خط

مصنف : صلاح الدین یوسف

سلسلہ : آرا و تاثرات

شمارہ : اکتوبر 2009

بسم اللہ الرحمان الرحیم

محترم بخاری صاحب - دام اقبالکم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

            آپ کے مرتبہ ‘‘سوئے حرم’’ کے دو خصوصی ایڈیشن نظر نواز ہوئے۔ آپ کی یاد فرمائی کا شکریہ۔ جزاکم اللہ احسن الجزا

            آپ نے اپنی دانست میں تفسیر قرآن کا جو اسلوب اختیار کیا ہے، اس کا تعلق تو نیت سے ہے جس کا علم صرف اللہ کو ہے اور اسی کے مطابق وہ جزا عطا فرمائے گا۔ لیکن ایک چیز جس پر مجھے سخت تعجب ہوا ہے یہ ہے کہ بعض تفسیری اقتباسات بالکل بے اصل بلکہ قرآن کریم پر بہتان ہیں اور آپ نے ان کو بھی اپنی مزعومہ غیر جانبداری یا غیر فرقہ وارانہ روش سمجھ کر نقل کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر:‘‘مسئلہ اس سے یہ معلوم ہوا کہ کسی کو بشر کہنے میں اس کے فضائل و کمالات کے انکار کا پہلو نکلتا ہے اس لیے قرآن پاک میں جابجا انبیاء کرام کو بشر کہنے والوں کو کافر فرمایا گیا اور در حقیقت انبیاء کی شان میں ایسا لفظ ادب سے دور اور کفار کا دستور ہے۔ (خزائن العرفان، سوئے حرم، ص۱۱۱)’’

            کیا واقعی ایسا ہے کہ بشر کہنے سے فضائل و کمالات کا انکار ہوتا ہے؟ تو پھر قل انما انابشر مثلکم جیسی آیاتِ قرآنیہ کا کیا مطلب ہوگا؟ کیا اللہ تعالیٰ خود پیغمبر سے اپنی بشریت کا اظہار کروا کے پیغمبری فضائل و کمالات کا انکار کروا رہا ہے؟ پھر یہ کہنا کہ ‘‘یہ کفار کا دستور ہے؟’’ اگر یہ صحیح ہے تو پیغمبر بہ زبان خود اپنی بشریت کا اظہار کر رہا ہے، تو اس کو کیا کہیں گے؟ پیغمبر کے اقرار و اعتراف کو کفار کا دستور کہنا، کیسی شوخ چشمانہ جسارت ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔پھرستم بالائے ستم یہ کہنا کہ‘‘اس لیے قرآن پاک میں جا بجا انبیائے کرام کو بشر کہنے والوں کو کافر فرمایا گیا ہے۔’’یہ قرآن کریم پر کتنا بڑا بہتان ہے۔ جابجا تو کجا کسی بھی ایک مقام کی نشاندہی فرمائی جا سکتی ہے جہاں بشر کہنے والوں کو کافر قرار دیا گیا ہو؟ تفسیر کے نام پر قرآن پر یہ افک و افتراء، کیا کسی مسلمان کے لیے قابل برداشت ہے؟ آپ کی ہمت قابل داد ہے کہ آپ یہ سب کچھ تفسیر قرآن کے نام پر، جسے آپ نے ‘‘نور القرآن’’ کا نام دیا ہے، چھاپ رہے ہیں۔ ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کنند

والسلام

صلاح الدین یوسف

۱۰رمضان المبارک، ۱۴۳۰ھ

یکم ستمبر، ۲۰۰۹ء