قرۃ العین طاہرہ

مصنف : توراکینہ قاضی

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : ستمبر 2009

بابی مذہب کی زہرہ جمال، عدیم المثال خطیبہ و شاعرہ ایران کے شہر قزوین کے ایک مشہور و معروف علمی گھرانے میں، جو دینی حیثیت میں بھی بے حد ممتاز تھا، پیدا ہوئی۔ اس کا نام زریں تاج رکھا گیا تھا۔ اس کا باپ ملا صالح اور اس کا بھائی مجتہد العصر ملا محمد تقی اپنے علم و فضل اور علوم دینیہ کے سبب بڑی شہرت رکھتے تھے۔ ملا محمد تقی کا بیٹا ملا محمد بھی دینی تعلیم سے خوب آراستہ تھا۔

ملا صالح نے اپنی بیٹی کے لیے گھر پر ہی تعلیم کا انتظام کیا۔ وہ طبعاً اتنی تیز فہم ، قوی حافظہ او رلائق فائق تھی کہ اس نے تھوڑی ہی مدت میں تمام مروجہ علوم سیکھ لیے، اور حدیث و فقہ، تفسیر، الٰہیات اور فلسفہ میں بھی کامل دسترس حاصل کر لی۔ وہ بحث و مناظرے میں بڑی دلچسپی سے حصہ لیتی اور ایسی علمیت، حاضر جوابی او رطرز استدلال کا مظاہرہ کرتی کہ سب لاجواب ہو کر رہ جاتے۔ اس کے سامنے اس کا باپ بھی نہ ٹھہر سکتا تھا۔ اسے بھی اپنی شکست تسلیم کرتے ہی بن پڑتی تھی۔ یوں اس کی شہرت پر لگا کر اڑنے لگی۔ اور دور دور تک اس کی علمیت و فضیلت اور بے پناہ قابلیتوں اور صلاحیتوں کی دھاک بیٹھنے لگی۔ زریں تاج کی طبیعت میں ضد اور سرکشی بھی بہت تھی۔ مزاج میں تیزی اور درشتی تھی۔ غرور حسن کے ساتھ اپنے علم و فضل اور اپنی صلاحیتوں پر تکبر بھی تھا۔ اسے اپنے ساتھ بحث و مباحثہ کرنے والوں کو شکست دینے کے ساتھ ہی انھیں خجل و خوار کرنے میں بھی لطف آتا تھا۔ اس معاملے میں وہ اپنے چچا زاد بھائی ملا محمد کو بھی کوئی رعایت نہ دیتی تھی، جو اس کا والہ و شیدا اور اس سے شادی کا متمنی تھا۔

مجتہد العصر ملا محمد تقی اور اس کی بیوی کی دلی خواہش تھی کہ زریں تاج ان کے بیٹے ملا محمد کی بیوی بن جائے۔ لیکن وہ اس کی علمیت و فضیلت، بے پناہ شہرت پھر مزاج کی تیزی و درشتی اور فطری سرکشی سے خوف زدہ بھی تھے۔ لیکن جب انھوں نے کچھ ڈرتے کچھ ہچکچاتے ملا صالح سے اس کا رشتہ طلب کیا تو زریں تاج نے اس پر رضامندی ظاہر کر دی۔ یوں اس کی شادی ملا محمد سے ہو گئی اور وہ اس کے گھر آ گئی۔

زریں تاج کا چچا مجتہد العصر ملا محمد تقی لوگوں کو دینی مسائل کے حل بتایا کرتا تھا۔ سائلین کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ اسے دن رات مصروف رہنا پڑتا تھا۔ ملا محمد اس سلسلے میں اپنے باپ کی کوئی مدد نہ کرتا تھا، کیونکہ وہ مجتہد نہیں تھا، نہ اسے علوم دینیہ میں ایسی دسترس حاصل تھی ۔ یہ دیکھ کر زریں تاج نے اپنے خسر کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا اور ملا محمد سے کہا کہ جو سائلین اس کے باپ کے پاس آیا کریں انھیں انتظار کی زحمت نہ دی جائے، بلکہ انھیں اس کے پاس بھیج دیا کرے۔ وہ پردے کے پیچھے سے انھیں ان کے مسائل کا حل بتا دیا کرے گی۔ چنانچہ اب سائلین زریں تاج کے پاس بھی بھیجے جانے لگے۔ وہ انھیں ان کے دینی مسائل کے ایسے حل بتاتی کہ وہ بہت مطمئن ہو کر واپس جاتے۔ اس کی اطلاع جب ملا محمد تقی کو ہوئی تو اس نے زریں تاج کے پاس جانے والے لوگوں کو روک کر اس کے دئیے ہوئے فتوے اور سائل کے حل دیکھنے شروع کیے۔ انھیں دیکھ کر وہ انتہائی حیران ہوا اور بولا:‘‘افسوس کی بات ہے کہ ہمارے مذہب میں عورتوں کو اجتہاد کا حق نہیں دیا گیا ورنہ آج زریں تاج بھی مجتہد العصر ہوتی۔’’

