پاکستان کی موجودہ مشکلات اور ان کے حل کا صحیح لائحہ عمل

مصنف : محمد اسحاق

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : اگست 2009

 پرنسپل مصعب سکول، لاہور

پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے۔اس کی تمام مشکلات کا جائزہ لیا جائے تو ان میں سے دو انتہائی نمایاں ہیں؛ ایک بھوک اور دوسرے خوف ،یعنی ایک طرف تو ہم غربت، بیروزگاری اور اس طرح کے دوسرے مسائل سے دوچا ر ہیں تو دوسری طرف امن وامان کا مسئلہ ہمارے لیے اذیت کا باعث بنا ہوا ہے۔ ہماری اصل کم قسمتی یہ ہے کہ اپنے بارے میں مسلمان ہونے کا دعوی رکھنے کے باوجود ہماری اکثریت اسلام کی حقیقت سے کوسوں دور ہے۔ اللہ تعالی کی طرف سے دی گئی ہدایت اور رحمت یعنی قرآن مجید کا ہماری زندگیوں سے کوئی عملی تعلق نہیں ہے۔

قرآن مجید کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جو قوم اخلاقی معیارات کے اعتبار سے بحیثیت مجموعی گر جاتی ہے پر وردگار اس قوم کو اس دنیا میں بالکل اسی طرح کی صورت حال سے دوچار کر دیتا ہے جس کا ذکرسطور بالا میں کیا گیا،یعنی بھوک ،معاشی بدحالی اور خوف ۔

جب ہم اپنی قوم کی اخلاقی صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں توروز روشن کی طرح یہ بات عیاں ہو کر ہمارے سامنے آتی ہے کہ ہم بحیثیت قوم ہر طرح کی اخلاقی گراوٹ کا شکار ہیں۔یہ اخلاقی گراوٹ ہمارے کاموں اور ہمارے رویوں دونوں میں پوری طرح موجود ہے۔ اس صورت حال سے نکلنا ا خلاقی رویوں میں تبدیلی کے بغیر ممکن نہیں۔ جب میں رویوں کی بات کرتاہوں تو اس سے میری مراد عمومی اخلاقی رویے ہیں یعنی دنیا کے مانے ہوئے اخلاقی رویے۔

ان اخلاقی رویوں میں سب سے بنیادی رویہ عدل وانصاف کا رویہ ہے ۔ اس رویے کے عملی مظاہر سچائی، دیانت اور عہد کا پاس ہیں۔ دوسرا رویہ احسان کا رویہ ہے یعنی دوسروں کو بڑھ کر دینا اور ان سے کم کی توقع رکھنا۔ جب کہ تیسر ارویہ اپنے رشتہ داروں، مسکینوں غریبوں وغیرہ کے ساتھ صلہ رحمی اور ان پر اپنا مال خرچ کرناہے۔ دراصل یہی تین بنیادی اخلاقی رویے ہیں یعنی عدل ، احسان اور ایتاء ذی القربی جو اگر انسانوں میں موجود ہوں تو ان پر اللہ کی رحمت کا خاص فیضان ہوتا ہے۔

بالکل اسی طرح تین منفی چیزیں یعنی اخلاقی برائیاں ہیں جن سے اسلام کا دعوی کرنے والی قوم کو ہر حال میں بچنا چاہیے۔ ان میں سے پہلی برائی بے حیائی کے کام ہیں جن سے بچنا ایک مسلمان کے لیے اہم ترین کام ہے۔ دوسری اخلاقی برائی یہ ہے کہ ہر وہ چیز جسے معاشرہ برا سمجھتا ہے مثلاً جھوٹ، ملاوٹ ،دھوکہ دہی، کسی کا حق مارنا وغیرہ اور تیسری اخلاقی برائی سرکشی ہے یعنی تکبر کی زندگی بسر کرنا۔

یہ تینوں مثبت اور منفی پہلو ہم ہر جمعہ کے خطبے میں اس آیت کی صورت میں سنتے رہتے ہیں۔ان اللہ یامر بالعدل والاحسان وایتاء ذی القربی و ینہی عن الفحشاء والمنکر والبغی۔۔۔

