سوال ، جواب (ترتیب و تہذیب ، محمد صدیق بخاری)

مصنف : علامہ یوسف القرضاوی

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : ستمبر 2009

جواب: روزے کی مقبولیت کے لیے سحری کھانا شرط نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک سنت ہے جس پر حضوؐر نے خود بھی عمل کیا اور لوگوں کو بھی اس کی تاکید فرمائی ہے۔ حدیث نبوی ہے: تسحروا فان فی السحور برکۃ. (بخاری و مسلم)

‘‘سحری کھایا کرو کیوں کہ سحری میں برکت ہے۔’’

اسی طرح سحری تاخیر سے کھانا بھی سنت ہے اور افطار میں جلدی کرنا بھی سنت ہے کیوں کہ اس طرح بھوک اور پیاس کی شدت کچھ کم ہو جاتی ہے اور اس طرح روزے کی مشقت میں بھی قدرے تخفیف ہوتی ہے۔ بلا شبہ دین اسلام نے عبادتوں میں حتی الامکان تخفیف اور آسانی کو ملحوظ رکھا ہے تاکہ لوگوں کا دل ان عبادات کی طرف زیادہ سے زیادہ مائل ہو۔ انھیں آسانیوں میں سے حضوؐرکی یہ تاکید ہے کہ سحری تاخیر سے کھائی جائے اور افطار میں جلدی کی جائے۔ حضوؐر کی سنت کے اتباع میں فجر سے قبل اٹھنا باعث ثواب ہے ، چاہے ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی ہی سے یہ سنت ادا کی جائے۔سحری میں ایک روحانی فائدہ بھی ہے۔ فجر سے قبل اٹھنا ایک ایسی گھڑی میں اٹھنا ہے جب اللہ تعالیٰ بندوں کے بہت قریب ہوتا ہے۔ بندے کا ایسی گھڑی میں اپنے خالق و مالک سے مناجات کرنا اورمغفرت کی دعائیں کرنابہت قیمتی ہے۔ کیا یہ سب کچھ بستر پر سوتے پڑے رہنے کے برابر ہو سکتا ہے؟ ہم خود تصور کر سکتے ہیں کہ ان دونوں حالتوں میں کس قدر زمین و آسمان کا فرق ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: روزے کی حالت میں احتلام سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ کیونکہ یہ ایک ایسی چیز ہے، جس پر انسان کا بس نہیں اور اللہ تعالیٰ انسان کو کسی ایسے کام کا مکلف نہیں کرتا، جس پر اس کا بس نہ ہو۔ اسی طرح روزے کی حالت میں غسل کرنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، چاہے غیر ارادی طور پر پانی اس کے کانوں سے ہوتا ہوا حلق تک پہنچ جائے یا کلی کرتے وقت حلق میں چلا جائے۔ اللہ کا ارشاد ہے: وَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ فِیْمَآ اَخْطَأْتُم بِہٖ وَلٰکِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُکُمْ.(الاحزاب:۵)

‘‘اور نادانستہ جو کام تم کرو اس کے لیے تم پر کوئی گرفت نہیں ہے لیکن اس پر گرفت ضرور ہے، جس کا تم دل سے ارادہ کرو۔’’

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: ایسے بوڑھے جنھیں روزہ رکھنے میں بہت زیادہ تکلیف ہوتی ہو ان کے لیے جائز ہے کہ وہ روزے نہ رکھیں۔ اسی طرح وہ مریض جس کا مرض مستقل نوعیت کا ہو اور اس کے صحت یاب ہونے کی کوئی امید نہ ہو، اس کے لیے بھی جائز ہے کہ روزہ نہ رکھے بشرطیکہ یہ ایک ایسا مرض ہو جس کی وجہ سے روزہ رکھنے میں شدید تکلیف ہوتی ہو یا روزے کی وجہ سے مرض میں اضافے کا خوف ہو۔ ان سبھی کے لیے رخصت کی بنیاد پر قرآن کریم کی یہ آیت ہے: یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ.(البقرۃ:۱۸۵)

ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ بوڑھے اور اس جیسے معذور اشخاص کے لیے یہ آیت نازل ہوئی ہے: وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُونَہُ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ فَمَن تَطَوَّعَ خَیْراً فَہُوَ خَیْرٌ لَّہُ. (البقرہ:۱۸۴)

‘‘اور جو لوگ (مسکین کو کھلانے کی) قدرت رکھتے ہوں تو وہ فدیہ دیں۔ ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے اور جو اپنی خوشی سے کچھ زیادہ بھلائی کرے تو یہ اس کے لیے بہتر ہے۔’’

روزہ معاف ہونے کی صورت میں ان پر واجب ہے کہ وہ ہر ایک روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائیں۔

حاملہ عورت اگر روزے کو اپنے بچے کے لیے خطرہ محسوس کرے تو اس کے لیے بھی روزے معاف ہیں کیونکہ ایک انسانی جان جو اس کے پیٹ میں ہے، اس کی حفاظت اس پر فرض ہے۔ تاہم ان روزوں کے بدلے میں وہ ان روزوں کی قضا کرے گی یا قضا کے ساتھ ساتھ مسکین کو کھانا بھی کھلائے گی یا صرف کھانا ہی کافی ہے؟ اس امر میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ جمہور علماء کا قول ہے کہ وہ صرف روزوں کی قضا کرے گی۔

میری رائے یہ ہے کہ وہ عورت جو بہت تھوڑے وقفے سے حاملہ ہو جاتی ہو اس پر قضا واجب نہیں ہے کیونکہ عملاً چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا اس کے لیے بہت تکلیف دہ مرحلہ ہوگا۔ اس کے لیے جائز ہے کہ وہ ہر چھوٹے ہوئے روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلائے۔ رہا خوشبو کا استعمال تو تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ روزے کی حالت میں خوشبو کا استعمال جائز ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب:تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ مریض کے لیے روزہ معاف ہے۔ جب وہ اچھا ہو جائے تو چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا اس پر واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَمَن کَانَ مَرِیْضاً أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ.(البقرہ:۱۸۵)

‘‘اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔’’