ان دنوں مرزا علی محمد باب کی شہرت ہر جگہ پہنچ رہی تھی۔ یہ شخص شیراز کے قریب بوشہر میں مدعی امامت بن کر ظاہر ہوا تھا اور اپنے آپ کو امام مہدی آخری الزمان کہتا تھا۔ اس نے قلیل عرصہ میں ہزاروں پیروکار پیدا کر لیے تھے۔ سلطان محمد شاہ اس صورت حال سے بے حد پریشان تھا۔ اس نے علمائے کرام اور مجتہدین عصر کو حکم دیا تھا کہ وہ اس فتنے کے سدباب کے لیے کچھ کریں۔ شدہ شدہ اس مدعی امامت کی شہرت قزوین بھی پہنچ گئی۔ ملا صالح اور ملا محمد تقی سے ملاقات کے لیے آنے والے علمائے کرام انھیں اس کی خبریں سنانے لگے۔ ان کے درمیان اس کے بارے میں بحثیں ہونے لگیں۔ زریں تاج چھپ چھپ کر یہ بحثیں سنا کرتی تھی۔ اسے علی محمد باب کے نام میں بڑی کشش محسوس ہوتی تھی۔ وہ سوچتی تھی کہ یہ ضرور کوئی غیر معمولی ہی شخص ہو گا، جب ہی اس نے ظاہر ہوتے ہی ہزاروں پیروکار پیدا کر لیے تھے۔ وہ اس کے متعلق کچھ جاننے اور اس سے ملنے کے لیے بے تاب رہنے لگی۔ اس نے اس کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے یہ کرنا شروع کیا کہ اپنے پاس آنے والے سائلین سے کہنے لگی:

‘‘ جو شہر میں ایک امام آخر الزمان ظاہر ہوا ہے، تم یہ مسئلہ لے کر اس کے پاس جاؤ، اور اس کا حال اس سے معلوم کر آؤ۔ پھر میرے پاس آؤ۔ اس طرح اس مدعی امامت کے بارے میں کچھ جاننا چاہتی ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ مجھے اس سے مناظرہ کرنا پڑے۔’’

اس طرح بہت سے سائلین علی محمد باب کے پاس جا پہنچے۔ ان میں سے بہت سے بابی ہو گئے، جو واپس آئے۔ انھوں نے زریں تاج کے سامنے اس کی پر سحر شخصیت، مسحور کن باتوں اور اوصاف و خصائل کی ایسی تعریفیں کیں کہ وہ لاشعوری طور پر اس سے متاثر ہوتی چلی گئی۔ ادھر علی محمد باب تک بھی اس کی شہرت پہنچ چکی تھی۔ اس نے اپنے ایک کارندے کو چند کتابیں اور ایک خط دے کر قزوین بھیجا کہ انھیں خفیہ طور پر زریں تاج کو دے دے۔ اس کارندے نے ایک سائل کے بھیس میں زریں تاج کی حویلی میں جا کر اس سے ملاقات کی او رعلی محمد باب کا خط او رکتابیں اس کے حوالے کیں اور کہا کہ وہ اس خط کا جواب لکھ دے، وہ کل آ کر اسے لے جائے گا۔ زریں تاج کو یہ چیزیں لے کر بے حد خوشی ہوئی۔ لیکن ملا محمد کے خیال سے وہ پریشان بھی بے حد ہوئی کہ اس کی موجودگی میں وہ باب کا خط اور کتابیں کیسے پڑھ سکے گی۔ لیکن اسی رات ملا محمد کو کسی مذہبی تقریب میں شرکت کے لیے شہر سے باہر جانا پڑ گیا۔ یوں زریں تاج کو جو خلوت او رتنہائی میسر آئی تو اس نے کمرے میں بند ہو کر نہایت ذوق و شوق سے علی محمد باب کا خط کھول کر پڑھا۔ اس نے لکھا:

‘‘زریں تاج! عورت کو ہمیشہ مرد سے کم تر سمجھا گیا ہے، لیکن مجھے وحی کے ذریعے بتایا گیا ہے کہ تو اپنے زمانے کی طاقت ور ترین عورت ہے۔ تیرا نام زریں تاج نہیں، قرۃ العین ہے۔ باب کی آنکھوں کی پتلی۔ میں نے عالم رویا میں تیرے مرتبے او رمقام کو دیکھنا چاہا تومجھے بتایا گیا کہ میرے دین کو تقویت دینے والا سوائے تیرے اور کوئی نہیں۔ میں تجھ کو دعوت دیتا ہوں کہ دین باب میں داخل ہو جا اور اس کی تبلیغ و اشاعت میں میری دست راست بن۔ میری کتابوں کو پڑھ، مجھ پر اور میری کتابوں پر ایمان لے آ، تجھ سے کہنے کے لیے اتنی ہی باتیں کافی ہیں۔’’

اس خط نے زریں تاج کو بے خود و مسحور سا کر دیا۔ اسے اپنا لقب قرۃ العین بھی بے تحاشا پسند آیا۔ وہ تمام رات باب کی کتابیں پڑھتی رہی۔ اس پر وجد اور سرور طاری ہوتا رہا۔ اس کے دل و دماغ، دونوں باب کے سامنے سجدہ ریز ہوتے رہے۔ صبح ہونے سے پہلے اس نے علی محمد باب کو نہایت عقیدت مندانہ خط تحریر کیا۔

‘‘جناب صاحب الزمان، امام مہدی آخر الزمان! آپ پر اتنی تاخیر سے ایمان لانے پر میں انتہائی نادم اور شرمندہ ہوں۔ کاش کہ آپ کے دعوائے مہدیت کرنے کے وقت میں آپ کے قریب ہی موجود ہوتی اور آپ پر سب سے پہلے ایمان لانے کا شرف حاصل کرتی۔ مجھے سابقون الاولون میں شامل نہ ہونے کا دکھ ہمیشہ محسوس ہوتا رہے گا۔ آپ نے مجھے قرۃ العین کا لقب دیا ہے۔ میں اب زریں تاج کی بجائے ہر جگہ قرۃ العین ہی کی حیثیت سے اپنی شناخت کراؤں گی۔ میں نے آپ کی کتابوں بالخصوص ‘‘بیان’’ کا مطالعہ کیا ہے، اور اس پر ایمان لائی ہوں کہ یہ واقعی اللہ کا کلام ہے۔ اور میرا ایمان ہے کہ ‘‘بیان’’ وہ کتاب ہے جس نے گزشتہ تمام الہامی کتب کو منسوخ کر دیا ہے۔ آپ مجھے حکم دیں کہ میں آپ کی کیا خدمت کر سکتی ہوں۔ جب تک میں آپ سے دور رہوں گی، ہجر و فراق کی اذیتیں برداشت کرتی رہوں گی۔ خدا نے چاہا تو میں جلد ہی آپ سے ملاقات کروں گی۔’’

اگلے دن اس نے یہ خط باب کے کارندے کے حوالے کر دیا۔ اس کے بعد سے اس میں بہت سی تبدیلیاں آنا شروع ہو گئیں۔ اس نے لوگوں سے کہنا شروع کر دیا کہ وہ اسے زریں تاج نہیں بلکہ قرۃ العین کہا کریں۔ اس کے باپ، خسر اور شوہر کو اس پر بے حد حیرت تھی، انھیں تجسس بھی تھا کہ اس نے آخر اپنا نام کیوں بدل دیا۔ اس نے انھیں اس کی کوئی وجہ نہ بتائی اور انھیں کہہ دیا کہ وہ اسے اب زریں تاج کے نام سے نہیں بلکہ قرۃ العین کے نام سے پکارا کریں۔ اس کے اندر ایک بڑی تبدیلی اب یہ آئی کہ اس نے اپنے شوہر ملا محمد سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور اس سے الگ رہنے لگی۔ اسے بڑی شدت سے علی محمد باب کے خط کا انتظار تھا۔

