اباّ جی

مصنف : ابو قانت

سلسلہ : یادِ رفتگاں

شمارہ : مئی 2009

ایک بیٹے کی ٹوٹی پھوٹی،الجھی الجھی اوربکھر ی بکھری یادیں

کچھ بکھرے بکھرے سپنے ہیں
یہ غیر نہیں سب اپنے ہیں


مت روکو انہیں پاس آنے دو
یہ مجھ سے ملنے آئے ہیں


میں خود نہ جنہیں پہچان سکوں
کچھ اتنے دھندلے سائے ہیں

٭٭٭

             سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہ 1905 کی بات ہے جب دادا جان کے گھر اللہ تعالیٰ نے ‘بوٹا’ لگایا تو انہوں نے اپنے اس فرزند دلبند کا نام بھی‘ بوٹے شاہ’ ہی تجویز کیا۔ بیٹے نے خود کو سعادت مند سمجھتے ہوئے اپنا نام محمدسعید رکھ لیا جو کہ دھیرے دھیرے ، رفتہ رفتہ او رچلتے چلتے سید محمد سعید شاہ بخاری چشتی صابری قادری بن گیا مگر خاندان کے بڑے بوڑھوں کے لیے وہ‘ بوٹے شاہ’ ہی رہے اور دوست احباب کے لیے ‘شاہ جی’ اور ہمارے لیے ،ابا جی۔

            اباجی ،اپنے سلسلہ نسب کے بارے میں احساس تفاخر کی دولت سے مالامال تھے شاید اس وجہ سے کہ ان کے شجرہ نسب میں سید جلال الدین بخاری ، سید کبیر اور سید اسماعیل جیسے بزرگوں کے نام تھے یا پھر شاید اس وجہ سے کہ بقول ان کے،‘‘ انڈیا میں ہمارے گھر حضور اکرم ﷺ تشریف لائے تھے’’۔ واقعہ یوں سنایا کرتے تھے کہ ‘‘ہمارے گھر میں ایک بیری کا درخت تھا اس پر آسیب ہوگیا۔ میں اپنے حضرت کے پاس حاضر ہوا ،انہوں نے عملیات بتائے اور تعویذ دئیے کہ جا کر سرسوں کے تیل والے دیے میں جلاؤ۔ میں نے آکر حصار کھینچا ، عمل شروع کیا تو آہستہ آہستہ جنات کا اجتماع شروع ہو گیا۔ وہ مجھے ڈرانے دھمکانے لگے مگر میں بدستور اپنے عمل میں مصروف رہا۔ انہوں نے ہمارا گھر چھوڑنے سے انکار کر دیا بلکہ مجھے دھمکی دی کہ وہ اپنے سارے قبیلے کو بلانے جا رہے ہیں۔ اس سے مجھے کچھ ڈر لگا مگر ابھی یہ نوک جھونک جاری تھی کہ جنات کی چیخ و پکار بلند ہوئی اور وہ گڑگڑا کر معافی مانگنے لگے ۔ میں نے کہا اب کیا ہوا، تو جنات نے کہا کہ ایک نورانی صورت بزرگ اپنے دوستوں کے ہمراہ تشریف لائے ہیں اور ہمیں سزا دے رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ تم نے میری اولاد کے گھر آنے کی جرات کیوں کی۔ میں نے ان بزرگ کا حلیہ پوچھا ۔ سن کر میں نے کہا کہ اچھا، یہ تو میرے نانا ہیں۔ اب اگر تم اپنے قبیلے سمیت ساری کائنات کے جنوں کو بھی بلا لو تو پھر بھی میرا بال بیکا نہیں کر سکتے ’’۔