تاہم ہر قسم کے مرض میں اس کی اجازت نہیں ہے۔ کیونکہ کچھ ایسے مرض ہوتے ہیں جن میں روزہ رکھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مثلاً کمر میں یا انگلی میں درد وغیرہ۔ کچھ ایسے مرض ہوتے ہیں کہ روزہ رکھنا مفید ہوتا ہے مثلاً دست اور پیچش کا مرض۔ اس قسم کے امراض میں روزہ توڑنے کی اجازت نہیں ہے۔ بلکہ صرف اس مرض میں اس کی اجازت ہے جس میں روزہ رکھنے سے مرض میں اضافے کا اندیشہ ہو یا روزہ رکھنے سے شدید تکلیف ہوتی ہو۔ ایسی صورت میں روزہ نہ رکھنا ہی افضل ہے۔ اگر ڈاکٹر کے مشورے کے باوجود اور تمام تکلیفوں کو سہتے ہوئے کوئی شخص روزہ رکھتا ہے، تو یہ ایک مکروہ کام ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے آسانی کی صورت فراہم کی ہے۔ اسے چاہیے کہ اللہ کی اس رخصت کو قبول کرے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَلاَ تَقْتُلُواْ اَنفُسَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْماً.(النساء:۲۹)

‘‘اور اپنے آپ کو مار نہ ڈالو۔ بے شک اللہ تم پر مہربان ہے۔’’

اب رہا یہ سوال کہ چھوٹے ہوئے روزوں کے بدلے کیا کرنا چاہیے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مرض دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ مرض ہے جو وقتی ہوتا ہے اور کسی نہ کسی مرحلہ میں اس کے دور ہونے کی امید ہوتی ہے۔ اسی مرض میں اگر روزے چھوٹے ہوں تو ان کے بدلے صدقہ کرنا کافی نہیں بلکہ روزوں کی قضا واجب ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے: فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ.(البقرہ:۱۸۵)

‘‘تو دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرو۔’’

دوسرا وہ مرض ہے جس کے دور ہونے کی تازیست کوئی امید نہیں ہوتی۔ ایسی صورت میں ہر چھوٹے ہوئے روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہو گا۔ بعض فقہاء مثلاً امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک یہ بھی جائز ہے کہ کھانا کھلانے کے بجائے کسی مسکین کی مالی امداد کر دی جائے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: ہر مسلمان شخص تمام عبادتوں کا مکلف ہے۔ ان میں سے کوئی بھی چھوٹ جائے تو اللہ کے نزدیک جواب دہ ہے۔ ایک عبادت ادا نہ کرنے سے دوسری عبادتیں قبول ہوں گی یا نہیں اس سلسلے میں فقہاء کا اختلاف ہے:

۱۔ بعض کہتے ہیں کہ اگر کسی نے ایک عبادت بھی ترک کر دی تو وہ کافر ہو گیا اور اس کی کوئی دوسری عبادت مقبول نہ ہو گی۔

۲۔ بعض کے نزدیک صرف نماز اور زکوٰۃ ترک کرنے والا کافر ہے۔

۳۔ بعض کے نزدیک صرف نماز ترک کرنے والا کافر ہے کیونکہ حضوؐر کا ارشاد ہے: بین العبدوبین الکفر ترک الصلاۃ.(مسلم)

‘‘بندے اور کفر کے درمیان نماز کاترک کرنا ہے۔’’

ان فقہاء کے نزدیک نماز ترک کرنے والے کا روزہ بھی مقبول نہ ہو گا کیونکہ وہ کافر ہے اور کافر کی عبادت مقبول نہیں ہو گی۔

۴۔ بعض فقہاء کہتے ہیں کہ مسلمان جب تک اللہ کی وحدانیت اور رسول کی رسالت پر ایمان و یقین کامل رکھتا ہے کسی ایک عبادت کے ترک کردینے سے وہ کافر شمار نہیں ہو گا بشرطیکہ اس عبادت کا نہ وہ مذاق اڑاتا ہو اور نہ منکر ہو۔ اس لیے ایک عبادت ترک کرنے کی وجہ سے اس کی دوسری عبادتیں ہرگز برباد نہیں جائیں گی۔

میرے نزدیک یہی رائے زیادہ قابل ترجیح ہے۔ چنانچہ جو شخص صرف سستی اور کاہلی کی بنا پر کوئی ایک عبادت ادا نہیں کرتا ہے اور دوسری تمام عبادتیں ادا کرتا ہے، تو دوسری عبادتیں ان شاء اللہ مقبول ہوں گی۔ البتہ وہ ناقص اور ضعیف الایمان کہلائے گا اور جس عبادت میں اس نے کوتاہی کی ہے اس میں وہ گنہ گارہو گا اور اللہ کے نزدیک سزا کا مستحق ہو گا۔ بہرحال کسی ایک نیکی کے ضائع ہونے سے اس کی دوسری نیکیاں برباد نہیں ہوتیں۔ اس نے جو نیکی کی ہو گی اس کا اچھا بدلہ پائے گا اور جو برائی کی ہو گی اس کا برا بدلہ پائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: فَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَرَہُ. وَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرّاً یَرَہُ. (الزلزال:۷۔۸)

‘‘پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا۔’’

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: روزہ وہی نفع بخش اور باعث اجر و ثواب ہے، جو برائیوں سے روکے، نیکیوں پر آمادہ کرے اور نفس میں تقویٰ پیدا کرے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون. (البقرہ:۱۸۳)

‘‘اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے اس توقع سے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو گی۔’’

روزے دار کے لیے ضروری ہے کہ اپنے روزے کو تمام گناہوں کی آلودگی سے پاک رکھے تاکہ ایسا نہ ہو کہ اس کے نصیب میں صرف بھوک اور پیاس ہی آئے اور روزے کے اجر و ثواب سے محروم رہ جائے۔ حضوؐر نے فرمایا:رب صائم لیس لہ من صیامہ الا الجوع. (نسائی، ابن ماجہ، حاکم)

‘‘بعض ایسے روزے دار ہوتے ہیں کہ ان کے روزے میں سے انھیں صرف بھوک ہی نصیب ہوتی ہے۔’’

ایک دوسری حدیث میں ہے: من لم یدع قول الزور والعمل بہ فلیس للّٰہ حاجۃ فی ان یدع طعامہ وشرابہ.(بخاری، احمد، اصحاب السنن)

‘‘جو شخص جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہیں چھوڑتا تو اللہ کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ کھانا اور پینا ترک کر دے۔’’

اسی لیے ابن حزم کا قول ہے کہ جھوٹ بولنے، غیبت کرنے اور اس قسم کے دوسرے گناہوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے جس طرح کہ کھانے پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ اور سلف صالحین اپنے روزوں کی حفاظت کا خاص اہتمام کرتے تھے۔ جس طرح کھانے پینے سے اپنے آپ کو بچاتے تھے اسی طرح گناہوں کے کاموں سے بھی اپنے آپ کو دور رکھتے تھے۔ حضرت عمرؓ کا قول ہے: لیس الصیام من الشراب والطعام وحدہ ولکنہ من الکذب والباطل واللغو.

