بنام عمار اور بیاد صفدر

مصنف : افتخار تبسمؔ

سلسلہ : نظم

شمارہ : جون 2009

 

اَحوالِ واقعی کی وضاحت نہ کر سکے
اپنے ہی دوستوں کی شکایت نہ کر سکے
 
تبدیل ہو نہ جائے مُرادِ سخن وَراں
اس ڈر سے کوئی بات روایت نہ کر سکے
 
دیکھا ہے سرفرازؔ و سلیمؔ و امینؔؒ کو
بَشّارِؔ دل رُبا کی زیارت نہ کر سکے
 
اپنوں سے دشمنی میں بڑے باکمال ہیں!
جو لوگ دشمنوں سے عداوت نہ کر سکے
 
دیکھِیں جو اپنے چاکِ گریباں کی وسعتیں
دامن دَرِیدگاں کو ملامت نہ کر سکے
 
ہونٹوں کے حاشیے پہ تبسمؔ سجا رہا
اپنے کِیے پہ ہائے ندامت نہ کر سکے
۳؍جنوری۲۰۰۹ء(pm۳۰:۰۸)
 
کون یاں قیمتِ اخلاص و وفا جانے ہے
آپ جانے ہیں، تبسمؔ کا خُدا جانے ہے 
 
نیند کے ماتے، سَرافیل اُٹھائے تو اُٹھیں
جو مسافر ہے، وہ آوازِ درا جانے ہے
 
باغ باں میرا شناسا نہیں بنتا، نہ بنے
برگِ لالہ، زرِ گُل، بادِ صبا جانے ہے
 
بیٹھ جائے ہے کسی گوشۂ تنہائی میں
جانے جانے کی، اگر کوئی سزا جانے ہے
 
اس نے پیغامِ پیمبرؐ کی وضاحت کر دی 
کون سُنتا ہے، مُنادی کی بَلا جانے ہے
 
میرے صفدرؔ کو خطاؤں کی معافی دے گا
میرا مالک، مرے اشکوں کی دُعا جانے ہے
 
چشمِ گریاں، لبِ سوزاں، دلِ بریاں مانگے 
کیسی دُنیا ہے، تبسُّم کو خطا جانے ہے
۵؍مئی ۲۰۰۹ء۹؍جمادی الاولیٰ ۱۴۳۰ھ (pm۳۰:۰۳)
 
شَیخ سے اپنی طبیعت نہیں ملتی بالکل
زِندگانی کی طریقت نہیں ملتی بالکل
 
لب پہ اَقوال و نَصائح کا ہمیشہ دفتر
جس کی خارج میں حقیقت نہیں ملتی بالکل
 
رخصتوں پر ہی عمل کرتے اکابر دیکھے
اس زمانے میں عزیمت نہیں ملتی بالکل
 
علم کا ناصرِؔ جاں باز ہے صفدرؔ کا حَفید
مردِ میداں کو ہزیمت نہیں ملتی بالکل
 
خود کو اصلاح کا مُحتاج تبسمؔ نے کہا
سچ بتانے سے عقیدت نہیں ملتی بالکل
۶؍مئی ۲۰۰۹ء۱۰؍جمادی الاولیٰ ۱۴۳۰ھ (pm۴۰:۰۳)
 
سَرفرازوں کی سِیادت نہیں جایا کرتی
پُشت ہا پُشت سَعادت نہیں جایا کرتی
 
حق نے حق دار کی دِہلیز پہ جا رُکنا ہے
ضائع سچّوں کی وراثت نہیں جایا کرتی
 
جاوداں خُونِ جگر پی کے ہُنر ہوتا ہے
خوں میں آغَشتہ اِمامت نہیں جایا کرتی
 
وہ صحیح رُخ پہ چلے، سمتِ غلط میں جائے
کوئی محنت بھی اکارت نہیں جایا کرتی
 
تو نے صفدرؔ کو سُنا دیکھا تبسمؔ!، بے فیض
نیک لوگوں کی زیارت نہیں جایا کرتی
۷؍مئی ۲۰۰۹ء۱۱؍جمادی الاولیٰ ۱۴۳۰ھ (am۰۰:۱۰)