رنگ برنگے الفاظ

مصنف : ڈاکٹر سید حامد حسین

سلسلہ : لسانیات

شمارہ : اکتوبر 2009

قسط -۱

قدرت نے خارجی دنیا کو خوبصورت اور رنگین بنانے کے لیے اسے طرح طرح کے رنگوں سے آراستہ کیا ہے۔ انسان کے لیے یہ رنگ خارجی زندگی میں حسن و مسرت، خوف یا دہشت کا نظارہ ہی بہم نہیں پہنچاتے، بلکہ وہ رنگا رنگ تجربوں اور گو ناگوں افکار و تاثرات کی علامت بن کر اس کے فکر و خیال کے لیے نئی جہتوں کے امکانات بھی پیدا کرتے ہیں۔ اس کا بھر پور مظاہرہ تقریباً ہر زبان کے ان اسالیب میں ملتا ہے جو لفظوں، فقروں، محاوروں اور تماثیل کی شکل میں دکھائی دیتا ہے۔

سیاہ اور سفید واضح طور پر ایک معنوی تضاد کے حامل ہیں۔ جہاں سیاہی کو بدی بدکاری اور بدقسمتی کی علامت سمجھاجاتا رہا ہے، وہیں سفید کو نیکی اور نیکوکاری اورخوش بختی کی۔ چنانچہ سیاہ باطن، سیاہ دل یا دل کا کالا وہ ہے جو بدی کو سوچتا ہے، بدی پر آمادہ رہتا ہے اور جس سے نیکی اور نرم دلی کوسوں دور رہتی ہے۔ اسی لحاظ سے سیاہ کار وہ ہے جو گناہ کا راستہ اختیار کرتا ہے اور بدکاری اور بد کرداری کو اپنا شعار بناتا ہے اوراس کے گناہ یا اخلاق، شرافت اور قانون ضابطوں کے خلاف کام اس کے کالے کرتوت کہلاتے ہیں۔

اسی سے ‘‘کالا’’ کسی چیز کی ایسی شدت کو ظاہر کرتا ہے جو خوف و دہشت کا سبب بنے جیسے کالا کلوٹا شخص جو کاجل کی طرح کالا ہو اور اسے دیکھ کر طبیعت میں اس کی طرف سے ایک انحراف پیدا ہو۔ ‘‘کالے’’ کا لفظ اسی لیے سانپ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ نہ صرف کالا سانپ (کوبرا) زہریلا ہوتا ہے بلکہ کنڈلی مارے، پھن پھیلائے زبان لپلپاتے سانپ کو دیکھ کر اندر سے تھر تھری سی پیدا ہوتی ہے۔ اور لوگوں کے اس وہم کے تدارک کے لیے کہ سانپ کا نام لینے سے سانپ نکل آتا ہے اس کو اشارۃً ‘‘کالا’’ کہنا بھی کافی سمجھا جاتا ہے۔ ایک فقرہ ہے ‘‘کالا بھجنگ’’ جو ایسے موٹے تگڑے، کالے کلوٹے شخص کے لیے بولا جاتا ہے جسے دیکھ کرہیبت طاری ہوتی ہے۔ ‘‘فرہنگ آصفیہ’’ میں ‘‘بھجنگ’کو بھجنگا نامی پرندے سے نسبت دی گئی ہے۔ جب کہ ‘‘بھجنگ’’ کالے سانپ یا ناگ کو کہتے ہیں۔ ڈراؤنی بلا کو ایک کالے سایے کی شکل میں تصور کرتے ہوئے اسے ‘‘کالی بلا’’ کہا گیا ہے۔ بہار او رملحقہ علاقوں میں بعض اوقات ‘‘کالا آزار’’ نام کی مہلک بیماری پھیل جاتی ہے۔ ہندی ڈکشنریاں اسے ‘‘کالا جوار’’ یعنی میعادی بخار سے ماخوذ سمجھتی ہیں۔ لیکن ‘‘آزار’’ کو تکلیف یا تکلیف دہ مرض کے معنی میں مستعمل فارسی لفظ ماننے میں کوئی امر مانع نہیں، امراض کی دہشت انگیزی کے مد نظر ان کے ساتھ ‘‘کالے’’ کا استعمال کیا جانا ایک عام بات ہے۔ الجھی ہوئی خشک کھانسی کو یوں تو عام زبان میں ‘‘کُکر کھانسی’’ یعنی کتے جیسی کھانسی کہا جاتا ہے لیکن اس مرض کی شدت کے مدنظر اسے ‘‘کالی کھانسی’’ کہاجانے لگا ہے۔ اسی انداز پر چیچک کے خطرناک مرض کو ‘‘کالی ستیلا’’ کا نام دیا گیا ہے۔