پھر ایک دن باب کا قاصد آیا اور اسے اس کا خط دے کر چلا گیا۔ اس خط میں باب نے اس کے جوش و جذبہ کی بے حد تعریف کی تھی اور اسے طاہر ہ کا لقب بھی دیا تھا، یعنی اب وہ قرۃ العین طاہر ہ بن گئی تھی۔ باب نے اسے عورتوں میں بابی مذہب کی تبلیغ و اشاعت کا حکم دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ اپنے گھر والوں اور اپنے ماحول سے بغاوت کرتے ہوئے کھلم کھلا تبلیغی خدمات انجام دے۔ یہ کام انتہائی مشکل تھا، خطرناک بھی تھا۔ لیکن وہ اس پر تیار ہو گئی۔ اس نے سب سے پہلے اپنی حویلی کے سبزہ زار پر اپنے خاندان والوں اور ملنے جلنے والوں ، واقف کاروں کو جمع کیا اور ان کے سامنے بابی مذہب پر ایک نہایت شاندار اور فصیح و بلیغ تقریر کی۔ اس تقریر سے خاندان بھر میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔ لوگوں میں اشتعال پھیل گیا۔ وہ قرۃ العین کو قتل کرنے کے درپے ہو گئے۔ اس کے باپ، خسر اور شوہر نے سر توڑ کوششیں کیں کہ وہ علی محمد باب کے چنگل سے باہر نکل آئے، بد عقیدگی سے توبہ کرے، راہ راست پر آجائے، لیکن ان کی یہ تمام کوششیں نقش بر آب ثابت ہوئیں۔ قرۃ العین نے اپنے شوہر ملا محمد سے لا تعلقی کا اعلان کر دیا اور اس کا گھر چھوڑ کر بابیوں کے ساتھ ایک الگ گھر میں منتقل ہو گئی۔ وہاں اسے کھل کر اپنا کام کرنے کا موقع ملا۔ اس نے کھلے عام بابی مذہب کی تبلیغ کرنی شرو ع کر دی۔ ایک تواس کی آواز، انداز بیان، پھر حسن و جمال اور مسحور کن انداز و اطوار، لوگ جوق در جوق بابی مذہب میں داخل ہوتے چلے گئے۔ مردوں کے علاوہ عورتوں کی بھی بھاری تعداد باب کی پیرو کار بن گئی۔ یوں تھوڑے ہی عرصہ میں ہزاروں مرد و زن بابی بن گئے۔ اس دوران قرۃ العین کو ہدایت کی گئی کہ وہ کربلا چلی جائے۔ وہاں ایک درس گاہ قائم کرے، اس درس گاہ میں بابی مذہب کی تعلیم دی جائے۔

قرۃ العین نے جب دین باب اور اس کی تنظیم کے دوسرے لوگوں کے بارے میں معلومات حاصل کیں تو اسے ان میں ملا محمد علی بار فروشی کا نام بھی معلوم ہوا۔ اسے علی محمد باب نے ‘‘قدوس’’ کا لقب دے رکھا تھا۔ اس نے بار فروشی کے بارے میں جب تفصیلی معلومات حاصل کیں تو اس سے بے حد متاثر ہوئی اور اس سے خط و کتابت شروع کر دی اور اس کے قریب ہوتی چلی گئی۔ علی محمد باب نے قرۃ العین کو ہدایت کی تھی کہ بار فروشی کو خوش اور راضی رکھو یہ ‘‘من مظہر اللہ’’ ہے۔ قدوس ہے، اس کا رتبہ و مقام بہت بلند ہے۔

وہ کئی سال تک کربلا میں درس دیتی رہی۔ اس عرصہ میں اس نے ہزاروں لوگ بابی مذہب میں داخل کر لیے۔ یہاں بھی لوگ دور دور سے اس کے دیدار کے لیے آتے تھے۔ وہ شاعرہ بھی تھی اور اپنی قادر الکلامی سے کام لینا بھی خوب جانتی تھی۔

کربلا میں اسے بتایا گیا کہ اس کا شوہر ملا محمد اور خسر ملا محمد تقی اس کی بد ترین مخالف پر کمر بستہ ہیں۔ ان کے بارے میں قرۃ العین کو کچھ ایسی باتیں بتائی گئیں کہ اس نے آپے سے باہر ہو کر اپنے خسر کے قتل کا فتویٰ دے دیا۔ اس کا یہ فتویٰ جگہ جگہ دیواروں پر چسپاں کر دیا گیا، پورے ایران میں اس کی نقلیں پھیلا دی گئیں۔

