سر چھپائیں تو بدن کھلتا ہے

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : ستمبر 2009

            ہمارے محترم دوست افتخار تبسم نے ایک ایسی ویڈیو کا ویب لنک بھیجا ہے ، جسے، میں نہ چاہتے ہوئے بھی کئی بار دیکھ چکا ہوں اور کئی بار پریشانی اورسوچ کے دریا میں ڈوب چکا ہوں۔ یہ پانچ منٹ کی ویڈیوہے جوفلپائن کے دارالحکومت منیلا کی غربت کا نقشہ کھینچتی ہے۔ اس میں پہلے میکڈونلڈ کا منظر دکھایا گیا ہے جس میں غربت سے نا آشنا جوڑوں کوکھانا کھاتے دکھایاگیاہے۔ کوئی کھانے کا آدھا حصہ کھاتا ہے تو کوئی چوتھائی اور کوئی ویسے ہی چھوڑ کر اپنی راہ لیتا ہے ۔ یہ سارا بچا کھچا کھانا میکڈونلڈ کے بڑے ڈسٹ بن میں جمع ہوتاجاتا ہے دوسرے منظر میں ایک مزدور کو دکھایا گیا ہے جس نے سائیکل کے پیچھے ایک ڈرم باندھ رکھا ہے اور وہ کھانے کی تلاش میں میکڈونلڈ کے کچرے تک پہنچتا ہے۔ اس کچرے سے وہ کھانے کی باقیات تلاش کرتا ہے اور اپنے ڈرم میں ڈالتا جاتا ہے ۔ان باقیات میں سے وہ پھر چھانٹی کرتاہے اور قدرے بہتر بوٹیاں اور روٹیاں ایک الگ لفافے میں ڈالتا ہے اور اپنے محلے کی طرف گامزن ہوجاتا ہے۔ جوں ہی محلے کے بچے اس کو آتا دیکھتے ہیں تو اس کی طرف خوشی سے دوڑ لگاتے ہیں اور اس کے ڈرم پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔جس کے ہاتھ جو آتا ہے وہ لے کر اپنے اپنے گھر کی طرف دوڑ پڑتا ہے۔وہ لفافہ جو اس مزدور نے الگ سے رکھ لیا تھا ،وہ اس کو لے کر اپنے گھر پہنچتا ہے تو اس کے بچو ں کے چہرے بھی خوشی سے دمک اٹھتے ہیں۔ وہ سب بڑے اشتیاق سے کھانے کی میز پر بیٹھتے ہیں۔ اس موقع پر بچوں کے چہرے پر خوشی کا جو تاثر ہے وہ ناقابل بیان ہے ۔ جوں ہی یہ بچے آسودہ حال لوگوں کے اس بچے کھچے کھانے کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہیں توان کا باپ انکو روک دیتا ہے اور کہتا ہے کہ پہلے اللہ کا نام لو اور پھر شروع کرو۔ وہ اپنے عقیدے کے مطابق دعا کرتے ہیں اور پھرکھانا شروع کرتے ہیں اس کے ساتھ ہی یہ ویڈیو ختم ہو جاتی ہے۔

            اس ویڈیو نے میرے ذہن میں کتنے ہی بھولے بسرے منظر تازہ کر دیے ۔ مجھے وہ ماں یاد آئی جس کو اس زمانے کاسب سے سستا پھل یعنی تربوز بھی میسر نہ تھا اور جب ایک دن اس کے پاس کہیں سے ایک روپیہ آیا تھاتو وہ اپنے بیٹے کی انگلی پکڑ کر بازار گئی تھی ۔ اس نے تربوز خریدا تھااور بازار کے ساتھ ہی ایک گلی میں بیٹھ کر اسے کھایا تھا اور اللہ کا شکر ادا کیا تھا۔

             مجھے وہ بچہ یا د آیا جسے ناشتے میں دہی بے حد پسند تھا مگر اتنی توفیق نہ تھی کہ دہی خریدا جا سکے اور جس دن اسے دو یا چار آنے میسر آجاتے ،وہ سب سے پہلے بازار کو بھاگتا اوردہی خرید لاتا ۔اس دن اسے جو خوشی ہوتی وہ مجھے آج بھی یاد ہے۔

            مجھے وہ بچہ بھی یاد آیا جس نے عید پر اپنی ماں سے نئے کپڑوں کی ضد کی تھی او راس کی ماں نے اسے مارا تھا او ر کہا تھا کہ کیا تو بیوقوف ہے جو عید پر نئے کپڑے مانگتا ہے ؟

