سفر آرزو

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : اگست 2009

قسط -۲

مقام ابراہیم:

            ‘‘تو کیا ابھی تسلی نہیں ہوئی’’آواز آئی۔عرض کی ،‘‘ہاں جی،کچھ ایسی ہی بات ہے۔’’آواز آئی ،‘‘تو پریشان نہ ہوں،ابھی مقامات ِ آہ و فغاں اور بھی ہیں۔جب بلایا ہے تو معاف کر کے ہی بھیجیں گے۔آگے بڑھو ،وہ سامنے دیکھو، مقام ابراہیم ہے،وہاں پہنچو اور پھر سے مناجات ِ حرم میں لگ جاؤ،پروانہ بخشش آ یا ہی چاہتا ہے۔’’

            مقام ابراہیم کی تلاش شروع ہوئی۔روایت یہ ہے کہ مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت واجب الطواف ادا کی جائیں اور اُس میں اپنے کریم مالک سے جو مانگا جائے ،قبول ہوتا ہے۔ڈوبتے کو تنکے کا سہارا،ہم مقام ابراہیم کی تلاش میں بھاگے اور وہ جلد ہی مل گیا،رش میں اپنے لیے جگہ تلاش کی اور نیت باندھ کر،اپنے کریم آ قا سے سرگوشیوں میں مصروف ہوگئے۔

            خانہ کعبہ کے دروازے والی سمت پر،تھوڑا سا آگے کو ،صحن ِ کعبہ میں ایک شیشے کا بڑا سا مرتبان رکھا ہوا ہے۔اُس کے اندر ایک پتھر ہے جس میں دو گڑھے اس طرح سے بنے ہیں جیسے کسی کے قدموں کے نشانات ہوں۔ ،صدیوں سے سینہ بہ سینہ یہ بات روایت ہوتی چلی آ رہی ہے کہ یہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے مبارک قدموں کے نشانات ہیں اور یہ پتھر تعمیر کعبہ میں بطور سیڑھی استعمال کیا گیا تھا۔اسی پتھر کو مقام ابراہیم کہتے ہیں۔اسی کی نسبت سے ساری مسجد الحرام مقام ابراہیم تصور ہوتی ہے۔بیت اللہ میں نماز ،مغرب ،عشا اور نماز فجر کے لیے امام کعبہ کا مصلیٰ اس مقام کے پیچھے بچھایا جاتا ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ طواف کے بعد ادا کی جانے والی دو رکعتیں اس کے پیچھے ادا کی جائیں تو زیادہ اجرو ثواب کا باعث ہوتی ہیں۔

صفا مروہ پر چہل قدمی:

            صفا مروہ دو پہاڑیوں کے نام ہیں جومسجد الحرام کے ساتھ ہیں۔ان کے درمیان چہل قدمی کرنے کو ‘‘سعی’’ کہا جاتا ہے ۔ سعی شروع سے ہی مناسک حج و عمرہ کا حصہ ہے۔یہ چہل قدمی بھی یہاں عبادت ہے۔طواف کے بعد،آپ دو رکعت ادا کرتے ہیں جو ہر طواف کرنے والے پر لازم ہیں۔عمرہ کرنے والے کو ،اس کے بعد صفا و مروہ کی سعی کرنی ہوتی ہے۔لہٰذا ہم بھی سعی کرنے کے لیے صفا کی طرف بڑھ گئے۔کبھی کسی دور میں یہ پہاڑ ہی ہوں گے لیکن اب تو یہ محض دو‘‘ اونچائیاں’’ سی رہ گئی ہیں۔ان کے فرش پر پتھرلگا دیا گیا ہے اور ان کے درمیانی راستے کو ،جسے مسعیٰ کہا جاتا ہے ،چھت ڈال کر ایک خوبصورت ،کشادہ ہال میں بدل دیا گیا ہے۔قریباً ۶۰۰ گز کی لمبائی کا یہ ہال ہے ۔آنے اور جانے کے دو الگ الگ راستے بنا دیے گئے ہیں۔درمیان میں وہیل چیئرز کے لیے راستہ مختص کر دیا گیا ہے۔سفید احرام میں لپٹے زائرین ِحرم کا یہاں بھی رش تھا۔صفا کی پہاڑی سے چلنا شروع کرنا ہوتا ہے اور مروہ پر جا کر ایک چکر یاایک پھیرا مکمل ہو جاتا ہے۔وہاں سے یعنی مروہ سے ،آپ واپس آتے ہیں اور صفا پر پہنچ کر دوسرا پھیرا بھی مکمل ہو جاتا ہے۔اس طرح سے سات پھیرے لگانے ہوتے ہیں اور ساتویں چکرپر، مروہ پرپہنچ کر، یہ دوڑ مکمل ہو جاتی ہے۔یہ ایک بڑا دِلکش اور محبوب عمل ہوتا ہے۔اس چہل قدمی میں بھی،آہیں، دعائیں ،صدائیں اور التجائیں ہی ہوتی ہیں۔