ملا صالح نے جب یہ فتویٰ دیکھا تو اپنے بھائی کی زندگی کی طرف سے مایوس ہو گیا۔ اس نے اسے احتیاط برتنے اور گھر سے باہر نہ نکلنے کا مشورہ دیا۔ جنونی بابی اس کی تلاش میں تھے۔ یہ فتویٰ قرۃ العین نے دیا تھا اس لیے اس کے قتل کو بابی اپنا جزو ایمان سمجھتے تھے۔

قرۃ العین کی شہرت اب بغداد میں بھی جا پہنچی تھی۔ اس کا خطرناک شہرہ وہاں بحث و مباحثہ کا موضوع بن گیا تھا۔ کربلا کا ترک حاکم اپنی حکومت کی طرف سے قرۃ العین سے ملا اور اس سے کہا:

‘‘تم یہ درس و تدریس، تقریر وخطاب کے سلسلے فوراً بند کرو۔ حکومت کو بتایا گیا ہے کہ تم لوگوں کو بابیت کی تربیت دیتی ہو اور مسلمانوں کو گمراہ کر رہی ہو۔’’قرۃ العین بولی:‘‘میں صرف تعلیم دیتی ہوں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ہر مرد و زن کے لیے فرض قرار دیا ہے۔’’حاکم نے کہا:

‘‘یہ میرا حکم ہے، تم یہ درس و تدریس فوراً بند کر دو۔ میں دار الحکومت سے حکم کا انتظار کر رہا ہوں، وہاں تمھارا معاملہ زیر غور ہے۔ جب تک تمھارے بارے میں کوئی حکم نہیں آ جاتا تم یہاں سے کہیں نہیں جاؤ گی۔’’

قرۃ العین نے درس و تدریس کا سلسلہ موقوف کیا اور خاموشی سے بغداد چلی گئی۔ اور مفتی اعظم کے پاس جا پہنچی۔ انھوں نے اس کا شہرہ سن رکھا تھا۔ اس نے جب ان سے درخواست کی کہ وہ اسے علمائے دین سے مناظرہ کرنے کی اجازت دے دیں تو انھوں نے کہا ۔‘‘مناظرے کا موقع انھیں دیا جاتا ہے جن کی باتوں میں سچائی کی ذرا بھی رمق ملتی ہو۔ تم لوگ دین میں فتنہ و فساد پھیلاتے پھر رہے ہو۔ ہر سچی بات کو جھٹلا رہے ہو۔ جب یہ بات تیرہ سو سال سے ثابت ہے کہ آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی ہیں، اس کے بعد تو علی محمد باب کو (العیاذ باللہ) رجعت محمد قرار دے اور اس کو رسول اللہ کا مظہر کہے، یہ بات کون سنے گا، کون گوارا کرے گے ؟ کون برداشت کرے گا؟ تو بھی قتل کر دی جائے گی، علی محمد باب بھی قتل ہو جائے گا۔ اس لیے میں تجھے مناظرے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ بہتر یہی ہے کہ تو بغداد چھوڑ کر کہیں اور چلی جا ورنہ تجھے سنگسار کر دیا جائے گا۔’’

قرۃ العین خوف زدہ ہو گئی اور بغداد سے فرار ہو کر سرزمین ایران میں داخل ہو گئی۔ راستے میں ہر مقام پر وہ بابی مذہب کا پرچار کرتی رہی اور کھلم کھلا امام آخر الزمان کے ظہور کا اعلان کرتی رہی۔ اس کا یہ اعلان خود اس کے ذکر کے ساتھ دور دور مشہور ہو گیا۔ اپنی مسحور کن تقاریر، عدیم النظیر حسن و جمال اور شعلہ بیانی سے اس نے ہر جگہ بابی مذہب کے پیروکار بنا لیے۔ کرمان شاہ میں تو اسے اپنی توقع سے بڑھ کر کامیابی ہوئی، اس پر کرمان شاہ کے حاکم نے اسے بلا کر بہت سخت سست کہا او رحکم دیا کہ وہ فوری طور پر کرمان شاہ سے نکل جائے ورنہ اسے گرفتار کر لیا جائے گا، کیونکہ سلطان محمد شاہ ،علی محمد باب سے سخت ناخوش تھا۔