            مجھے وہ باپ بھی یاد آیا جس نے تیز بخار کی حالت میں ڈاکٹر سے کہا تھا کہ وہ اسے کوئی ایسی دوا دے کہ بخار فوراً اتر جائے تا کہ وہ اس دن کی دیہاڑی لگا سکے ورنہ شام کو اس کے بچے روٹی سے محروم رہ جائیں گے۔

             مجھے کچرے کے ڈھیر سے روٹی تلاش کرتے وہ بچے بھی یاد آئے جو پاکستا ن کے ہر شہر میں جگہ جگہ مل جاتے ہیں۔

            مجھے وہ ماں بھی یاد آئی جس نے غربت سے تنگ آکر تین بچوں سمیت گاڑی کے نیچے آکر اپنی جان دے دی تھی اور وہ ماں بھی جو اپنی تین بچیوں کو بھرے بازار میں چھوڑ کر فرار ہو گئی تھی۔

            مجھے جون جولائی کی چلچلاتی دھوپ میں سگنلز پر کھڑی گاڑیوں کے گردا گر د ننگے پاؤں والے وہ بچے بھی یا دآئے جو چھوٹی چھوٹی چیزیں بیچتے نظر آتے ہیں اور یہ امید لیے ہوتے ہیں کہ کوئی ترس کھا کر انہیں دو چار روپے دے دے گا۔

            یہ سارے مناظر دیکھ کر اکثر یہ سوچتا ہوں کہ کم از کم ایک مسلم معاشرے میں تو یہ مناظر نظر نہیں آنے چاہیے تھے کیونکہ جس طرح ایک مسلمان کے لیے آخرت کی فکر ضروری ہے یا اپنے ایمان کی سلامتی ، بقا اور ترقی کی کوشش ضروری ہے اسی طرح غربت و افلاس سے بچنے کی کوشش بھی لازم ہے کیونکہ فقر و فاقہ وہ ناسور ہے جو نہ صرف شخصی بلکہ قومی سطح پر بھی بہترین صلاحیتوں کو مفلوج کر کے رکھ دیتا ہے بلکہ بعض صورتوں میں کفر تک بھی لے جاتا ہے ۔ مگر مسلم معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ یہ صدیوں ملوکیت اور بادشاہت کا شکار رہا اور آج بھی جاگیرداری، سرمایہ داری اور سیاسی اجارہ داری کی شکل میں ملوکیت کی ایک نئی قسم کا شکا رہے ۔ ملوکیت جیسی بھی ہو اس کا مفاد ہر زمانے میں اسی امر میں پوشید ہ رہاہے کہ عوام کو غربت کے فضائل سناکر انہیں اپنی حالت پر مطمئن رہنا سکھایا جائے ۔ صدیوں کی محنت بے کار نہیں گئی ، نتیجتاً آج ہمارے مذہبی طبقے کا ایک بڑا حصہ باقاعدہ سے یہ سوچ رکھتا ہے کہ غربت ایک قسم کی فضیلت ہے اور اس سے نجات کی فکر ایک بے کار کوشش ہے۔ حیرت تو اس امر پر ہوتی ہے کہ یہ سب لوگ اس نبی ﷺکے امتی ہیں جنہوں نے ہمیشہ محنت اورجہد مسلسل کا درس دیا ۔ جنہوں نے مانگنے والے کو رسی اور کلہاڑی تھمائی اور محنت سے کمانے والے کو اللہ کا دوست قرار دیا۔جن کی تعلیمات میں گدا گری ایک لعنت ٹھہری اور ایمان دار تاجر کو قیامت میں انبیا کا ساتھی ہونے کی نوید سنائی گئی۔اور دوسری طرف اس پیغمبر اعظم نے مسلم معاشرے میں اخوت کا پودا پروان چڑھایا۔جس کے سائے میں غیروں سے بے نیاز ہو کر معاشرہ امداد باہمی سے اس قابل ہو سکتا ہے کہ اس مرض سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارہ پا لے اور یہ محض عقیدت نہیں حقیقت کی بات ہے کہ اس تعلیم پر عمل کرنے کے بعد مدنی معاشرے پر ایک بڑا عرصہ ایسا گزرا ہے کہ وہاں زکوۃ دینے والے تو تھے مگر زکوۃ لینے والا کوئی نہ تھا۔مگر جس طرح اس امت نے اپنے نبی کی باقی تعلیما ت کوبھلا ڈالا اسی طرح غربت و افلاس سے چھٹکارے کے لیے محنت ، جہد مسلسل اور اخوت کے درس کوبھی طاق نسیاں بنا ڈالا۔اس کا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے کہ آج یہ امت عالمی گدا گر بن کر رہ گئی ہے ۔ افراد ہوں یا اقوام ، جو بھی محنت سے جی چرائے گا ، عمل پیہم اور جہد مسلسل کو بھول جائے گا اور اخوت سے کنار ہ کش ہو جائے گا ، اس کا مقدر سوائے کشکول اور کچھ نہ ہو گا۔ فطرت کے قوانین مسلم اورغیر مسلم کی تمیز نہیں کیا کرتے ، یہ سب کے لیے پہلے بھی یکساں تھے اور آج بھی ہیں۔