‘‘روزہ صرف کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں ہے بلکہ جھوٹ، باطل کاموں اور لغویات سے رکنے کا نام بھی ہے۔’’

میرے نزدیک ارجح رائے یہ ہے کہ ان لغو کاموں سے روزہ تو نہیں ٹوٹتا البتہ روزے کا مقصد فوت ہو جاتا ہے اور روزہ دار روزے کے ثواب سے محروم ہو جاتا ہے۔ کیونکہ روزہ رکھنا اپنی جگہ ہے اور گناہ کے کام کرنا اپنی جگہ۔ ایک نیکی ہے اور دوسری برائی۔ اور قیامت کے دن ہر شخص اپنی چھوٹی بڑی نیکی اور برائی دونوں کا حساب و کتاب دے گا۔ اس مفہوم کو واضح کرنے کے لیے ذیل کی حدیث پر غور کیجیے:

 حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ ایک صحابی حضور کے پاس آئے اور فرمایا کہ میرے پاس کچھ غلام ہیں جو میری بات نہیں مانتے اور میری نافرمانی کرتے ہیں اور میں انھیں گالم گلوچ کرتا ہوں اور مارتا ہوں۔ قیامت کے دن ان کے ساتھ میرا حساب و کتاب کیسا ہو گا؟ آپؐ نے جواب دیا ان غلاموں نے تمھاری جتنی نافرمانی اور خیانت کی ہو گی اور تم نے انھیں جتنی سزا دی ہو گی ان سب کا حساب کیا جائے گا۔ اگر ان کی نافرمانی کے مقابلے میں تمھاری سزا کم ہو گی تو یہ تمھارے حق میں بہتر ہو گا۔ اگر ان کی نافرمانی اور تمھاری سزا برابر ہو گی تو حساب کتاب برابر رہے گا۔ لیکن اگر تمھاری سزا ان کی نافرمانی کے مقابلے میں زیادہ ہو گی تو اسی حساب سے تمھاری بھلائی ان غلاموں کو دے دی جائے گی۔ یہ سن کر وہ صحابیؓ رونے لگے۔ حضوؐر نے فرمایا کہ قرآن کی اس آیت کو پڑھو: ونضع الموازین القسط لیوم القیامۃ فلا تظلم نفس شیئا و ان کان مثقال حبۃ من خردل اتینا بھا وکفی بنا حاسبین. (الانبیاء:۴۷)

‘‘قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازورکھ دیں گے پھر کسی شخص پر ذرہ برابر ظلم نہ ہو گا۔ جس کا رائی کے دانے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہو گا وہ ہم سامنے لے آئیں گے اور حساب لگانے کے لیے ہم کافی ہیں۔’’

 یہ سن کر صحابیؓ نے تمام غلام آزاد کر دیے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: اگر اسے اس بات کا یقین ہو کہ اذان بالکل صحیح وقت پر ہو رہی ہے تو اذان سنتے ہی اسے سحری کھانا چھوڑ دینا چاہیے۔ حتیٰ کہ اگر اس کے منہ میں نوالہ ہے تو اسے چاہیے کہ اسے اگل دے تاکہ یقینی طور پر اس کا روزہ صحیح ہو۔ تاہم اگر اسے یقین ہو یا کم از کم شک ہو کہ اذان وقت سے قبل ہو رہی ہے تو اذان سن کر کھانے کا عمل جاری رکھ سکتا ہے۔ اس بات کے یقین کے لیے کہ اذان بالکل صحیح وقت پر ہو رہی ہے مختلف چیزوں سے مدد لی جا سکتی ہے۔ مثلاً کیلنڈر یا گھڑی یا اس قسم کی دوسری چیزیں جو آج کل بآسانی دستیاب ہیں۔

عبداللہ بن عباسؓ سے کسی نے سوال کیا کہ سحری کھانے کے دوران میں اگر شک ہو کہ فجر کا وقت ہو گیا تو کیا میں سحری کھانا چھوڑ دوں؟ آپ ؓ نے جواب دیا کہ جب تک شک ہوکھاتے رہو۔ جب فجر کا یقین ہو جائے تو کھانا چھوڑ دو۔ امام احمد بن حنبل کا مسلک بھی یہی ہے۔

امام نووی کہتے ہیں کہ شوافع نے شک کی حالت میں کھاتے رہنے کا جواز درج ذیل قرآنی آیت سے اخذ کیا ہے: وَکُلُواْ وَاشْرَبُواْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ.(البقرہ:۱۸۷)

‘‘اور راتوں کو کھاؤ پیو حتیٰ کہ تم کو سیاہی شب کی دھاری سے سپیدہ صبح کی دھاری نمایاں نظر آجائے۔’’

اس آیت میں یقین کا لفظ ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جب یقینی طور پر کچھ واضح ہو جائے۔ یعنی جب شک کی کیفیت نہ ہو بلکہ یقین ہو کہ فجر کا وقت آگیا ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: صدقۃ الفطر اس شہر میں دینا چاہیے جہاں عید کی چاند رات گزاری ہو۔ کیونکہ اس صدقے کا سبب رمضان کے روزے نہیں بلکہ روزوں کا ختم ہو جانا ہے۔ اس لیے اسے اسی مناسبت سے صدقۃ الفطر کہتے ہیں۔ صدقۃ الفطر کا تعلق عید اور اس کی خوشیوں سے ہے اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ فقراء اور مساکین کو بھی عید کی خوشیوں میں شریک کیا جائے۔ حدیث ہے: اغنوھم فی ھذا الیوم.

‘‘اس دن انھیں (فقر ا اور مساکین کو) بھی مالدار کیا کرو۔’’

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: صدقۃ الفطر اس شہر میں دینا چاہیے جہاں عید کی چاند رات گزاری ہو۔ کیونکہ اس صدقے کا سبب رمضان کے روزے نہیں بلکہ روزوں کا ختم ہو جانا ہے۔ اس لیے اسے اسی مناسبت سے صدقۃ الفطر کہتے ہیں۔ صدقۃ الفطر کا تعلق عید اور اس کی خوشیوں سے ہے اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ فقراء اور مساکین کو بھی عید کی خوشیوں میں شریک کیا جائے۔ حدیث ہے: اغنوھم فی ھذا الیوم.

