دبئی چلو

مصنف : آصف فاروقی

سلسلہ : حالاتِ حاضرہ

شمارہ : اگست 2009

ایک ابھرتی ہوئی معیشت کی درد بھری کہانی

            دنیا کی بیشتر ترقی یافتہ معیشتوں کو ناکوں چنے چبوانے کے بعد عالمی معاشی بحران اب متحدہ عرب امارات پہنچا ہے اور یہاں پر سب سے تیزی سے ترقی کرتی ہوئی دبئی کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ عرب ریاست ہونے کے باوجود دبئی کی معیشت کا انحصار تعمیراتی اور ریئل اسٹیٹ سیکٹر پر ہے جو ملکی معیشت کا پچاسی فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ دبئی کی بیس لاکھ آبادی میں چھ لاکھ مقامی ہیں۔ باقی وہ افراد ہیں یا ان کی دوسری اور تیسری نسل سے تعلق رکھنے والے وہ لوگ ہیں جو گزشتہ چالیس برس سے بہتر معاشی مستقبل کی تلاش میں ‘دبئی چلو’ کے دلفریب خواب اور نعرے کی تقلید میں یہاں آتے رہے ہیں۔

            دبئی غیر ملکیوں کو، سوائے چند ایک کے، رہائشی حقوق دینے کا پابند نہیں ہے۔ لہٰذا جب معاشی بحران کے باعث یہاں ملازمتیں ختم ہونا شروع ہوئیں تو اس شہر کی ترقی میں اپنی زندگی لگانے والوں کو یہ ملک چھوڑنے کے لیے صرف تیس دن ملے۔‘دبئی چلو’ انہی مزدوروں اور کارکنوں کی کہانی ہے۔

            ابو ظہبی سے پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان کرکٹ میچ دیکھنے کے بعد کرائے کی گاڑی میں دبئی کی جانب سفر کرتے ہوئے ڈرائیور ناصر نے سڑک کنارے ایک ڈھابے پر چائے پیتے ہوئے اپنی کہانی یوں سنائی۔ ‘‘میں یہاں آیا تو ایک مزدور کی حیثیت سے تھا لیکن کچھ تعلیم تھی لہٰذا چیزیں جلد سمجھ میں آنے لگیں۔ کچھ عرصے بعد مزدوروں کا سپروائزر بن گیا، پھر ٹھیکیدار اور چند برس میں اپنی کمپنی رجسٹر کروا لی۔ یہ چھ برس پہلے کی بات ہے۔ بہت کنسٹرکشن ہو رہی تھی۔ ماں کی دعاؤں سے مجھے بھی بہت کام ملا۔ ابھی چھ ماہ سے جو بحران شروع ہوا تو اس کی لپیٹ میں میں بھی آگیا۔ جن پراجیکٹس نے میرے پیسے دینے تھے وہ بند ہو گئے۔ چیک رک گئے، میں نے بینکوں کے جو پیسے دینے تھے وہ اپنے اثاثے بیچ کر پورے کیے، لیبر کو ادائیگیاں کیں اور انہیں یہاں سے روانہ کیا۔ اب میرے پاس کچھ نہیں سوائے اس کار کے جسے کرائے پر چلاتا ہوں اور اپنا خرچ نکالتا ہوں’’۔

            یہ ایک محمد ناصر کی نہیں ان ہزاروں افراد کی کہانی ہے جو روزگار کی تلاش میں اپنا وطن چھوڑ کر اس دیار میں آئے تھے ۔ اپنی بساط کے مطابق انہوں نے خوب کمایا لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب یہاں گنوانے کا موسم ہے۔ متحدہ عرب ریاستوں میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست دبئی گزشتہ چند ماہ سے سنگین معاشی بحران کا شکار ہے اور بحران کی واحد بڑی وجہ تعمیراتی شعبے میں آنے والا زوال ہے۔ عرب ریاست ہونے کے باوجود بیس لاکھ آبادی کی اس مملکت کی معیشت کا انحصار تعمیرات، سیاحت اور تجارت پر ہے جبکہ تیل ملکی معیشت کا صرف چھ فیصد ہے۔ لہذا تعمیرات اور ریئل اسٹیٹ سکیٹر میں آنے والے اس بحران نے معیشت کے دیگر تمام شعبوں کو بری طرح سے متاثر کیا ہے۔

             بعض ماہرین کا خیال ہے کہ دبئی کے انٹرنیشل سٹی کی طرح گزشتہ برس ستمبر کے بعد سے دبئی کے تقریباً تمام بڑے تعمیراتی منصوبوں پر کام روک دیا گیا ہے۔ زیر التوا ان منصوبوں کی تعداد ایک ہزار سے زائد بتائی جاتی ہے۔ ان منصوبوں کے تاخیر کا شکار ہونے سے تین سو ارب ڈالر کا سرمایہ جو ان منصوبوں پرصرف ہونا تھا، رک گیا ہے۔ یہ سرمایہ جب پائپ لائن میں نہ آیا تو بینک مشکلات کا شکار ہو گئے اور یوں ایک چین ری ایکشن شروع ہوا جس نے دبئی کی معیشت کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔

            یہ سب شروع کیسے ہوا، یہ جاننے کے لیے میں دبئی کے مؤقر اخباری گروپ گلف نیوز کے تعمیرات اور جائیداد کی خبروں کے لیے مختص ہفتہ وار رسالے پراپرٹی ویکلی کے ایڈیٹر منوج نائیر سے ملنے پہنچا۔ منوج نائیر نے کہا ‘دبئی یہ سمجھتا رہا کہ یہ بس ترقی ہی کرے گا اور باقی دنیا میں گزشتہ برس آنے والا بحران اسے متاثر نہیں کرے گا۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ جب غیر ملکی سرمایہ کاروں نے دبئی میں سرمایہ لگانے سے انکار کیا تو جائیداد کی قیمتیں گرنا شروع ہو گئیں۔ بلڈرز کو سرمایہ نہیں ملا اور انہوں نے بھی اپنے تعمیراتی پراجیکٹس بند کرنا شروع دیے’۔ اور جب دبئی میں راتوں رات اونچی اونچی عمارتیں تعمیر کرنے کے لیے دنیا بھر میں مشہور ٹھیکیدار کا اعتماد مجروح ہوا اور اسے خریداروں کی کمی کا خدشہ پیدا ہوا تو پھر پورے دبئی میں اس انٹرنیشنل سٹی کی طرح خاموشی چھا گئی۔ کہا جاتا ہے کہ اونچی اونچی عمارتیں تعمیر کرنے کے لیے جو دیو ہیکل کرینیں استعمال کی جاتی ہیں ان کی دنیا بھر میں کل تعداد کا نصف دبئی کے پچاس کلومیٹر رقبے میں موجود ہیں۔ چند ماہ پہلے یہ تمام کرینیں کام کر رہی تھیں لیکن اب ان میں سے بیشتر محض ہوا میں معلق ہیں۔ یہی حال دبئی کے مضافات میں اربوں ڈالر کی لاگت سے زیرتعمیر دبئی کے انٹرنیشنل سٹی کا ہے جہاں تعمیری کام رک چکا ہے۔ اسے تعمیر کرنے والی الساحل دبئی کی بڑی تعمیراتی کمپنی ہے جو شاہی خاندان کی ملکیت ہے۔ شاہد لطیف انٹرنیشنل سٹی کے سائیٹ انجینئر ہیں۔ ان سے میری ملاقات ان کے ہاسٹل میں ہوئی جہاں وہ پاکستان واپسی کے لیے اپنا سامان باندھ رہے تھے کیونکہ ان کی کمپنی کے بیشتر ملازمین کی طرح سائیٹ انجینئر کو بھی برطرف کر دیا گیا ہے۔ ‘ہماری کمپنی کے تین بڑے کلائنٹس تھے جن کے دبئی میں بڑے بڑے پراجیکٹس تھے ان سب پر کام بند ہو چکا ہے۔ ہماری کمپنی کے پانچ ہزار میں سے بیشتر ملازمین فارغ کر دیے گئے ہیں باقی انتظار میں ہیں کہ ان کی باری کب آتی ہے’۔

            سرمائے کی کمی نے جائیداد کی قیمت کو متاثر کیا جس میں ایک محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ برس ستمبر سے اب تک چالیس فیصد تک کی کمی ہو چکی ہے اور قیمتوں میں گراوٹ کا سلسلہ جاری ہے۔

            ‘دبئی کے تعمیراتی اور ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں روس، پاکستان اور انڈیا سے بہت پیسہ آیا۔ لوگ راتوں رات امیر بننے کے چکر میں جب بھی کوئی پراجیکٹ شروع ہوتا اس میں سرمایہ کاری کرتے، بینک سے قرض لیتے اور دو تین ماہ میں جب اس کی قیمت میں اضافہ ہوتا تو اسے بیچ دیتے۔ بہت سے لوگوں کا دبئی میں کاروبار ہی یہی بن گیاتھا۔ لیکن جب اچانک بحران پیدا ہوا تو وہ لوگ جنہوں نے آٹھ آٹھ دس دس جائیدادیں خرید رکھی تھیں وہ بکنا بند ہو گئیں۔ بینکوں کو تو اپنی قسط چاہیے تھی لیکن ان کے پاس دینے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ یوں لوگ یا یہ جائیداد چھوڑ کر فرار ہوگئے اور یا اب جیلوں میں پڑے ہیں’۔

            ایسا نہیں ہے کہ دبئی کی جائیداد میں سرمایہ لگانے والے سب ہی فرار ہوئے یا زیر عتاب آئے۔ دبئی کے خوبصورت ساحل پر بنے ایک محل نما گھر میں رہنے والے ماجد وزیر شیخ نے گزشتہ برسوں کے دوران دبئی ریئل اسٹیٹ سے خوب کمایا۔ اس بحران میں ان کے بھی اربوں نہیں تو کروڑوں ڈوبے لیکن وہ نہ فرار ہوئے، نہ دلبرداشتہ۔ اسکی وجہ وہ یوں بتاتے ہیں۔ ‘جس نے دبئی میں سوچ سمجھ کر سرمایہ لگایا اس نے فرض کریں پانچ سالوں میں ایک لاکھ کے دس لاکھ بنائے۔ گزشتہ ایک برس میں اس دس میں سے پانچ لاکھ کا نقصان ہو گیا۔ لیکن اب بھی اسے چار لاکھ کا فائدہ ہے’۔تاہم ماجد وزیر کا کہنا تھا کہ ‘دیوالیہ ان لوگوں کا نکلا جنہوں نے لالچ میں آکر اپنی حیثیت سے بڑھ کر پانچ دس جائیدادیں بینکوں سے قرض لے کر خریدیں۔ اب وہ نہ بکتی ہیں اور نہ ہی ان کے پاس قسطیں دینے کے پیسے ہیں’۔

            دبئی کے اس معاشی بحران میں ہزاروں لٹے اور فرار ہوئے۔ لیکن گجرات کا محمد ناصر دبئی میں رہتے ہوئے ان حالات سے لڑ رہا ہے۔ ناصر کا کہنا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب یہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اس کی کنسٹرکشن کمپنی بحال ہوگی اور وہ ایک بار پھر ڈرائیور سے اس کار کا مالک بنے گا۔ناصر کہتے ہیں‘دبئی میں اب بھی بہت پوٹینشل ہے۔ یہاں دنیا کا بہترین انفراسٹرکچر موجود ہے۔ کاروباری لوگوں کو جو سہولتیں یہاں ملتی ہیں، دنیا میں کہیں نہیں ملتیں۔ لہٰذا یہ ممکن نہیں کہ یہ بحران ہمیشہ یوں ہی رہے اور جو ہزاروں عمارتیں آدھی کھڑی ہیں وہ ایسے ہی ادھوری رہیں۔ یہ مشینری چلے گی اور یہ عمارتیں ضرور بنیں گی، آج نہیں تو کل’۔

