چغل خور

مصنف : شفیع عقیل

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : جون 2009

اگلے وقتوں کی بات ہے کسی گاؤں میں ایک چغل خور رہتا تھا۔ دوسروں کی چغلی کھانا اور ایک کی بات دوسرے سے کرنا اس کی عادت تھی اور لاکھ کوشش کے باوجود وہ اپنی عادت کو نہ چھوڑ سکا تھا۔ اس نے بارہا اس بات کا ارادہ کیا کہ اب کسی سے کسی کی چغلی نہیں کھائے گا، ایک کی بات دوسرے سے نہیں کہے گا لیکن ہر بار وہ اپنے اس ارادے میں ناکام ہو جاتا۔ دراصل وہ اپنی عادت سے مجبور تھا اوراسی عادت کی وجہ سے اسے اپنی ملازمت سے بھی ہاتھ دھونا پڑے تھے، چنانچہ وہ بیکار تھا۔ اس نے دوسری ملازمت کی بہتیری کوشش کی مگر وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکا۔ کچھ دن تک تو وہ اپنی جمع پونجی پر گزر بسر کرتا رہا لیکن جب تھوڑا تھوڑا کر کے اس کا سارا سرمایہ ختم ہو گیا تو بہت پریشان ہوا۔ اس نے نوکری اور مزدوری کے لیے سر توڑ کوشش شروع کر دی کہ کہیں فاقوں کی نوبت نہ آ جائے۔ مختلف لوگوں سے کہا، در در کی خاک چھانی، ایک ایک کے پاس گیا مگر مصیبت یہ تھی کہ چغل خور ہونے کی وجہ سے اسے کوئی بھی اپنے پاس ملازم رکھنے پر تیار نہ ہوتا تھا۔ گاؤں کے تمام لوگ اس سے اچھی طرح واقف تھے اور اس کی چغلی کھانے کی عادت کے بارے میں جانتے تھے، اس لیے اسے کوئی بھی منہ نہ لگاتا تھا۔ آخر جب وہ مسلسل ناکامیوں سے تنگ آ گیا اور نوبت واقعی فاقوں تک آ پہنچی تو اس نے دل میں سوچا: ‘‘اس گاؤں کو چھوڑ دینا چاہیے اور کہیں اور چل کر قسمت آزمائی کرنی چاہیے۔’’

چنانچہ اس نے تھوڑا بہت ضروری سامان لیا اور گاؤں چھوڑ کر سفر پر روانہ ہو گیا تاکہ کسی دوسرے گاؤں یا شہر میں جا کر محنت مزدوری کرے۔

چلتے چلاتے وہ ایک اور گاؤں میں جا پہنچا۔ یہ گاؤں اس کے لیے نیا تھا اور اسے وہاں کوئی نہیں جانتا تھا، اس لیے اسے امید تھی کہ یہاں نوکری مل جائے گی، لہٰذا وہ ایک کسان کے پاس گیا اور اس سے کہا: ‘‘مجھے آپ اپنی ملازمت میں رکھ لیں’’۔ کسان نے اس سے دریافت کیا: ‘‘تم کیا کام کر سکتے ہو؟’’چغل خور نے جواب دیا: ‘‘مجھے کھیتی باڑی کا سارا کام آتا ہے۔ یہ کام میں اچھی طرح کر سکتا ہوں۔’’

اتفاق کی بات یہ کہ وہ کسان اکیلا تھا اور کھیتوں کے کام کاج میں اس کا ہاتھ بٹانے والا کوئی نہ تھا۔ اسے ایک ملازم کی ضرورت بھی تھی اس لیے اس نے سوچا، چلو اسے ہی ملازم رکھ لیتا ہوں۔ یہ بھی ضرورت مند ہے اور میرا بھی کام ہلکا ہو جائے گا۔ یہی سوچ کر اس نے چغل خور سے پوچھا: ‘‘اگر میں تمہیں اپنے پاس ملازم رکھ لوں تو تم کیا تنخواہ لو گے؟’’اس پر چغل خور نے بڑے اطمینان سے جواب دیا: ‘‘کچھ نہیں! میری کوئی تنخواہ نہیں ہے۔’’ کسان کو اس کی بات سن کر بڑا تعجب ہوا کہ کام کرے گا اور تنخواہ نہیں لے گا۔ بھلا یہ کیوں کر ہو سکتا ہے۔ اس نے حیرانی سے کہا: ‘‘یہ کیسے ہو سکتا ہے؟’’جواب میں چغل خور کہنے لگا: ‘‘آپ مجھے صرف روٹی کپڑا دے دیں اور اس کے ساتھ ایک بات کی اجازت! بس یہی میری تنخواہ ہے۔’’کسان پوچھنے لگا: ‘‘کس بات کی اجازت؟’’ چغل خور بولا: ‘‘آپ مجھے صرف اتنی اجازت دے دیں کہ چھ ماہ کے بعد آپ کی صرف ایک چغلی کھا لیا کروں۔’’