‘‘ا للہ تم کو انصاف اور احسان کرنے اور رشتہ داروں کو (خرچ سے مدد)دینے کا حکم دیتا ہے۔ اور بے حیائی سے ، نامعقول کاموں سے اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔۔ ۔’’(سورۃ النحل۱۶، آیت:۹۰)

 لیکن بد قسمتی دیکھئے کہ ہم میں سے کتنے لوگ ایسے ہیں جو اس آیت کو سمجھ پاتے ہیں اور کتنے لوگ ایسے ہیں جن کو اگر سمجھ آ گئی ہے تو وہ اللہ کی دی ہوئی اس ہدایت پر عمل پیرا ہوتے ہیں؟ ۔ اگر ہم یہ کام نہ کریں تو ہمیں یہ حق نہیں رہتا کہ پاکستان میں موجود مسائل ؛ غربت، بیروزگاری، امن وامان کا مسئلہ، لوڈ شیڈنگ یا ان جیسے دوسرے مسائل کے بارے میں گلہ کریں۔ شاید ہم نے اپنی ذات سے بلند ہو کر کبھی سوچا ہی نہیں۔اگر ہم دیانتدارانہ غور کریں تو یہ بات بالکل واضح ہو جائے گی کہ ہم خود غرضی کی انتہا کو چھو رہے ہیں۔

ملک کے دانشوروں علماء او رحکمرانوں سے میری درخواست ہے کہ وہ قوم میں اخلاقی قدروں کو پروان چڑھانے کی پوری کوشش کریں تاکہ ہم نہ صرف اس دنیا میں بلکہ آنے والی ہمیشہ ہمیشہ کی دنیا میں سرخروئی حاصل کر سکیں۔

اس کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بحیثیت قوم ہم کیا طریق کار اختیار کریں کہ ان مشکلات سے ہماری جان چھوٹ جائے۔

اس سلسلے میں میری رائے یہ ہے کہ ہماری قوم کے دانشوروں کو بالکل ویسی ہی ایک تحریک چلانی ہو گی جیسا کہ عدلیہ کی بحالی کے لیے چلائی گئی تھی۔ اس تحریک میں دو بڑے مطالبات پیش کیے جائیں:

 پہلا یہ کہ تعلیم کا ایک ایسا نظام وضع کیا جائے جس میں کوئی طبقاتی تقسیم نہ ہو ، اس سے پورا معاشرہ یکساں طور پر فیض یاب ہو سکے۔ اسی طرح دینی اور غیر دینی تعلیم کی تقسیم ختم کر دی گئی ہو۔ تعلیم کا بنیادی مقصد ہی انسان کو معاشرے میں ایک انسان کی حیثیت سے زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھانا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کا دوسرا مقصد کسی خاص شعبہ زندگی میں علمی مہارت پیدا کرنا ہے۔ اس سب سے اوپر بچوں کے اندر، خدا خوفی اور آخرت میں اللہ کے سامنے جوابدہی کا احساس پیدا کرنا ہے۔ اگر اس بات کو پیش نظر رکھا جائے تو یقینی طور سے کہا جا سکے گا: تعلیم ہمیں دنیا اور آخرت دونوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھاتی ہے۔

