یتیم شہزادہ کے ٹھوکریں

مصنف : محمد عثمان بخاری

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : جنوری 2008

انتخاب: محمد عثمان بخاری

۱۸۵۷ کی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے مسلمانوں، خاص طو ر پرعلما اور مغلیہ خاندان پر جو قیامت برپا کی وہ تاریخ کا المنا ک باب ہے ۔ہزاروں بے گناہ پھانسیوں کی بھینٹ چڑھادیے گئے اور شہزادیاں اور شہزادے کسمپرسی اور بے بسی کی اذیت ناک تصویر بن کر رہ گئے۔ ان لوگوں نے اپنی زندگی کے بقیہ دن کس طرح پورے کیے ، اس کے بارے میں سوئے حرم خواجہ حسن نظامی کی تحریر کردہ سچی کہانیاں شائع کر رہا ہے ۔ یہ تاریخ کا وہ عبرت کدہ ہے کہ جس سے سبق ملتا ہے کہ جو قومیں جفا کشی ، علم و عمل اور اعلی اقدار چھوڑ کر عیش و عشرت کی دلدادہ ہوجاتی ہیں ان کا اور ان کے ورثا کا حشر پھر یہی ہوا کرتا ہے ۔

 

            ماہ عالم ایک شہزادہ کا نام تھا جو شاہ عالم بادشاہ دہلی کے نواسوں میں تھا اور غدر میں اس کی عمر صرف گیارہ برس کی تھی ۔شہزادہ ماہ عالم کے باپ مرزا نوروز حیدر دیگر خاندان شاہی کی طرح بہادر شاہ کی سرکار سے سو روپیہ ماہوار تنخواہ پاتے تھے مگر ان کی والدہ کے پاس قدیم زمانہ کا بہت سا اندوختہ تھا ،اس لیے ان کو روپیہ کی چنداں پروا نہیں تھی اور وہ بڑی بڑی تنخواہوں کے شہزادوں کی طرح گزراوقات کرتے تھے ۔