‘‘اس دن انھیں (فقر ا اور مساکین کو) بھی مالدار کیا کرو۔’’

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: تراویحـ کی نماز نہ عورتوں پر واجب ہے اور نہ مردوں پر۔ بلکہ یہ ایک سنت ہے، جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہایت عظیم اجر و ثواب ہے۔ حدیث نبویؐ ہے: ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے: من قام رمضان ایمانا و احتسابا غفراللہ ما تقدم من ذنبہ.(بخاری،مسلم)

‘‘جس نے رمضان میں رات کی نمازیں ایمان اور احتساب کے ساتھ پڑھیں اللہ اس کے پچھلے گناہ بخش دے گا۔’’

عورتوں کا اپنے گھر میں رہ کر رمضان کی راتوں کی نمازیں پڑھنا زیادہ افضل ہے۔ الا یہ کہ مسجدوں میں جانے سے ان کا مقصد صرف تراویح پڑھنا نہیں بلکہ دو سرے نفع بخش نیک کام ہوں مثلاً وعظ و تذکیر کے پروگرام میں شامل ہونا یا درس و تدریس کی مجلس سے استفادہ کرنا یا کسی جید قاری کی قرأت سننا تو ان حالتوں میں ان کا مسجد جا کر نماز ادا کرنا زیادہ افضل ہے۔ کیونکہ ان صورتوں میں نماز پڑھنے کے علاوہ دوسری نیکیاں بھی مقصود ہیں اور اس لیے بھی کہ آج کل مرد حضرات اپنی عورتوں کو دینی تعلیم دلانے کا زیادہ اہتمام نہیں کرتے۔ اس لیے ان عورتوں کا مسجد جا کر نماز با جماعت ادا کرنے کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم حاصل کرنا، ان کے لیے زیادہ بہتر ہے۔ اگر وہ گھر میں بیٹھی رہیں گی تو ممکن ہے کہ انھیں نماز میں وہ رغبت نہ پیدا ہوجو مسجد میں ہوتی ہے۔

لیکن بہر صورت عورتیں مسجدوں میں اپنے شوہروں کی اجازت ہی سے جا سکتی ہیں اور شوہروں کو بھی چاہیے کہ اپنی بیویوں کو مسجدوں میں جانے سے نہ روکیں الا یہ کہ واقعی کوئی شرعی عذر ہو۔ حضوؐر فرماتے ہیں: لا تمنعوااماء اللہ مساجد اللہ.(مسلم)

 ‘‘اللہ کی باندیوں (عورتوں) کو مسجدوں سے نہ روکو۔’’

عذر شرعی کی صورت یہ ہے کہ مثلاً شوہر بیمار ہو اور اسے بیوی کی خدمت کی ضرورت ہو۔ یا گھر میں چھوٹے چھوٹے بچے ہوں اور انھیں گھر میں تنہا چھوڑنا مناسب نہ ہو۔ وغیرہ۔

 اگر بچے مسجد میں شور مچاتے ہیں اور نمازیوں کو پریشان کرتے ہیں تو انھیں تراویح کی نماز کے لیے مسجد لے جانا مناسب نہیں ہے۔ کیونکہ تراویح کی نماز لمبی ہوتی ہے اور اتنی دیر تک بچوں کو سنبھالنا مشکل کام ہے۔ بخلاف پنج وقتہ فرض نمازوں کے کہ ان کا وقت مختصر ہوتا ہے۔ رہا مسئلہ عورتوں کا مسجدوں میں جا کر باتیں کرنے کا تو ان کا حکم بھی مردوں جیسا ہے۔ یعنی جس طرح مردوں کے لیے مناسب نہیں ہے کہ مسجدوں میں اونچی آواز میں باتیں کریں اور دنیوی معاملات کے متعلق گفتگو کریں اسی طرح عورتوں کے لیے بھی یہ مناسب نہیں ہے۔

 یہاں میں ایک خاص بات کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں ۔ کچھ ایسے حضرات ہوتے ہیں جو عورتوں کے معاملے میں ضرورت سے زیادہ غیرت مند ہوتے ہیں۔ اتنے زیادہ کہ ان پر تکلیف دہ حد تک پابندیاں عائد کرتے ہیں۔ انھیں کسی صورت میں مسجدوں میں جانے کی اجازت نہیں دیتے حالانکہ آج کل مسجدوں میں عورتو ں کے لیے علیحدہ محفوظ جگہ ہوتی ہے جبکہ حضوؐر کے زمانے میں عورتوں کے لیے کوئی علیحدہ جگہ نہیں ہوتی تھی۔ ان میں بعض حضرات ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی عورتوں کو مسجد میں سرگوشیوں تک کی اجازت نہیں دیتے حالانکہ وہ خود اونچی آواز وں میں باتیں کرتے ہیں۔ میں ان سے کہنا چاہوں گا کہ غیرت ایک اچھی صفت ہے لیکن اس میں حد سے تجاوزکرنا ایک ناپسندیدہ بات ہے۔ فرمان نبویؐ ہے: ان من الغیرۃ ما یبغضہ اللہ ورسولہ.

 ‘‘ کچھ ایسی غیرت ہے جسے اللہ ناپسند کرتا ہے اور اس کا رسول بھی۔’’

 دور حاضر نے نئی زندگی کے دروازے عورتوں پر بھی وا کیے ہیں۔آج عورتیں اپنے گھروں سے نکل کر اسکول، کالج اور بازار ہر جگہ آتی جاتی ہیں۔ لیکن اس جگہ جانے سے محروم ہو گئی ہیں جو اس سرزمین پر سب سے بہتر جگہ ہے یعنی مسجد۔ میں بغیر کسی تردد کے لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ عورتوں کے لیے بھی مسجدوں کے دروازے کشادہ کریں۔ انھیں بھی مسجدوں میں درس و تدریس کی مجلسوں سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کریں۔ انھیں بھی اللہ کی برکتوں سے فیض یاب ہونے کا موقع عطا کریں۔ بشرطیکہ عورتیں اسی انداز میں مسجد جائیں جس طرح مسجد جانے کا حق ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: ٹی وی ذرائع ابلاغ عامہ کا ایک حصہ ہے۔ اس میں خیر کا پہلو بھی ہے اور شر کا بھی۔ جس طرح دوسرے ذرائع ابلاغ مثلاً اخبارات و جرائد اور ریڈیو وغیرہ میں خیر و شر دونوں قسم کے پہلو ہوتے ہیں۔ مسلمان کو چاہیے کہ جو خیر ہو اس سے نفع حاصل کرنے کی کوشش کرے اور جو شر ہو اس سے اجتناب کرے، چاہے وہ روزے کی حالت میں ہو یا نہ ہو۔ لیکن روزے دار اور ماہ رمضان کی اہمیت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس مہینے میں اپنے آپ کو شر سے محفوظ رکھنے اور خیر کی سبقت لے جانے کا خاص اہتمام کرے۔ٹی وی دیکھنا فی نفسہ نہ مطلقاً حرام ہے اور نہ مطلقاً حلال۔ اس کا حرام یا حلال ہونا اس بات پر منحصر ہے کہ ہم کون سا پروگرام دیکھ رہے ہیں؟ اگر یہ پروگرام بھلی باتوں پر مشتمل ہو مثلاً کوئی دینی پروگرام ہو یا نیوز کا پروگرام ہو یا کوئی مفید معلوماتی پروگرام ہو تو اس کا دیکھنا بالکل جائز ہے۔ لیکن اگر فحش قسم کے پروگرام ہوں تو ان کا دیکھنا ناجائز ہے چاہے رمضان کا مہینہ ہو یا کوئی دوسرا مہینہ۔ البتہ رمضان میں ان کا دیکھنا مزید باعث گناہ ہے۔ اسی طرح اگر ٹی وی دیکھنے میں اس قدر انہماک ہو کہ نماز وغیرہ سے غفلت ہو جاتی ہو تب بھی اس کا دیکھنا جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب شراب اورجوئے کو حرام قرار دیا تو اس کی حرمت کی علت یہ بتائی کہ یہ دونوں چیزیں انسانوں کو اللہ کی یاد سے غافل کر دیتی ہیں۔ اللہ فرماتا ہے: إِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطَانُ أَن یُوقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَاء فِیْ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَن ذِکْرِ اللّہِ وَعَنِ الصَّلاَۃِ فَہَلْ أَنتُم مُّنتَہُونَ.(المائدہ:۹۱)