چغل خور کی یہ بات تو اپنی جگہ بڑی عجیب تھی لیکن کسان نے اپنے دل میں سوچا: ‘‘مفت کا نوکر مل رہا ہے، خالی روٹی کپڑے میں کیا برا ہے؟’’ پھر اس نے اپنے آپ کو آمادہ کرنے کے لیے کہا: ‘‘چھ ماہ بعد ایک چغلی کھاتا ہے تو کھا لے، میرا کیا جاتا ہے؟ یہ کسی سے میری چغلی کھا کر میرا کیا بگاڑ لے گا؟ میرے پاس کون سے راز ہیں جو ظاہر ہو جائیں گے؟’’ ‘‘مجھے تمہاری یہ شرط منظور ہے۔’’

چنانچہ چغل خور کسان کے پاس ملازم ہو گیا۔ وہ کام بھی اسی کا کرتا تھا اور اسی کے گھر میں رہتا بھی تھا۔ روزانہ صبح سویرے کسان کے ساتھ کھیتوں میں چلا جاتا، بیلوں کے لیے چارا کاٹتا، ہل چلاتا، گاہی کرتا اور اس طرح کام میں کسان کا برابر کا ہاتھ بٹاتا تھا۔دن گزرتے گئے اور کسان کو یہ بات بھی بھول گئی کہ چھ ماہ بعد چغل خور نے ایک چغلی کھانے کی اجازت مانگی تھی اور اس نے چغلی کھانے کی اجازت دے دی تھی۔ کسان اس عرصہ میں یہ تمام باتیں بھول چکا تھا۔

ادھر چغل خور کو کسان کے ہاں ملازم ہوئے چھ ماہ بیت چکے تھے اور اب اس کا دل چاہ رہا تھا کہ کسی سے کسان کی چغلی کھائے۔ وہ چھ ماہ سے اب تک اپنی اس عادت پر جبر کیے ہوئے تھا مگر اب معاہدے کی مدت ختم ہونے پر اپنے آپ پر قابو پانا اس کے بس میں نہ تھا۔ چنانچہ جب وہ اپنی عادت سے بالکل مجبور ہو گیا تو اس نے سوچا، اب چاہے کچھ ہو میں کسان کی چغلی ضرور کھاؤں گا اور اب تو معاہدے کے مطابق میرا حق بھی ہے۔

ایک روز کسان حسب معمول اپنے کھیتوں میں گیا ہوا تھا اور گھر میں اس کی بیوی اکیلی تھی۔ یہ دیکھ کر چغل خور کسان کی بیوی کے پاس گیا اور بڑا ہمدرد بنتے ہوئے کہنے لگا: ‘‘اگر تم برا نہ مانو تو میں تم سے ایک بات کہوں؟’’کسان کی بیوی بولی: ‘‘ضرور کہو! اس میں برا ماننے کی کیا بات ہے؟’’چغل خور اور بھی زیادہ ہمدردی جتاتے ہوئے بولا: ‘‘اس میں تمہارا ہی بھلا ہے۔’’یہ سن کر کسان کی بیوی کو کچھ شک سا ہو گیا۔ اس نے دل میں سوچا، ہو نہ ہو کوئی خاص بات ضرور ہے۔ یہی خیال کر کے وہ کہنے لگی: ‘‘پھر تو ضرور کہو! وہ کیا بات ہے؟’’جواب میں چغل خور بڑے راز دارانہ انداز میں بولا: ‘‘دراصل کسان کوڑھی ہو گیا ہے۔ اس نے اپنی یہ بیماری اب تک تم سے چھپائے رکھی ہے۔’’‘‘کوڑھی ہو گیا ہے؟’’ کسان کی بیوی نے چونک کر پوچھا۔اسے بڑا تعجب ہوا۔ یہ بات اس کے لیے جس قدر نئی تھی اس سے کہیں زیادہ حیران کن بھی تھی۔