جزائر انڈمان کو ‘‘کالا پانی’’ کہنے کے پیچھے بھی اس دہشت و ہراس کو محسوس کیا جا سکتا ہے جو مجرموں کو اس وقت کے عام خیال کے مطابق ایسے غیر صحت مند آب و ہوا والے جزائر میں جہاں آدم خور قبائلی بستے تھے، عمر قید کی سزا بھگتنے کے لیے بھیجے جانے کے خیال سے پیدا ہوتا تھا۔ حالانکہ ہندی ڈکشنریوں ‘‘ہندی شبد ساگر’’ اور ‘‘مانک ہندی کوش’’ میں یہ تشریح کی گئی ہے کہ خلیج بنگال کے اس حصے کا پانی کالا ہوتا ہے لیکن یہ بات کسی جغرافیائی حقیقت پر مبنی نہیں ہے اور یہ شاید بعد میں کی گئی توجیہ ہے۔ انگریزی لغت میں سمندر پار کر کے جانے پر سماجی پابندی تھی اور سمندر پار جانے والے کو ذات سے باہر نکالا جا سکتا تھا۔ چنانچہ جن لوگوں کو انڈمان بھیجا جاتا تھا ان کے لیے یہ سزا سماجی اعتبار سے بھی باعث رسوائی تھی اور انڈمان ان کے لیے کالا یعنی منحوس پانی تھا لیکن تاریخی اعتبار سے انڈمان ایسی اکیلی جگہ نہیں تھی جہاں ہندوستانیوں کو جلا وطن کیا گیا ہو۔ اٹھارھویں صدی میں انگلینڈ کے جلا وطن جنوب مغربی سماترا میں واقع بنکولین کی بستی بھیجے جاتے تھے اور ہندوستانی مجرموں کا پہلا گروہ بھی وہیں ۱۷۸۷ء میں بھیجا گیا۔ ۱۸۲۳ء میں ہندوستانی جلا وطن ڈچ بسیت پنانگ بھیجے جانے لگے۔ لیکن دو سال بعد انھیں برطانوی عملداری میں سنگاپور اور ملا کا بھیجنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

۱۷۸۹ ء میں کیپٹن آرچی بالڈ بلیئر نے (جس کے نام پر پورٹ بلیئر ہے) انڈمان کے ایک چھوٹے سے جزیرے چے تھم آئی لینڈ میں جلا وطنوں کی بستی قائم کرنے کی ابتدائی کوشش کی تھی، لیکن ۱۷۹۱ء میں اس بستی کو انڈمان کے اس حصے میں منتقل کیا گیا جو اب پورٹ بلیئر کہلاتی ہے لیکن اس وقت اس کا نام پورٹ کارنولس رکھا گیا تھا۔ ۱۸۵۷ء میں انگریزوں کے خلاف بغاوت کے جرم میں بڑی تعداد میں ہندوستانیوں کو عمر قید کی سزا دی گئی جو کہ اس وقت کی اصطلاح کے مطابق ‘‘بعبور دریائے شور’’ مقرر کی گئی۔ ۱۸۵۸ء سے ان قیدیوں کو انڈمان بھیجا جانے لگا اور اسی وقت سے کالا پانی کی اصطلاح رواج میں آئی۔ ایک امکان یہ بھی ہے کہ ابتداء ً ‘‘بعبور دریائے شور’’ کا لفظی ترجمہ ‘‘کھارے پانی کے پار’’ استعمال میں آیا ہو لیکن بعد میں سزا کی دہشت انگیزی کے سبب ‘‘کھارے پانی’’ نے ‘‘ کالے پانی’’ کی شکل اختیار کر لی ہو۔ غالباً اسی قسم کے تاثرات بعض ہندی ماہرین کے اس رجحان کی بنیاد بنے ہیں جس کے تحت وہ انڈمان کی اصل ‘‘ارندمان’’ کو مانتے ہیں جس میں اند اپنے اندر تاریکی، اندھیرا کا مفہوم رکھتا ہے، لیکن مغربی محققین اس کی تائید نہیں کرتے۔ انسائکلوپیڈیا برٹینکا ملایا کی زبان کے لفظ ‘‘ہندمان’’ کو انڈمان کی اصل بتاتی ہے اور ‘‘ہندومان’’ کو ‘‘ہنومان’’ کی بدلی ہوئی شکل قرار دیتی ہے۔ ‘‘ہابسن جابسن’’ میں انڈمان کو ‘‘آگمان’’ سے ماخوذ بتایا گیا ہے۔ اس لغت کے مطابق ‘‘آگم’’ ملایا کی زبان میں ان قبائلیوں کا نام تھا اور ‘‘الف نون’’ عربی تثنیہ کا ہے کیونکہ یہ نام سب سے پہلے عربی تحریرات میں ملتا ہے۔

