلوں کو مسخر کیا ہو۔ اس کے برعکس وہ زندگی بھر باطل اور نفاق کی قوتوں کے خلاف چومکھی جنگ لڑتا رہا جس کے پاس انقلابی افکار و عمل کے سوا دنیا کودینے کے لیے کچھ بھی نہ تھا ۔ وہ افکار جن کو اپناتے ہی انسان کے گرد و پیش کی دنیا دشمن ہوجاتی تھی اور جن کے خلاف کفر و باطل اور نفاق کی قوتوں نے ساری زندگی محاذ آرائی جاری رکھی۔ انہی افکار کی بنا پر اس مرد حق کے خلاف کفر و باطل کے علمبردار ہی نہیں ، زہد و ورع اور تدین و تقوی کے پیکران جمیل بھی صف آرا رہے۔ اسے ضال و مضل گردانا ، اپنے شاگردوں اور اندھی عقیدت رکھنے والوں کو اس کی کتابیں یہ کہہ کر پڑھنے سے روکا کہ ان میں گمراہی بھری پڑی ہے ۔ وہ کتابیں جنہیں پڑھ کر ہزاروں غیر مسلم اسلام کی آغوش میں آگئے ، ہزاروں گمراہوں نے ہدایت کا راستہ پایا اور ہزاروں ملحدوں نے توحید و سنت کی رسی پھر سے تھام لی ۔ اس کا نام بگاڑا گیا ، اپنی مجلسوں میں اس پر سب وشتم کی بوچھاڑ کی گئی۔ امام احمد بن حنبلؒ نے ایسے ہی حالات میں فرمایا تھا کہ بینی وبینکم یوم الجنائز ہمارے اور تمہارے درمیان یہ فیصلہ کہ اللہ کے نزدیک اس کا مقبول بندہ کون ہے موت کے دن جنازے کی کیفیت سے ہو گا اور آج اس وسیع و عریض اسٹیڈیم اور اس کے مضافات میں تینوں اطراف دور دور تک پھیلے ہوئے چھ سات لاکھ مسلمانوں کے اس فقید المثال اجتماع نے مرشد مودودی کے حق میں اپنی گواہی ثبت کر دی ہے ۔

            صفیں بندھ چکی ہیں۔ فضا میں غم آگیں خاموشی پھیلی ہوئی ہے۔ گاہے گاہے سسکیاں بلند ہوتی ہیں تو مجمع پر چھائی ہوئی سکوت کی چادر مرتعش ہونے لگتی ہے۔ میں چاروں طرف نگاہ دوڑاتا ہوں، دائیں جانب بالائی سیڑھیوں پہ کھڑے ہوئے کچھ لوگ رومال ہلا رہے ہیں گویا اہلِ حق کی آمد کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔اور یہ لوگ انہیں جلدی پہنچنے کو کہہ رہے ہیں کہ نماز جنازہ ہوا چاہتی ہے۔ میری نگاہوں میں کتابوں میں نقش، امام ابن تیمیہؒ کے سفر آخرت کا منظر پھر جاتا ہے۔ امام صاحب کے جنازہ کی صفیں باندھی جاچکی تھیں کہ ناگاہ کسی نے رندھی ہوئی آواز میں پکار کر کہا تھا کذا تکون جنائز ائمہ السنۃ(امامان سنت کے جنازوں کی یہ شان ہواکرتی ہے)وہ آواز جیسے میرے کانوں میں گونج رہی ہے اور میرا دل پکار اٹھتا ہے۔ یہ بات آج مرشد کے جنازے پر بھی ٹھیک ٹھیک صادق آتی ہے۔ میری گھڑی پر ٹھیک ساڑھے دس بج رہے ہیں۔ علامہ یوسف القرضاوی نماز جنازہ پڑھانے کے لیے آگے بڑھتے ہیں۔ میرا جی چاہتا ہے پکار کر کہوں، لوگو! اپنی گھڑیاں درست کر لو۔ مرشد مودودی جب کسی اجتماع میں تقریر کرنے پہنچتے تھے تو اتنے ٹھیک وقت پر پہنچتے تھے کہ لوگ اپنی گھڑیوں کا وقت ملا لیا کرتے تھے۔ لمحہ بھر سناٹا طاری رہتا ہے اور پھر قرضاوی صاحب کی آواز بلند ہوتی ہے...اللہ اکبر!.....

