ترجیحات کامسئلہ

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : جولائی2016

ترجیحات کامسئلہ
پوری کی پوری اکنامکس کی عمارت اس بنیاد پر استوار کی گئی ہے کہ انسان کی خواہشات لامحدود ہیں جبکہ وسائل محدود ہیں۔ اس صورت حال میں اس بات کو کس طرح ممکن بنایا جائے کہ ضروریات اور خواہشات بھی زیادہ سے زیادہ پوری ہو جائیں اور وسائل کا ضیاع بھی کم سے کم ہو۔ اس کے لیے اکنامکس نے ترجیحات کامسئلہ متعارف کروایا ہے کہ تمام خواہشات کی ایک فہرست بنا لی جائے پھر ان میں ترجیح قائم کی جائے ۔ ضروریات کے درجے کی چیزوں کو پہلے پورا کیا جائے اور خواہشات کو بعد میں اور ان میں بھی ترجیح قائم کی جائے کہ کون سی خواہش پہلے اور کون سی بعد میں۔اور اگر وسائل ہی اتنے ہوں کہ ضروریات ہی پوری ہو سکتی ہوں تو پھر خواہشات کو سرے سے ہی نظر انداز کر دیا جائے ۔
ترجیح قائم کرنے کا یہ مسئلہ کوئی اکنامکس کی دریافت نہیں ہے بلکہ انسان فطری طور پر ایسے ہی کیا کرتا ہے ۔ اکنامکس نے تو بس اس کو اصطلاحات اوراصول و قوانین کے دائرے میں لا کر باقاعدہ ایک سائنس کا درجہ دے دیا ہے۔ ایک معمولی عقل والا انسان بھی پہلے روٹی کو ترجیح دے گا پھر باقی ماندہ خواہشات کو ۔ کوئی بھی انسان یہ نہیں کر ے گا کہ اگر اس کا پیٹ بھوکا ہے تو وہ لباس کی تلاش میں نکل کھڑا ہو اور اگر لباس کی ضرورت ہے تو وہ مکان کا پوچھتا پھرے ۔
دین پر عمل کرنے میں بھی یہی ترجیحی رویہ مطلوب ہے ۔ فرائض کو چھوڑ کر سنتوں پر عمل اور سنن کے ہوتے ہوئے نوافل کو ترجیح دینا کسی بھی جید اہل علم کے نزدیک مستحسن رویہ نہیں۔لیکن یہاں اس ترجیحی رویے کے بیان سے ایک اور امر کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔اور وہ امر یہ ہے کہ، اگرچہ دیندار حضرات بظاہر دین کو ہی ترجیح دیتے نظر آتے ہیں لیکن اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو عموماًان کی زندگی میں بھی دین ایک عادت کے طور پر یاایک معاشرتی و خاندانی قدرکے طور شامل ہوتا ہے نہ کہ ایک ترجیحی مسئلے کے طور پر۔اس بات کا فیصلہ کہ دین ہماری ترجیحات میں شامل ہے کہ نہیں بڑا آسان ہے ۔ جب بھی دینی اقدار اور دنیاوی رسوم و رواج باہم مقابل آ جائیں تو فیصلہ ہو جاتا ہے کہ کسی انسان کی ترجیح کیا ہے ۔ اس وقت وہ اپنی ذاتی خواہش کو ، خاندان ، برادری کے رسم وروا ج کو یا معاشرتی اقدار کو ترجیح دیتا ہے یا دین کے مطالبے کو۔وہ اپنے روزانہ کے معمولات نماز کے اوقات کو دیکھ کر طے کرتاہے یا نماز کو اپنے معمولات میں ایڈجسٹ کرتا ہے ۔ رمضان آجائے تو وہ اپنے سارے معمولات کو بدل دیتا ہے یا رمضان کے بارے میں کوشش کر تا ہے کہ اس کی بھی کوئی جگہ اس کے معمولات میں بن جائے ۔انسان نے کچھ چیزیں ہاتھ میں پکڑی ہوں اور کچھ چیزیں اس کے دل ودماغ پہ چھائی ہوں تو ظاہر ہے کہ کسی بھی ایمر جنسی میں وہ ہاتھ والی چیزوں کو پھینک کر بھاگ کھڑا ہو گا نہ کہ دل و دماغ میں رچی بسی چیزوں کو جھٹکنے کی کوشش کر ے گا۔ بظاہر ہمارے ہاں دیندا ر کہلانے والے حضرات کا بھی یہی حال ہے ۔وہ بھی ضرورت کے وقت اپنے دنیاوی مفاد کو بچا لیتے ہیں اور دینی فائدے کو قربان کر دیتے ہیں۔ایسے مواقع پر’’ ترجیح ‘‘ان کی دین داری کا پول کھولنے کے کافی ہے ۔