             انڈیا والے جنات تو معافی مانگ کر رخصت ہو گئے تھے لیکن ایک جن نے تو ابا جی کے ساتھ خوب حق رفاقت نبھایا، حتی کہ ان کے ساتھ وہ بھی پاکستان ہجرت کر آیا ۔ اسے ابا جی ‘پانی پت کا جن’ کہا کرتے تھے ۔ ٹانگوں میں درد اسی جن کا کرشمہ تھا۔ فرماتے تھے کہ‘‘ میرے والد صاحب کی جان بھی اسی مرض نے لی تھی اب میری ٹانگیں بھی یہی کھاتا رہتا ہے’’ بہت پہلے کی بات ہے کہ ایک دفعہ ابا جی اس جن کو دیس نکالا دینے کا عزم کر بیٹھے اس کے لیے ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں جو کہ سارنگی ، طبلے ، چمٹے اور باجے سے لیس ہو کر گھر میں آدھمکے۔ ساری رات ان کا عمل جاری رہا ، جن تو وہیں کا وہیں رہا البتہ پڑوسیوں کو ساری رات جاگ کر گزارنا پڑی۔ ایک بار مجھے ساتھ لے کر سمندری (ضلع فیصل آباد) تشریف لے گئے۔وہاں بھی ایک بزرگ بچوں کے انگوٹھوں میں جنات کو حاضر کیا کرتے تھے ۔ شومئی قسمت کہ اس بار انہوں نے میرے انگوٹھے کو اس مقصد کے لیے منتخب فرمایا تھا۔ میرے انگوٹھے پر تھوڑا سا تیل اور سیاہی لگا کر حکم دیا گیا کہ اپنی توجہ انگوٹھے پر مرکوز رکھوں اور جو آئے فوراً بتاؤں۔ ارشاد ہوا کہ پہلے جھاڑو والا آئے گا پھر پانی چھڑکا جائے گا پھر تخت لگے گا ،دربارسجے گا اور جنات کے بادشاہ اس ترقی یافتہ دور میں بھی زمین پر اپنا تخت لگا کر فروکش ہو جائیں گے۔ اصل میں وہ بزرگ جنوں کے بادشاہ سلامت سے کم کسی سے معاملہ طے کرنے پر تیار نہ تھے۔ بادشاہ سلامت بوجہ مصروفیت تشریف نہ لا سکے مجبوراً ہم خالی ہاتھ گھر کو سدھارے ۔

            ایک اور نسبت جس پر ابا جی کو ساری عمر فخر رہا، وہ ان کی صوفیانہ نسبت تھی ۔ وہ کسی واسطے سے شاہ عبدالرحیمؒ رائے پوری سے منسلک تھے ۔( خانقاہ رائے پوری کے مریدین و متوسلین آج بھی لاکھوں کی تعداد میں ہندوپاک میں موجود ہیں ۔ حضرت رائے پوری کے بارے میں کسی نے حکیم الامت حضرت تھانویؒ سے پوچھا تھاکہ حضرت، آپ بڑی سخت جانچ پڑتال کے بعد بیعت کرتے ہیں جبکہ حضرت رائے پوری فوراً سب کو بیعت کر لیتے ہیں ۔ فرمانے لگے کہ بھئی ہمارے ہاں تو حرکت چلتی ہے جبکہ ان کے ہاں برکت چلتی ہے ۔ اس برکت کا مشاہدہ آج بھی خانوادہ رائے پوری میں کیا جا سکتا ہے۔) جب میں نے مولانا اللہ یارؒ خاں کے ہاتھ پر بیعت کی جو کہ چکڑالہ ضلع میانوالی میں رہتے تھے ،تو ابا جی فرمانے لگے کہ بھئی ڈاکٹر اور پیر تو بالکل اپنے قریب کا ڈھونڈنا چاہیے تاکہ بوقت ضرورت فوری رہنمائی حاصل کی جا سکے ۔

            ابا جی کے دادا الہی بخش بھی اپنے وقت کے جلالی بزرگ تھے ۔ غالباً مہاراجہ کپورتھلہ کے ہاتھیوں کے انچارج تھے۔ مہاراجہ نے بطور انعام ایک جاگیر عطا کی تھی جو کہ اس درویش نے درویشی کے خلاف سمجھتے ہوئے واپس کر دی تھی ۔ اکثر اپنے گرد آگ کا الاؤ جلا کر ذکر الہی کیاکرتے تھے۔ (ویسے مجھے آج تک اس کی منطق سمجھ نہیں آئی )ایک دفعہ ایک عورت گھر میں آئی اور انہیں اس حالت میں دیکھ کر کہا‘‘ بابے کو آگ نہیں لگتی’’۔ابا جی کہا کرتے تھے کہ باباجی نے جلالی نظر اس پر ڈالی وہ عورت ابھی گھر پہنچی ہی تھی کہ اس کے گھر کو آگ لگ گئی۔