‘‘شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمھارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے اور تمھیں خدا کی یاد اور نماز سے روک دے۔ پھر کیا تم ان چیزوں سے باز رہو گے؟’’

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: بخاری و مسلم کی حدیث ہے: من قام رمضان ایمانا و احتسابا غفرلہ ماتقدم من ذنبہ.

 ‘‘جس نے رمضان میں قیام لیل کا اہتمام ایمان و احتساب کے ساتھ کیا اس کے پچھلے گناہ بخش دیے گئے۔’’

اللہ تعالیٰ نے رمضان میں دن کے وقت ہم پر روزے فرض کیے اور رات کے وقت نفل نمازوں کے اہتمام کی تاکید کی تاکہ یہ عبادتیں ہمارے گناہوں کی معافی کا سبب بن سکیں۔ لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ وہ کون سی نمازیں ہیں، جن سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ یہ وہ نمازیں ہیں جن میں نماز کے ارکان و شرائط اور اس کے آداب کا پورا خیال رکھا گیا ہو۔ یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ اطمینان اور سکون کے ساتھ نماز کی ادائیگی نماز کے ارکان میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضوؐر نے اس شخص کو، جس نے جلدی جلدی نماز ادا کی تھی، فرمایا: ارجع فصل فانک لم تصل.

‘‘واپس جاؤ پھر نماز پڑھو کیونکہ تمھاری نماز نہیں ہوئی۔’’

 اس کے بعد آپ نے اسے نماز پڑھنی سکھائی کہ کس طرح ٹھہر ٹھہر کر اطمینان کے ساتھ نمازا دا کی جاتی ہے۔ اللہ کا فرمان ہے: قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ. الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خَاشِعُونَ.(المومنون:۱،۲)

‘‘کامیاب ہوئے وہ جو ایمان لائے۔ جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرتے ہیں۔’’

معلوم ہوا کہ وہ نماز کامیابی کی ضامن ہے جو خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کی جائے۔ خشوع کی دو قسمیں ہیں۔ ایک تو دل کا خشوع یعنی اس بات کا پوری طرح احساس ہو کہ نماز کے دوران میں ہم کسی ہستی کے ساتھ ہم کلام ہیں اور یہ کہ وہ ہماری تمام حرکتیں دیکھ رہا ہے۔ دل کا خشوع یہ بھی ہے کہ ہم جو کچھ پڑھیں سمجھ کر پڑھیں۔ ایسا نہ ہو کہ زبان پر تو اللہ کا کلام ہو اور دل کہیں اور غائب۔

خشوع کی دوسری قسم بدن کا خشوع ہے اور وہ یہ ہے کہ نماز میں احترام و ادب کا خاص خیال ہو۔ نماز کے دوران ادھر ادھر دیکھنا، کھٹا کھٹ رکوع و سجدہ کرنا، بار بار کھجلانا یا کپڑوں سے کھیلنا یہ سب احترام و آداب کے خلاف ہے۔

تمام مسلمان بھائیوں کے لیے میری یہ نصیحت ہے کہ جب ہم نماز پڑھیں تو یہ خیال کر لیں کہ ہم کس ہستی کے سامنے کھڑے ہیں اور کس سے ہم کلام ہیں۔ ہمیں احساس ہو کہ وہ ہستی ہمیں دیکھ رہی ہے۔ نمازیوں ادا کرنا کہ گویا ایک مشکل مرحلہ تھا جو سر ہو گیا یا بھاری بوجھ تھا جسے منزل مقصود تک پہنچا دینا نماز کی حکمت و غایت کے عین منافی ہے۔ بہت سارے لوگ رمضان میں بیس رکعت تراویح چند منٹوں میں ختم کر لیتے ہیں۔ قرآن جلدی جلدی اور تیز تیز پڑھتے ہیں تاکہ کم سے کم وقت میں نماز ختم ہو جائے۔ نہ اطمینان سے رکوع کرتے ہیں اور نہ سجدہ اور نہ خشوع و خضوع ہی کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ تو ایسی نماز ہوئی جس کے بارے میں نبیؐ نے فرمایا: تعرج الی السماء وھی سوداء مظلمۃ تقول لصاحبھا ضیعک اللہ کما ضیعتنی.

‘‘یہ نماز آسمان کی طرف جاتی ہے اس حالت میں کہ کالی اور تاریک ہوتی ہے۔ نماز پڑھنے والے سے کہتی ہے کہ اللہ تمھیں ضائع کرے جس طرح تم نے مجھے ضائع کر دیا۔’’

بغیر خشوع اور اطمینان کے ساتھ تراویح پڑھنے والوں کے لیے میری یہ نصیحت ہے کہ خشوع اور اطمینان کے ساتھ ادا کی گئی آٹھ رکعتیں جلدی جلدی ادا کی گئی بیس رکعتوں سے بہتر اور افضل ہیں۔ اگر بیس رکعات پڑھنا مشکل ہو تو آٹھ رکعت ہی پر اکتفا کریں لیکن اطمینان اور خشوع و خضوع کا ضرور خیال کریں۔ اللہ تعالیٰ یہ نہیں دیکھے گا کہ کتنی رکعتیں پڑھیں بلکہ اس کے نزدیک خضوع و خشوع کی اہمیت ہے اور یہی خشوع دراصل باعث مغفرت و رحمت ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