اس طرح جس کام میں شدت ہو یا جو ناقابل عبور یا ناقابل تسخیر ہو اسے بھی ‘‘کالے’’ سے تعبیر کیا جانے لگا جیسے ‘‘کالے کوسوں’’ سے ایک طویل دشوار گزار مسافت کو مراد لیا گیا۔ ‘‘کالا پہاڑ’’ سے اس کام یا شخص کی جانب اشارہ کیا گیا جس کو پورا کرنا یا شکست دینا آسان نہ ہو۔ ہندوستانی تاریخ میں ایسے دو لوگوں کا ذکر ملتا ہے جو ‘‘کالا پہاڑ ’’ کے نام سے معروف تھے۔ بہلول لودھی کا ایک بھانجا جو سکندر لودھی سے لڑا تھا اور دوسرا مرشد آباد کے نواب سلیمان کا ایک سپہ سالار جس نے اڑیسہ اور آسام پر چڑھائی کر کے بڑی فتوحات حاصل کیں، مگر ۱۵۸۳ ء میں اکبر فوج سے لڑتا ہوا مارا گیا۔

قانون کا اپنا کوئی رنگ نہیں ہوتا لیکن کالا قانون اسے کہا گیا جو زیادتی کرتا ہو، انصاف کی جگہ اس سے بے انصافی کا اندیشہ ہو، اور اس سے لوگوں میں ایک دہشت پیدا ہو اور ممکنہ زیادتیوں کے اندیشے سے لوگوں کو احتجاج پر آمادہ کرے۔ ہندوستان میں ‘‘کالا قانون’’ یا بلیک ایکٹ کی اصطلاح کو سب سے پہلے انگریزوں نے ہی میکالے کے ۱۸۳۶ ء میں جاری کیے گئے اس قانون کے خلاف استعمال کیا تھا جس کے تحت دیوانی معاملوں میں انگریزوں کو بھی انھیں عدالتوں میں پیش ہونا ضروری قرار دیا گیا جس میں ہندوستانی جج سماعت کرتے تھے۔ جب کہ اس سے قبل ہر قسم کے معاملات میں انگریزوں کے معاملات صرف انگریزی جج ہی سنتے تھے۔ انگریزوں نے ایک ایسے قانون کو جو گوری نسل کے کسی فریق کو دیسی جج کے سامنے پیش ہونے کے لیے مجبور کرے، گوری نسل کی توہین قرار دیتے ہوئے اس قانون کو کالے قانون کانام دیا تھا۔ ہندوستانیوں نے جس قانون کوکالا قانون بتاتے ہوئے پورے شد و مد سے مخالفت کی وہ ۱۹۱۹ ء میں انگریز حکومت کا جاری کیا ہوا رولٹ ایکٹ تھا جس کے تحت کسی بھی ہندوستانی کو عدالت میں پیش کیے اور مقدمہ چلائے بغیر حراست میں رکھا جا سکتا تھا اور اسی قانون کے تحت ستیہ پال اور سیف الدین کچوکی گرفتاری کے احتجاج میں کئے گئے امرتسر کے جلیان والا باغ میں ہونے والے جلسے پر جنرل ڈائر نے گولی چلانے کا حکم دے کر قتل عام کروایا تھا۔