اب قرۃ العین کرمان شاہ سے نکل کر ہمدان جا پہنچی۔ وہاں بھی اس نے بابی مذہب کے پرچار میں زور خطابت کے ایسے جوہر دکھائے کہ عام لوگوں کی بھاری تعداد کے ساتھ حاکم ہمدان بھی بابی مذہب کا پیرو کار اور قرۃ العین کا بہی خواہ بن گیا۔ یوں ہمدان میں بابی مذہب تیزی سے قدم جمانے اور پھلنے پھولنے لگا۔ یہ دیکھ کر حاکم ہمدان نے قرۃ العین کو مشورہ دیا کہ وہ اعلان کرے کہ وہ بادشاہ سلطان محمد شاہ سے مناظرہ کرے گی۔ اگر اس نے یہ دین اختیار کر لیا تو پورا ایران بابی ہو جائے گا۔ قرۃ العین کو یہ تجویز بے حد پسند آئی۔ اس نے اپنے مشیروں کو مشورے سے ایک خط تیار کر کے شاہ ایران کی خدمت میں بھیج دیا۔ اس کے بعد اس نے مشہور کرنا شروع کیا کہ شاہ ایران بھی بابی مذہب کی طرف مائل ہے ۔ اس نے قرۃ العین کو دربار طلب کیا ہے تاکہ وہ اپنی باتوں سے شاہ کو قائل کرے اور شاہ بابی دین قبول کر لے۔

اس تشہیر اور پراپیگنڈے سے قرۃ العین ایک خاص فائدہ اٹھانا چاہتی تھی۔ وہ جن شہروں میں گئی اس کا فقید المثال استقبال کیا گیا۔ اب وہ بڑے آرام اور سہولت سے اپنا کام انجام دے رہی تھی۔

کچھ عرصہ بعد علی محمد باب کی طرف سے ملا حسین بشرویہ اور ملا محمد علی بار فروشی بھی ہمدان پہنچ گئے۔ انھوں نے جب قرۃ العین سے ملاقات کی، اس کی پر اثر اور مسحور کن تقاریر سنیں اور لوگوں کو جوق در جوق بابی دین میں داخل ہوتے دیکھا تو وہ حد درجہ متاثر ہوئے۔ ملا بار فروشی نے خلوت میں قرۃ العین سے ملاقات کی اور بولا:

‘‘اے پروردۂ افلاک خاتون! مبارک ہو ، تجھے طاہرہ کے لقب سے نوازا گیا ہے۔ کیونکہ تو واقعی ایک طیب و طاہر خاتون ہے۔ مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ تو جس شے کو بغور دیکھ لے گی وہ پاک ہو جائے گی۔ کیونکہ تیری ذات میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا حلول کر گئی ہیں۔ تیری آنکھیں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی آنکھیں ہیں۔’’

قرۃ العین نے جب بار فروشی کو دیکھا اور اس کی باتیں سنیں تو اس سے بے حد متاثر ہوئی۔ اس نے برملا اعلان کر دیا:‘‘تو واقعی قدوس ہے، تیری قدوسیت پر ایمان لائی’’۔ بار فروشی نے بے ساختہ اقرار کیا:‘‘تو واقعی قرۃ العین ہے۔ میری آنکھوں کی پتلی یہ جو تجھے طاہرہ کا لقب ملا ہوا ہے تو تو میرے لیے مخصوص کر دی گئی ہے۔’’

قرۃ العین کو طاہرہ کا لقب ملنے کے بعد اور اس کی خصوصیت کا اعلان ہونے کے بعد لوگوں نے یہ کرنا شروع کیا کہ بڑی بھاری تعداد میں اس کے گھر کے باہر قطاروں میں کھڑا ہونا شروع کر دیا تاکہ وہ انھیں دیکھ کر پاک کر دے۔ یوں اس کے دن رات اسی مصروفیت میں گزرنے لگے۔