 جواب: تمام علماء کا اتفاق ہے کہ ایام حیض میں روزے اور نماز دونوں معاف ہیں تاہم روزوں کی قضا لازمی ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ ایام حیض میں عورتیں جسمانی طور پر کمزوری، تکلیف اور تکان محسوس کرتی ہیں اور یہ اللہ کی رحمت ہے ان پر کہ اللہ نے ان ایام میں انھیں یہ آسانی عطا کی ہے۔

 ایام حیض کو موخر کرنے کی خاطر دواؤں کے استعمال کے سلسلے میں میری اپنی ذاتی رائے یہ ہے کہ یہ فطرت کے ساتھ جنگ ہے۔ بہتر یہ ہے کہ تمام معاملات اپنے فطری انداز میں انجام پاتے رہیں۔ حیض کا جاری ہونا ایک فطری عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی فطرت پر عورت کی تخلیق کی ہے اور یہ اللہ ہی ہے جس نے ان ایام میں ان پر روزے اور نماز معاف کیے۔ اس لیے ہم بندوں کو چاہیے کہ ہم بھی اللہ کی فطرت اور اس کے منشا کے آگے سر تسلیم خم کر دیں۔تاہم میں ان دواؤں کے استعمال کو ناجائز بھی نہیں قرار دیتا۔ اگر ایسی دواؤں کا وجود ہے کہ جن سے ایام حیض کو منسوخ کیا جا سکتا ہو تو ان کا استعمال اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ نیت صرف یہ ہو کہ روزے قضا نہ ہوں اور یہ کہ صحت پر کوئی خراب اثر نہ پڑے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: قضا روزے کسی بھی مہینے میں رکھے جا سکتے ہیں۔ اس میں شعبان اور شوال کی کوئی قید نہیں ہے۔ روایتوں میں ہے کہ حضرت عائشہؓ بسا اوقات بعض قضا روزے شعبان کے مہینے میں رکھتی تھیں۔ اس لیے آپ نے جو روزے شعبان میں رکھے ہیں ان شاء اللہ وہ اللہ کے یہاں مقبول ہوں گے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: وہ انجکشن جن کی دوائیں معدے تک نہیں جاتیں یا بالفاظ دیگر جن کا مقصد مریض کو غذا فراہم کرنا نہیں ہوتا، ان کے لگانے میں کوئی حرج نہیں۔ اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے۔البتہ انجکشن کی وہ قسمیں جن کا مقصد مریض کو غذا فراہم کرنا ہوتا ہے مثلاً گلوکوز کا پانی چڑھانا وغیرہ تو اس سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے کہ ایسی چیزوں کا وجود حضوؐر کے زمانے میں تھا اور نہ سلف صالحین کے دور میں۔ یہ تو عصر جدید کی ایجاد ہے۔ علماء کے ایک طبقے کا خیال ہے کہ اس قسم کے انجکشن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ جبکہ دوسرا طبقہ روزے کی حالت میں مریض کے لیے اس کے استعمال کو جائز قرار دیتا ہے۔

اگرچہ میں دوسرے طبقے کی رائے کو قابل ترجیح سمجھتا ہوں، تاہم احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ روزے کی حالت میں اس قسم کے انجکشن سے پرہیز کرنا چاہیے۔ رمضان کی راتوں میں یہ انجکشن لیے جا سکتے ہیں اور اگر دن کے وقت اس انجکشن کا لگانا ضروری ہو تو اللہ تعالیٰ نے ویسے ہی مریض کے لیے روزے معاف کیے ہیں۔ اس قسم کے انجکشن سے معدہ میں براہ راست کوئی غذا تو نہیں پہنچتی البتہ اس کے استعمال سے بدن میں ایک قسم کا نشاط اور قوت آجاتی ہے اور یہ بات روزے کے منافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو روزے ہم پر فرض کیے ہیں تو اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہم بھوک پیاس کی تکلیف کو محسوس کر سکیں۔ اگر اس قسم کے انجکشن کی عام اجازت دے دی جائے تو صاحب حیثیت حضرات اس کا استعمال عام کر دیں گے تاکہ وہ بھوک پیاس کی تکلیف کو کم سے کم کر سکیں اور یوں روزے کا ایک مقصد فوت ہو جائے گا۔

رہی بات کانوں میں تیل ڈالنے یا آنکھوں میں سرمہ لگانے کی تو اس سلسلے میں علماء کا اختلاف ہے علماء کے متشدد طبقے کی رائے یہ ہے کہ ان چیزوں کے استعمال سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ جبکہ معتدل قسم کے فقہاء کا خیال ہے کہ ان کے استعمال سے روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ ان کے استعمال سے نہ معدے تک کوئی غذا پہنچتی ہے اور نہ بدن میں کوئی مقوی شے جو بدن کو تقویت بخشے۔ میرے نزدیک یہی رائے قابل ترجیح ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کی بھی یہی رائے ہے۔ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ یہ چیزیں روزہ توڑنے والی ہوتیں تو حضورؐ لازمی طور ان کے بارے میں لوگوں کو بتاتے کہ یہ چیزیں روزہ توڑنے والی ہیں کیونکہ ان چیزوں کا وجود حضوؐر کے زمانہ میں بھی تھا۔ لیکن صورت حال یہ ہے کہ کوئی بھی حدیث نہیں ہے جس میں حضوؐر نے ان چیزوں کے استعمال سے منع فرمایا ہو۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: زوال شمس سے قبل مسواک کرنا ایک پسندیدہ اور مستحب عمل ہے روزے کی حالت میں بھی اور عام دنوں میں بھی۔ زوال کے بعد مسواک کرنے کے سلسلے میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض علماء کے نزدیک زوال کے بعد مسواک کرنا صرف مکروہ ہے۔ کیونکہ حدیث میں ہے کہ روزے دار کے منہ کی بو اللہ کو مشک سے بھی زیادہ پسند ہے۔ اس لیے روزے دار کو چاہیے کہ اس پسندیدہ چیز کو برقرار رکھے اور مسواک کرکے اسے زائل نہ کرے۔ بالکل اسی طرح جس طرح شہیدوں کو ان کے خون آلودہ کپڑوں کے ساتھ ہی دفن کرنے کی تلقین ہے کیونکہ قیامت کے دن ان کے خون آلود کپڑوں سے مشک کی خوشبو آئے گی۔

میری رائے یہ ہے کہ حدیث میں روزے دار کے منہ کو مشک سے بھی زیادہ پسندیدہ قراردینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے برقرار بھی رکھا جائے۔ کیونکہ کسی صحابی سے مروی ہے کہ : ارایت النبی یتسوک مالا یحصی وھو صائم.