کالا رنگ بعض اوقات کسی پر اسرار کیفیت کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، جیسے ‘‘کالا چور’’۔ جب رات کے وقت لنگوٹی باندھے جسم پر تیل چپڑے ایک کالا کلوٹا انسان چراغ کی روشنی میں سایے کی طرح بچ بچ کر ادھر سے ادھر قدم رکھتا دکھائی دے تو ظاہر ہے کہ وہ بڑا پر اسرار معلوم ہو گا۔ چنانچہ ‘‘کالا چور’’ کی اصطلاح ایک نامعلوم شخص کے لیے استعمال ہونے لگی۔ اسی طرح دال میں کالا کسی پر اسرار گڑ بڑ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

آج کل کسی ہوائی جہاز کے حادثے میں تباہ ہونے کے بعد اس کے بلیک باکس کی تلاش ہوتی ہے۔ دراصل اس FLIGHT DATA RECORDER کی مدد سے حادثے سے فوراً پہلے کی کیفیت کی ریکارڈنگ کے ذریعے حادثے کا سبب معلوم کرنے میں آسانی ہوتی ہے،مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ باکس کالے رنگ کا نہیں ہوتا بلکہ اس غرض سے کہ وہ دور سے آسانی سے نظر آ سکے۔ اسے نارنجی رنگ کے پینٹ سے پوت دیا جاتا ہے۔ تو پھر اس نارنجی بکسے کا نام بلیک باکس کیسے پڑا۔ ہوا یوں کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران جب اس قسم کے باکس ہوائی جہاز کے لازمی ساز و سامان کا حصہ بنائے گئے تو رائل ائیر فورس کے پائلٹوں نے اس ڈبے کے اندر رکھے ہوئے خفیہ ساز و سامان کے مد نظر مذاق میں اس کا نام بلیک باکس رکھ دیا جو اس کے ساتھ مستقلاً وابستہ ہو گیا۔ کالا رنگ اس میں صرف پر اسرار کیفیت کو ظاہر کرتا ہے۔

‘‘کالی جمعرات ’’ سے کوئی ایسا دن مراد لیا جاتا ہے جس کا کوئی وجود نہ ہو اور جو کبھی نہ آئے۔ نیشنل بک ٹرسٹ، دہلی کی جانب سے ایس ڈبلیو فیلن کی مرتب کی ہوئی مشہور لغت کا ہندی ترجمہ ڈاکٹر کرشنا نند گپت نے ‘‘ہندی کہاوت کوش’’ کے نام سے شائع کیا ہے۔ اس میں ‘‘کالی جمعرات کا وعدہ’’ کرنا کے تحت یہ تحریر کیا گیا ہے ۔ ‘‘کالی جمعرات، کرشن پکش کے آخری برہسپت وار کو کہتے ہیں جو مسلمانی مہینے کے آخر میں پڑتا ہے’’۔ یعنی قمری مہینے کے نصف آخر میں آنے والی آخری جمعرات۔ اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آخری جمعرات کا کوئی وجود ہوا ہے کیونکہ وہ ہر ماہ واقع ہوتی ہے۔ جب کہ کالی جمعرات ایک فرضی اور موہوم بات ہے لیکن اس مفہوم میں کالا ہونے اور جمعرات کا باہمی ربط کیا ہے۔ اس سلسلے میں دو قیاسات کیے جا سکتے ہیں۔ ایک تو جمعرات سے ذہن رات کی طرف جاتا ہے اور رات کالی ہوتی ہے، اس لیے کالی جمعرات اور سفید جمعرات کوئی قابل قدر امتیاز نہیں ہے۔ دوسرے یہ ہو سکتا ہے کہ محاورہ ایجاد کرنے والوں نے ‘‘کالی جمعرات’’ کہہ کر ‘‘نوچندی جمعرات’’ سے تضاد پیدا کیا ہو۔ نو چندی جمعرات وہ جمعرات کہلاتی ہے جس پر نیا چاند دکھائی دیتا ہے۔ بعض قسم کی عملیات کی تاثیر کے لیے یہ ضروری سمجھا جاتا ہے کہ وہ نوچندی جمعرات کو ہی کیے جائیں۔ اس لیے ‘‘نوچندی جمعرات’’ کامیابی اور امید برآری کے امکان لے کر آتی ہے۔ جب کہ اس کے مقابلے میں ‘‘کالی جمعرات’’ اپنا وجود نہ ہونے کے سبب بے فیض ہے اور ناکامی اور مایوسی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