            ہمارا خیا ل تھا کہ محراب ومنبر کے وارث اورعلمِ نبیﷺ کے امین علمااس امت اور قوم کو غربت وافلاس کے اندھیروں سے نکالنے کے لیے اپنے خون جگر سے شمع فروزاں کریں گے اور گلی گلی کوچہ کوچہ اخوت کا درس عام کریں گے مگر وائے ناکامی کہ اس طبقے کی ساری جدوجہد مسجد کی چار دیواری تک محدود ہو کر رہ گئی اور ایک بہت بڑا طبقہ عضو معطل بن کر رہ گیا مگر اللہ کا اپنا نظام ہے وہ چاہے تو کعبے کو صنم خانے سے پاسباں مل جایا کرتے ہیں۔ غربت کے خلاف جنگ میں بھی یہی ہوا ۔ جب اس کریم نے دیکھا کہ جن کا یہ کام تھا وہ خاموش ہیں تو اس نے اُن کو اس کام کے لیے چن لیا جن کے بارے میں کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔بیوروکریسی کی کہکشاؤں میں سفر کرنے والا ایک ثاقب یکدم سے غربت کی زمیں پہ اتر آیا۔اور غریبوں کی تاریک راتوں کو اخوت کی شمع سے روشن کرنے لگا۔اللہ کریم نے اس کے اخلاص کو قبول فرمایا ، شمع سے شمع جلنے لگی اورکتنے ہی گھرانوں کے چراغ روشن ہو گئے۔زمیں پہ اترتے وقت تو یہ ثاقب تن تنہا تھامگر اپنی مخلوق کے لیے جلنے والوں اور چلنے والوں کو اللہ کہاں تنہا رہنے دیتا ہے ۔ اس نے اپنی رزاقیت پہ قوی ایمان رکھنے والے ایک عبد کو اس کے ساتھ قبول کرلیا، یوں ایک اکیلا دو گیارہ ہوئے ۔ قافلہ بنا اور روشنیوں کا یہ سفر اخوت کے نام سے سوئے منزل رواں دواں ہو گیا۔

            جس لگن ، جس خلوص ، اور جس قربانی کے ساتھ اخوت کا قافلہ چل رہا ہے ،اس سے گماں یہی ہوتا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب کم از کم اس ملک میں کوئی ماں اپنے بچے کو اس لیے نہیں مارے گی کہ اس کے پاس عید پہ پہننے کے لیے نئے کپڑے نہیں یاکوئی ماں غربت کے ہاتھوں مجبور اپنے بچوں کو سر بازار چھوڑ کر گم نہیں ہو جائے گی اور کوئی بچوں کو ساتھ لے کر ٹرین کی پٹڑی سے نہیں لپٹے گی۔امید پیدا ہو چلی ہے کہ ماؤں کو اپنے بیٹے پڑھانے کے لیے زیور نہیں بیچنا پڑے گا اور باپوں کو یہ نہیں کہنا پڑے گا کہ اس کوایسی دواچاہیے کہ بخار ایک ہی گھنٹے میں اتر جائے اور اس کی دیہاڑی نہ ماری جائے۔ اسی طرح آثار یہی کہتے ہیں کہ اب میری قوم کے بچے کچرے کے ڈھیر پر رزق تلاش کرتے نظر نہیں آئیں گے اور نہ ہی چلچلاتی زمیں پر ننگے پاؤں کاروں کے گرد ہاتھ پھیلاتے ہوئے ۔اخوت والوں کی پیشانی پہ لکھی تحریر یہی کہتی ہے کہ اب غریبوں کے بچوں کے چہروں پر بھی رونق ہو گی اور کوئی شاعر یہ نہیں کہے گا کہ

افلاس نے بچوں کو بھی سنجیدگی بخشی
سہمے ہوئے رہتے ہیں شرارت نہیں کرتے
یا
سر چھپائیں تو بدن کھلتا ہے
زیست مفلس کی رِدا ہو جیس