چغل خور نے جب اپنا تیر نشانے پر بیٹھتا دیکھا تو بولا: ‘‘اگر تمہیں یقین نہ آئے تو آزما کے دیکھ لو۔’’اب تو کسان کی بیوی بھی سوچ میں پڑ گئی۔ اس نے دل میں سوچا، ہو سکتا ہے ملازم ٹھیک ہی کہہ رہا ہو۔ بھلا اس کومجھ سے ایسا جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہے؟ لہٰذا اس نے جلدی سے پوچھا: ‘‘مگر میں کیسے آزماؤں؟’’چغل خور جھٹ سے کہنے لگا: ‘‘اس میں کیا مشکل ہے۔’’پھر اس نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا: ‘‘جو آدمی کوڑھی ہو جائے اس کا جسم نمکین ہو جاتا ہے اگر تم یہ جاننا چاہتی ہو کہ کسان کوڑھی ہو گیا ہے یا نہیں تو کسان کے جسم کو زبان سے چاٹ کر دیکھ سکتی ہو۔’’ کسان کی بیوی کو چغل خور کی یہ تجویز پسند آئی۔ اس نے سوچا، اس سے نوکر کے جھوٹ سچ کا پتا چل جائے گا۔ اس نے کہا: ‘‘اچھا! کل جب میں کسان کا کھانا لے کر کھیتوں میں جاؤں گی تو کسان کے جسم کو چاٹ کر ضرور دیکھوں گی۔’’ چغل خور کسان کی بیوی سے یہ باتیں کر کے سیدھا کھیتوں کی طرف چل دیا۔ جہاں کسان پہلے ہی سے کھیتی باڑی کے کاموں میں لگا ہوا تھا۔ دراصل ان دنوں فصل پک چکی تھی جس کی وجہ سے کسان دو روز سے اپنے گھر نہیں گیا تھا۔ اسے رات کو بھی کھیتوں ہی میں رہنا پڑتا تھا۔ چغل خور کسان کے پاس پہنچا اور اس سے بڑی راز داری سے کہنے لگا: ‘‘تم ادھر کھیتوں میں کام کرتے پھر رہے ہو اور ادھر تمہاری بیوی پاگل ہو گئی ہے۔’’ کسان بڑا حیران ہوا۔ اس نے تعجب سے پوچھا: ‘‘یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟’’ چغل خور نے اسے یقین دلاتے ہوئے کہا: ‘‘میں سچ کہہ رہا ہوں۔ وہ تو پاگل پن میں آدمیوں کو کاٹنے دوڑتی ہے۔’’

کسان سارا کام کاج چھوڑ کر سوچ میں پڑ گیا۔ اس نے اپنے دل میں سوچا، نوکر ٹھیک ہی کہہ رہا ہو گا، بھلا اسے اس قسم کا جھوٹ بولنے کی کیا پڑی ہے۔ ہو سکتا ہے میری بیوی واقعی پاگل ہو گئی ہو۔ چغل خور نے جب کسان کو اس طرح شش و پنج میں مبتلا دیکھا تو بولا: ‘‘اگر تمہیں میری بات پر یقین نہیں تو کل جب وہ کھانا لے کر آئے اس وقت دیکھ لینا۔’’اس پر کسان کہنے لگا: ‘‘ہاں! یہ ٹھیک ہے۔ آج رات تو مجھے کھیتوں ہی میں رہنا ہے کل جب وہ کھانا لے کر آئے گی تو دیکھ لوں گا۔’’