اندھیرے کی تمثیل دینے کے لیے بھی کالے رنگ کو اختیار کیا گیا ہے۔ چنانچہ وہ تنگ و تاریک قید خانہ جس میں سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے والے مجرموں کو قید تنہائی میں رکھا جاتا، اسے ‘‘کال کوٹھری’’ کا نام دیا گیا۔ وہ شدید آندھی جس میں گرد و غبار کثرت سے اٹھنے کے سبب اندھیرا ہو جائے وہ ‘‘کالی آندھی’’ کہلائی۔

۳ ستمبر ۱۹۳۹ ء سے جب کہ دوسری عالمی جنگ کا آغاز ہوا، ۸ مئی ۱۹۴۵ ء تک جب یہ جنگ ختم ہوئی انگلستان میں یہ لازمی رہا کہ ہوائی بم باری سے تحفظ کی ایک تدبیر کے طور پر لوگ رات کے وقت اپنے گھروں کی کھڑکیوں کے شیشوں کو اس طرح ڈھانک کر رکھیں کہ ذرا سی بھی روشنی باہر نہ آسکے۔ سڑکوں اور گھروں کے گرد و پیش اندھیرا رکھنے کی اس کارروائی کو ‘‘بلیک آؤٹ’’ کہا گیا لیکن آج اس اصطلاح کو توسیع دے کر اس سے نشر و اشاعت کے میدان میں بھی کام لیا جانے لگا ہے۔ جب کسی مصلحت سے کسی خاص قسم کی خبروں اور اطلاعات کوپوری طرح سنسر کر دیا جاتا ہے اور اس سلسلے میں لوگوں تک کوئی بات نہیں پہنچنے دی جاتی تو یہ کہا جاتا ہے کہ خبروں کو بلیک آوٹ کر دیا گیا۔

دوسری عالمی جنگ نے ‘‘کالے بازار’’ (بلیک مارکیٹ) کی اصطلاح بھی دی ۔ جنگ کے دنوں میں عام اشیائے صرف کی کمی ہو جانے کے باعث چیزوں کا راشن مقرر کر دیا گیا۔ لیکن رات کے اندھیرے میں راشن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بعض لوگوں نے چوری چھپے غیر تجارت کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس کاروبار کو کالا بازاری کا نام دیا گیا۔ جنگ تو ۱۹۴۵ ء میں ختم ہو گئی لیکن قانون کی نظر سے بچ کر تجارت کرنے اور غلط طریقوں سے منافع اکٹھا کرنے کا سلسلہ پھیلتا گیا۔ یہاں تک کہ ۱۹۷۵ء تک غیر قانونی طور پر جمع کی ہوئی دولت کی بنیاد پر ، ظاہر اور قانونی مالی وسائل پر منحصر معاشی نظام کے متوازی ایک اور معیشت ابھر آئی۔ اسے کالی معیشت (BLACK ECONOMY) کا نام دیا گیااور کالا دھن (BLACK MONEY) بہت سے ملکوں میں ایک بڑا مسئلہ بن گیا۔

انگریزی زبان سے مستعار لیا ہوا ایک لفظ ‘‘بلیک میل’’ ہے۔ اس کا بھی تعلق غلط طریقے سے پیسے اینٹھنے سے ہے۔ پرانے زمانے میں انگلستان میں ٹیکس یا لگان ادا کرنے کے دو طریقے تھے۔ یا تو چاندی یا چاندی کے سکوں میں ادائیگی کی جائے، جو سفید ادائیگی کہلاتی تھی۔ یا پھر مویشی ، جنس، محنت و مزدوری کر کے یا ہلکے سکوں کی شکل میں جسے کالی ادائیگی سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ جس زمانے میں اسکاٹ لینڈ کے بعض حصوں پر ناروے کے وائے کنگ لوگوں کا قبضہ تھا، وہ مقامی لوگوں سے جو کہ زیادہ تر کم حیثیت کے لوگ ہوتے تھے اسی قسم کی کالی ادائیگی کی شکل میں خراج وصول کرتے تھے۔ بعد میں اسکاٹ لینڈ کی سرحدوں پر لٹیروں نے لوٹ مار شروع کی۔ جو لوگ وہاں مستقل رہتے تھے یا جو مسافر بغیر ستائے ہوئے سرحد کے آر پار جانا چاہتے تھے وہ ان لٹیروں کو مقررہ رقم ادا کر کے پریشانی سے بچ جایا کرتے تھے ۔ اسے بھی ‘‘بلیک میل’’ کہا جاتا حالانکہ یہ ادائیگی اکثر رائج سکوں میں ہوتی۔ بعد میں لوگوں کو ڈرا دھمکا کر وصول کی جانے والی رقم کے لیے ہی بلیک میل کا لفظ مخصوص ہو گیا۔