            ہندستان کی ریاست گجرات کے گاؤں بہاولنگر کا سید تسلیم دبئی کے علاقے سونا پور کے ایک لیبر کیمپ میں اپنے ساتھیوں کے لیے کھانا بنانے میں مصروف ہیں۔ ان کے دیگر ساتھی کچھ ہی دیر میں کام سے لوٹیں گے اور تیار کھانا دیکھ کر یقیناً بہت خوش ہوں گے۔ سید تسلیم آج کل ان کی خوشی میں ہی خوش ہیں۔ ان کی اپنی خوشی اس وقت سے روٹھ گئی جب پچھلے ہفتے انہیں کمپنی سے جواب مل گیا جہاں وہ پلمبر کی حیثیت سے دو برس سے ملازمت کر رہے تھے۔ کچن کے کام سے فارغ ہو کر تسلیم نے اپنی برطرفی کی وجہ بتائی۔ ‘کمپنی کا مینجر بول رہا ہے کہ ابھی سائیٹ پر کام نہیں ہے۔ جب ہوگا تو آپ کو بتا دیں گے۔ کمپنی کے سارے کام کا یہی حال ہے۔ہر جگہ سے آدمی کم کر رہے ہیں۔’ تسلیم نے بتایا کہ انہیں دو برس قبل اسی کمپنی نے ممبئی میں ایک انٹرویو کے بعد دبئی کے لیے منتخب کیا تھا۔‘میں نے گاؤں کے لوگوں سے قرض لے کر تیس ہزار روپے کمپنی ایجنٹ کو دیے اور ان دو سالوں میں وہ سارا قرض میں نے اتار دیا ہے۔ لیکن اب تو میرے پیسے کمانے اور بچانے کے دن شروع ہوئے تھے کہ نوکری سے جواب مل گیا۔’ اور جب آندھرا پردیش کے پرتاپ سنگھ نے اپنی آپ بیتی سنائی تو ایسا لگا کہ تسلیم تو بہت فائدے میں رہے۔ میں نے پرتاپ سنگھ کو دبئی کے زیرتعمیر علاقے برشا میں کھلے آسمان تلے ریت کے ٹیلے پر سوتے پایا۔ جگانے اور اپنا تعارف کروانے پر پرتاپ خوفزدہ ہو گئے اور بات کرنے سے انکار کر دیا۔ اس موقع پر قریب میں کام کرنے والے کچھ مزدور مدد کو آئے۔انہی کے ذریعے ٹوٹی پھوٹی ہندی میں پرتاپ نے بتایا کہ ان کے پاس رہنے کو گھر نہیں ہے کیونکہ تین مہینے سے انہیں کام نہیں ملا۔ ‘بس کبھی یہاں سو جاتا ہوں کبھی اُس ٹیلے پر۔ یہاں پہنچنے کے لیے مجھے ایک لاکھ ستر ہزار خرچ کرنا پڑا۔ آٹھ مہینے میں ایک پیسہ گھر نہیں بھیجا۔’ ریت میں گرمی نہیں لگتی، میرے اس سوال پر پرتاپ نے غصے سے میری جانب دیکھا اور کہا ‘لگتی ہے گرمی۔ لیکن دبئی آیا ہوں نہ۔۔۔’’

            آج کل سب کی کہانی ایک سی ہے۔ کسی کی نوکری گئی، کسی کی جانے والی ہے اور کسی کو ملی ہی نہیں۔

             دبئی کے قانون کے تحت اگر کسی ایسے فرد کی ملازمت ختم ہو جائے جو ورک ویزے پر دبئی آیا ہو تو وہ ویزا بھی نوکری کے ساتھ ہی ختم ہو جاتا ہے۔ ‘یوں ہر ورکر پر قانوناً یہ پابندی ہے کہ وہ ملازمت ختم ہونے کے تیس دن کے اندر اندر دبئی سے چلا جائے اس کے بعد اس کا یہاں قیام غیر قانونی ہو گا۔’ یعنی نوکری گئی تو دبئی بھی گیا۔اسی دہری مصیبت کا شکار ہوئے محمد بشیر جو پچھلے ماہ تک دبئی کی ایک تعمیراتی کمپنی میں سائیٹ انجینئر تھے برطرفی کے بعد ان کے پاس کل تیس دن ہیں، جن میں سے آدھے نوکری کی تلاش میں صرف ہو چکے ہیں لیکن برطرفیوں کے موسم میں نئی نوکری کہاں سے ملے۔ محمد بشیر کہتے ہیں کہ درخواستیں دے دے کر تھک گئے لیکن جواب نہیں آیا۔ ‘میں نو سال سے دبئی میں ہوں اور اس دوران متعدد کمپنیاں تبدیل کر چکا ہوں۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا جیسا کہ اب ہو رہا ہے۔ دو ہفتے سے زائد ہو گئے روز اخبار دیکھ کر درخواست دیتا ہوں لیکن کوئی انٹرویو کے لیے بھی نہیں بلاتا۔ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ درخواست بھیجی ہو اور کال لیٹر نہیں آیا۔’

            ایسا نہیں ہے کہ صرف تعمیراتی شعبے سے منسلک افراد ہی اس بحران سے متاثر ہوئے ہیں۔ دبئی کے ایک بینک کے مینجر علی حسن کے مطابق بیروزگاری کا یہ جِن دبئی کے ہر شعبے پر حاوی ہو رہا ہے۔‘دبئی کے بینکوں سے دس فیصد کے قریب ملازم نکالے جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ہوٹلوں، سیر گاہوں اور دیگر تفریحی مقامات پر بھی چھانٹی ہوئی ہے۔ اور میرا خیال ہے کہ ابھی مزید پانچ فیصد ملازمتیں ختم ہوں گی جس کے بعد ان شعبوں میں کچھ ٹھہراؤ آئے گا۔’