            نماز دبی سسکیوں اور بہتے آنسوؤں کے درمیان ختم ہوتی ہے۔ نماز جنازہ ایک مسلمان کا آخری ہدیہ ہے جو وہ اپنے کسی مسلمان بھائی اور عزیزکی خدمت میں، اس کے سفر آخرت کی پہلی منزل.... قبر.... کے حجاب میں روپوش ہونے سے پہلے پیش کرتا ہے اور یہ ہدیہ سسکتے اور تڑپتے دلوں کے ساتھ سید مودودیؒ کو پیش کیا جاچکا ہے۔ اعلان ہورہا ہے کہ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر میاں طفیل محمد اور مولانا کے صاحبزادے ڈاکٹراحمد فاروق ایک اہم اعلان کریں گے۔اس کے ساتھ ہی لوگ مرشد کے جنازے کو کندھا دینے کے والہانہ شوق میں صفیں توڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں اور لاؤڈ اسپیکر کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے.... مرشد کا تابوت دوبارہ پی آئی اے کے خوبصورت ٹرک میں رکھ دیا گیا ہے۔ ٹرک قذافی اسٹیڈیم سے نکلتا ہے۔ اس کا رخ منصورہ کے بجائے اچھرہ کی طرف ہے۔ یہ تھا وہ اعلان جو لاؤڈ اسپیکر کے دم توڑ جانے کی وجہ سے نہ ہوسکا تھا۔ مرشد کے اہل خاندان نے رات کا کیا ہوا فیصلہ بدل دیا ہے۔ انہیں مرشدکی تدفین ان کی چلائی ہوئی تحریک کے مرکزمیں منظور نہیں، وہ انہیں اپنے دل و جاں کے قریب اپنی رہائش گاہ کے لان میں سپردِ خاک کرنا چاہتے ہیں۔ اس فیصلے سے میرا سر چکرا گیا ہے۔ مرشد مودودی کا خاندان ان کے اہل بیت ہی نہیں ہیں، وہ لاکھوں افراد بھی ہیں جو ان کے دعوت اور پیغام کو حرزِ جاں بنائے دنیا بھر میں مصروف جہاد ہیں۔ پھر ان کے اہل بیت نے اس خاندان کو نظر انداز کر کے مرشد کو ایک رہائشی رقبے میں دفن کرنے کا فیصلہ کیوں کر لیا؟ میری سوچیں آپس میں گڈ مڈ ہور ہی ہیں۔میری ٹانگیں جیسے جواب دے چلی ہیں۔ میں سوگوار دل کے ساتھ افتاں و خیزاں تابوت کے پیچھے چل رہا ہوں، جس کا فاصلہ مجھ سے لحظہ بہ لحظہ بڑھتا جارہا ہے۔ اور جب میں مرشد کے کوچہ میں پہنچتا ہوں تو سینکڑوں افراد بے بسی کے عالم میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ ان کے افسردہ اور نڈھال چہرے کچھ اور افسردہ اور نڈھال ہوگئے ہیں۔ ۵۔اے ذیلدار پارک کے بلند آہنی دروازے بندکر دیے گئے ہیں اور دیوانگان شوق ان دروازوں اور دیواروں سے لپٹ لپٹ کر رو رہے ہیں۔ لیکن دروازے کیوں کھل سکتے ہیں؟ محدود سی جگہ میں کتنے لوگ سما سکتے ہیں؟ مجھے ان لوگوں کی خوش بختی پر رشک آرہا ہے جنہیں مرشد کی ابدی آرام گاہ پر مٹی ڈالنے کی سعادت حاصل ہوگی۔ اپنی محرومی پر میرا دماغ پھر کھولنے لگتا ہے، سوچوں میں پھر تلخی آجاتی ہے... اور پھر ذہن و دماغ میں دریچہ کھل جاتاہے اور ایک نئی سوچ ہوا کے تازہ اور خنک جھونکے کی طرح در آتی ہے۔ چھوٹے بڑے سب فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوتے ہیں اور ہرایک کے پیچھے اللہ کی کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے اور اس فیصلے میں اللہ کی حکمت شاید یہ ہے کہ مرشد کے وسیع و عریض دنیا میں پھیلے ہوئے اہل خاندان مجاور بن کر نہ رہ جائیں۔ ان کا کام مجاوری نہیں مرشد کے پیغام ا ور دعوت کو پھیلانا اور ان کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی جدوجہد کرنا ہے۔ چنانچہ اس نے ان کے جسدخاکی کی امانت ان کے اہلِ بیت کے حوالے کر دی ہے کہ وہی اس کے وارث ہیں۔ سوچ کے اس جھونکے سے دل ودماغ کی سے تلخیاں چھٹ جاتی ہیں.... بس ایک تمنا باقی رہ رہ کر تڑپا رہی ہے۔ کاش مرشد کی آخری آرام گاہ پر مٹی ڈالنے کی سعادت حاصل ہو جاتی۔منھا خلقنکم وفیھا نعیدکم ومنھا نخرجکم تارۃً اخری