‘‘میں نے نبیؐ کو اتنی دفعہ مسواک کرتے دیکھا کہ جس کا کوئی شمار نہیں حالانکہ وہ روزے کی حالت میں تھے۔’’

مسواک کرنا ایک پسندیدہ عمل ہے، حضوؐر کی سنت ہے اور حضوؐر نے بارہا اس کی ترغیب دی ہے۔ حدیث میں ہے: السواک مطھرۃ للفم مرضاۃ للرب

 ‘‘مسواک منہ کے لیے پاکی کا باعث اور خدا کی رضا کا موجب ہے۔’’

اسی طرح دانتوں کی صفائی کے لیے روزے کی حالت میں پیسٹ کا استعمال بھی جائز ہے۔ البتہ اس بات کی احتیاط لازم ہے کہ اس کا کوئی حصہ پیٹ میں نہ چلا جائے۔ کیونکہ جو چیز پیٹ میں چلی جاتی ہے روزہ توڑنے کا باعث بنتی ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ روزے کی حالت میں پیسٹ کے استعمال سے پرہیز کیا جائے۔ لیکن اگر کوئی شخص پیسٹ کا استعمال غایت درجہ احتیاط کے ساتھ کرتا ہے اور اس کے باوجود اس کا کچھ حصہ پیٹ میں چلا جائے تو میرے نزدیک اس کا روزہ نہیں ٹوٹتا۔ کیونکہ جان بوجھ کر اس نے وہ چیز پیٹ میں نہیں پہنچائی بلکہ غلطی سے چلی گئی اور اللہ کے نزدیک یہ بھول چوک معاف ہے۔ حدیث میں ہے: رفع عن امتی الخطا والنسیان وما استکر ھوا علیہ.

‘‘میری امت بھول چوک کے معاملے میں اور زبردستی کوئی غلط کام کرائے جانے کے معاملے میں مرفوع القلم ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: اس بات پر تمام امت کا اتفاق ہے کہ سفر کی حالت میں روزہ قضا کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس سلسلے میں قرآن کی واضح ہدایت موجود ہے: فَمَنْ کَانَ مَرِیْضاً أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَر. (البقرہ:۱۸۵)

 ‘‘اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔’’

البتہ مسافت کی وہ مقدار جس پر سفر کا اطلاق ہو اس سلسلے میں علماء کا اختلاف ہے۔ آپ نے جس مقدار کا تذکرہ کیا ہے، میرا خیال ہے کہ تمام فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اتنی مسافت کے سفر کو نماز قصر کرنے اور روزہ قضا کرنے کے لیے کافی تصور کیا جائے۔ کیونکہ جمہور فقہاء نے ۸۴ کلومیٹر کی مقدار کو متعین کیا ہے اور ۸۱ اور ۸۴ میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ حضوؐراور صحابہؓ سے ایسی کوئی روایت منقول نہیں ہے کہ انھوں نے سفر کی پیمائش میٹر یا کلومیٹر سے کی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بعض فقہاء کے نزدیک مسافت کی کوئی شرط نہیں ہے ۔ ان کے نزدیک ہر اس سفر کو جسے عرف عام میں سفر کہا جا سکے، اس میں نماز کی قصر اور روزہ کی قضا جائز ہے۔

سفر کی حالت میں اس بات کا اختیار ہے کہ روزہ رکھا جائے یا اسے قضا کیا جائے۔ روایتوں میں ہے کہ صحابہؓ، حضوؐرکے ساتھ سفر پر ہوتے تھے۔ ان میں بعض روزے کی حالت میں ہوتے تھے اور بعض بغیر روزے کے ہوتے تھے۔ حضوؐر نے ان دونوں میں کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح نہیں دی۔ یعنی دونوں ہی حضورؐ کی نظر میں یکساں تھے۔

 سفر اگر پر مشقت ہو اور اس میں روزہ رکھنا تکلیف دہ ہو تو ایسی حالت میں روزہ رکھنا مکروہ ہے بلکہ شاید حرام ہو کیونکہ روایت میں نبیؐ نے ایک شخص کو اس حالت میں دیکھا کہ لوگ اس پر سایہ کیے ہوئے تھے۔ وہ روزے کی وجہ سے بد حال تھا اور وہ مسافر بھی تھا۔ آپؐ نے اس شخص کے بارے میں دریافت کیا تو لوگوں نے بتایا کہ وہ روزے سے ہے۔ آپ نے فرمایا:لیس من البر الصیام فی السفر. (بخاری)

‘‘سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی کا کام نہیں ہے۔’’

سفر اگر پر مشقت نہ ہو اور روزہ رکھنے میں کوئی تکلیف نہ ہو تو روزہ رکھنا اور اس کی قضا کرنا دونوں ہی جائز ہے جیسا کہ میں نے اوپر تذکرہ کیا۔ البتہ اس بارے میں علماء میں اختلاف ہے کہ ان دونوں صورتوں میں افضل صورت کون سی ہے؟ بعض نے روزہ رکھنے کو افضل قرار دیا ہے جبکہ بعض نے روزہ چھوڑنے کو افضل قرار دیا ہے۔ عمر بن عبدالعزیز فرماتے ہیں کہ ان دونوں صورتوں میں جو سب سے آسان ہو وہی افضل ہے۔ روایت میں ہے کہ حمزہ بن عامر الاسلمیؓ نے حضورؐ سے دریافت کیا کہ میں اکثر سفر پر رہتا ہوں۔ بسا اوقات رمضان میں بھی سفر کرتا ہوں، میں نوجوان ہوں اور بہ آسانی سفر میں روزہ رکھ سکتا ہوں۔ میرا روزہ رکھنا زیادہ افضل اور باعث اجر ہے یا روزہ قضا کرنا؟ آپؐ نے فرمایا: أی ذلک سئت یا حمزۃ.(ابوداؤد)

 ‘‘ان دونوں میں سے جو تم چاہو اے حمزہ۔’’

 یعنی جو تمھیں آسان لگے وہی کرو اور وہی افضل ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ حضوؐرنے جواب دیا: ھی رخصۃ من اللہ لک فمن اخذبھا فحسن ومن احب ان یصوم فلا جناح علیہ. (نسائی)

‘‘یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمھارے لیے چھوٹ ہے جس نے اس چھوٹ سے فائدہ اٹھایا تو بہتر ہے اور جس نے روزہ رکھا تو کوئی حرج نہیں۔’’