            دبئی کے تعمیراتی اور معاشی بحران نے یہاں بسنے والے ان لاکھوں کارکنوں کی زندگیوں کو کس کس طرح متاثر کیا ہے، اس کی ایک جھلک دبئی کے علاقے القصیص میں قائم وزارت محنت کی وسیع و عریض عمارت کے نئے بلاک میں ملتی ہے۔ وزارت محنت کا یہ بلاک ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد غیر ملکوں سے آئے کارکنوں کے مسائل سننا اور ان کا حل ایک ہی جگہ ون ونڈو آپریشن کے ذریعے مہیا کرنا ہے۔ابتدائی طور پر یہاں ویزا کی تبدیلی اور نئے ویزا ، کام کرنے کے اجازت ناموں کے اجرا اور ان میں توسیع جیسے مسائل سننے کو ملتے تھے۔ لیکن گزشتہ چند ماہ سے، یا یوں کہیے کہ جب سے معاشی بحران نے دبئی کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے، کچھ نئے قسم کے مسائل اور شکایات سامنے آ رہے ہیں۔

            اس ائیرکنڈیشنڈ بڑے ہال میں ترتیب سے لگی کرسیوں پر پہلی قطار میں بیٹھے بھارت کے عابد کمار داس نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی کمپنی نے چار ماہ سے ان کی تنخواہ روک رکھی ہے جس کی شکایت درج کروانے وہ اس دفتر میں آئے ہیں۔ تمل ناڈو کے ایک ورکر نے بتایا کہ انہیں طے شدہ تنخواہ سے آدھی تنخواہ دی جا رہی ہے۔ کمپنی کہتی ہے کام نہیں ہے۔ ڈیرہ غازی خان کے غلام حسن نے بتایا کہ جس ٹھیکیدار کے ذریعے انہوں نے مزدوری حاصل کی تھی وہ ان کی پانچ ماہ کی تنخواہ لے کر پاکستان بھاگ گیا ہے۔ ‘ہم اٹھارہ لوگ ہیں۔ اب نہ ہمارے پاس کھانے کے پیسے ہیں نہ رہنے کی جگہ۔ پاکستان واپس جانے کا کرایہ بھی نہیں ہے۔’ اٹک کے رحمٰن نے بتایا کہ ان کی کمپنی نے اوورٹائم کی رقم دینے سے انکار کر دیا ہے۔ ‘جب میں نے احتجاج کیا تو میرے خلاف ہی شکایت درج کروا دی۔ اب میں بھی شکایت درج کروانے آیا ہوں۔’

            تازہ ترین مارکیٹ سروے بتاتا ہے کہ اسی فیصد غیر ملکی ورکر دبئی میں ایک پیسہ نہیں بچا رہے۔ ان میں سے پچاس فیصد ایسے ہیں جو اپنا گزر بسر کرنے کے لیے بینکوں اور دوستوں سے حاصل کردہ قرض کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ دبئی میں تو ویسے ہی مہنگائی نے غریب آدمی کا گزارا مشکل بنا دیا تھا اب اس بحران کے بعد تو وہ سفید پوش طبقہ جو کسی نہ کسی طرح اپنا گزارا کر رہا تھا، وہ بھی ایکسپوز ہو گیا ہے اور نوبت مانگنے تک پہنچ چکی ہے۔’

            مغرب کی جانب سے چلنے والا معاشی بحران جب دبئی پہنچا تو سب سے پہلے اس مشکل وقت میں اس کا ساتھ چھوڑا لاکھوں کی تعداد میں یہاں آنے والے سیاحوں نے۔جس کے بعد دبئی کی تیسری بڑی صنعت، یعنی سیاحت بھی دم توڑنے لگی۔

            دبئی شہر سے تیس کلومیٹر دور لق و دق صحرا کے بیچوں بیچ مشہور عرب بیلے ڈانس کا مظاہرہ دیکھنے یورپ اور دیگر برِاعظموں سے ہر سال لاکھوں لوگ دبئی آتے ہیں۔ دبئی حکومت کا خیال ہے کہ اگلے برس دبئی میں ڈیڑھ کروڑ سیاح آئیں گے۔ لیکن امریکہ، یورپ اور پھر دبئی میں پھیلی معاشی بحرانی کیفیت کے بعد اب ایسا ہوتا ممکن نظر نہیں آ رہا۔ سیاحوں کی آمدو رفت کم ہونے کے بعد سیاحتی کمپنیاں بحران کا شکار ہو چکی ہے۔ایک کمپنی کے مینیجر نے بتایا ‘ہم لوگ مختلف ہوٹلوں پر بنے اپنے ٹریول ڈیسک پر روز فی ہوٹل بیس پچیس سیاح صحرا کی سیر کے لئے لے کر آتے تھے۔ اب بمشکل دو چار سیاح ہی ملتے ہیں۔’ ہر سال مارچ اپریل میں یورپی سیاح دبئی آتے تھے اور صحرا کی سیر ‘ڈیزرٹ سفاری’ کرتے تھے۔ لیکن اس بار ان کی تعداد میں، چالیس فیصد تک کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔

            دبئی کے آبائی باشندوں کی تعداد چھ لاکھ ہے، بیرون ملک سے آکر یہاں بسنے والوں کی کل تعداد ملا کر دبئی کی آبادی بیس لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔ لیکن دبئی کی کشادہ سڑکیں ہمیشہ ٹریفک کے اژدہام سے تنگ محسوس ہوا کرتی تھیں۔ اب ایسا نہیں ہے۔ ایک شام دبئی کے مشہور المکتوم پل سے گزرتے ہوئے ٹیکسی ڈرائیور عباس نے بتایاکہ 'آپ خوش قسمت ہیں جو اس وقت دبئی آئے ہیں۔ اگر چھ آٹھ مہینے پہلے آئے ہوتے تو اس پل پر سے گزرنے میں آدھ گھنٹہ لگ جاتا ٹریفک جام کی وجہ سے۔ اب تو مزے سے چالیس پچاس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اس پل پر سے گزر جاتے ہیں'۔