۳

            ۲۷ ستمبر کے اخبارات سید مودودی کے فقیدالمثال جنازے کی تصاویر سے مزین شائع ہوئے ہیں۔ ان کا محتاط سے محتاط اندازہ ہے کہ پانچ سے سات لاکھ تک اہل ایمان اس عظیم انسان کے جنازے میں شریک ہوئے ۔ اخبارات کی سرخیاں، سیاہ حاشیوں کا لباس پہنے اس مرد درویش پر تحسین وعقیدت کے پھول برسا رہی ہیں۔ یہ عظیم مرد درویش اور اس کا سانحہ ارتحال پچھلے چار روز سے ان کا مرکز سخن بنا ہوا ہے۔ان اخبارات کی اکثریت اس عظیم انسان کی زندگی میں اس سے اختلاف کرتی رہی ہے، لیکن انسان کے مرنے کے بعد اس سے سارے اختلافات ختم ہوجاتے ہیں اور اس کی خوبیوں اور عالی شان کارناموں ہی کا ذکر پیچھے رہ جاتا ہے ۔ وہ خوبیاں جو اس کے اندر فی الواقع موجود تھیں اور وہ کارنامے جو اس نے حقیقتاً انجام دیے۔ سید مودودیؒ کے اوصاف حمیدہ، باقیات الصالحات اور دعوت و عزیمت کے کارناموں کا تذکرہ ہر سچ بولنے والی زبان پر ہے اور اخبارات کے کالم اور صفحات بھی اس تذکرے سے بھرے ہوئے ہیں۔ دو چار کا خبث باطن بھی ابل پڑا ہے، لیکن اکثریت ان اختلافات کو بھول کر اس مردِ حق کے اس مقام بلند و عظیم کا اعتراف کر رہی ہے جو اللہ نے اسے عطا فرمایا تھا۔ ان کے نزدیک سید مودودی کی وفات کسی ایک خاندان یاکسی ایک جماعت کا حادثہ نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کا مشترکہ صدمہ ہے۔ اکثر نے لکھا ہے کہ سید صاحب عالم اسلام کی متاع گراں بہا تھے جن کے چِھن جانے پر اسلام سے محبت رکھنے والا ہر شخص مغموم و مخزون ہے۔

فما کانا ھلاک قیس ھلاک واحد

ولکن بنیان قوم تھد ما

            سید صاحب کی مفارقت صرف ایک شخص کی جدائی نہیں ہے بلکہ پورے عالم اسلام میں مسلمان قوم کی عمارت گر گئی ہے۔

            اس مرد عظیم کی نصف صدی کی جدو جہد اسلامی تاریخ کا عظیم ترین سرمایہ ہے۔ حق کو سربلند کرنے کی اس علمی و عملی جدوجہد مرشد مودودی کو امت کے ان علما و صلحا، صدیقین اور اصحاب دعوت و عزیمت کی صف میں کھڑا کر دیا ہے ۔ جنہوں نے اپنے اپنے دو ر میں چاروں طرف پھیلی ہوئی ظلمتوں کا چراغ جلایا، اور اسلام کی دعوت کو پھیلانے اور اللہ کا کلمہ بلند کرنے کی جد و جہد کی اور اپنے افکار و کردار سے نہ صرف اپنے عہد پر بلکہ آنے والی نسلوں اور ادوار پہ بھی گہرے اثرات ثبت کیے اور اسلام کی تارخ میں ا یسے روشن نقوش زندگی چھوڑ گئے جو آج بھی کہکشاں کی طرح جمگگا رہے ہیں، جن کے افکار آج بھی زندہ ہیں، جیسے ابھی ابھی ان کی مشعل روشن کی گئی ہو۔

ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے

کہے دیتی ہے شوخی نقش پا کی

 ٭٭٭

            یہی بات پنجاب یونیورسٹی کے فیصل آڈیٹوریم میں تقریرکرتے ہوئے علامہ یوسف القرضاوی نے کہی۔ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے الگ الگ گزرنے والے دو جنازوں اور امام احمد بن حنبلؒ کے جنازے کا ذکر کرتے ہوئے کہا:

            ‘‘کل شیخ مودودیؒ کے فقید المثال جنازے نے ثابت کر دیا کہ وہ اللہ کے مقبول بندوں میں سے تھے۔ ان کی موت پر لاکھوں افراد رو رہے تھے۔ یہ بجائے خود اس بات کی شہادت تھی شیخ ذات حسنات کا مجموعہ تھے۔ ان شواہد کی موجودگی میں مَیں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ شیخ مودودی اللہ کی رحمت خاص سے سرفراز ہوگئے ہیں۔’’

            فیصل آڈیٹوریم کا یہ تعزیتی اجلاس عالمی اسلامی تحریک کے رہنماؤں کا گویا بین الاقوامی اجتماع تھا۔جس میں مقامی کارکن اور دانشور بھی بھاری تعداد میں شریک تھے۔ ان رہنماؤں میں بوڑھے بھی تھے اور جوان بھی تھے۔ ان میں استقامت کے وہ کوہِ گِراں بھی تھے جن کی زندگیوں کے بیس بیس پچیس پچیس برس ظلم و استبداد کی چکی میں پستے ہوئے قید خانوں میں گزرتے تھے لیکن جنہوں نے دعوت حق کا پرچم سرنگوں نہیں ہونے دیا تھا۔ بوڑھے تجدید عہد کی تلقین کر رہے تھے۔ اس عہد کی تجدید جو شیخ مودودیؒ نے اپنے اللہ سے باندھا تھا اور ان کی دعوت پر لبیک کہنے والوں نے باندھا تھا۔ ‘‘قافلے رکا نہیں کرتے’’ عالمی تحریک اسلامی کے ایک عظیم قائد کہہ رہے تھے۔ ان کی آواز غم اور آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی تھی، لیکن، لہجے میں عزم اور اثبات تھا۔ ‘‘تحریک اسلامی ایک عظیم قافلہ ہے جو عنقریب انشا اللہ اپنی منزل تک پہنچ جائے گا۔ آیے ہم اپنے عزم کو تازہ اور ایمان کی تجدید کریں کہ تمام دشواریوں کے باوجود ہم کہیں نہ رکیں گے۔ یا تو اپنی منزل کو دنیا میں پا لیں گے یا اس کے راستے میں اپنی جان دے دیں گے.... آیے ہم اس بات کا عہد کریں کہ مولانا کے نقش قدم پر چلیں گے اور مولانا کا نقش قدم کتاب و سنت پر عمل کرنا ہے۔’’ یہ بزرگ رہنما جماعت اسلامی ہند کے امیر مولانا محمد یوسف تھے۔ اسی عہد اور عزم کا اعلان مائیک پر آنے والے ہر رہنما کی زبان پر تھا۔ پیرایہ اظہار ہر ایک کا الگ تھا،مگر ایک ہی بات تھی جو ہر دل سے نکل رہی تھی۔

            نوجوان بھی تجدید عہد کا اعلان کر رہے تھے۔ ڈاکٹر احمد توتنجی جنہیں سید مودودی نے امام الشباب کے لقب سے یاد فرمایا تھا اور جنہوں نے جنازے کے موقع پر بھی جدو جہد جاری رکھنے کا عہد باندھا تھا، آج وہ پھر اس عہد کو دہرا رہے تھے۔ ‘‘اگر ہمیں اپنے قائد سے محبت ہے تو ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ان کے مشن کو آگے بڑھائیں۔’’ ڈاکٹر توتنجی نے پھر اس عزم صمیم کا اعلان کیا کہ ‘‘انشا اللہ ہم اسلام کے کلمہ کو سربلند کریں گے۔’’ اس اعلان کا اعادہ پاکستان کے مسلم نوجوانوں کی طرف سے ان کے ایک قائد (لیاقت بلوچ) نے کیا: ‘‘ہم کسی مفاد اور نفس کی پرستش کے لیے نہیں بلکہ صرف اللہ کے لیے اپنی جوانیوں کو لٹانے اور کھپانے کا عہد کر تے ہیں، ہم مولانا محترم کے بعد اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ ان کی روح کو شرمندہ نہ ہونے دیں گے۔’’

