پاکستان کا اصل مسئلہ

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : اگست 2009

            اللہ تعالی نے اس جہاں کو محنتوں کا جہان بنایا ہے یہاں جو، جس شعبے اور جس فیلڈکی محنت کر تا ہے اسی کے مطابق ثمر پاتا ہے۔ قانون قدرت یہی ہے کہ گندم اگانے کی محنت کی جائے تو گند م ہی پیدا ہوتی ہے، چنا نہیں، اسی طرح چاول کاشت کیا جائے تو چاول ہی پیدا ہوگا، باجرہ نہیں۔معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والا انسان بھی چنے بو کر کبھی گندم کی توقع نہیں رکھے گااور گندم کاشت کر کے کبھی چاول کی امید نہیں کرے گا۔ لیکن وطن عزیر کے ضمن میں ہماری سوچ اور امیدوں کے دھارے الٹ بہتے ہیں۔ ہم یہاں خار بو کر پھولوں کی امید کر رہے ہیں اور خزاں کی پرورش کر کے بہار کی آس رکھے ہوئے ہیں جب کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ وطن عزیزبھی قانون قدرت سے بالاتر نہیں ہے ۔ یہاں بھی وہی پیدا ہو گا جس کی محنت کی جائے گی اور اسی تناسب سے پیدا ہو گا جس قدر محنت کی جائے گی۔پچھلے باسٹھ برس اس بات کے گواہ ہیں کہ یہاں جس نے جس طرح کی محنت کی اس کا پھل پایا۔ لوگوں نے ڈاکٹر بننے کی کوشش کی ، وہ بہت کامیا ب ڈاکٹر بنے ، لوگوں نے انجینربننے کی کوشش کی وہ اعلی پائے کے انجینربنے ، لوگوں نے سائنسدان بننا چاہا ، وہ عالمی شہرت یافتہ سائنسدان بنے ، لوگوں نے تاجر ، صنعتکار، کسان، جاگیردار، سرمایہ دار، بیوروکریٹ بننے کی محنت کی ،وہ کامیاب ہوئے اور وہ سب کچھ بنے جو وہ بننا چاہتے تھے۔ پاک سرزمین میں فوجی اگانے کی محنت ہوئی ، اس سرزمین نے بڑے بڑے فوجی پیدا کیے ۔اس سرزمین میں سیاستدان بونے کی محنت ہوئی تو اس زمین نے ہر رنگ اور ہر سائز کے سیاستدان اگلے ۔ اس سرزمین میں جس جس نے بھی کرپشن ، بددیانتی، ظلم ، ناانصافی ، بد اخلاقی ، بے دینی ،رشوت ، سفارش ، غربت ، ناخواندگی ،جہالت،رنگ و نسل اورزبان کے تعصبات کے بیج بونے کوشش کی ، اس زمین نے اسے مایوس نہیں کیا ، وجہ یہ ہے کہ اللہ کے فضل سے زمین زرخیز ہے ۔ اور زرخیز زمین محنت کرنے والوں کو مایوس نہیں کیا کرتی۔بدقسمتی یہی ہے کہ ہم نے ہر محنت کی ،نہیں کی تو انسان بنانے کی محنت نہیں کی۔ اور ہمارے خیا ل میں پاکستا ن کا اصل مسئلہ یہی ہے ۔

            غربت ، ناخواندگی ، ظلم ، ناانصافی ، جہالت ، کرپشن سب کے سب مسائل اسی ایک وجہ سے پید ا ہوئے ہیں کہ یہاں اصل میں وہ محنت اور کوشش ہی ناپید ہے جو انسان بنایا کرتی ہے نتیجتاً یہاں آجر او راجیر ، جاگیر دار اور کسان، صنعتکار او رمزدور ،استا د اور شاگرد ، سیاستدان او رورکر ، جماعتیں اور ان کے کارکن، پیر اور مرید ، مولوی اور ان کی بھیڑیں،ڈاکٹر ، انجینر ، تاجر ، دکاندار، بیوپاری ، ٹھیکیداروغیرہ سب پیدا ہوئے، نہیں ہوئے تو انسان پیدا نہیں ہوئے۔ باسٹھ برس گزر گئے ہم یہی سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم کچھ نظام ، کچھ سسٹم ،کچھ مخصوص ادارے اور بعض قانون بناکر ترقی کر لیں گے اور ترقی یافتہ قوموں کی صف میں جگہ پالیں گے مگر نتیجہ صفر کا صفر ہے۔ باوجود تمام ادارے ، تمام سسٹم ،تمام نظام ، تمام قوانین اور تمام وسائل ہونے کے ہر آنے والا دن ہمیں تنزلی کی راہوں میں ایک قدم اور آگے بڑھا دیتا ہے۔وجہ وہی ایک ہے کہ نظام، سسٹم اوراداروں کو چلانے والے ، اور قوانین کو نافذ کرنے والے ہاتھ چاہییں جبکہ ہم ایسے ہاتھوں سے محروم ہیں جو قوموں کو بام عروج کیطرف لے جانے میں معاون ہو ا کرتے ہیں۔ ہر طبقے کو اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے ۔نتیجتاً یہاں ہر سسٹم اور ہر قانون کسی نہ کسی طبقے کے مفادات کا نگران بن کر رہ جاتا ہے ہر طبقہ کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ قوانین اوراداروں کو اپنی جانب موڑ لیں۔