            جب غدر پڑا تو ماہ عالم کی والدہ بیمار تھیں ۔علاج ہو رہا تھا مگر مرض برابر بڑھتا جاتا تھا یہاں تک کہ عین اس روز جب کہ بہادر شاہ قلعے سے نکلے اور شہر کی تمام رعایا پریشان ہو کر چاروں طرف بھاگنے لگی ،ماہ عالم کی والدہ کا انتقال ہوگیا ایسی گھبراہٹ کے موقع پر سب کو اپنی جان کے لالے پڑ ے ہوئے تھے ،اس موت نے عجیب ہراس پیدا کر دی ۔اس وقت نہ کفن کا سامان ممکن تھا نہ دفن کا، نہ غسل دینے والی عورت میسر ا ٓسکتی تھی ،نہ کوئی مرد ے کے پاس بیٹھنے والا تھا ۔شہزادوں میں یہ رسم ہوگئی تھی کہ مردے کے پاس نہ جاتے ،سب کام پیشہ وروں سے لیا جاتا تھا ،جو اس وقت کے لیے ہمیشہ تیاررہتے تھے۔ غدر کی عالمگیر مصیبت کے سبب کوئی آدمی ایسا نہ ملا جو تجہیزوتکفین کی خدمت انجام کو پہنچاتا ۔گھر میں دو لونڈیا ں تھیں لیکن وہ بھی مردے کو نہلانا نہ جانتی تھیں ۔خود مرزا نوروز حیدر اگر چہ پڑھے لکھے شخص تھے مگر چونکہ ان کو ایسا کام پیش نہ آیا تھا ،اس لیے اسلامی طریق پر غسل وکفن سے وہ بھی واقفیت نہ رکھتے تھے ۔القصہ ان لوگوں کو اس حیرانی وپریشانی میں کئی گھنٹے گزر گئے ۔اتنا میں سنا کہ انگریزی لشکر شہر میں گھس آیا ہے اور عنقریب قلعہ میں آیا چاہتا ہے اس خبر سے مرزا کے رہے سہے اوسان بھی جاتے رہے اور جلدی سے لاش کو چار پائی پر کپڑے اتار کر نہلانا شروع کیا ۔نہلایا کیا ،بس پانی کے لوٹے بھر بھر کر اوپر ڈال دئیے ۔کفن کہاں سے ملتا شہر تو بند تھا ۔پلنگ پر بچھانے کی دو اجلی چادریں لیں اوراس میں لاش کو لپیٹ دیا ۔اب یہ فکر ہوئی کہ دفن کہاں کریں ،باہر لے جانے کا موقع نہیں اسی سوچ میں تھے کہ گوروں اور سکھوں کی فوج کے چند سپاہی گھر میں آگئے اور آتے ہی مرزا اور ان کے لڑکے ماہ عالم کو گرفتار کر لیا ۔اس کے بعد گھر کا سامان لوٹنے لگے ۔صندوق توڑ ڈالے ،الماریوں کے کواڑ اُکھیڑ دئیے ،کتابوں کو آگ لگا دی۔ دونوں لونڈیاں غسل خا نوں میں جا چھپی تھیں ۔ ایک سپاہی کی ان پر نگاہ پڑ گئی ،اس نے دیکھتے ہی اندر گھس کر کے بال پکڑے اور بے چاریوں کو گھسیٹتا ہوا باہر لے آیا ۔اگر چہ ان فو جیوں کو لاش کا حال معلوم ہوگیا تھا مگر انھوں نے اس کی مطلق پروانہ کی اور برابر لوٹ مار کرتے رہے ۔آخر قیمتی سامان کی گٹھڑیاں لونڈیوں اور خود مرزا نوروز حیدر اور ان کے لڑکے ماہ عالم کے سر پر رکھیں اور بکریوں کی طرح ان کو ہانکتے ہوئے گھر سے باہر لے چلے ۔اس وقت مرزا نے اپنے لٹے ہوئے گھر کو آخری حسرت بھری نگاہ سے دیکھا اور اپنی بیوی کی بے گوروکفن لاش کو اکیلا چارپائی پر چھوڑ کر ظلمی سپاہیوں کے ساتھ کوچ کیا ۔