            مرشد مودودیؒ نے جب دعوت کا آغاز کیا تو اس کو قبول کرنے والوں کی بھاری اکثریت نوجوانوں کی تھی اور ہر دور میں نوجوان ہی ان کی خصوصی توجہ کا مرکز رہے اور آخری دور میں تو ان کی ساری امیدیں نوجوان نسل ہی سے وابستہ ہوگئی تھیں۔ اور اب جب کہ مرشد اپنے رب کے جوار میں پہنچ گئے ہیں، وہ اپنے پیچھے اسلام میں نوجوانوں کے لیے زندگی بخش افکار سے اپنے دلوں کو منور کر کے کہیں میدان عمل میں جدو جہد کر رہی ہے اور کہیں اس جدوجہد کی تیاری میں مصروف ہے۔ یہ نوجوان دنیا کے دور دراز گوشوں، جنگلوں، کوہساروں اور صحراؤں کے نخلستانوں تک میں پائے جاتے ہیں۔ ڈاکٹراحمد توتنجی نے اپنی تقریر میں مرشد مودودی کے افکار کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ایسے مقامات پر بھی اپنا نور پھیلا رہے ہیں جہاں جدید دور کی سہولتوں اور وسائل کا دور دور تک گزر نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ ایک مرتبہ افریقہ کے انتہائی دور افتادہ علاقے میں گئے۔ وہاں کچھ نوجوانوں کو دیکھا کہ وہ اجتماعی مطالعہ میں مستغرق ہیں۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ وہ اپنی علاقائی زبان میں سید مودودی کی کسی کتاب کا مطالعہ کر رہے ہیں۔

            مرشد مودودی کے افکار سے دل و دماغ کو روشن کرنے والی یہ نوجوان نسل، متحرک اور فعال نسل ہے۔ اسے اللہ نے شعور و احساس اور جرات و عزیمت کی دولت بے بہا اور قربانی کے جذبہ فراواں سے نوازا ہے۔ وہ مشرق و مغرب میں غالب و تہذیبی و سیاسی نظریات کے اس چیلنج کو سمجھتی اور اس سے نبرد آرا ہونے کی صلاحیت اور حوصلہ رکھتی ہے، مرشد مودودی جس کا زندگی بھر مقابلہ کرتے رہے اور جو اب ان کی رحلت کے بعد اور زیادہ گھمبیر ہوگیا ہے۔

۴

            سید مودودی ایک ہمہ جہت، ہمہ گیر اور جامع کمالات و فضائل شخصیت تھے۔ایک ایسی شخصیت جس کے تذکرے کے بغیر امت کی دینی اور تہذیبی وسیاسی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی۔ معاصرانہ چشمک اور کدورتوں کے گردو غبار میں اس عظیم انسان کی علمی رفعتوں، راہبرانہ کردار اور زندگی کے کارناموں کو کچھ مدت تک تو نگاہوں سے اوجھل کیا جاسکتا ہے، مگر ہمیشہ کے لیے نہیں۔ مستقبل کا مورخ جب اسلام کی سیاسی و فکری اور دعوت و عزیمت کی تاریخ لکھنے بیٹھے گا تو یہ گردو غبار بیٹھ چکا ہوگا۔ اس گردو غبار کے اٹھانے والے بھی ایک ایک کر کے اپنے رب کے حضور پہنچ چکے ہوں گے۔ اس وقت مورخ اس گردو غبار کو جھاڑ دے گا اور اس عظیم شخصیت کو حقائق کی کسوٹی پر پرکھے گا تو وہ اس کے ساتھ پورا پورا انصاف کرے گا اور اسے تاریخ میں وہ اعلیٰ مقام دے گا جس یہ عظیم انسان فی الواقع مستحق ہے۔