اس دوران ملا صالح اپنی بیٹی کو تلاش کرتا ہوا ہمدان پہنچ گیا۔ وہ اسے اپنے ساتھ قزوین لے جانا چاہتا تھا۔ وہ اس کے سامنے کچھ اس طرح رویا گڑگڑایا کہ بار فروشی کو اس پر رحم آ گیا۔ اس نے قرۃ العین سے کہا کہ انھیں کچھ عرصہ قزوین میں رہتے ہوئے وہاں دین باب کی نشر و اشاعت کرنی چاہیے۔ چنانچہ وہ تینوں ہمدان سے رخصت ہو کر قزوین جا پہنچے۔ قرۃ العین کو یہ دیکھ کر بے حد حیرت ہوئی کہ اس کے فتوے کے باوجود اس کا خسر ملا محمد تقی زندہ تھا۔ اس نے اس کی آزاد روی، الحاد و گمراہی پر اسے سخت سست کہا اور حکم دیا کہ وہ اپنے ملحدانہ عقائد سے توبہ کرے اور شرافت سے ملا محمد کی بیوی بن کر گھر بیٹھے۔ اس نے علی محمد باب کی بھی بے حد مذمت کی۔ قرۃ العین اس پر شدید غصے میں آ گئی۔ اس نے اپنے معتقدین کو حکم دیا کہ فوراً اس کے فتوے پر عمل درآمد کریں۔ اس پر بابیوں نے ملا محمد تقی کو پکڑ کر ذبح کر دیا اور اس کے ناک، کان اور ہاتھ کاٹ کر قرۃ العین کو لے جا کر دکھائے۔ وہ انھیں دیکھ کر بے حد خوش ہوئی او رانھیں مبارک باد دی۔

ملا محمد تقی کے قتل پر قزوین میں شدید ہنگامہ برپا ہو گیا۔ لوگ بابیوں کی تلاش میں ہتھیار سنبھالے سڑکوں پر آ گئے۔ یہ صورت حال دیکھ کر بار فروشی اور قرۃ العین راتوں رات چھپ کر ایک اونٹ پر سوار ہو کر وہاں سے بھاگ گئے اور خراسان جا پہنچے۔ وہاں بابیوں کی کافی تعداد موجود تھی۔ وہ قرۃ العین کو وہاں دیکھ کر بے حد خوش ہوئے۔ ان کا یہ دستور ہو گیا تھا کہ اس کی نظروں سے اپنے آپ کو پاک کروانے کے ساتھ ہی اپنی خریدی ہوئی چیزیں بھی پاک کروانے کے لیے اس کے پاس لانے لگے۔ یہاں بھی لوگوں کا ہجوم رہنے لگا۔

اس عرصہ میں ملا حسین بشرویہ نے حکومت کے خلاف بغاوت برپا کر رکھی تھی اور طبریہ میں قلعہ تعمیر کروا رہا تھا۔ اس نے بار فروشی کو پیغام بھیجا کہ قلعے کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے۔ اب ہم قلعے میں بیٹھ کر دشمنوں کا مقابلہ کریں گے۔ لیکن ہمارے پاس زیادہ آدمی نہیں ہیں۔ اگر آپ قرۃ العین کو لے کر یہاں آ جائیں تو تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہو سکتا ہے۔ قرۃ العین کے زور خطابت اور حسن جہاں سوز کی مدد سے ہم دشمن کی فوج کو بھی بھڑکا سکتے ہیں۔

ملا بار فروشی نے جب اس کا تذکرہ قرۃ العین سے کیا تو وہ فوراً ہی طبریہ جانے کو تیار ہو گئی۔ اس وقت تک وہ ایرانیوں کی بھاری تعداد کو بابی دین میں داخل کر چکی تھی۔ اس نے کہا:

‘‘اس طرح تو میں آہستہ آہستہ سارے ایران پر قبضہ کر سکتی ہوں۔’’

اس وقت اس کے ساتھ تقریباً پچاس بابی تھے۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ بدشت کا علاقہ عبور کر کے طبریہ پہنچ جائیں۔ وہ علاقہ خطرناک تھا۔ وہاں ڈاکوؤں کا خطرہ بھی تھا۔ پھر بھی انھوں نے اپنی شجاعت اور حربی تربیت پر بھروسا کرتے ہوئے اسے عبور کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اس صحرا میں داخل ہو گئے۔ آدھا صحرا عبور کر کے وہ رات کو آرام کرنے ایک مقام پر ٹھہر گئے۔ وہاں اچانک ہی ڈاکوؤں نے ان پر حملہ کر دیا اور ان سے ہتھیار چھین کر انھیں بے دست و پا کر دیا۔ انھوں نے ان کی ہر چیز لوٹ لی اور انھیں گھوڑوں اور اونٹوں پر باندھ کر صحرا کی مختلف سمتوں کو ہانک دیا۔ قرۃ العین کو ڈاکوؤں نے مغربی سرے پر لے جا کر چھوڑ دیا۔ وہ جب ساری نامی قصبے میں پہنچی تو وہاں ہنگامہ برپا ہو لیا۔ وہاں بابیوں کی کافی تعداد موجود تھی۔ انھوں نے چاہا کہ قرۃ العین وہاں رک جائے لیکن وہ وہاں سے نور چلی گئی۔ وہاں اس نے سلسلہ تبلیغ شروع کر دیا۔ وہاں کے لوگ بابیت سے بے حد نفرت کرتے تھے، لیکن اس کے حسن و جمال او رخطیبانہ کمال نے انھیں اس کا والہ و شیدا بنا دیا۔ اور وہ جوق در جوق دین باب میں داخل ہونے لگے۔