قدیم مصر میں کالے رنگ کو ماتمی رنگ کے اعتبار سے استعمال کیا جاتا تھا۔ بعد میں یونانیوں اور رومیوں نے بھی اس رواج کو اپنایا اور مغربی ایشیا میں بھی سیاہ پوشی سوگ کی علامت بن گئی۔ مسیحیوں نے کالے رنگ کو روحانیت سے وابستہ کیا اور زندگی کی لذتوں اور رنگینیوں کو ترک کر دینے کی علامت کی شکل میں پادریوں، راہبوں اور راہباؤں نے کالے رنگ کے رسمی لباس کو اپنایا۔

کالے رنگ کو رسوائی اور نحوست سے بھی وابستہ کیا گیا۔ بعض سماجوں میں مجرموں کو رسوا کرنے اور دوسروں کو غیرت دلانے کی غرض سے مجرم کے منہ پر کالک پوت کر اس کا جلوس نکالا جاتا۔ کبھی مجرم کے سر پر کالی ہانڈی رکھ کر اسے گلی کوچوں میں گھمایا جاتا۔ چنانچہ انتہائی بے حیائی کا کام کرنے کو ‘‘کالا منہ کرنے’’ سے تعبیر کیا جاتا او ر‘‘کالا منہ ہونا’’، ‘‘کلنک لگنا’’ وغیرہ محاوروں نے رسوائی کے معنوں میں جنم لیا۔ رسوائی کے ساتھ ساتھ پٹائی بھی کی جائے اور جسم پر نیلے نشان پڑ جائیں تو کہا جاتا ‘‘کالامنہ نیلے پیر’’۔

جن لوگوں کو سزائے موت دی جانی ہوتی یا اپنے مجرمانہ عمل کی بنا پر یا کسی دوسری وجہ سے ناپسندیدہ ریکارڈ ہوتا، ان کے نام بعض اوقات کالی جلد والی ایک نوٹ بک میں درج کر لینے کا یورپ میں رواج تھا۔ چنانچہ بادشاہ کے ایسے درباری جن کی وفاداری مشتبہ ہو۔ ایسے تاجر جو نادہندہ ثابت ہوئے ہوں، کارخانے میں ایسے کام کرنے والے جو مالک کے لیے درد سر بنے ہوں، اس قسم کے لوگوں کی فہرست کو کالی فہرست (بلیک لسٹ) کہا جاتا۔ اسی طرح جو کسی گروہ میں رہتے ہوئے، اس گروہ کو نقصان پہنچائے جو مزدوروں کے درمیان رہ کر مالکوں کے لیے جاسوسی کرنے یا مالکوں کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے مزدوروں میں پھوٹ ڈالے اسے ‘‘کالی بھیڑ’’ (BLACK SHEEP) کا نام دیا جاتا، کیونکہ بعض بھیڑ پالنے والے یہ سمجھا کرتے تھے کہ ان کے گلے میں شامل کالی بھیڑ کے اندر شیطان یا کسی خبیث روح نے حلول کر لیا ہے اور وہ اسے دوسری بھیڑوں کے لیے کسی آفت کا پیش خیمہ سمجھتے اور ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے۔

ایسا جادو ٹونا جس میں بھوت پریت، شیطان اور خبیث روحوں کو جگایا جائے اور مذہبی اعتبار سے ممنوعہ طریقے اپنائے جائیں، اسے کالا جادو کہا جاتا ہے۔ اسی طرح وہ شخص جو اگر کسی نقصان کی بات کرے اور وہ نقصان ہو کر رہے اسے ‘‘کالی زبان’’ کا کہا جاتا ہے۔ بعض لوگوں کے بارے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ جس کی اچھی یا خوش شکل چیز کو دیکھ لیں یا کسی کی کامیابی کودیکھ کر جل جائیں اور وہ شخص فوراً بری نظر کا شکار ہو جائے اور نقصان اٹھائے تو ایسے لوگوں کو ‘‘کالی نظر’’ والا کہا جاتا ہے۔ اور نظر بد کے اثر کو زائل کرنے کے لیے کالے رنگ کا اکثر استعمال کیا جاتا ہے جیسے بچے کو کاجل کا ٹیکا لگا دیتے ہیں یا بعض ٹرک والے اپنے ٹرک کو کالی چوٹیوں وغیرہ سے سجاتے ہیں۔ اس طرح یہ سمجھا جاتا ہے کہ جن چیزوں میں نقص ہو اسے نظر بد کا خطرہ نہیں ہوتا۔