            انسانیت کا مفادانسان کو عزیز ہو گا کسی ڈاکٹر ، انجینر، فوجی یا سیاستدا ن کو نہیں۔ اسی طرح پاکستا ن کا مفاد پاکستانی کو عزیر ہو گا کسی تاجر ، صنعتکار، ملازم ، افسر یا صاحب اقتدار کو نہیں۔اس لیے ہمارے خیا ل میں ہونایہ چاہیے تھا کہ پاکستا ن بنتے ہی یہاں اس بات کی محنت شر وع کی جاتی کہ لوگوں کو اس بات کا شعور حاصل ہو جائے کہ وہ سب سے پہلے انسان ہیں بعد میں کچھ اور۔ اگر یہ شعور انہیں مل جاتا تو پھر ان کے لیے پاکستانی بننابھی آسان ہوتا او رمسلمان بننا بھی لیکن ہم نے وطن کی تخلیق کے ساتھ ہی یہاں طبقات اور طبقاتی امتیاز کی پرورش شروع کر دی ۔ چنانچہ طبقات بڑھتے چلے گئے اور عوام کم ہوتے چلے گئے ۔ اور اسی طرح انسان نمالوگ بڑھتے چلے گئے اور انسانیت کم ہوتی چلی گئی ۔ بعینہ پاکستانیوں کی گنتی بڑھتی گئی اور پاکستانیت کم ہوتی چلی گئی۔اس لیے ہمارے خیال میں ابھی وقت ہے کہ ہم لوٹ جائیں اور پھر سے وہ محنت شروع کر لیں جو درکار ہے ورنہ نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات رہیں گے۔وسائل آتے رہیں گے اور ہڑپ ہوتے رہیں گے ۔زمین سونا اگلتی رہے گی اور وہ سونا محض چند طبقوں ، چند خاندانوں اور چند پیٹوں کاایندھن بنتا رہے گا۔ ادارے بنتے رہیں گے اور تباہ ہوتے رہیں گے قانون بنتے رہیں گے اور اپنی بے بسی کا تماشا دیکھتے رہیں گے۔

            ضرورت اس امر کی ہے کہ فرد سے لے کر معاشرے تک اور خاندانوں سے لے کر اداروں تک ہر ایک اس بات کی آواز لگائے ، ہر ایک خود کو اور دوسرے کو سمجھائے اور ہر ایک اس بات کی پوری کوشش کر ے کہ لوگ یہ بات سمجھ جائیں کہ ہم سب سے پہلے انسا ن ہیں بعد میں کچھ اور ۔اوریہ کہ ہم سب کو انسانی اقدار کا تحفظ بہر حال کر ناہے اسی میں ہماری بقا ہے اور اسی میں وطن عزیز کی۔

            اس شعور کو عام کرنے میں بنیاد ی کردار تعلیمی اداروں کاہے اور پھر جماعتوں اور تنظیموں کا۔ لیکن تعلیمی ادارے اب کمرشل ازم کی آماجگاہ بن کر رہ گئے ہیں اور جماعتیں اورتنظیمیں ایوان اقتدار کے کوچے میں گردش کر تی رہتی ہیں۔ برسر اقتدارطبقے کے سارے برس اقتدار بچانے کی کوشش میں صرف ہو جاتے ہیں اور محروم اقتدار کے شب وروز اقتدار پانے کی کوشش میں۔

            اے کاش کوئی جماعت ، کوئی تنظیم ، کوئی گروہ ،کوئی این جی او اس بات کا تہیہ کر لے کہ اسے اپنی تمام تر صلاحیتیں اس بات پر صرف کرنی ہیں کہ وطن عزیز میں انسانیت کا شعور بیدا ر کرنا ہے اور نتیجتاً پاکستانیت کا شعور حاصل کر نا ہے۔چند ایک مخلص جماعتوں او رگروہوں نے اس ضمن میں بعض مخلصانہ کوششیں کیں بھی لیکن بالآخر وہ جماعتیں بھی سیاست کے گھاٹ اتر کر اپنی پہچان کھو بیٹھیں اور گروہ اور افراد بھی اپنی انفرادیت او رنام کے چکر میں ایک نئے طبقے کا اضافہ کرنے کے سوا کچھ نہ کر پائے۔

             ایک المیہ یہ بھی ہے کہ کچھ لوگوں نے اس راہ چلنا بھی چاہامگر بظاہر خاطر خواہ نتائج نہ پاتے ہوئے مایوس ہو کر بیٹھ رہے۔ چنانچہ اس بات کا مدنظر رہنا از حد ضروری ہے کہ ہم نتائج کے ذمہ دار نہیں ۔ نتیجہ اور ثمر اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ ہمیں تو مخلصانہ کوشش کر نی ہے اور کرتے چلے جانا ہے ۔ہے کوئی ،جو سوئے حرم کے ساتھ اس راہ چلے!