غروبِ شمس

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : یادِ رفتگاں

شمارہ : اگست 2009

اسلامیہ انگلش سکول ابوظبی کے بانی ڈاکٹر شمس الدین ہاشمی کی وفات پر مدیر سوئے حرم کے تاثرات

            بند کتاب پڑھنے میں انسان کو جیسی دقت پیش آسکتی ہے اسی طرح کی دقت مجھے ڈاکٹر صاحب مرحوم کی شخصیت پر لکھتے ہوئے پیش آرہی ہے۔ ان کے ساتھ تین سالہ رفاقت میں ، میں ان کی کتابِ زندگی کے شاید تین ہی ورق پڑھ پایا ہوں گا اور وہ بھی ادھورے۔کبھی مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں ان کے بارے میں نہ جانتے ہوئے بھی بہت کچھ جانتا ہوں اور کبھی یوں لگتا ہے کہ بہت کچھ جانتے ہوئے بھی میں کچھ نہیں جانتا۔ اس لیے میں نے ان کے رفقا سے درخواست کی کہ وہ میرے لیے اس بند کتاب کو کھولیں مگر کسی کو وقت نہ مل پایا او رکوئی دو چار لفظوں سے زیادہ نہ کہہ پایا۔کیسی عجیب بات ہے کہ انسان جس کے ساتھ زندگی کے تیس چالیس برس گزار دے اس کے بارے میں وہ تیس چالیس منٹ بھی بات نہ کر پائے۔ لیکن جب یہ سوچتا ہوں تو تھوڑااطمینان ہو جاتاہے کہ انسانوں کاتواپنے خالق اورمالک کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے ۔ وہ جو ان کی شہ رگ سے قریب ہے اور وہ جو بغیر مانگے ان کی ہر حاجت کو پورا کررہاہے ،اس کے بارے میں بھی انسانوں کی زبان عموماً گنگ ہی رہا کرتی ہے اوروہ اپنے خالق و مالک کی تعریف میں دو چار منٹ سے زیادہ بات نہیں کرسکتے۔

            مجھے ڈاکٹر صاحب کے بارے میں وہی لکھنا ہے جو میں جانتا ہوں ۔اس لیے میرے لیے یہ ممکن نہیں کہ میں محض اس لیے ان کی تعریف میں لکھتا چلا جاؤں کہ اب وہ دنیا میں نہیں رہے یا محض اس لیے ان پر تنقید کرتا چلاجاؤں کہ اب وہ کون سا مجھے کوئی نقصان پہنچا سکتے ہیں حالانکہ یہ الگ بات ہے کہ نقصان پہنچانا ان کی فطرت میں شامل ہی نہ تھا۔اس ضمن میں بھی مَیں نے لوگوں کے عجب رویے دیکھے ۔ جو ان کی زندگی میں اور ان کی غیبت میں گزگز بھر زبان رکھتے تھے وفات کے بعدسب کے سامنے ٹسوے بہاتے نظر آئے اور علیحدگی میں اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے پائے گئے۔ اس طرح کا نفاق ایک ایسا روگ ہے جس سے میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ اکابر پرستی ، قبر پرستی اورمردہ پرستی کا قومی مزاج ڈاکٹر صاحب کی وفات پر بھی کھل کر سامنے آیا زندگی میں ان کو برا بھلا کہنے والے ان کی وفات پر ان کی تعریف میں رطب اللسان نظر آئے اور وہی بات پوری ہوئی جو کسی شاعر نے کہی تھی کہ

عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن

یہ الگ بات ہے کہ دفنائیں گے مگر اعزاز کے ساتھ

            ڈاکٹر صاحب مرحوم پیشے کے اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر تھے مگر انہوں نے اپنی ساری زندگی تعلیمی خدمات کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ ابوظبی جیسے انٹر نیشنل سٹی میں مسلمانانِ برصغیر کے لیے خصوصاًاور باقی سب مسلمانوں کے لیے عموماً ایک معیاری تعلیمی ادارے کا قیام اور اسلامی پس منظر میں اس کا استمرار ان کی ایسی خدمت ہے جس کی مثال زمانہ قریب میں کم ہی ملتی ہے۔چند بچوں سے آغاز کر کے دو ہزار بچوں تک لے جانا اور لکڑی کے ڈبوں سے آغاز کر کے اسے ایک عظیم الشان بلڈنگ تک پہنچانا یقینا ایک ایسا عظیم الشان کارنامہ ہے جو بغیر لگن ، محنت اور خلوصِ کامل کے ممکن نہیں۔ اس لیے انکے ناقدین کو بھی یہ اعتراف بہر حال ہے کہ ان کے خلوص ، دیانت ، لگن اورمحنت میں کوئی شک نہیں۔ لیکن وہ بہر حال انسان تھے ۔ اس لیے ان کے طریق کار پر لوگوں کے بہت سے تحفظات تھے مگرا س سب کے باوجود کسی نے اس بارے میں کسی دوسری رائے کا اظہار نہیں کیا کہ وہ ذاتی قربانی کر نے والے ایک ایسے بے غرض انسان تھے جن کی زندگی ایک خاص مشن کے تحت گزر رہی تھی اور ان کے شب و روز بس ایک ہی دائرے میں بسر ہوتے تھے ۔ اوریہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ دائرے میں سفر کرنے والابعض اوقات وسعتِ افلاک کا ادراک نہیں کر سکتا۔

             اپنے ادارے اور مشن سے انہیں بے پناہ محبت تھی اور اس کا معمولی سا نقصان بھی ان کے لیے گویا ایک بار گراں ہوتا تھا جس کا تحمل ان کی برداشت سے باہر تھا۔ ایسے مواقع پر وہ بعض اوقات زبان کا ایسا استعمال کر جاتے تھے کہ جسے سننے والے طعن، تشنیع، طنزاور استہزاسے تعبیرکیا کرتے تھے مگر انہیں اس کااحساس بھی نہ ہو پاتا تھا ۔میں یہ دیانتداری سے سمجھتا ہوں کہ اگر ان کاکوئی ہم پلہ اور قریبی دوست انہیں اس کا احساس دلا سکتا تو شاید وہ اس کی اصلا ح کر لیتے ۔ اسی جذبے کے تحت میں نے ان کے پرانے دوست مسلم سجاد صاحب سے اس کا ذکر بھی کیا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کے ہاں زبان کاغیر محتاط استعمال ہوتا ہے اور زبان جسم کا وہ عضو ہے جو جسامت میں بہت کم وزن رکھنے کے باوجود اعمال میں بہت بڑا وزن رکھتی ہے ،مگر شاید اس وقت بہت دیر ہو چکی تھی۔اصل میں ان کی مثال ایک ایسے شخص کی تھی جس نے اپنا سب کچھ اپنے مکان پر لگا دیا ہو اور جب کوئی اس مکان کو نقصان پہنچانا چاہے تو اس سے برداشت نہ ہو پائے ۔ ڈاکٹر صاحب کے ہاں بھی اسی قسم کی جھنجھلاہٹ ملتی تھی۔ جان، مال اور وقت یہ تین چیزیں ایسی ہیں کہ جس چیز پر بھی صرف ہوں وہ انسا ن کے لیے قیمتی بن جاتی ہے ۔ڈاکٹر صاحب کی یہ تین چیزیں اولاد سے بھی زیادہ سکول پر صرف ہوئی تھیں اس لیے سکول کا معمولی سا حرج بھی ان کے لیے ناقابل برداشت ہوتاتھا۔