آج کل ادبی تنقید کی دہلیز پر بلیک ہیومر (BLACK HUMOUR ) کی اصطلاح کھڑی ہے۔ اس قسم کی بے رحم کامیڈی میں موت، آفت، قتل ، پاگل پن، جنسی بے اعتدالی جیسے ناگوار موضوعات سے کھلواڑ کی جاتی ہے اور ایک قسم کے شقاوت آمیز مزاح کا تاثر پیدا کیا جاتا ہے۔ حالانکہ اس اصطلاح کا استعمال سب سے پہلے فرانسیسی سورلیسٹ ادیب آندرے برے تاں نے ۱۹۴۰ء میں کیا تھا۔ اسے ۱۹۶۰ ء میں ایبسرڈ تھیٹر کے فروغ کے ساتھ مقبولیت حاصل ہوئی اور خاص طور پر یوجین ایو نیسکو، ولادیمر نباکوو اور نتھے نیل ویسٹ جیسے ادیبوں کی تخلیقات کے حوالے سے بلیک ہیومر کی بات کی گئی۔ ایبسرڈ تھیٹر کے ذریعے انسانی زندگی میں کسی واضح نظام کے فقدان کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی اور سنجیدہ و غیر سنجیدہ ، منطقی یا غیر منطقی درد و مسرت کی حد بندیوں کو بے معنی ثابت کر کے وجود کی بنیادی بے معنویت کو پہنچاننا چاہا۔ بلیک ہیومر بھی سنجیدہ اور غیر سنجیدہ موضوعات کو الگ الگ خانوں میں رکھنے کے بجائے جو ناگوار، ناپسندیدہ اور غیر سنجیدہ ہے اس کو مزاح کا وسیلہ بنانے کی ایک کوشش ہے۔

عربی میں ‘‘کالا’’ کے لیے ‘‘اسود’’ کا لفظ استعمال ہوتا ہے جیسے ایشیائی ترکی (ایشیائے کوچک) کے شمال میں واقع سمندر کو بحر اسود (BLACK SEA) کہا جاتا ہے۔ اسے پہلے بحر نیطس کہتے تھے لیکن بعد میں غالباً اس وجہ سے کہ یہاں طوفان کے ساتھ ساتھ اکثر سطح سمندر پر دھند چھائی رہتی ہے اور دور سے کچھ سجھائی نہیں دیتا، اسے بحر اسود یا کالے سمندر کا نام دیا گیا۔

براعظم افریقہ کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک سوڈان ہے۔ دراصل لفظ ‘‘سودان’’ عربی لفظ ‘‘اسود’’ کی جمع ہے اور کیونکہ اس ملک میں کالی نسل کے لوگ آباد ہیں، اس لیے عربوں نے اس ملک کو ‘‘بلاد السودان’’ کا نام دیا ہے جسے انگریز اپنی زبان کے ہجوں میں اور تلفظ کے اعتبار سے ‘‘سوڈان’’ کہنے لگے۔