گناہوں کی گٹھڑی پھر سے کھلتی ہے

            اپنے آپ کو ،ایک بار پھر،اپنے اللہ عزو جل کے حضورحاضر پاتے ہیں،سرگوشیاں پھر سے شروع ہو جاتی ہیں۔آنکھوں کے راستے ،پھر اشکوں کے سمندر رواں ہوتے ہیں، والدین،بیوی بچے،عزیز اقارب اور دوست احباب سبھی یاد آ تے ہیں،سب کے لیے ،اللہ پاک کے حضور دست سوال دراز ہوتا ہے۔ایک عالم کیف طاری ہے۔سرشاری ہی سر شاری ہے کہ اذان فجر کی آواز گونجتی ہے۔حرم پاک میں اللہ کریم کی کبریائی کا اعلان ہو رہا تھا۔کعبہ میں اس ‘‘اذان بلالی’’ کی کیفیت ہی کچھ اور تھی۔اللہ کی نماز کی طرف بلاوا اور وہ بھی اللہ کے گھر میں ،واہ رے مولا ،تیرا کرم ،میں قربان ،تیری رحمت و شفقت پر ،جو تو نے اپنے اس گناہ گار بندے پر فرمائی۔ سعی کے ابھی چار چکر باقی تھے ،دیکھا کہ وہیں مسعیٰ میں ہی صفیں بننا شروع ہو گئیں ،ہم بھی،سعی کو روک کر، ایک صف میں آ گئے ،منہ طرف کعبے شریف کے ، دو رکعت نماز سنت کی نیت کرکے نماز میں مصروف ہو گئے۔چند منٹوں بعد نماز فجر کی جماعت کھڑی ہو گئی۔حرم میں یہ پہلی نماز تھی ۔اس نماز کی لذت و لطافت کا الگ ہی انداز تھا۔اللہ کریم کے گھر میں ،راز و نیاز کا موقع مل رہا تھا۔

            نماز کے بعد، سعی کے باقی چکر پورے کیئے اور حرم سے باہر آ گئے۔

            صبح کے ۶ بج چکے تھے۔ان سارے اعمال کی انجام دہی کے دوران میں،میرے دوست اور ساتھی محمد زمان ،سائے کی طرح میرے ساتھ ساتھ رہے تھے۔

ذوق غلامی:

            ہم اپنی نمازوں میں باربارسورہ فاتحہ پڑھتے ہوئے یہ اعلان کرتے ہیں،ایا ک نعبد و ایاک نستعین یعنی مالک ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں۔یہ عبادت کیا ہے ،اس پر کبھی سوچا آپ نے !!عبادت کا ایک معنی جہاں پو جا پاٹ ہے وہاں عبادت غلامی اور اطاعت کو بھی کہتے ہیں اور یہ غلامی اور اطاعت بھی محبت بھری ہونی چاہیے،دِل کی پوری آ مادگی سے اور ذہن کی پوری رغبت سے ہونی چاہیے۔گویا ہم اللہ عزو جل کے غلام ہیں،صرف اُس کے احکامات کو ماننے والے،صرف اُس کے آ گے جبین نیاز جھکانے والے اور صرف اس سے مدد طلب کرنے والے ہیں۔اس اعلان غلامی کی علامتی شکل کا ایک مظہر حج و عمرہ کے موقع پردیکھنے میں آتا ہے ہماری مرادحلق یعنی سر منڈوانا ہے۔سعی کے بعد ،اب ہمارا یہ عمل باقی تھا۔اب وقت آ گیا تھا جب ہمیں اپنے سروں پر اُسترا چلوانا تھا۔اب وقت آ گیا تھا کہ سرمنڈوانے کا عمل بھی عبادت بننے والا تھا۔یہ عمرے کا آ خری مسنون عمل ہے۔یہ ذوق غلامی کی تسکین ہے۔در اصل یہ پرانے دور کی روایت ہے کہ لوگ اپنے غلاموں کے سر منڈوایا کرتے تھے۔آج بھی بعض دیگر مذاہب اور تہذیبوں میں بچوں کے سر منڈوانے کو بطور ایک مذہبی شعارکے ہم موجود پاتے ہیں۔ہمارے دین میں یہ روایت صرف حج اور عمرہ کے زائرین کے لیے ہے ، کسی دوسرے مقام پر ،مذہبی شعار کے طور پر سر منڈوانا بدعت ہو گا۔حرم کے چاروں طرف زائرین کی اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے حجاموں کی دکانیں ہیں۔دس ریالوں کے عوض ،ہم نے اپنے سر کی حجامت بنوائی۔یہ ریٹ کچھ زیادہ ہی محسوس ہوا بعد میں ایک اورسیلون کا پتا چلا کہ وہاں یہی کام پانچ ریالوں میں ہو رہا ہے۔ بہت افسوس ہوا کہ حرم پاک میں بھی لوگ داؤ لگانے سے باز نہیں آ تے۔ہمارے بعض حضرات ،اپنے بالوں سے کچھ زیادہ ہی پیار کرتے ہیں ،بہت سوں کو دیکھا کہ وہ اس سنت عمل سے برائے نام ہی تعلق رکھتے ہیں اور محض چند بالوں کو بچا کر نہ جانے وہ اپنا کون سا بھلا کرتے ہیں۔اللہ کریم سب کو توفیق عنایت فرمائیں۔آمین

            حلق کے ہوتے ہی،ہمارا عمرہ مکمل ہو گیا۔ہم نے ایک دوسرے کو مبارکباد دی اور پاکستان میں اپنے گھر والوں کو بھی عمرہ مکمل ہونے کی مبارکباد دی۔

 مشاہداتِ حرم

            ہمارا عمرہ مکمل ہو چکا تھا۔اب ہم ‘‘فارغ ’’تھے۔اساتذہ کرام کی یہ تعلیم تھی کہ آپ جب تک مکہ مکرمہ میں ہوں، زیادہ سے زیادہ وقت حرم میں گزاریں اورزیادہ سے زیادہ طواف کریں۔اُن کی اس ہدایت کے پیش نظر،بندہ نے طواف کے علاوہ ،کوشش کی کہ خانہ کعبہ اور مسجد الحرام کی تعمیرات اور حسن و آرائش کا مشاہدہ کروں اور زیادہ سے زیادہ انھیں دماغ کے کمپیوٹر میں محفوظ کروں۔مسجد الحرام کا عمارت کا پورا کمپلیکس ،وسیع و عریض علاقے پر پھیلا ہوا ہے ،جس کا جائزہ لینے کے لیے بہت سا وقت،پیدل چلنے کی عادت اور مشاہدے کی جستجو کا موجود ہونا ضروری ہے۔ سطور ذیل میں کوشش کر رہا ہوں کہ آپ کو ،اپنے اس مشاہدے میں شامل کروں اور میں نے خانہ کعبہ کی جو تصویر اپنے ذہن کے کمپیوٹر میں محفوظ کی تھی اُس کا نظارہ آپ کو کراؤں۔

 خانہ کعبہ:

            خانہ کعبہ ایک مکعب نما کمرہ ہے یعنی اس کی لمبائی ،چوڑائی اور اونچائی تقریباً برابر ہیں۔اس کمرے کو سب سے پہلے،سیدنا آدم علیہ السلام نے بنایا تھا۔اُن کے بعد کی سب سے اہم تعمیر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ہے جس کا تفصیلی ذکر قرآن مجید میں موجود ہے۔اُس کے بعد،حوادث ِزمانہ سے اس کمرے کو نقصان پہنچتا رہا اور اِس کی مرمت اور تزئین وآرائش کا کام بھی جاری رہا۔اسی طرح کی تعمیری کاوشوں میں ایک وہ تعمیر بھی ہے جو پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قبل از نبوت کی مبارک زندگی میں،قریشِ مکہ کے ہاتھوں انجام پائی تھی۔اُس تعمیر میں حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہر طرح سے فعال کردار ادا کیا تھا۔ اس طرح تاریخ کے مختلف ادوار میں اس کمرے کی تعمیر و مرمت کا کام جاری رہا لیکن اس کی لمبائی چوڑائی ،یعنی بنیادیں وہی باقی رکھی گئیں جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے ڈالی تھیں۔ خانہ کعبہ کی موجودہ عمارت شاہ فہد کے دور میں بنائی گئی۔اس عمارت کے اوپر غلاف چڑھانے کی بھی روایت بہت قدیم ہے۔اورغلاف کا یہ استمرار حدیث تقریری کی خوبصورت مثال ہے ۔ اس کے چار کونے ہیں،جن کو رکن کہا جاتاہے ۔اُن کے نام اور اس کمرے سے وابستہ دیگر اصطلاحات کا ،ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے۔

رکن اسود:

            جنوب مشرقی کونا ،رکن اسود کہلاتا ہے۔اس کونے میں حجر اسود نصب ہے۔حجر اسود ،وہ مقدس پتھر ہے،جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام نے اپنے ہاتھوں سے لگایا تھا۔اسی کونے سے طواف شروع کیا جاتا ہے گویا یہ پتھر طواف کے آ غاز کی نشانی کے طور پر نصب کیا گیا ہے ۔اس کا بوسہ لینا اور اس کو چومنا سنت انبیا ہے۔پیارے آ قا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس پتھر کے بوسے لیے تھے اور آپ کی پیروی میں امت بھی آج تک اس کا بوسہ لینے کی سعادت حاصل کر رہی ہے اور انشا اللہ قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

باب کعبہ:

            حجر اسود سے ،طواف کے رخ آگے چلیں تو ،سب سے پہلے کعبہ شریف کا دروازہ آتا ہے۔یہ دروازہ کمرے کے اندر جانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔یہ ہمارے قد سے اوپر بنایا گیا ہے ۔اندر جانے کے لیے سیڑھی استعمال کرنی پڑتی ہے۔چونکہ عبادت کے لیے کعبے کے اندر جانا ضروری نہیں ہے اور طواف جو یہاں کی اصل عبادت ہے وہ کعبے کے اس زیر مشاہدہ کمرے کے باہر باہر سے کرنا مسنون ہے ،اس لیے یہ درواز ہ عموماً بند رہتا ہے اور کبھی کبھار ،کسی ضرورت یاعمائدین کے لیے کھو لا جاتا ہے۔

ملتزم:

            اس دروازے سے لے کر حجر اسود تک کعبہ شریف کی دیوار کا جو حصہ ہے اُسے ملتزم کہتے ہیں ۔ دیوار کے اس حصے کے ساتھ چمٹنا ،لپٹنا اور سینہ دیوار سے لگا کر دعائیں مانگنا ،رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارک ہے۔آج بھی امت دیوانہ وار اس سنت پر عمل کرتی نظر آ تی ہے۔

حطیم:

            شمال مشرقی کونا ،رکن شامی کہلاتا ہے اور شمال مغربی کونا،رکن عراقی کہلاتا ہے۔ان دونوں کونوں کے درمیان جو شمالی دیوار ہے اسکے باہر نیم دائرے میں ایک اور دیوار موجود ہے جس کے اند ر کا حصہ خالی ہے ۔ یہ حصہ حطیم یا حجر اسماعیل کہلاتا ہے۔یہ حصہ اصل میں کعبہ کا حصہ ہے اور سیدنا ابراہیم کے دور میں یہ کعبے کا اندرونی حصہ تھا۔ تاہم جب قریش نے سیلاب کے باعث کعبہ کی دوبارہ تعمیر کا فیصلہ کیا تو یہ طے ہواکہ اس کی تعمیر پر صرف حلال ذرائع سے حاصل شدہ آمدنی ہی استعمال کی جائے گی ۔ جب چندہ جمع ہوا تو حلال آمدن اتنی نہ تھی کہ پوری ابراہیمی بنیادوں کا احاطہ ہو سکتا چنانچہ اتنا حصہ چھوڑ دیا گیا۔ بعد میں یہی روایت جاری رہی اور آج تک جاری ہے ۔قریش مکہ کی اس احتیاط کا فائدہ آج عام آدمی کو حا صل ہو رہا ہے کہ وہ جب حطیم میں داخل ہو جاتا ہے تو گویا کعبے شریف کے اندر داخل ہو نے کی سعادت حاصل کر لیتا ہے۔اب جب کہ ،کعبے کی چھت والے حصے کا دروازہ تو بڑے بڑے بادشاہوں اور حکمرانوں کے لیے خصوصی طور پر کھولا جاتا ہے ،ہم ایسے عام آ دمی کے لیے کعبے کا یہ بغیر چھت والا حصہ ہے جہاں آ نے جانے کے لیے کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی اور جہاں ہم ، بآسانی نوافل ادا کر سکتے ہیں۔ حطیم کی دیوار چار فٹ اونچی ہے اور دو اڑھائی فٹ موٹی ہے۔اس کے اندر آنے جانے کے لیے ،آمنے سامنے دو راستے بنے ہیں جو فرض نماز کی جماعت کے وقت عارضی رکاوٹیں رکھ کربند کر دیے جاتے ہیں باقی اوقات میں کھلے رہتے ہیں۔

میزاب رحمت:

            خانہ کعبہ کے پرنالہ کو میزاب رحمت کہا جاتا ہے۔اس کی وجہ تسمیہ معلوم نہیں ہو سکی ،کم از کم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں کوئی چیز ثابت نہیں ہے۔یہ خانہ کعبہ کی شمالی دیوار میں لگا یا گیا ہے اوراس کے ذریعے سے چھت سے گرنے والا بارشی پانی حطیم میں گرتا ہے۔

رکن یمانی:

            جنوب مغربی کونے کو رکن یمانی کہا جاتا ہے۔طواف کرتے ہوئے یہ آخر میں آتا ہے۔دوران طواف اس کو چھونا مسنون ہے۔روایات میں آتا ہے کہ طواف کے دوران میں رکن یمانی سے چلتے ہوئے ،رکن اسود تک ،اگر کوئی زائردرج ذیل دعا پڑھے تو ستر ہزار فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں۔ ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الآ خرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار و توفنا مع الابرا ر،و اد خلناالجنۃ یا ع زیز و یا غفار ۔

مسجد الحرام:

            مکہ مکرمہ میں،خانہ کعبہ کے ارد گرد،جو مسجد ہے اُسے مسجد الحرام کہتے ہیں۔خانہ کعبہ کے اندر نماز نہیں پڑھی جاتی۔یہ تو ایک مقدس کمر ہ ہے جو ہر وقت بند رہتا ہے۔اس کی زیارت کرنا ،اس کا طواف کرنا اور آپ دُنیا میں جہاں کہیں بھی ہوں اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا ہی،کعبے کے تعلق سے دین کامطالبہ ہے ۔اس لیے جب آپ سفر کر کے مکہ مکرمہ جاتے ہیں تو آپ کو خانہ کعبہ سے قربت حاصل ہو جاتی ہے۔وہاں باجماعت نمازکا جو منظر ہوتا ہے وہ دنیا میں کہیں بھی وقوع پذیر نہیں ہو سکتا۔ کعبہ شریف کے باہر باہر سے طواف ہوتا ہے۔جس جگہ طواف ہوتا ہے اُسے مطاف کہتے ہیں۔اسے اندرونی صحن بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ یہ بغیر چھت کے ہے۔مطاف کے لیے کافی وسیع جگہ مختص کی گئی ہے۔کعبہ شریف سے آپ واپس پلٹنا شروع کریں تو مطاف کے بعد ،چاروں طرف برآمدے بنائے گئے ہیں۔ان کی تعمیر سے واضح ہوتا ہے کہ یہ تاریخ کے مختلف ادوار میں بنائے گئے ہو نگے،کیونکہ ان کے اندر تعمیراتی ہم آ ہنگی نہیں ہے۔ان کے فرش کا لیول مطاف کے لیول سے قدرے بلند ہے لہٰذاواپس آتے ہوئے آپ کو سیڑھیاں طے کرنا ہوں گی۔اندر سے باہر کو آتے ہوئے ،برآمدوں کی پہلی لائن ترکوں کی تعمیر کردہ ہے۔اس کے آگے کے برآمدے موجودہ سعودی حکمرانوں کے تعمیر کردہ ہیں۔یہ بہت بڑا covered area ہے۔اس کی تعمیر کی مضبوطی ،حسن اور آرائش و زیبائش دیکھنے کے لائق ہے۔فی الحقیقت ،ان حکمرانوں نے حرم پر دِل کھول کر دولت خرچ کی ہے۔اس پر ،جتنا بھی انھیں خراج تحسین پیش کیا جائے کم ہے۔یہ برآمدے ڈبل سٹوری ہیں اور بعض حصوں میں توتہ خانہ بھی ہے۔ان کے فرش کا لیول ،عثمانی تعمیر سے قدرے مزید بلند ہے۔ان برآمدوں کی چھت کو بھی اس طرح تیار کر دیا گیا ہے کہ رش کے دِنوں میں یہاں بھی طواف کیا جا سکتا ہے اور عملاً حج کے دنوں میں ایسا ہوتا بھی ہے۔چھت پر جانے کے لیے ،مناسب مقامات پر سیڑھیاں بنائی گئی ہیں اورکئی جگہوں پر برقی سیڑھیاںescalatorsبھی بنائی گئی ہیں۔ چاروں طرف ان برآمدوں سے باہر آنے کے لیے بہت سے دروازے ہیں۔یہ چھوٹے بڑے سو کے قریب دروازے ہیں ۔ان میں سے بعض کے نام بھی ہیں،جن میں سے چند بہت مشہور ہیں،وہ یہ ہیں۔باب عبدالعزیز،باب فہد،باب عمرہ،باب فتح،باب السلام،باب مدینہ ،باب ندوہ،باب شیبہ اور باب صفا و مروہ وغیرہ۔ان کے باہر ،چاروں طرف ،مسجد کا بیرونی صحن ہے۔یہ بھی نماز کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔اسی بیرونی صحن کے نیچے ،مختلف مقامات پر ،وضو خانے اور بیت الخلا کا وسیع انتظام ہے۔یہ زیر زمین وضو گاہیں دو لیول میں ہیں۔آنے جانے کے لیے سیڑھیاں اور اسکیلیٹرزescalatorsبنائے گئے ہیں۔ان کی صفائی کے لیے عملہ ہر وقت موجود ہوتا ہے۔صرف اس پر کیا موقوف،پورے حرم کی صفائی کے بہت ہی اعلیٰ انتظامات ہیں۔مستعد عملہ ہر وقت صفائی ستھرائی میں مصروف رہتا ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ مسجد کے معمولات کو ،ایک لمحے کے لیے بھی ،بند نہیں کیا جاتا ۔

