خدا سے ہمارا تعلق

مصنف : محمد مبشر نذیر

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : جون 2009

یٰٓـاَیُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِ یْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ. اَلَّذِیْ جَعَلَ لَـکُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّ السَّمَآءَ بِنَـآءً وَّ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخْرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّـکُمْج فَـلَا تَجْعَلُوْا ِﷲِ اَنْدَاداً وَّاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ. (البقرہ۲: ۲۱۔۲۲)

‘‘اے انسانو! بندگی اختیار کرو اپنے اس رب کی، جو تمہارا اور تم سے پہلے والے لوگوں کا خالق ہے، تاکہ تم پرہیز گار بن سکو۔ وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھایا، آسمان کی چھت بنائی، اوپر سے پانی برسایا اور اس کے ذریعے سے تمہارے لیے ہر طرح کی پیداوار بطور رزق زمین سے نکالی۔ پس جب تم یہ جانتے ہو تو دوسروں کو اللہ کا مد مقابل نہ بناؤ۔’’

یہ پوری نسل انسانی کے لیے اللہ تعالیٰ کی وہ دعوت ہے جو مذہب کی بنیاد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو بھی ہدایت عطا کی ہے، اس کی بنیاد یہی ہے کہ وہ اپنے رب کا فرماں بردار بندہ بن کر رہے اور خود کو اس کا بندہ ہی سمجھے ۔ یہی تورات کا پیغام ہے۔ زبور اور انجیل میں بھی اسی کی دعوت دی گئی ہے اورقرآن مجید کی پوری دعوت بھی اسی پیغام پر مشتمل ہے۔

خود کو خدا کا بندہ سمجھ کر اسی کی عبادت کرنا، یہی وہ رویہ ہے جو ایک خدا پرست انسان کو اختیار کرنا ہے چاہیے۔ انسان اگر سرکشی سے اجتناب کرے اور عجز و انکسار اختیار کرتے ہوئے اپنی زندگی اپنے رب کے نام کر دے، اس کی عبادت کرے، اسی کے آگے سر جھکائے، اسی سے دعا کرے، اسی سے مدد کا طلب گار ہو اور اپنی زندگی اسی کے رسولوں کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق گزارے تو یہ سب کچھ غیر فطری اور غیر منطقی نہیں، بلکہ انسان کی عقل و فطرت کے عین مطابق ہے۔ انسان اپنے رب کی بندگی کیوں کرے، اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے اپنی چند نعمتیں بیان کی ہیں:

زمین انسان کے لیے ایک بنا بنایا گھر ہے۔ اس زمین کا ڈیزائن کچھ ایسا ہے جو ہماری زندگی کے لیے موزوں ہے۔ صرف ایک پہلو ہی کو لے لیجیے۔ اگر زمین کا سورج سے فاصلہ موجودہ فاصلے کی نسبت کچھ کم ہی ہو جاتا تو اس کے نتیجے میں یہاں کا درجہ حرارت اتنا بڑھ جاتا کہ ہم زندہ نہ رہ سکتے۔ اگر یہ فاصلہ کچھ زیادہ ہو جاتا تو اتنی سردی ہو جاتی کہ ہم شاید پیدا ہی نہ ہو پاتے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم سے یہ فاصلہ ٹھیک اتنا ہی رکھا ہے جتنا ہماری زندگی کے لیے ضروری ہے۔ اس نے ایسا صرف ہمارے لیے کیا۔

آسمان اور اس پر موجود اجرام فلکی ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہیں۔ ہماری توانائی کی تمام ضروریات اللہ تعالیٰ سورج کے ذریعے سے پوری کرتا ہے۔ اس سے اندازہ کیجیے کہ ہمارے پروردگار کو ہمارا کتنا خیال ہے۔

انسانی زندگی پانی کی محتاج ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے زمین میں پانی کے بہت سے ذخائر پیدا کیے ہیں۔ صرف اس پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ واٹر سائیکل کا ایسا نظام بنا کر رکھ دیا ہے کہ یہ پانی بخارات کی صورت میں آسمان پر جاتا ہے اور پھر بلندیوں پر برس کر دریاؤں اور چشموں کی صورت میں ہم تک آ پہنچتا ہے۔ ایسا اس نے صرف ہمارے لیے کیا ہے۔

ہم لوگ زندہ رہنے کے لیے خوارک کے محتاج ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ خوارک مختلف پودوں اور ان کے پھلوں کے ذریعے سے ہم تک پہنچانے کا بندوبست کر دیا ہے۔ یہ خوراک اس نے محض ہمارے منہ پر ہی نہیں دے ماری بلکہ اسے نہایت ہی خوبصورتی کے ساتھ ذائقے دار پھلوں میں محفوظ کیا ہے۔ یہ انتظام بھی ہمارے لیے ہی ہے۔

ایک معقول انسان سے اگر کوئی احسان کرے تو وہ ہمیشہ اس کا شکر گزار رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پر اتنے احسان کیے ہیں کہ ہم اس کا بدلہ تو کسی صورت میں نہیں دے سکتے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر ہم اس کے شکر گزار بندے بن کر رہیں اور اس کی ان نعمتوں کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے سامنے اپنا سر جھکا دیں۔ اس سے زیادہ کوئی اور مطالبہ اللہ تعالیٰ ہم سے نہیں کرتا۔

اس کائنات کا ڈیزائن پکار پکار کر ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اس کا خالق و مالک صرف ایک ہی ہے۔ اگر وہ ایک سے زائد ہوتے تو پھر یہ نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتا۔ دور قدیم کے انسان نے اپنی لا علمی ، جہالت، بے وقوفی، تعصب اور بے جا عقیدت کے باعث اپنے ذہن سے بہت سے خدا تخلیق کیے اور انہیں اللہ کے مد مقابل لا کھڑا کیا۔ دور جدید کا انسان اگرچہ ایسا تو نہیں سمجھتا لیکن اس نے اپنی لا علمی اور بے جا عقیدت کے باعث اللہ کے نیک بندوں ہی کو اس کا مد مقابل تصور کر لیا ہے اور ان کے ساتھ وہی رویہ اختیار کرنے لگا ہے جس کا مستحق صرف اور(بقیہ ص ۳۹ پر)

 صرف اللہ ہے۔ قرآن ہمیں اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ کسی کو بھی اللہ کا مد مقابل قرار نہ دو کیونکہ یہ بات خلاف حقیقت ہے۔

بائبل میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو شریک کرنے کو زنا یعنی بے وفائی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جیسے کوئی بھی معقول شخص اپنے شریک حیات کو کسی اور کے ساتھ شریک کرنا پسند نہیں کرتا،اسی طرح اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو شریک کرنا بھی بے وفائی کا ہی عمل ہے۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، سیدنا مسیح اور دیگر تمام انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام نے ہمیشہ اس بات کی تلقین فرمائی کہ ان کی ذات با برکت کے معاملے میں کبھی ایسا رویہ اختیار نہ کیا جائے جو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا مسیح علیہ الصلاۃ والسلام سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی اس ہدایت پر پوری طرح عمل کیا جائے۔