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس آیت میں مسافر کے لیے روزے کی قضا کی اجازت دی ہے اس میں رخصت کی علت سفر بتائی ہے، نہ کہ سفر کی مشقت۔ اس آیت میں یہ نہیں بتایا کہ سفر میں مشقت ہو تو قضا کی رخصت ہے ورنہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے صرف سفر کی بنا پر ہمیں یہ رخصت عطا کی ہے اور ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اس رخصت سے فائدہ اٹھائیں۔ خواہ مخواہ کی باریکیوں میں پڑ کر اس رخصت کو برباد نہ کریں جو لوگ اکثر سفر میں رہتے ہیں وہ یہ بات بخوبی سمجھتے ہیں کہ سفر بہ ذات خود تکلیف دہ ہوتا ہے، چاہے گاڑی کا سفر ہو یا ہوائی جہاز کا۔ انسان کا اپنے وطن سے دور ہونا بہ ذات خود پریشانیوں کا سبب ہے کیونکہ اس کی روزمرہ کی زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اور انسان نفسیاتی طور پر بے چین رہتا ہے۔ کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ نے اس وجہ سے ہمیں صرف سفر کی بنا پر یہ رخصت عطا کی ہو۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: صدقۃ الفطر کی مقدار سال بہ سال تبدیل نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک محدود اور متعین مقدار ہے جسے نبیؐ نے مقرر کیا ہے۔ یہ مقدار ایک صاع یعنی تقریباً دو کلوگرام اناج ہے۔ میرے خیال میں صدقۃ الفطر کو اناج کی صورت میں مقرر کرنے میں دو حکمتیں پوشیدہ ہیں۔

۱۔ پہلی حکمت یہ ہے کہ اس زمانے میں عربوں ، خاص کر دیہات میں رہنے والوں کے پاس دینار و درہم (پیسوں) کے مقابلے میں اناج اور غلہ زیادہ موجود ہوتا تھا۔ بہت سارے ایسے لوگ تھے جن کے پاس غلہ اور اناج تو ہوتا تھا لیکن نقد رقم کی صورت میں ان کے ساتھ کچھ بھی نہیں ہوتا تھا۔ صدقۃ الفطر کو پیسوں کی صورت میں ادا کرنا ہو تاتو شاید بہت سارے لوگ پریشانیوں میں مبتلا ہو جاتے۔

۲۔ دوسری حکمت یہ ہے کہ پیسوں کی قوت خرید ہمیشہ تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ آج اگر پانچ روپے کا ایک کلو چاول مل رہا ہے، تو کل اس ایک کلو چاول کی قیمت دس روپے بھی ہو سکتی ہے۔ اسی لیے حضوؐر نے صدقۃ الفطر کو اناج اور غلے کی صورت میں مقرر کر دیا تاکہ مقرر شدہ اناج کی پوری مقدار غریبوں تک پہنچتی رہے۔

احناف کے نزدیک اس مقرر شدہ اناج کی قیمت بھی ادا کی جا سکتی ہے۔ حضوؐر نے صدقۃ الفطر کے لیے اناج کی محض چند قسموں کا تذکرہ کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان قسموں کے علاوہ دوسری قسموں کو بطور صدقۃ الفطر ادا نہیں کیا جا سکتا۔ علمائے کرام کہتے ہیں کہ جس جگہ صدقۃ الفطر ادا کیا جا رہا ہے وہاں اناج کی جتنی قسمیں مستعمل ہیں، ان میں سے کسی بھی قسم سے صدقۃ الفطر نکالا جا سکتا ہے۔ چاہے گیہوں ہو یا چاول یا کھجور یا مکئی یا اس کے علاوہ دوسری کوئی چیز۔

اگر آدمی صاحب حیثیت ہے تو اسے چاہیے کہ اس مقرر شدہ اناج کے علاوہ کچھ رقم ادا کرے کیونکہ اس دور میں کھانا فقط چاول یا روٹی پر مشتمل نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ سالن کی صورت میں دوسرے لوازمات بھی ضروری ہوتے ہیں۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: شافعی اور حنبلی مسلک کے لحاظ سے اگر چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا دوسرے رمضان کے آنے تک نہ ہو سکی تو ایسی صورت میں قضا کے ساتھ ساتھ فدیہ بھی واجب ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ بعض صحابہؓ سے یہی منقول ہے۔ فدیہ یہ ہے کہ ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔ جمہور علماء کے نزدیک صرف قضا واجب ہے فدیہ نہیں۔

 میری رائے یہ ہے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا تو بہر حال لازمی ہے، اس سے کوئی مفر نہیں۔ البتہ فدیہ بھی ادا کر دیا تو زیادہ بہتر ہے ورنہ کوئی بات نہیں کیونکہ براہ راست حضوؐرسے کوئی ایسی روایت نہیں ہے جس میں فدیہ ادا کرنے کی بات ہو۔

شک کی صورت میں انسان اسی پر عمل کرے جس کا اسے یقین ہو یا کم از کم غالب گمان ہو۔ بہرحال مزید اطمینان کی خاطر زیادہ روزے رکھ لینا بہتر ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: رمضان کے علاوہ شعبان وہ مہینہ ہے، جس میں حضوؐر روزے کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کرتے تھے۔ لیکن حضرت عائشہؓ کے مطابق صرف رمضان ہی ایسا مہینہ ہے، جس میں حضوؐر پورے مہینے روزے رکھتے تھے۔ بعض عرب ملکوں میں کچھ ایسے لوگ ہیں جو رجب شعبان اور رمضان تینوں مہینے لگاتار روزے رکھتے ہیں۔ حالانکہ یہ عمل حضوؐر سے ثابت نہیں ہے۔ اسی طرح بعض لوگ شعبان کے کچھ متعین ایام میں روزوں کا اہتمام کرتے ہیں۔

اسلامی شریعت میں یہ بات جائز نہیں کہ بغیر شرعی دلیل کے کسی بھی دن یا مہینے کو روزے یا کسی دوسری عبادت کے لیے خاص کر لیا جائے۔ کسی دن کو کسی عبادت کے لیے خاص کرنا صرف شارع یعنی اللہ کا حق ہے۔ وہی ایسا کر سکتا ہے۔ کوئی بندہ نہیں۔ اسی لیے روزوں کے لیے ہم ان ہی ایام کو مخصوص کر سکتے ہیں، جن میں حضوؐر کا عمل موجود ہو۔ مثلاً حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضوؐر جب روزہ رکھنا شروع کرتے تو ایسا لگتا کہ اب ہمیشہ رکھیں گے۔ اور جب روزہ نہیں رکھتے تو ایسا لگتا کہ اب کبھی روزہ نہیں رکھیں گے۔ حضوؐرسوموار اور جمعرات کے روزوں کا اہتمام کرتے تھے۔ اسی طرح ہر مہینے کے تین روشن دنوں میں روزوں کا اہتمام کرتے تھے۔ اسی طرح ماہ شعبان میں زیادہ سے زیادہ روزے رکھتے تھے۔تا ہم ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ شعبان کی کسی خاص تاریخ کو آپؐ نے روزے کے لیے مخصوص کیا ہو۔

(علامہ یوسف القرضاوی)