            آج کل ،مسجد الحرام کی شمالی سمت میں اورمشرقی سمت میں،بیرونی صحن کی توسیع کا کام زور شور سے جاری ہے۔یہ بہت بڑا منصوبہ ہے ۔اس منصوبے کی تکمیل کے بعد،مسجد کی گنجائش میں بے پناہ اضافہ ہونے کی توقع ہے۔اس منصوبے کے خد و خال اس سفر میں ہم پر واضح نہ ہو سکے۔(قارئین نئے حرم کا نقشہ اور اس سلسلے میں تمام مفید معلومات انٹر نیٹ سے حاصل کر سکتے ہیں) اس وسیع و عریض بیرونی صحن کے بعد،شہر مکہ شروع ہوتا ہے۔حرم کے چاروں طرف آسمان سے باتیں کرتی عمارتیں ہیں جو کاروباری اور رہائشی مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔یہاں کا بڑا بزنس ہوٹلوں اور اقامت گاہوں کا بزنس ہے۔

زم زم:

            یہ چشمہ آب ہے جو حرم کا ایک لا زوال تحفہ ہے۔اس کا صاف اورپاکیزہ پانی صدیوں سے زائرین ِ حرم کی پیاس بجھا رہا ہے یہ کعبہ شریف کے دروازے کے سامنے ،مطاف میں زیر زمین واقع ہے۔ماضی قریب تک ،اس سے پانی لینے کے لیے ،زائرین کو جانے کی عام اجازت تھی لیکن اب ایسا نہیں ہے۔اب تو عام زائر کو پتا بھی نہیں چلتا کہ زم زم کا کنواں یہیں حرم میں واقع ہے یا کہیں اور۔ کنویں والی جگہ پر ،پہلے صحن حرم میں سے سیڑھیاں نیچے جاتی تھیں اور زائرین نیچے جاکر کنویں کی زیارت بھی کرتے تھے اور پانی بھی پیتے تھے۔اب اس حصے کو طواف کے لیے تیار کر لیا گیا ہے اورکنویں سے پانی ،موٹروں کے ذریعے نکال کر ،پائپوں کے ذریعے ،مسجد الحرام کی مین بلڈنگ سے باہر لے جا یاگیا ہے۔رش کی وجہ سے ایسا کرنا نا گزیر تھا۔ حرم میں موجود زائرین کی پیا س بجھا نے کے لیے ،وافر مقدار میں زم زم سے بھرے کولرز،جگہ جگہ رکھے گئے ہیں ۔کولرز سے پانی لے کر زم زم کے پانی سے ،انسان اپنی پیاس تو بجھا لیتاہے، لیکن جو لذت، شیرینی ،اللہ کریم کی قدرت و عنایت کی یا دہانی،اور جذبات ِشکرکا احیا ،وہاں ،کنویں پرجا کر آ یا کرتا تھا،اُس سے بہر حال ہم محروم ہو گئے ہیں۔ صدیوں سے یہ پانی یوں ہی نکل رہا ہے۔کروڑوں مسلمان سالانہ یہاں آ تے ہیں ،خود بھی پیتے ہیں اور حرم پاک کا سب سے عمدہ اور اعلیٰ تحفہ ،اپنے اپنے ملکوں میں بھی لے جاتے ہیں،لیکن اس کنویں کا پانی ،کم نہیں ہوتا صدیوں سے یہ پانی نکل رہا ہے ،لیکن نہ اس کے اندر کوئی بو پیدا ہوئی،نہ اس کا رنگ بدلا اور نہ ہی اس کے ذائقے میں کوئی فرق آ یا۔نہ ہی اس کنویں میں کوئی جڑی بوٹی پیدا ہوئی ،نہ ہی کوئی الجی یا پھپوندی یاکوئی اور آ لودہ کرنے والی چیز پیدا ہوئی۔نہ کوئی بیکٹیریا جنم لے سکا اور نہ ہی کوئی وائرس۔آج تک ،ایک بھی کیس رپورٹ نہیں ہوا جو اس پانی کے پینے سے بیمار ہوا ہو ،اس کے بر عکس لوگوں نے اس پانی سے ،کئی طرح کی اپنی جسمانی بیماریوں کا علاج پایا ہے۔ (جاری ہے)