            ٹوٹی پھوٹی دھول اڑاتی سڑکیں، جگہ جگہ سیوریج کا گندا پانی، گلی کی گندگی میں کھیلتے بچے اور چھوٹے چھوٹے بوسیدہ مکانات۔ یہ پاکستان یا بھارت کا کوئی گاؤں یا محلہ نہیں بلکہ یہ نقشہ ہے دبئی کی ایک رہائشی کالونی کا۔

            جو لوگ سیر، شاپنگ یا مختصر قیام کے لیے اس عرب ریاست میں رہے ہیں یا وہ جنہوں نے دبئی کی ترقی، خوبصورتی، کشادگی اور صفائی کے قصے سن رکھے ہیں، ان کی اکثریت دبئی کے اس مغربی حصے سے واقف نہیں ہے۔ اس علاقے کا نام ہے القوض۔ یہ دبئی کے صنعتی زون سے متصل رہائشی علاقہ ہے جہاں مزدوروں کے لیے متعدد لیبر کیمپس بھی قائم کیے گئے ہیں۔ لیکن اس جگہ کا جو نقشہ ابھی بیان کیا گیا ہے وہ کسی لیبر کیمپ کا نہیں بلکہ اس محلے کا ہے جہاں پاکستانی خاندان رہتے ہیں۔ یہ ان پاکستانی بلوچ قبائل کی دوسری نسل ہے جو کئی دہائیاں قبل بہتر معاشی مواقع کی تلاش میں ‘دبئی چلو’ کے چکر میں یہاں آئی اور پھر یہیں کی ہوگئی۔

            مئی کے اوائل کی ایک تپتی دوپہر جب میں نے اس محلے کے بعض گھروں کے دروازے کھٹکھٹائے تو معلوم ہوا کہ گھر کے مرد روزگار کی تلاش میں نکلے ہیں اور بلوچ عورتیں غیر مردوں سے بات نہیں کرتیں۔ کسی واقف حال نے بتایا کہ ان بلوچ خاندانوں سے ملنا اور ان کے حالات زندگی جاننا ہوں تو سوموار کی شام پاکستان ایسوسی ایشن کے دفتر پہنچ جائیں۔ دبئی میں رہنے والے پاکستانیوں کی اس تنظیم کے دفتر میں بنے بڑے سے ہال میں عجب منظر دیکھا۔ ایک طرف ترتیب سے لگی کرسیوں پر درجن بھر عورتیں روایتی بلوچ برقعوں میں ملبوس بیٹھی ہیں اور دوسری جانب ان کے مرد۔ ہال کی دوسری جانب چند میز اور کرسیوں پر وکیل، ڈاکٹر، ایک سکول کے پرنسپل اور کچھ اور لوگ بیٹھے ہیں، ایک نمبر پکارا جاتا ہے اور ان عورتوں اور مردوں میں سے ایک جوڑا اٹھ کر ان لوگوں میں سے کسی کے پاس جاتا ہے اور اپنا مسئلہ بیان کرتا ہے۔ کسی کی بیٹی کی سکول کی فیس جمع نہیں ہوئی، کسی کے پاس دوا کے پیسے نہیں اور کسی کے گھر میں راشن ختم ہو گیا ہے لیکن تنخواہ ابھی نہیں ملی۔ دبئی اور یہ غربت، کچھ حیران اور کچھ پریشان میں پاکستان ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل محمد خلیق کے دفتر میں داخل ہوا۔محمد خلیق نے بتایا کہ یہ عمومی تاثر کہ دبئی میں صرف خوشحالی ہے، درست نہیں ہے۔ ‘اگر آپ موجودہ معاشی بحران کا ذکر نہ بھی کریں اور ایک برس پیچھے چلے جائیں تو دیگر قومیتوں کو تو چھوڑیں، دبئی میں ہزاروں پاکستانی ایسے ہیں جن کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ رات کو کھانا کھا کر سوتے ہیں یا نہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں ایسے پاکستانی ہیں جو اپنے بچوں کو سکول نہیں بھیج سکتے۔ ہزاروں پاکستانی ایسے ہیں جنہیں یہ نہیں معلوم کہ اگلے ماہ بجلی کا بل کہاں سے دیں گے’۔محمد خلیق نے بتایا کہ اگر صرف پچھلے چند ماہ لے لیں تو اس دوران دس بارہ ہزار افراد کی تو ان کے ادارے نے مدد کی۔ ان کا کہنا تھا کہ‘مجھے یقین ہے کہ ہم پانچ فیصد مستحق افراد تک بھی نہیں پہنچ سکے ہیں’۔

            اپنے حال سے شرمندہ، مالی مدد کے لیے ایسوسی ایشن میں جمع ہونے والوں میں سے بیشتر نے بی بی سی کو انٹرویو دینے سے معذرت کی۔ ایک صاحب نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی اور اپنے حالات یوں بیان کیے۔ ‘میرے آٹھ بچے ہیں۔ بلوچ ہیں تو پڑھنا لکھنا تو آتا نہیں ہے۔ ڈرائیوری کرتے ہیں اور آمدن میں گزشتہ چند ماہ سے کمی ہو رہی ہے۔ پہلے تو گزارا ہو جاتا تھا اب بچوں کی فیس بہت مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ ان لوگوں سے یہی درخواست کی ہے کہ میرے دو بچوں کی فیس کا خرچ برداشت کر لیں تو مہربانی ہو گی’۔