اردو میں ‘‘اسود’’ پر مبنی جو لفظ سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے وہ مسودہ (م س و ۔ ودہ) ہے جسے ہندی میں مسودہ کی شکل میں اپنا لیا گیا ہے۔ اردو میں مستعمل لفظ تسوید کا اسم مفعول ہے۔ ‘‘تسوید’’ کا مطلب ہوتا ہے ‘‘کالا کرنا’’ کیونکہ لکھائی کا کام سیاہی سے کیا جاتا ہے اور سیاہی شروع میں چراغ کے کاجل سے تیار کی جاتی تھی اس لیے سیاہی (کالے رنگ کی چیز) کی مدد سے نقش کرنے کے کام کو تحریر کرنے کے معنی میں استعمال کیا جانے لگا۔ انگریزی میں (TO PUT IN BLACK AND WHITE) اور بول چال کی ہندوستانی زبان میں ‘‘کاغذ کالا کرنے’’ سے تحریر کرنے کا مطلب لیا جاتا ہے۔ مسودّہ تیار کرنے سے ایک خصوصی مفہوم یہ پیدا کیا گیا کہ تحریر اپنی ابتدائی شکل میں ہے اور اس میں کانٹ چھانٹ اور ترمیم و اضافہ کے بعد آخری شکل دینے کی گنجایش ابھی باقی ہے ۔ یعنی مسودّہ وہ ابتدائی خاکہ ہے جس میں بار بار ترمیم کر کے صفحے کو اچھا خاصہ کالا کیا گیا ہو۔ اس کے مقابلے میں مسودے کو آخری شکل دینے کے بعد جو صاف ستھری نقل تیار کی جائے اسے مبیضہ (مُ بئ۔ یضہ) کہا گیا۔ مبیضہ کے لغوی معنی ہوتے ہیں ‘‘سفید کیا ہوا’’۔ یہاں سفید کرنے سے مراد صاف کرنا، خوش خط لکھنا ہے۔ ‘‘بیاض ’’ بھی قریب کا لفظ ہے۔ اس کے لغوی معنی سفیدی کے ہوتے ہیں جیسے ‘‘بیاض صبح’’ (صبح کی سفیدی، روشنی) لیکن بیاض سے ایسی سادہ کاغذوں کی نوٹ بک مراد لی جاتی ہے جس میں یادداشتیں، پسندید اشعار وغیرہ قلمبند کیے جا سکیں۔ ساتھ ہی اس نوٹ بک کو جس میں اشعار صاف صاف لکھیں ہوں، بیاض کہنے لگے۔

ایک پرانی ہندی کہاوت ہے: ‘‘کالا اکھشر بھینس برابر’’ اب اس کا مفہوم کچھ اس طرح لیا جانے لگا ہے جیسے بغیر پڑھے لکھے یا جاہل شخص کے لیے تحریر کی ہوئی عبارت بے معنی ہے۔ وہ کالے رنگ سے لکھے حروف کو بھینس یا کچھ بھی سمجھ سکتا ہے۔ اصل میں ‘‘کالا اکھشر’’ سے مراد ایسا حرف یا تحریر تھا جو پڑھنے میں دشواری کا سبب بنے۔ اور یہ کہاوت بد خطی اور مغلق، سمجھ میں نہ آنے والی تحریر کے خلاف تنبیہ تھی۔ کیونکہ اگر آپ بے توجہی کے ساتھ کسی بھی انداز سے الٹا سیدھا کچھ گھسیٹ دیں یا بات کو بے وجہ توڑ مروڑ کر ، گھما پھرا کر، موٹے موٹے الفاظ یا بھاری بھرکم اصطلاحات یا پیچ دار دلائل سے گراں بار کر کے پیش کریں گے تو بات تو پڑھنے والے کے لیے کوئی واضح مفہوم پیدا نہیں کر پائے گی اور اسے وہ بھینس ، گھوڑا، ریچھ کچھ بھی سمجھ سکتا ہے۔

رنگ برنگ جھنڈیاں بھی بڑے کار آمد اشاروں کی شکل میں استعمال کی جاتی ہیں۔ کالی جھنڈیاں آج کل افسوس، ناراضگی،ماتم، احتجاج اور مخالفت کے اظہار کے لیے کام میں لائی جاتی ہیں۔ پہلے بحری قزاق اپنے جہازوں پر کالے جھنڈے لگایا کرتے تھے جن پر بعض اوقات سفید رنگ سے کھوپڑی اور اس کے نیچے ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی دو ہڈیاں بنائی جاتی تھیں۔ کھوپڑی اور ہڈیوں کا یہ نشان آج بھی بعض اوقات خطرے کے نشان کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، جیسا کہ آپ نے اکثر بجلی کے زیادہ طاقت والے کرنٹ کے ساز و سامان پر دیکھا ہو گا، لیکن خبردار کرنے والے ان نشانات کوزیادہ تر سرخ رنگ والی زمین والی تختیوں پر نقش کیا جاتا ہے۔احتجاج اور غصے کے اظہار کے لیے جس طرح کبھی کبھی ‘‘مردہ باد’’ کے نعرے لگائے جاتے ہیں، اسی طرح ناراضگی کے اظہار کے لیے سوگ کو ظاہر کرنے والی کالی جھنڈیاں دکھائی جاتی ہیں یا کالی پٹیاں بازو پر باندھی جاتی ہیں۔ ( جاری ہے )