            ان کی مثال ایک ایسی خوبصورت اور دیدہ زیب کتاب کی ہے جسے بوسیدہ کور نے چھپا رکھاہو۔ ڈاکٹر صاحب کی خوبیوں کو ان کی‘ ‘زبان دانی’ ’ نے چھپا رکھا تھا۔ اللہ غریق رحمت کر ے ، زبان کے غیر محتاط استعمال کے باوجود میں نے ان سے زیادہ متحمل مزاج شخص نہیں دیکھا ۔ وہ دوسروں کو اس قدر الاؤنس دینے کے قائل تھے کہ بعض اوقات پانی سر سے گزر جاتا تھا او ر وہ خاطی کو مہلت دیتے رہتے تھے کہ شاید وہ اصلاح کر لے ۔ان کے مزاج پر غور کرتے ہوئے یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ ان کا سابقہ ایک ایسی ‘‘قوم ’’ سے تھا جسے ‘ٹیچر ’ کہاجاتا ہے اور جن سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ علم دوست ، متحمل مزاج، عجز و انکسا ر کے پیکر، ہوس و طمع سے پاک اور دوسروں کی اصلاح کا درد رکھنے والے اخلاص کے پُتلے ہوں گے جبکہ حقیقت اس کے الٹ ہے ۔ اس الٹ حقیقت نے بھی ان کے مزاج میں تیزی پیدا کر دی تھی۔

            جماعتی اورمسلکی وابستگی رکھنے کے باوجود وہ مذہبی او رگروہی تعصب سے پاک انسان تھے اور اس دور میں یہ تنہا بات ہی ایک ایسی خوبی ہے جو کسی شخصیت کو اعلی مقام دینے کے لیے کافی ہے ۔ وہ ذاتی رحجانات اوروابستگی سے بالا تر ہو کر ہر اُس شخص کو اپنے ادارے میں ٹیچر بنانے کے لیے تیار ہوتے تھے جس کے بارے میں انہیں معمولی سا احسا س بھی ہو جائے کہ یہ کسی حوالے سے بھی ان کے ادارے کے لیے مفید ہو سکتا ہے اس لیے آج بھی ان کے ادارے میں ہر مسلک ، ہر گروہ او رہر جماعت کے لوگ موجو د ہیں جو بعض حوالوں سے ان کے ادارے کے لیے نقصان دہ بھی ہے اور بعض حوالوں سے مفید بھی۔

            بعض معاملات میں ان کے ہاں عدم توازن موجود تھااور ان کے بعض فیصلے محل نظر ہوتے تھے لیکن میرے خیا ل میں وہ اپنے تئیں انصاف کی فراہمی کی پوری کوشش کر تے تھے ہر انسان کو اللہ کے حضور تن تنہاجوابدہ ہونا ہے اگر وہ وہاں اپنے ہرہر عمل کا جواز پیش کر سکا تو چھوٹ جائے گا ورنہ پکڑ کا اندیشہ ہے ۔ڈاکٹر صاحب کی بے پناہ قربانی کے پس منظر میں اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ وہ ان کے ہر ہرعذرکو قبول کر لے گا۔

            کمزوروں اور ناداروں کی چھپ چھپ کر مدد کرنے کا جذبہ ان کے ہاں بدرجہ اتم موجود تھا اور وہ برسہا برس گزر جانے کے باوجودبھی ان کی اور ان کے اہل و عیال کی مدد جاری رکھتے تھے۔

            انڈو پاکستان کے بہت سے بے روزگار مسلمانوں کو باعزت روزگار فراہم کرنا بھی ان کا ایک ایسا کارنامہ ہے جو ان کی بخشش کا باعث بن سکتا ہے ۔ آج کتنے ہی گھرانے ایسے ہیں جو ان کی بدولت لاکھوں میں کھیل رہے ہیں۔ اور کتنے ہی ٹیچر ایسے ہیں جو دو تین ہزار درہم کی تنخواہ پر ان کے ہاں آئے اور آج دوسرے سکولوں میں جا کر یا ایکسٹرا محنت کر کے بیس تیس ہزار کما رہے ہیں ۔یہ سب اصل میں ڈاکٹر صاحب کی بدولت ہے مگر لوگ اس احسان کو بھول جاتے ہیں۔