            اپنے بچے کے علاج کے لیے مالی امداد لینے کے لیے آئی ایک خاتون نے بتایا کہ ان کے بیٹے کے گردوں کا علاج سرکاری ہسپتال میں مفت ہوتا تھا، لیکن پچھلے مہینے سرکار نے فنڈز کی کمی کے باعث مزید مفت علاج کرنے سے معذرت کر لی۔ نماز کے وقفے میں پاکستان ایسوسی ایشن میں آئے مختلف پاکستانیوں سے معلوم ہوا کہ یہ تنظیم دبئی میں پاکستانی سفارتخانے کے غیر فعالی کا بوجھ بھی اٹھائے ہوئے ہے۔ تنظیم کے سیکرٹری اطلاعات طارق اعوان نے بتایا کہ دبئی کے تعمیراتی اور مالیاتی بحران کا شکار ہونے والے پاکستانیوں کے لیے بھی ان کی تنظیم نے ہی کچھ کام کیا۔ انہوں نے کہا کہ‘جب جائیداد کی قیمتیں اچانک گریں تو دوسرے لوگوں کے ساتھ ساتھ یہاں رہنے والے پاکستانی بھی مشکل سے دوچار ہوئے۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ اپنی جائیداد فروخت کریں یا نہ کریں۔ ایسے میں ہم نے شہر کے نامور پراپرٹی دیولیپرز، ان امور میں ماہر وکلاء اور پاکستانی سفارتخانے کے لوگوں کو بلا کر پاکستانی کمیونٹی کے سامنے بٹھایا اور ان کی راہنمائی کا بندوبست کیا’۔ محمد خلیق نے بتایا کہ دبئی میں رہنے والے بیشتر غیر ملکی معاشی بحران کی وجہ سے تنگ دستی کا شکار ہوئے ہیں، اور وہ مختلف طریقوں سے انہیں اس مشکل صورتحال سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ‘ہم صرف انہیں پیسے نہیں دے رہے بلکہ مفید قانونی اور کاروباری مشورے دینے کا بھی بندوبست کیا ہے۔ ہمارا ایک قانونی امداد کا ڈیسک ہے اسکے علاوہ ہم ان کم آمدن والے لوگوں کو یہ بھی سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اگر آمدن کم ہو رہی ہے تو اہل خانہ کو واپس پاکستان بھیج دو کیونکہ ان حالات میں ان کی موجودگی میں آپ مقروض ہوتے چلے جاؤ گے’۔ لیکن پاکستانی کمیونیٹی راہنما نے تسلیم کیا کہ بیشتر پاکستانی ان کے اس مشورے پر کان نہیں دھر رہے۔ یوں، لگتا یہی ہے کہ القوض ڈسٹرکٹ کی کچی اور گندی گلیوں میں کھیلنے والی ان پاکستانی بلوچوں کی یہ تیسری نسل بھی اس اجلے اور روشن دبئی کی ان اندھیری گلیوں میں گم ہو جائے گی۔

            ‘دبئی کی ترقی میں اپنی جوانی اور زندگی کے بہترین برس صرف کر دینے والے غیر ملکی کارکنوں کے لیے یہ ملک اتنا ہی اجنبی ہے جتنا چند گھنٹے قبل یہاں اترنے والے کسی بھی عام مسافر کے لیے۔’ بائیس برس قبل دبئی آنے کے بعد یہیں رہ جانے والے چھیالیس سالہ عباد انصاری کی یہ بات بظاہر بہت عجیب ہے۔ لیکن جب انہوں نے تفصیل بتائی تو لگا کہ ان کی بات میں وزن ہے۔ ‘بائیس برس اس ریاست میں رہنے کے بعد مجھے بھی قانونی اور سماجی طور پر وہی حقوق حاصل ہیں جو ابھی چند گھنٹے پہلے یہاں پہنچنے والے کسی دوسرے غیر ملکی کو۔ میں نے اپنی زندگی کا اہم ترین حصہ اس سرزمین کی نذر کیا، اس کی ترقی میں کردار ادا کیا۔ کبھی کسی غیر قانونی فعل میں ملوث نہیں رہا لیکن اب بھی ویزے اور امیگریشن کے لیے میں اسی طریقہ کار سے گزرتا ہوں جیسے کے چند گھنٹے پہلے یہاں پہنچنے والا پاکستانی۔’ دبئی سے یہ شکوہ ہر اس غیر ملکی کو ہے جو یہاں رہتا ہے۔ شکایت کرنے والے کے لہجے کی تلخی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کتنے برسوں کا حساب مانگ رہا ہے۔

            دبئی کے قانون کے مطابق غیر ملکی افراد کی اولاد نرینہ اٹھارہ برس تک پہنچنے سے پہلے تک اپنے والدین کے ویزے پر رہ سکتے ہیں۔اگر اس دوران انہوں نے یہاں ملازمت یا کاروبار کر لیا تو ٹھیک ورنہ اپنے وطن واپس۔تریسٹھ سالہ شاہ حسین آفریدی تینتالیس برس سے دبئی میں رہتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ یہاں کے سرکاری تعلیمی اداروں میں غیر ملکیوں کو داخلہ نہیں دیا جاتا۔ غیر عرب کو اپنے سکول یا کالج میں تعلیم کا موقع نہ دینا ایک طرح کی تفریق ہے۔۔ نجی تعلیم یہاں اتنی مہنگی ہے کہ دس ہزار درہم ماہانہ کمانے والا اچھا پروفیشنل بھی اس کا خرچ برداشت نہیں کر سکتا۔’