میری اس بات سے یہ نہ سمجھا جائے کہ میں صرف عصری تعلیم ہی سکھانے کے حق میں ہوں بلکہ میری رائے تو یہ ہے کہ سیکنڈری اسکول تک تمام طالب علم یکساں تعلیم سے گزریں ، اس کے بعد اگر کچھ نوجوان اپنے فیصلے کی بنیاد پر دینی تعلیم سکیھنے اور اسی میدان میں کام کرنے کا فیصلہ کر لیں تو ان کے لیے دینی کالجز کا باقاعدہ بندوبست موجود ہو۔ جہاں انہیں دین کے مختلف میدانوں میں عمومی تعلیم دی جائے اور اگلے مرحلے میں اس میں سپیشلائزیشن بھی کرائی جاسکے۔ بالکل اسی طرح جس طرح انٹر میڈیٹ کے بعدطلبہ میڈیکل کالج یا انجنیرنگ یونیورسٹی یا کمپیوٹر کالجز میں داخلہ لیتے ہیں۔ان دینی کالجوں میں داخلے کا معیار کسی بھی طرح دوسرے تعلیمی اداروں سے کم نہیں ہونا چاہیے، تاکہ اعلی صلاحیت کے حامل طالب علم ہی اس میدان میں آ سکیں۔معاشرے کی‘ کریم’ سے دینی قیادت کی توقع کرنا تو ایک بجا عمل ہے جبکہ معاشرے کی ‘تلچھٹ’ سے یہ توقع کرنا عبث ہے۔

اس تحریک کا دوسرا مطالبہ یہ ہو کہ سیاسی قیادت کے لیے اور حکمرانی کے لیے جو حضرات اپنے آپ کو پیش کریں ان کے لیے درج ذیل شرائط لازم قرار دی جائیں:

۱۔ حکمران بننے کے بعد ان کے رہن سہن کا معیار ایک عام آدمی جیسا ہونا چاہیے۔ یعنی وہ بالکل سادہ زندگی بسر کرنے والے ہوں، وہ بڑے بڑے محلات میں رہنے کی بجائے عام گھروں میں رہیں، اگر کوئی شخص یہ قربانی دینے کے لیے تیار نہ ہو تو اسے مسلمانوں کے ملک کا سر براہ بننے یا حکمرانی کرنے کا کوئی حق نہیں ہونا چاہیے۔

۲۔ جو شخص بھی اپنے آپ کو حکمرانی کے لیے پیش کرے اگر وہ وزیر اعظم ہے تو اس کے لیے دار الحکومت کی مسجد میں ، اور اگر گورنر یا وزیر ہے تو اپنے علاقے کی جامع مسجد میں جمعہ کی نماز کی امامت کرانا لازم قرار دیا جائے۔

مسلمانوں کے حکمران کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سنت قائم کی ہے اس میں جمعہ اور عیدین کی نمازپڑھانا حکمرانوں کے لیے لازم قرار دیا ہے۔

اس عمل کے ذریعے حکمران اپنے آپ کو ہر جمعے کے دن عوام کی عدالت میں پیش کر دیں گے او رپوری قوم اپنے ان حکمرانوں کے ساتھ اپنے پروردگار کے سامنے سجدہ ریز ہو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگے گی۔

۳۔ حکمرانی کے امیدوار کے لیے چاہے وہ صدر ہو یا گورنر یا وزیر ، یہ لازم ہو کہ شب وروز اس کے دروازے عوام کے لیے کھلے ہوں ۔ یعنی عوام کی رسائی اس تک آسان ہو، ایک عام آدمی بھی جب چاہے اپنی مشکل لے کر ان کے پاس حاضر ہو سکے۔

اگر ہماری قوم اور اس کے دانشور اوپر دی گئی گزارشات پر غور کرتے ہیں اور پھر اس کے لیے بھر پور جدوجہد کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے ، تو ہم امید کرتے ہیں کہ اس قوم میں وہ اعلی صلاحیت اور ہمت موجود ہے جس کے ذریعے سے یہ دنیا کی اعلی ترین قوموں میں اپنا لوہا منوا سکتی ہے۔ مزید یہ کہ زمین پر خدا کے بندے اس کی رحمت اور ہدایت کی روشنی میں زندگی بسر کرنے کا عزم کر لیں تو اس کے وعدے کے مطابق اس کی خاص مدد اور کرم بھی حاصل ہو گا ۔ اس کا ارشاد ہے ‘‘ اور یاد رکھو تمارے رب نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر شکر گزار بنو گے تو میں تم کو او رزیادہ نوازوں گا اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔’’(سورۃ ابراہیم۱۴ :آیت: ۷)