            لونڈیوں کو تو بو جھ اٹھانے اور چلنے پھرنے کی عادت تھی ۔مرزا نوروز حیدر بھی قوی اور توانا تھے ،بوجھ سر پر اٹھائے بے تکان چل رہے تھے مگر غریب ماہ عالم کی بری حالت تھی اوّل تو اس کے سر پر بوجھ اس کی عمر اور بساط سے زیادہ تھا ۔اس کے علاوہ یہ شہزادہ قدرتی طور پر نہایت نازک اور کمزور واقع ہوا تھا ۔ساتھ ہی ماں کے مرنے کا غم بھی تھا ۔رات سے روتے روتے آنکھیں سوج گئی تھیں ۔خالی چلنے سے ہی چکر آتے تھے ،کجا یہ نوبت کہ سر پر بوجھ،پیچھے چمکتی ہوئی تلوار یں اور جلدی چلنے کی قہر ناک تاکید ،بے چارے کے پاؤں لڑ کھڑا تے تھے ۔دم چڑھ گیا ،بدن پسینہ پسینہ ہوگیا تھا ۔آخر نہایت مجبوری کی حالت میں باپ سے کہا :‘‘ابّا حضرت مجھ سے تو چلا نہیں جاتا ،گردن بوجھ کے مارے ٹوٹی جاتی ہے ،آنکھوں کے سامنے اندھیرا آرہا ہے ،ایسانہ ہو کہ گر پڑوں ۔’’ باپ سے اپنے لاڈلے اکلو تے بچے کی یہ مصیبت بھری باتیں سنی نہ گئیں اور اس نے مڑ کر سپاہی سے کہا :‘‘صاحب اس بچے کا اسباب بھی مجھ کو دے دو ،یہ بیمار ہے گر پڑے گا ۔’’ گورا مرزا کی زبان بالکل نہ سمجھا اور اس طرح ٹھہرنے اور بات کرنے کو گستا خی اور بد نیتی سمجھ کر دو تین مکے کمر میں مارے اور آگے دھکا دے دیا مظلوم مرزا نے مار بھی کھائی مگر مامتا کے مارے لڑکے کا بو جھ بغل میں لے لیا ۔گورے کو یہ حرکت بھی پسند نہ آئی اور اس نے جبرًا مرزا سے گٹھڑی لے کر ماہ عالم کے سر پر رکھی اور ایک گھونسا اس بیکس و نا تواں کے بھی مارا ۔گھونسا کھا کر ماہ عالم آہ کہہ کر گر پڑا اور بے ہو ش ہوگیا ۔مرزا نوروز حیدر اپنے لخت جگر کی حالت دیکھ کر جوش میں آگئے اور اسباب پھینک کر ایک ایک مکہ گورے کے کلے پر رسید کیا اور پھر فوراً ہی دوسرا گھونسہ اس کی ناک پر مارا جس سے گورے کی ناک کا بانسہ پھٹ گیا اور خون کا فوارہ چلنے لگا ۔سکھ سپاہی دوسری طرف چلے گئے تھے ۔اس وقت فقط دو گورے ان قیدیوں کے ساتھ تھے اور کیمپ کو لیے جارہے تھے دوسرے گورے نے اپنے ساتھی کی یہ حالت دیکھ کر مرزا کے ایک سنگین ماری ۔مگر خدا کی قدرت سنگین کا وار اوچھا پڑا اور وہ مرزا کی کمر کے پا س سے کھال چھیلتی ہوئی نکل گئی ۔تیموری شہزادہ نے اس موقع کو غنیمت جانا اور لپک کر ایک مکا اس گورے کی ناک پر بھی مارا ۔یہ مکا بھی ایسا کاری پڑا کہ ناک پچک گئی اور خون بہنے لگا ۔گورے یہ حالت دیکھ کر پستول وکرچ تو بھول گئے اور ایک بارگی دونوں کے دونوں مرزا کو چمٹ گئے اور گھونسوں سے مارنے لگے ۔لونڈیوں نے جو یہ حالت دیکھی تو اسباب پھینک کر رستے کی خاک مٹھیوں میں بھر کر گوروں کی آنکھ میں جھونک دی ۔ اس نا گہا نی آفت سے گورے تھوڑی دیر کے لیے بیکار ہوگئے اور ان کی کرچ مرزا کے ہاتھ آگئی مرزا نے فورًا کر چ گھسیٹ لی اور ایک ایسا بھر پور ہاتھ مارا کہ کرچ نے شانے سے سینے تک کاٹ ڈالا اس کے بعد دوسرے گورے پر حملہ کیا اور اسے بھی ذبح کر دیا ۔ان دونوں کو ہلاک کر کے ماہ عالم کی طرف متوجہ ہوئے ،وہ بالکل بے ہوش تھا۔باپ کی گود میں لیتے ہی آنکھیں کھول دیں ،اور باہیں گلے میں ڈال کر رونے لگا ۔مرزا اسی حالت میں تھے کہ پیچھے سے دس بارہ گورے اور سکھ سپاہی آگئے اور انھوں نے اپنے دو ساتھیوں کو خون میں نہا یا دیکھ کر مرزا کو گھیر لیا اور لڑکے سے جدا کر کے حال پوچھا ۔مرزا نے سارا واقعہ سچ سچ کہہ دیا سنتے ہی گوروں کی حالت غصہ سے غیر ہوگئی ۔انھوں نے پستول کے چھ فائر یک دم کر دئیے جن سے زخمی ہو کر مرزا گر پڑے اور آنًا فانًا میں تڑپ کر مر گئے ۔مرزا نوروز کی لاش کو وہیں چھوڑ دیا گیا اور ماہ عالم کو لونڈیوں سمیت پہاڑی کے کیمپ میں لے گئے ۔