            وہ بہت تیز نظر رکھتے تھے اور باریک سے باریک اور چھوٹے سے چھوٹے معاملے کو بھی نظر انداز نہیں کرپاتے تھے۔ مروت کرنے پہ آتے تو لندن میں بستر مرض پر پڑے ہوئے بھی لوگوں کے کام آنے سے گریز نہ کرتے تھے اور مروت کونظرا نداز کرنا چاہتے تو قریب رہتے ہوئے بھی پوچھنا گوارا نہ کرتے تھے۔

            اپنے ادارے سے محبت اورعشق کی وجہ سے وہ اس ادارے کو ادارے کی طرح نہیں بلکہ ایک خاندان یا سنگل پروپرائٹر شپ کی طرح چلاتے رہے مگر ان کی ذاتی وجاہت ، محنت، اخلاص، خوفِ خدا اور خوبیوں کی وجہ سے یہ ادارہ ڈکٹیٹر ِشپ کی بہت سی قباحتوں سے محفوظ رہالیکن ان کے جانے کے بعد یہ خدشہ بہر حال موجو د ہے کہ عقابوں کا نشیمن کہیں زاغوں کے تصرف میں نہ آ جائے ۔ ڈاکٹر صاحب کے ورثا کواس سلسلے میں ازحد احتیاط کی ضرورت ہے ۔ہماری دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔

             مجھے بعض اوقات یوں محسوس ہوتا تھاکہ وہ پروٹوکول کو پسند کرتے تھے مگر اب غور کرتا ہوں تو لگتا ہے کہ شاید پروٹوکول ان کی طبیعت کاحصہ نہ تھا بلکہ ان کے حواریوں نے ایک ہوا سا بنا رکھاتھا۔یہ قلق او رافسو س ہمیشہ رہے گا کہ میرے جیسے کم سخن ا ن کی آخری زیارت بھی نہ کر سکے کیونکہ ہمیں یہ بتایاگیاتھا کہ انہیں اس وقت ملنا پسند نہیں جب وہ صحت یاب ہوکر لندن سے آئیں گے تو مل لیجیے گا ۔ ہم ان کی واپسی کا انتظار ہی کر تے رہ گئے اورپھر وہ واپس تو آئے مگر اس حال میں کہ ان کی روح جنت کے بالا خانوں کی طرف پرواز کر چکی تھی اور ان کا جسم وطن عزیزکی پاک مٹی کی طرف ۔ اور ان دونوں مقامات تک ہماری رسائی نہ تھی۔

            اللہ کریم مرحوم کو اپنی رحمتِ بے پایاں سے ڈھانپ لے اور ان کے درجات کو بلند فرمائے۔ڈاکٹر صاحب کے بارے میں یہ بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ان کا خلا پر نہ ہو پائے گا کیونکہ نہ ان جیسا اخلاص اورمحنت ہو اور نہ یہ خلا پر ہو پائے۔ کا ش ان کی فیملی اور پرانے احباب ان کے ساری زندگی کے نشیب وفراز اوران کی علم پروری اور علم دوستی کے سفر کا احاطہ کرنے والی ایک کتاب مرتب کر سکیں تو ہم جیسے کتنے ہی لوگوں کا بھلا ہو جائے ۔

            ڈاکٹر صاحب نے یہ بے مثال محنت اگر اپنے وطن میں کی ہوتی تو آج ان کی یاد میں بہت سے سیمینار منعقد کیے جاتے، ان کے شایان شان یادگارتعمیر کی جاتی اور ان کے ادارے کا نام ان کے نام پر رکھ دیا جاتا ۔مگر پرائے دیس میں یہ سب کون کر ے گااور کون ہے کرنے والا۔۔۔!