چغل خور نے جب یہ جان لیا کہ کسان اس کی باتوں میں آ گیا ہے تو وہاں سے چلا آیا اور کسان کے سالوں کے پاس پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر اس نے ان سے کہا: ‘‘تم لوگ یہاں مزے کر رہے ہو اور تمہارا بہنوئی تمہاری بہن کو روز مار مار کر ادھ موا کر دیتا ہے۔ وہ اسے اس ظالمانہ طریقے سے مارتا ہے کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔’’کسان کے سالوں نے چغل خور کی یہ بات سنی تو بہت پریشان ہوئے۔ لیکن انھوں نے اس سے کہا: ‘‘مگر ہماری بہن نے تو ہمیں یہ کبھی نہیں بتایا؟’’اس پر چغل خور بولا: ‘‘وہ بیچاری شرم کے مارے تمہیں کچھ نہیں بتاتی ورنہ اسے تو کسان اس بری طرح مارتا پیٹتا ہے کہ وہ ہلکان ہو جاتی ہے۔ کھیتوں میں سب کے سامنے اس کی بے عزتی کرتا ہے۔’’‘‘لیکن ہم تمہاری بات پر کیسے یقین کر لیں؟’’اس پر چغل خور جھٹ سے بول پڑا: ‘‘اگر تم لوگ یہ سمجھ رہے کہ میں جھوٹ کہہ رہا ہوں تو کل دوپہر کو جب تمہاری بہن کھانا لے کر کھیتوں میں جائے گی، اس وقت تم خود اپنی آنکھوں سے دیکھنا، کسان اسے کس طرح مارتا ہے۔’’

کسان کے سالے یہ بات سن کر غصے میں تلملانے لگے۔ بھلا وہ اپنی بہن کی بے عزتی کیسے برداشت کر سکتے تھے۔ انہوں نے چغل خور سے کہا: ‘‘اچھا کل ہم کھیت میں چھپ کر یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔’’

چغل خور وہاں سے رخصت ہو کر سیدھا کسان کے بھائیوں کے پاس گیا اور ان سے جا کر کہا : ‘‘بڑے افسوس کی بات ہے۔ تم لوگ سب ایک ماں کے بیٹے ہو اور پھر بھی اپنے بھائی کی مدد نہیں کر سکتے۔’’کسان کے بھائیوں نے اس سے تعجب سے پوچھا: ‘‘کیا ہوا؟ یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ ہم کس کی مدد نہیں کرتے؟’’اس پر چغل خور نے روہانسا منہ بنا کر جواب دیا: ‘‘تمہارا بھائی سخت مصیبت میں گرفتار ہے، اس کے سالے ہر چوتھے روز آ کر اسے زد و کوب کرتے ہیں اور ایک تم ہو کہ تمہیں اس کی خبر تک نہیں’’۔ کسان کے بھائی یہ سن کر پریشان سے ہو گئے اور کہنے لگے: ‘‘مگر ہمارے بھائی نے تو کچھ نہیں بتایا۔’’چغل خور بولا: ‘‘وہ تم سے کیا کہے؟ بیچارہ اپنی شرافت کی وجہ سے کچھ نہیں کہتا اور خاموشی سے یہ بے عزتی برداشت کر لیتا ہے۔’’جواب میں بھائی کہنے لگے: ‘‘ہمیں تو تمہاری بات پر یقین نہیں آ رہا...!’’ یہ سن کر چغل خور نے کہا: ‘‘اگر تم لوگوں کو میری بات کا یقین نہیں تو کل دوپہر کو آ کر اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھ لینا کہ کس طرح کسان کے سالے اسے مارتے ہیں۔’’

کسان کے بھائی غصے میں تلملانے لگے۔ انہوں نے کہا: ‘‘اچھا! ہم کل دیکھ لیں گے وہ ہمارے بھائی کو کس طرح ہاتھ لگاتے ہیں۔ ابھی ہم مرے نہیں۔’’اس طرح چغل خور سب لوگوں سے یہ باتیں کہہ کر واپس آ گیا اور اپنے کام کاج میں وہ اس طرح آ کر مصروف ہو گیا کہ کسی کو کانوں کان اس بات کی خبر نہ ہوئی کہ کہاں گیا تھا اور کہاں سے آیا ہے۔