            جب دہلی کی فتح سے اطمینان ہو گیا تو لونڈیاں دو پنجابی افسروں کو دے دی گئیں اور ماہ عالم ایک انگریز افسر کی خدمت گاری پر مامور ہوئے۔جب تک یہ انگریز دہلی میں رہے ماہ عالم کو زیادہ تکلیف نہ تھی کیونکہ صاحب کے ساتھ کئی خانسا ماں اور نوکر چاکر تھے اس واسطے زیادہ کام کاج نہ کرنا پڑتا تھا ،لیکن چند روز بعد یہ صاحب رخصت لے کر ولایت چلے گئے اور ماہ عالم کو ایک دوسرے افسر کے حوالہ کر گئے جو میرٹھ چھاؤنی میں تھے ۔اس افسر کا مزاج سخت تھا ،بات بات پر ٹھوکریں مارتا تھا ۔ ماہ عالم اس مار دھاڑ کو برداشت نہ کر سکے اور ایک دن بھاگنے کا ارادہ کیا چنانچہ پچھلی رات کو گھر سے نکلے ۔پہرہ دار نے ٹوکا تو کہہ دیا فلاں صاحب کا نوکر ہوں اور ان کے کام کو فلاں گاؤں میں جاتا ہوں تاکہ سویرے ہی پہنچ جاؤں ۔اس حیلہ سے جان بچائی اور جنگل کا راستہ لیا ۔

            چھوٹی عمر ،راستے سے بے خبر ،پکڑے جانے کا خوف ،عجیب پریشانی کا عالم تھا ۔آخر بہ ہزار دقت صبح ہوتے ہوتے میرٹھ سے تین چار کوس کے فاصلہ پر پہنچ گئے ۔سامنے گاؤ ں تھا وہاں جا کر ایک مسجد میں ٹھہرے گئے ۔ملا صاحب نے سوالات شروع کئے:تو کون ہے ، کہاں سے آیا ہے ،کہاں جائے گا ۔ماہ عالم نے ان کو باتوں باتوں میں ٹالا ۔یہاں ایک فقیر بھی ٹھہرے ہوئے تھے ،انھوں نے جو ماہ عالم کی شریفانہ صورت دیکھی تو محبت سے پاس بلایا اور رات کی بچی ہوئی روٹی سامنے رکھی ۔ماہ عالم نے شاہ صاحب کو ہمدرد پا کر اپنی مصیبت کی داستان اوّل سے آخر تک سنائی۔شاہ صاحب یہ کیفیت سن کر رونے لگے اور ماہ عالم کو سینہ سے لگاکر پیار کیا اور تسلی کی باتیں کرنے لگے ۔اس کے بعد کہا اب تم فکر نہ کرو میرے ساتھ رہو خدا حافظ وناصر ہے ۔چنانچہ انھوں نے ایک رنگین کرتا ان کو پہنا دیا اور ساتھ لے کر چل کھڑے ہوئے ۔دو چار روز تو یہ حالت رہی کہ جہاں ماہ عالم نے کہا حضرت اب تو میں تھک گیا تو کسی گاؤں ٹھہرجاتے ۔لیکن پھر ان کو بھی چلنے کی عادت ہو گئی اور پوری منزل چلنے لگے مہینے بھر میں اجمیر شریف پہنچے ۔یہاں ان صاحب کے پیر تھے جو بغداد کے رہنے والے تھے ۔ان پیر صاحب کو جب ماہ عالم کا حال معلوم ہوا تو وہ بھی مہر بانی سے پیش آئے اور ان دونوں کو ساتھ لے کر بمبئی چلے گئے ۔یہاں انہوں نے کئی برس تک ماہ عالم کورکھا۔ یہاں رہ کر ماہ عالم نے قرآن شریف اور مسئلہ مسائل کی کتابیں پڑھیں اور نماز روزے سے بھی خوب واقف ہو گئے ۔تب شاہ صاحب نے ان کی وہیں کسی نیک بخت سے شادی کر دی اور انھوں نے اسی جگہ رہنا اختیار کر لیا۔