یہی حال ان تعلیمی اداروں کا ہے جن کے ساتھ اسلامی کا سابقہ یا لاحقہ لگاہوا ہے۔ وہاں بھی یہ حال ہوتا ہے کہ اسلامیات کو سب سے آخر ی صف میں جگہ ملتی ہے اور فزکس کیمسٹری اور میتھ کو پہلی صف میں۔مشاہرے ، مراعات اور وظائف میں بھی ان کانمبر پہلے آتا ہے جن کے ساتھ سائنس کا لفظ لگاہوا ہے اور اسلامیات کا سب کے بعدمیں۔اساتذہ کے تقر ر وانتخاب میں بھی ان کی اسلامی اقدار سے وابستگی ایک ضمنی چیز تصور ہوتی ہے اور ان کااپنے مضمون میں ماہر ہونا ایک بنیاد ی چیز۔ یہاں مجھے حضرت عمرؓ کا وہ خط یا د آ رہاہے جو انہوں نے اپنے گورنروں کو لکھاتھا۔آپؓ نے لکھا’’ تمہارے فرائض منصبی میں میرے نزدیک سب سے اہم نماز ہے جو نماز کی حفاظت کرے گاوہ پورے دین کی حفاظت کر ے گااو ر جو نماز ضائع کر ے گاوہ باقی فرائض منصبی کو زیادہ ضائع کرنے والا ہو گا۔‘‘(مشکوۃ المصابیح)
یہاں یہ اعتراض بجا ہو گا کہ صاحب ایسے بہت سے حضرات ہیں جو نماز کی پروا نہیں کرتے لیکن اپنے فرائض منصبی تو بہت اچھے طریقے سے ادا کرتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے، ہم نے بھی ایسے بہت سے لوگ دیکھے ہیں لیکن سوال تو یہ ہے کہ جو شخص اپنی زندگی میں اپنے رب اور اپنے رب کے حکم کو پہلی ترجیح نہ بنا سکا تو وہ اپنے شاگردوں کی زندگی میں رب کو کیسے داخل کرے گا؟وہ یہ تو یقیناًکر دے گا کہ اپنے شاگردوں کی زندگی کو اپنے مضمون کی محبت سے بھر دے لیکن ان کی زندگی من چاہی سے ہٹ کر رب چاہی بن جائے یہ اس کے لیے ممکن نہیں۔کسی بھی ایسے تعلیمی ادارے یا شخص کا جو خود کو اسلامی کہتا ہو اس کا اولین کام اللہ و رسول اور ان کے کلام کو پہلی ترجیح بناناہے اور اگر وہ اس کی زندگی میں پہلی ترجیح نہیں بنتے تو وہ بھی باقی سب کی طرح سیکولر ہے چاہے اس کا نام کتنا ہی اسلامی کیوں نہ ہو۔
کچھ یہی حال ہمارے ہاں قومی تہذیب و اقدار کا ہے۔ شادی بیاہ اورہر اہم تقریب میں جانے کے لیے آپ کس لباس کا انتخاب کر تے ہیں، کسی بھی اہم مجلس میں بولنے کے لیے آپ کس زبان کو ترجیح دیتے ہیں اورکسی بھی اہم موقع پر آپ کن اقدار وروایات کی پاسداری کرتے ہیں ، یہ ترجیح آپ کی شخصیت کی اصل جاننے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ ترجیحات کا پیمانہ اگر آپ ہمیشہ ساتھ رکھیں تو قومی لیڈروں کے چناؤ میں بھی غلطی نہیں ہو سکتی ہماری قوم اسی لیے دھوکا کھاتی ہے کہ یہ بھول جاتی ہے کہ جو لیڈر ہمیشہ اپنی ذات ، اپنے خاندان ، اپنے کاروبار اور اپنے مفادات کو ترجیح دیتا رہا وہ قوم کا بھلا کیا خاک سوچے گا۔ قومی لیڈروں کی جانچ کا معیار بھی اگر ہم ان کے ترجیحی رویے اورقوم کے لیے ذاتی مفادات ، ذاتی وسائل اور ذاتی جاگیر و جائداد کی قربانی کو بنا لیں تو اصل لیڈر اور بہروپیے میں امتیاز کرنا انتہائی آسان ہو جائے گا۔قومی لیڈ ر کی ذاتی زندگی میں جھانکنا عوام کا حق ہے تا کہ وہ جانیں کہ اس نے قوم کے لیے کو ن سا ذاتی پلاٹ ، کو ن سا ذاتی مکان اور کون سا ذاتی سرمایہ قربان کیا ہے ۔ کسی بھی لیڈ ر کی پرکھ کے لیے کوہ صفا پہ ہونے والا اعلان آج بھی مینارہ نو رہے ۔ لوگو میں نے تمہارے درمیان چالیس سال بسر کیے ہیں ..... لیکن ہم یہاں بھی اس لیے لٹ جاتے ہیں کہ ہمارے ہاں بھی توحضورﷺ کا اسوہ حسنہ ترجیح نہیں رہا۔
اگر اب بھی ہمارا بیان کر دہ ترجیحات کا مسئلہ سمجھ میں نہیں آیا توذرا اپنے بیٹے سے پوچھ کر دیکھ لیجیے کہ بیٹا تمہاری پہلی ترجیح کون سا رشتہ ہے اور وہ اگر آپ کو سچ بتاتے ہوئے کسی اور رشتے کا نام لے لے تو پھر دیکھیے کہ دل پہ کیا گزرتی ہے ۔کوئی آپ سے یہ کہے کہ یہ بیٹا آپ کا خیال بھی رکھتا ہے ، آپ کی اطاعت بھی کرتا ہے اور آپ کاحکم بھی بجا لاتا ہے ، اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ اگر وہ آپ کو اپنی پہلی ترجیح نہیں بناتا،تو آپ کیا کہیں گے؟ یقیناًآپ کہیں گے کہ تمہارے نزدیک اس سے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔۔! میرے نزدیک تو اس سے زمین و آسمان کا فرق پڑتا ہے ۔ یہ جس دن پیدا ہوا تھا تو اسی دن سے گویامیں نے اپنے لیے توجیناہی چھوڑ دیا تھا تب سے لے کرآج تک میں اسی کے لیے جیتا رہا اور آج جب اس کی باری آئی کہ یہ میرے لیے جیتاتو یہ کہتا ہے کہ اس کی ترجیح کو ئی اور ہے ۔۔۔!آپ کے اس جواب سے ہوسکتا ہے کہ سننے والا بھی ایک آہ بھر کر رہ جائے ۔ما ں باپ کو اپنے گھر کا سب سے اچھاکمرہ دینا او رچیز ہے اور ان کو اپنے مکان کے کسی کونے میں ایڈجسٹ کرنا اور چیز ۔ ایسے ہی نماز، روزے اور دینی احکامات پرعمل کرنا اور چیز ہے اور ان کو اپنی پہلی ترجیح بنانا اور چیز۔۔دین کو اپنی زندگی کے بچے کھچے کونوں کھدروں میں جگہ دینااور چیز ہے اور خود کو پورے پورے دین میں داخل کرنا اور چیز۔ اپنے معمولات میں نماز روزے اور اخلاقی اقدار کو داخل کرنا اور چیز ہے اور خود محض اللہ کے لیے نماز روزے اور اخلاقیات میں داخل ہونا اور چیز ہے ۔بچا ہوا وقت دین کو دینا اورچیز ہے اور اپنا اہم ترین وقت دین کی نذر کرنا اورچیز ۔ یہ ہے ترجیح اور اسی ترجیح پہ کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ ہونا ہے ۔ جس نے دین کو ترجیح بنا کر زندگی بسر کی اس سے اگر کوئی کمی کوتاہی ہو گئی تو معافی کا پورا امکان ہے لیکن اگر دین کو ترجیح نہ بنایا تو پھر شاید معاملہ مشکل ہو جائے ۔ مالک کا اپنا فیصلہ ہے کہ فاما من طغی وا ثر الحیاۃ الدنیا فان الجحیم ھی الماوی وامامن خاف مقام ریہ ونھی النفس عن الہوی فان الجنۃ ہی الماوی