            اسی وجہ سے شاہ حسین کو اپنی سب سے پیاری بیٹی کی جدائی برداشت کرنا پڑ رہی ہے جسے انہوں نے ڈاکٹری کی تعلیم دینے کے لیے پاکستان بھیجا ہے۔ عباد انصاری اور شاہ حسین کے ساتھ دبئی کے تبدیل ہوتے سماجی رویوں پر ہونے والی گفتگو میں ایک اور نکتہ زیربحث آیا۔شاہ حسین نے دبئی کے امیگریشن قوانین میں ایک خامی کی نشاندہی کی۔ ‘اٹھارہ برس کی بیٹی تو اپنے والدین کے ساتھ رہ سکتی ہے لیکن اگر آپ تیس چالیس سال سے دبئی میں ہیں اور آپ کا بیٹا اس دوران یہیں پیدا ہو کر اٹھارہ برس کا ہوگیا ہے تو وہ یہاں نہیں رہ سکتا۔اسے واپس پاکستان بھیجنا ہوگا۔’ عباد انصاری کو اس بات کا بھی دکھ ہے کہ دبئی عام آدمی کی پہنچ سے نکل گیا۔‘مہنگائی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ مکانوں کے کرائے، کھانے کے اخراجات علاج معالجہ یہ سب اتنا مہنگا ہو گیا ہے کہ دبئی جو کسی وقت غریب پرور شہر ہوا کرتا تھا اب صرف امیر لوگوں کا شہر بن گیا ہے’۔ عباد انصاری نے بتایا کہ چند برس پہلے تک یہاں رہنے والے ہر فرد کا علاج حکومت کی ذمہ داری ہوتی تھی۔ ‘اب طبی امداد کمرشلائیز ہو گئی ہے، دبئی کی طرح۔’ شاہ حسین نے کہا کہ بیس برس قبل تک دبئی میں ‘ڈیرے’ کا کلچر عام تھا۔ اب کرائے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ سب لوگ فلیٹوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ ‘ایک ڈیرے پر پندرہ بیس لوگ ایک ساتھ رہتے تھے۔ غمی خوشی میں ہم بے وطنوں کے لیے بہت سہارا تھا۔ کھلا صحن بڑے دروازے، نیچی دیواریں، اکٹھا کھانا۔ دس بیس مہمان بھی آجائیں تو پتا نہیں چلتا تھا۔ اب تو پاکستان سے بھائی بھی ملنے آجائے تو سمجھ نہیں آتی کہاں ٹھہرائیں۔’ عباد انصاری نے بتایا کہ پرانے دبئی میں انیس سو بانوے میں پہلا گالف کورس بنا۔ ‘اس وقت صرف چار لوگ گالف کھیلتے تھے۔ لوگوں نے جب گالف کورس بننے کی خبر سنی تو خوب ہنسے۔’

            دبئی کی ترقی دنیا نے دیکھی۔ عباد انصاری کہتے ہیں کہ اس ترقی میں حصہ لینے والے غیر ملکیوں کو ان کے حصے کی دولت تو ملی لیکن معاشرے میں وہ مقام نہیں ملا جس کے وہ حقدار تھے۔ ‘آخر کو دبئی ہمارا وطن ہے۔ پہلا گھر یہی ہے، پاکستان دوسرا گھر ہے۔ لیکن آج اتنے برس بعد بھی یہی لگتا ہے ہم اپنے ہی گھر میں مہمان ہیں۔’

            کمرہ ہے پر دو چارپائیوں کے لیے چھوٹا، چھت بارش میں ٹپکتی ہے، چارپائی پر بستر نہیں ہے، بجلی کا جنریٹر تو ہے لیکن پٹرول کے پیسے نہیں، جائے رفع ہے لیکن غسل خانہ نہیں، میس کا کھانا ملتا ہے لیکن کھانے کے قابل نہیں اور دبئی ہے پر دیکھا نہیں۔یہ ہیں وہ حالات جن میں ‘دبئی چلو’ کے خواب کے تعاقب میں یہاں پہنچنے والے انڈیا، پاکستان اور بھارت سے آئے بعض مزدور اپنی زندگی کے اچھے برے دن گزار رہے ہیں۔ ویسے تو دبئی کی تعمیر میں مصروف غیر ملکی مزدوروں کی رہائش کے لیے ٹھیکے دار کمپنیوں کو سخت قوانین کے تحت مناسب بندوبست کرنا پڑتا ہے۔ دبئی کے مضافات میں سونا پور اور القوض کے علاقوں میں اس نوعیت کے بے شمار مزدور کیمپ موجود ہیں جہاں دن بھر کی محنت کے بعد یہ کارکن رات گزارنے کے لیے آتے ہیں۔ دبئی میں دو ہفتوں کے دوران درجنوں کیمپوں کے معائنے کے بعد یہ تسلیم کرنا پڑا کہ دبئی کے بیشتر کیمپ مزدوروں کو مناسب رہائشی سہولت دیتے ہیں۔ ائیرکنڈیشنڈ کمرے (گو کہ حجم کے اعتبار سے یہ بہت بڑے نہیں ہوتے)، صفائی کا مناسب بندوبست، کھانا پکانے کے لیے تمام لوازمات کے ساتھ باورچی خانہ اور اگر کھانے کا انتظام بھی کمپنی کے سپرد ہے تو معیار اور مقدار کے حساب سے مناسب کھانا، مشترکہ لیکن صاف غسل خانے۔ لیکن دبئی میں کام کرنے والے تمام مزدوروں کے نصیب میں یہ ‘عیاشی’ نہیں ہے۔

            دبئی کے تعمیراتی علاقے برشا (جنوبی) میں بنے متعدد مزدور کیمپ اس حقیقت کاثبوت ہیں جہاں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سے آئے سینکڑوں مزدور ایسے حالات میں رہ رہے ہیں جنہیں غیر انسانی کہا جا سکتا ہے۔

            دبئی میں ایک دوست کے ہمراہ جب ایسے ہی ایک مزدور کیمپ میں انتظامیہ کی اجازت کے بغیر پہنچا تو وہاں عجب منظر دیکھا۔