            مرشد مودودی اپنے فکر و کردار ، اپنی عزیمت او ر اللہ کی راہ میں جہاد مسلسل کے اعتبار سے بلا شبہ عظیم انسان تھے۔ ان کے تذکرے کے لیے دفتر کے دفتر درکار ہیں۔ وہ عصر حاضر میں پہلے عالم دین تھے جنہوں نے جدید دور کے تہذیبی و تمدنی مسائل کا حل خالص اسلام کی روشنی میں پیش کیا۔ وہ ایک ایسے عہد میں پیدا ہوئے اور فکر ونظر کی تربیت حاصل کر کے پروان چڑھے جب مغربی افکار و تہذیب کا ہر طرف سکہ رواں تھے، اس سے مرعوبیت تقریباً ہر پڑھے لکھے دماغ پر مسلط ہوچکی تھی اور اسلام کی کتربیونت کا مشغلہ عام ہوگیا تھا۔ تہذیبی و معاشرتی مسائل کو حل کرتے وقت یہ دیکھا جاتا تھا کہ مغربی و فکر و تہذیب کیا حکم صادر کرتی ہے اور پھر اس کے مطابق اسلام کی تعبیرات پیش کی جاتی تھیں۔ اس کوشش میں اسلام کا حلیہ تک بدل جاتا مگر اس حل کو اسلام کی روح کے مطابق قرار دیا جاتا اس طرح جدید مسائل کو اسلام کی روشنی میں حل کرنے کی ہر کوشش اسلام کا ایک نیا ایڈیشن تیارکرنے پر منتج ہورہی تھی۔ یہ صرف اس ملک کہ حالت نہ تھی جس میں سید مودودی پیدا ہوئے تھے، بلکہ پورا عالم اسلام اس سنگین صورت حال سے دوچار تھا۔ ہر جگہ اسلام کے نئے ایڈیشن تیار ہورہے تھے۔ علمائے دین یا تو مغرب کی تہذیبی یلغار سے آنکھیں بند کیے فروعی جنگ و جدال میں مصروف تھے یا اس یلغار کے آگے بالکل بے بس تھے کہ یہ تہذیب جن ہتھیاروں سے مسلح تھی، ان کی کاٹ کا کوئی سامان ان حضرات کرام کے پاس نہ تھا۔ یہ خود اس تہذیب کی پیدا کردہ مرعوبیت کا کسی نہ کسی درجے میں شکار ہوگئے تھے۔ مرشد مودودی اس دور کے دینی رِجال میں واحد شخصیت تھے جنہوں نے قدیم و جدید دونوں قسم کے علوم سے بھر پور استفادہ کیا تھا اور مغرب کے تہذیبی و تمدنی فلسفے اور افکار اور ان ہتھیاروں سے مکمل طور پر واقفیت حاصل کی تھی جن کے بل پر ایک دنیا کو اس نے اپنا محکوم بنا لیا تھا۔ چنانچہ وہ اس سے ذرابھی مرعوب نہ تھے۔ ان کی فکر خالص، اسلامی فکر تھی، کتاب و سنت کے سرچشمے سے اخذ کردہ فکر... نئی اور پرانی جاہلیتوں سے پاک فکر۔ وہ جو بات بھی کہتے اس کے حق میں کتاب و سنت کے دلائل دیتے۔ وہ عقلی استدلال سے بھی کام لیتے، لیکن ان کی عقل بھٹکی ہوئی نہ تھی بلکہ کتاب و سنت کے نور سے روشن، راست رو عقل تھی۔ اس لیے کتاب و سنت کے دلائل کے ساتھ مل کر ان کا عقلی استدلال ایسی قوت بن جاتا جس کے آگے کوئی غلط رو فکر اور گمراہ عقل ٹھہر نہ پاتی.... آزادی نسواں، مساواتِ مردوزن، پردہ، اجتہاد، سود، عائلی قوانین، یتیم پوتے کی وراثت، ضبط ولادت غرض دینی، تہذیبی اور معاشرتی زندگی سے تعلق رکھنے والے کتنے ہی مسائل اور معاملات تھے کہ ان کے بارے میں سوچتے وقت بڑے بڑے اساطین علم سید صاحب کے اپنے ملک ہی میں نہیں دوسرے مسلمان ملکوں میں بھی، مغربی فکر و تہذیب کی یلغار کے آگے سپر انداز ہوگئے۔ انہوں نے اسلامی احکام کو قصہ ماضی قرار دے کر یا تو صاف مسترد کر دیا یا ان کی دور از کار تاویلات کر کے حقائق کا چہرہ مسخ کرنے لگے۔ سید صاحب نے ان امور و مسائل میں ٹھیٹھ اسلامی تعلیمات و احکام کی روشنی میں امت کی رہنمائی کی اور مغربی فکر و تہذیب سے متاثر افراد کے موقف کے شرعی و عقلی دلائل کے ساتھ تردید کی۔ سید مودودیؒ کی نہ تو فکراچھوتی تھی اور نہ ان کے نظریات نئے تھے۔ ان کی فکر خالص اسلامی فکر اور ان کے نظریات کتاب و سنت سے ماخوذ اور غیر اسلامی فکر اور نظریات سے مطلقاً پاک تھے۔ بس ان کو پیش کرنے اور ان کے حق میں دلائل دینے کا انداز نیا اور جدید ذہنوں کو مسخر کرنے والا تھا۔ انہوں نے اپنے علمی تبحر اور قلم کی بے پناہ قوت سے مغربی فکر وتہذیب کے چیلنج کا ہر محاذ پر موثر و مسکت جواب دیا۔ ( جاری ہے )