اس دوران ایک شخص طبریہ سے وہاں پہنچا۔ اس نے قرۃ العین کو خبر دی کہ ملا بار فروشی جسے ڈاکوؤں نے گھوڑے پر باندھ کر صحرائے بدشت کی سمت بھگا دیا تھا، وہ جنگ میں شدید زخمی ہو گیا تھا۔ اس کے جانبر ہونے کی کوئی امید نہ رہ گئی تھی۔ قرۃ العین کو اس خبر سے شدید دکھ پہنچا۔لیکن زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ علی محمد باب اور اس کے رفقا کی علمائے کرام کے ساتھ مناظرے پھر ان سب کے قتل کی خبر بھی اس تک پہنچ گئی۔ اس خبر نے اسے بری طرح سے رلا دیا۔ اس نے خدا سے شکوہ کیا:

‘‘اے خدا! یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ تو اپنے محبوب بندوں کو کیا اسی طرح سزائیں دلواتا ہے۔ اب تیرا پیغام کون گھر گھر پہنچائے گا؟ افسوس ! تو نے مجھے بھی شرمندہ کر دیا۔’’

اب اس نے لوگوں سے ملنا جلنا اور انھیں خطاب کرنا بالکل چھوڑ دیا ۔ لوگ پاک ہونے کے لیے اس کے سامنے آتے، اپنی چیزیں اس کے سامنے لاتے او رکہتے:

‘‘طاہرہ ہمیں اور ہماری ان چیزوں کو پاک کر دے۔’’وہ ان چیزوں کو پاک کر دیتی اور کہتی:‘‘اب میں اپنی زندگی کو پاک کرنا چاہتی ہوں۔ اب اس دنیا میں میرا دل نہیں لگ رہا۔ یہ دنیا کسی اچھے آدمی کے رہنے کے قابل نہیں۔’’

محمد علی باب کی موت نے بابیوں کو تتر بتر کر دیا تھا۔ لیکن وہ ابھی تک قرۃ العین کو اپنی ہادی و رہنما اور ملجا و ماویٰ سمجھ رہے تھے۔ طبیعت کی افسردگی دور ہونے کے بعد اس نے پھر اپنا تبلیغی سلسلہ شروع کر دیا۔ لیکن نور اور اس کے مضافاتی علاقوں کے لوگوں قرۃ العین کے جانی دشمن ہو چکے تھے۔ وہ کسی کو قرۃ العین سے نہ ملنے دیتے تھے اور اس کوشش میں تھے کہ اسے قید خانے میں ڈال دیا جائے۔ قرۃ العین بھی حالات کا رنگ دیکھ رہی تھی۔ اس نے نور سے فرار ہونے کی کوشش کی لیکن گرفتار کر لی گئی۔ نور کے حکام نے اسے طہران بھیج دیا۔ وہاں اسے قید خانے میں ڈال دیا گیا۔ اسی دوران ناصر الدین شاہ پر بابیوں نے حملہ کیا اور اسے قتل کرنے کی کوشش کی۔ ایک قاتل موقع پر ہی ہلاک ہو گیا۔ دو بعد میں قتل کر دئیے گئے۔ اس سازش میں چالیس بابی شریک گردانے گئے۔ ان میں قرۃ العین بھی شامل تھی۔ مقدمے کی مختصر سماعت کے بعد ان سب کو سزائے موت کا حکم سنایا گیا۔ سازشی بابیوں کو قتل کر دیا گیا اور قرۃ العین کو آگ میں زندہ جلا دیا گیا۔ یہ واقعہ ۱۸۵۲ ء کا ہے۔

قرۃ العین طاہرہ کے جو حالات کتابوں میں ملتے ہیں، ان سے ہمیں اس کی ذہانت و فطانت، علمیت و فضیلت، حسن و جمال، زور خطابت، الحاد و گمراہی کا حال معلوم ہو جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ وہ بے مثل شاعرہ بھی تھی۔ لیکن اس کا کلام محفوظ نہیں رہا۔