دوسرے کو سمجھیے، پھر سمجھائیے

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : نومبر 2009

            ٹرین کے اُس ڈبے میں ہر کوئی خاموشی سے سفر کر رہا تھا۔ اسی اثنا میں ٹرین ایک سٹیشن پر رکی تو ایک صاحب اپنے چار بچوں کے ساتھ داخل ہوئے۔بچوں نے آتے ہی اودھم مچانا شروع کر دیا جبکہ ان کا باپ آنکھیں بند کر کے اپنی سیٹ پر نیم دراز ہو گیا۔ بچوں کے شور و غل سے مسافر بہت پریشان ہوئے ہر کوئی یہ توقع کر رہا تھا کہ ان کا باپ مداخلت کر کے ان بچوں کو باز کر ے گا مگر وہ بدستور اپنی دنیا میں مگن تھا۔ اس صورت حال میں ایک مسافر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور اس نے کہا ، جناب ، توجہ فرمائیے ، براہ کرم اپنے بچوں کو اپنے پاس بٹھائیے اور انہیں چیخ و پکار سے منع کیجیے ۔ اسکی آواز سے بچوں کا باپ چونکا اور کہنے لگا ، ہاں ، ہا ں شاید آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ مجھے ان کو واقعی منع کرنا چاہیے ۔اصل میں ہم سب ہسپتال سے آرہے ہیں۔ جہاں ابھی دو گھنٹے قبل ان کی ماں کا انتقال ہو گیا ہے۔ اور اصل میں ان بچوں کو بھی یہ سمجھ نہیں آرہا کہ انہیں کیا کرنا چاہیے ۔

            مسافر کی اس بات کے ساتھ ہی اُس ڈبے کاماحول یکسر بدل گیا ۔ وہ لوگ جو پہلے اسے بیزاری سے دیکھ رہے تھے ، اب اسے ہمدردی سے دیکھنے لگے اور کئی ایک نے تو یہ پیشکش بھی کی کہ وہ اس موقع پر اس کی کیا مدد کرسکتے ہیں۔یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے اس بات کی کہ دوسرے کے حالات ، واقعات اور خیالات نہ جاننے اور سمجھنے کی وجہ سے کس قدر غلط فہمی اور بدگمانی جنم لے سکتی ہے اور اگر یہ سب سمجھ لیا جائے تو پیش منظر اور ماحول کس طرح بدل جایا کرتا ہے۔

            ہمارے گھروں ، اداروں اورمعاشرے میں بہت سی غلط فہمیاں ، جھگڑے ، مسائل محض اس بات کا شاخسانہ ہوتے ہیں کہ ہم نے اپنے مدمقابل یا مخاطب کو سمجھانے سے قبل کما حقہ سمجھا نہیں ہوتا۔ اس لیے معاشرتی امن اورمحبت کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ ہم دوسروں کو سمجھانے سے قبل خود ان کو سمجھیں ۔ ورنہ سمجھانا مسائل کوحل کرنے کے بجائے بڑھانے کا باعث بن جائے گا ۔ جب تک ہم اس بات سے آگا ہ نہ ہوں کہ ہمارا مخاطب ذہنی طور پر کس مقام پر کھڑا ہے اور وہ کن مسائل میں گھرا ہواہے ، ہمارا سمجھانا نہ صرف ایک کارِ عبث ہوتا ہے بلکہ بعض حالات میں صورت حال کو بگاڑنے کا باعث بھی بنتاہے۔ جب آپ خود یہ چاہتے ہیں کہ دوسرے آپ کواور آپ کے نقطہ نظر کو سمجھیں تو بعینہ یہی توقع دوسرے بھی آپ سے کرتے ہیں اور یہی وہ بات ہے جس کو حضور نے نہایت خوبصورت جملے میں بیان کر دیا ہے جس کامفہوم یہ ہے کہ جوتم اپنے لیے پسند نہیں کرتے وہ دوسرے کے لیے کیوں پسند کرتے ہو؟