            لکڑی کا ایک بے ہنگم سا کمرہ بنا ہے جس کے باہر چار نوجوان لکڑی جلا کر کھانا بنانے کو کوشش کر رہے ہیں۔ سکھ بیر سنگھ، تلک راج، وتر سنگھ اور سون سنگھ کا تعلق بھارتی پنجاب ہے۔ وہ دو برس سے اس ایک کمرے میں رہائش پذیر ہیں۔ میرے استفسار پر تلک راج نے بتایا کہ میس سے کھانا تو آتا ہے لیکن اسے کھانے کو دل نہیں چاہتا۔ ‘کبھی سالن میں تیرتی ہوئی بھنڈی کھائی ہے آپ نے۔ ہم سے بھی نہیں کھائی جاتی تو جس دن ‘کھانا’ کھانے کا من کرتا ہے خود ہی کچھ پکا لیتے ہیں’۔ سکھ بیر سنگھ نے بتایا کہ برشا میں بننے والے ولاز کی تعمیر کے لیے ایک بھارتی ٹھیکے دار نے انہیں ملازمت دے رکھی ہے لیکن زندگی بہت مشکل بنا دی ہے۔ ‘چند دن پہلے بارش ہوئی تو کمرے میں پڑا سامان بھیگ گیا۔ اس میں راشن بھی تھا سب برباد ہو گیا’۔ جب میں نے اس عجیب سے لکڑی کے ڈبے کو کمرہ تسلیم کرنے سے انکار کیا تو سکھ بیر جذباتی ہو گیا۔ ‘کیا کریں صاحب، گھر والوں نے کتنی مشکل سے پال پوس کر بڑا کیا اور پتا نہیں کہاں سے پیسے جوڑ کر ہمیں یہاں بھیجا۔ اب ان کے لیے کچھ دن مشکل میں کاٹ لیں تو کیا برا ہے’۔ سون سنگھ نے بتایا کہ ٹھیکے دار نے چار لوگوں کے لیے دو چارپائیاں اور ایک یہ کمرہ دیا ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس کمرے میں دونوں چارپائیاں پوری نہیں آتیں۔ اگر آجائیں تو باقی سامان کی جگہ نہیں بچتی اس لیے ایک چارپائی باہر پڑی رہتی ہے۔ ‘تو دو جنے اندر سوتے ہیں اور دو باہر’۔ یعنی دو لوگ فی چارپائی۔ میرے اصرار پر مجھے کمرے کا معائنہ کرنے کے لیے اندر لے جایا گیا۔ پتا چلا موم بتی نہیں ہے لیکن انڈیا سے آیا ٹارچ والا موبائیل فون کام آیا۔ چارپائی بھی عجیب سی لگی۔ ‘خود بنائی ہے صاحب’ سون سنگھ نے شرما کر بتایا اور اس پر پڑی ایک میلی سے موٹی چادر کو سون سنگھ نے بستر قرار دیا۔ ‘بغیر بجلی کے گرمی نہیں لگتی؟’ میرے اس سوال کے جواب میں چاروں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر چاروں طرف پھیلی ریت پر ایک نظر ڈالی۔سکھ بیر نے بتایا کہ رات کو جب گرمی سے نیند نہ آئے تو قریب ہی لگے نلکے پر کپڑوں سمیت نہا لیتے ہیں۔ وتر سنگھ نے جو خاصی دیر سے خاموش بیٹھا تھا بتایا کہ اس نے ایک دن ٹھیکے دار سے ان سب باتوں پر احتجاج کیا تھا۔ ‘اس نے دو راستے بتائے۔ ایک یہ کہ تین سو درہم ماہانہ کٹوا لو تو اچھی جگہ رہائش مل جائیگی، یا کام چھوڑ دو’۔ ‘آٹھ سو درہم ملتے ہیں۔ تین سو ادھر ہی خرچ ہو جاتے ہیں۔ پانچ سو گھر بھیجتے ہیں جن میں سے مزید تین سو گئے تو گھر کیا بھیجیں گے؟’۔سون سنگھ کا کہنا تھا کہ ایجنٹ نے بارہ سو درہم کا وعدہ کیا تھا لیکن دبئی پہنچنے کے بعد آٹھ سو ملے۔ ‘اب تو اوور ٹائم بھی ختم ہو گیا ہے۔ ٹھیکے دار کہتا ہے کام نہیں ہے۔ بس جتنا ملتا ہے کرو ورنہ مزدور اور بہت مل جاتے ہیں’۔ دبئی کی سیر اور گھومنے پھرنے کے بارے میں سوال پر سب کے سب قہقہہ لگا کر ہنسے اور دیر تک ہنستے رہے۔ تلک راج نے کہا کہ اتنے پیسے ہیں اور نہ وقت۔ ‘سون سنگھ کے پیچھے پیدا ہونے والے بیٹے کی تصویر جبل علی میں انڈیا سے آنے والے ایک رشتہ دار کے پاس پڑی ہے۔ اتنے پیسے نہیں ہیں کہ اسے لے آئیں جا کے، آپ گھومنے کی بات کرتے ہیں۔پھر بھی کچھ تو دیکھا ہو گا۔ ‘ٹیکسی کا کرایہ بہت زیادہ ہے اس لیے ایک دن پیدل دبئی میرینا گئے تھے۔ رات کو واپس آئے تو اگلے دن کام پر نہیں جا سکے اتنے تھک گئے تھے۔ اس دن توبہ کر لی۔ ایک سال ہو گیا پھر اس ریگستان سے باہر نہیں نکلے’۔

            سون سنگھ نے کہا کہ اس طرح کے حالات میں وہ اکیلے نہیں ہیں۔ اردگر بہت سے ایسے ہی چھوٹے چھوٹے کیمپ ہیں جو پاکستانی اور انڈین ٹھیکے داروں نے غیر قانونی طور پر بنا رکھے ہیں۔‘شام کے وقت جب دل کبھی بہت اداس ہو تو بہت سارے مل بیٹھتے ہیں اور ایک دوسرے سے مذاق کرتے ہیں’۔

            سکھ بیر نے بتایا کہ ایسے میں سب اپنے اپنے قصے سناتے ہیں کہ انڈیا میں دبئی جانے کے شوق میں ایجنٹ کے دفتر کے کتنے چکر لگائے، کس کو رشوتیں دیں اور ویزے کے لیے کیا کیا منتیں مانگیں۔‘اب میں کبھی سوچتا ہوں کہ کچھ دن اور دبئی کا ویزا نہ آتا تو کتنا اچھا ہوتا’۔

(بشکریہ ، بی بی سی ڈاٹ کام)