دوسرے روز دوپہر کو جب کسان کی بیوی کھانا لے کر کھیتوں میں آئی تو کسان نے کنکھیوں سے اس کی طرف دیکھا۔ وہ بڑی احتیاط سے اس کی ہر حرکت کا جائزہ لے رہا تھا کیوں کہ اس کے دل میں تھا کہ کہیں پاگل ہونے کی وجہ سے وہ اسے کاٹ نہ کھائے۔ اس لیے وہ اس کے قریب ہونے سے ڈرتا تھا۔ دوسری طرف کسان کی بیوی کی یہ کوشش تھی کہ کسان کسی طرح اس کے قریب ہو اور وہ اس کو کاٹ کر یا اسے زبان لگا کر دیکھ سکے کہ نمکین ہے یا نہیں۔ جونہی وہ چاچھ کا مٹکا اور روٹیوں کی چنگیری زمین پر رکھ کر بیٹھی، کسان جلدی سے پیچھے ہٹ گیا۔ یہ دیکھ کر اس کی بیوی بھی روٹیوں کی چنگیری آگے بڑھانے کے بہانے سے قدرے آگے سرک آئی اور پھر جونہی کسان نے روٹی پکڑنے کو ہاتھ آگے بڑھایا، اس نے جھپٹ کر اس کی کلائی پکڑ لی اور اسے چاٹنے کے لیے منہ آگے بڑھایا۔ کسان اچھل کر دور ہٹ گیا۔ اب تو اسے پکا یقین ہو گیا کہ واقعی اس کی بیوی پاگل ہو گئی ہے اور کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے۔

کسان کو نوکر کی کہی ہوئی بات سچ معلوم ہو رہی تھی۔ ادھر اس کی بیوی نے جب یہ دیکھا کہ کسان اسے جسم چاٹ کر دیکھنے نہیں دے رہا تو اسے اس بات کا یقین ہو گیا کہ کسان واقعی کوڑھی ہو گیا ہے اور نوکر ٹھیک کہہ رہا تھا۔اس نے ایک بار پھر آگے بڑھ کر کسان کی کلائی پکڑنے کی کوشش کی۔ یہ دیکھ کر کسان نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، پاؤں سے جوتا اتار کر وہیں بیوی کی ٹھکائی شروع کر دی۔ جونہی اس نے بیوی پر جوتے برسانے شروع کیے، قریب ہی کھیت میں چھپے ہوئے کسان کے سالے باہر نکل آئے:‘‘واقعی نوکر ٹھیک کہہ رہا تھا۔’’

ان کے سامنے ان کی بہن کی پٹائی ہو رہی تھی بھلا پھر وہ کیوں نہ یقین کرتے۔ وہ سارے کے سارے للکارتے ہوئے آگے بڑھے اور کسان پر ٹوٹ پڑے:‘‘آج دیکھتے ہیں، تم ہماری بہن کو کس طرح مارتے ہو؟’’ ان کا آگے بڑھنا تھا کہ دوسرے کھیت میں چھپے ہوئے کسان کے بھائیوں نے دیکھا ‘‘واقعی نوکر نے ہمیں صحیح اطلاع دی تھی۔’’ انہیں نے جواب میں کسان کے سالوں کو للکارا: ‘‘آج دیکھتے ہیں، تم ہمارے بھائی کو کس طرح مارتے ہو؟’’

اور اس کے بعد وہ سب ایک دوسرے پر پل پڑے۔ وہ سرپھٹول ہوئی، وہ لاٹھیاں چلیں کہ سب خون میں نہا گئے۔ آخر ارد گرد کے کھیتوں میں کام کرنے والے دوسرے لوگ بھاگ کر آئے اور انھوں نے بچ بچاؤ کرا کے انہیں ایک دوسرے سے الگ کیا۔ پھر جب ان سب کا غصہ قدرے کم ہوا تو ان سے لوگوں نے پوچھا: ‘‘تم لوگ اس طرح کیوں لڑ رہے تھے؟’’

اس پر سب نے اپنی اپنی بات بتائی کہ یوں نوکر ہمارے پاس آیا تھا اور اس نے یہ بتایا تھا اس طرح جب سب اپنی بات بتا چکے تو پتا چلا کہ یہ سب کچھ چغل خور کا کیا دھرا ہے۔

وہ سارے کے سارے مل کر چغل خور کی تلاش میں چلے لیکن اس وقت تک چغل خور وہ گاؤں چھوڑ کر کہیں اور جا چکا تھا۔

کہتے ہیں وہ دن اور آج کا دن، چغل خور کا کہیں پتا نہ چل سکا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی کوئی چغل خور یہ نہیں مانتا کہ وہ چغل خور ہے۔ دراصل اسے اس بات کا ڈر ہے کہ اگر اس نے یہ بات تسلیم کر لی کہ وہ چغل خور ہے تو کسان، اس کے سالے اور اس کے بھائی اسے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ اسی لیے ہر چغل خور، چغل خور کہنے پر ناراض ہو جاتا ہے۔