            یہ رنگِ جلالی ابا جی تک پہنچتے پہنچتے اگرچہ رنگ بدل چکا تھا لیکن ماند نہ پڑا تھا۔ اور اب یوں تھا کہ گھر سے باہر تو ابا جی حلقہ یاراں میں ریشم کی طرح نرم لیکن گھر میں داخل ہوتے ہی وہ گھر کو رزم حق وباطل سمجھتے ہوئے فولاد بن جاتے تھے ۔ گھر میں ان کی آمد ہوتے ہی بیوی سمیت تمام بچے سہم جاتے اور کسی کونے کھدرے میں چھپنے کی کوشش کرتے لیکن ایک شخصیت اس سے مستثنی تھی اور وہ تھا ان کا ‘اکلوتا پوتا’ جو کہ پانچ سات اور پوتے ہونے کے بعد بھی اکلوتا ہی رہا۔ جس طرح ابا جی نے اپنے اکلوتے پن کے ناز ہمیشہ اٹھوائے اسی طرح اس اکلوتے پوتے کے ناز خود اٹھائے۔ شفقت پدری کے سارے پھول انہو ں نے دل کھول کر اس پر نچھاورکیے تھے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنے بچوں کو بالکل پیار نہیں کرتے تھے ۔ وہ اپنے بچوں سے بھی خوب پیار کرتے تھے لیکن مہینے دو مہینے بعد، یعنی کہ گدگدی کر کے بچوں کو ہنسا دیتے تھے۔

            مجھے چونکہ ان کے اکلوتے پوتے سے تین سال بڑا ہونے کا شرف حاصل تھا اس لیے میری ڈیوٹی تھی کہ ابا جی کے پوتے کو سکول سے بحفاظت گھر تک لاؤں اور کبھی بچپنے میں اس فرض سے تسامح ہو جاتا تو ایسی خوبصورت ڈانٹ پڑتی کہ ‘بیچاری نانی’ یاد آجاتی مگر ہمیں‘نانی’ کو بھی یاد کرنے کی آزادی نہ تھی کیونکہ وہ قادیانی تھیں ۔ قادیانیوں کے بار ے میں ابا جی کے عقائدبہت ٹھوس تھے ۔ وہ ان سے میل جول ، لین دین اور کھانے پینے کے سخت خلاف تھے مگر بہرحال انسان تھے کبھی کبھار ان کے تحائف قبول کر لیتے ، بچیوں کے جہیز میں ان سے مدد لے لیتے اور اپنے ہیڈ کلرک کی دعوت بھی ضرور کھا لیتے کہ نوکری کے لیے اس سے بنا کر رکھنا ضروری تھا(ابا جی سرکاری ہسپتال میں ڈسپنسر تھے) مگر اس کے باوجود ان کا عقیدہ بہت مضبوط تھا۔ بہر حال، ابا جی کے اس پوتے نے بھی حق محبت خوب نبھایا اور مرض الموت میں جس طرح ان کی خدمت کی وہ واقعی کوئی اور نہیں کر سکتا تھا۔

            اور تو بہت سارے فکروں سے ابا جی بے نیاز تھے لیکن ایمان کی سلامتی کی فکر ہمیشہ انہیں لاحق رہتی تھی اس کے لیے وہ نماز پنجگانہ ، تہجد اور ذکر اذکار کو کافی سمجھتے تھے او ران کا خاص اہتمام کرتے تھے ۔ رمضان میں یہ رنگ اور بھی گہرا ہو جاتا تھا۔ اپنی پیرانہ سالی کے باوجود وہ سخت گرمی میں بھی ماہ صیام کے پورے روزے رکھتے اور پورا ماہ مسجد میں اعتکاف کرتے البتہ کبھی کبھی گھر والوں سے ناراضی بھی انہیں مسجد میں نفلی اعتکاف کا موقع فراہم کر دیتی تھی۔

            ابا جی نے مصمم ارادہ کیا تھا کہ وہ مجھے حافظ قرآن بنائیں گے چنانچہ انہوں نے یہ کوشش میرے بچپن سے ہی شروع کر دی تھی ۔ پانچ سال کی عمر ہی میں وہ مجھے اذان فجر سے قبل بیدار کر دیتے اور اپنے ساتھ لے کر مسجد کو چل دیتے۔ نماز فجرکے بعدڈیڑھ گھنٹہ پڑھائی ہوتی ۔ پھر گھر واپسی، پھر ناشتہ اور پھر سکول۔ ظہر کے بعد عصر تک پھر حفظ ۔ عصر سے مغرب تک کھیلنے کی چھٹی تھی۔ اس دوران میں البتہ ابا جی کی طرف سے گھر سے نکلنے پر پابندی عائد تھی، مبادا، بچوں کے اخلاق خراب ہو جائیں ۔ مسجد کے مولوی صاحب بھی ابا جی کے گہرے دوست تھے ۔ وہ محرم کے ایام میں صبح سے شام تک ہمیں مدرسے میں نظر بند رکھنے کا خاص اہتمام کیا کرتے تھے تاکہ تعزیہ دیکھنے سے ہمارے عقائد خراب نہ ہو جائیں ۔                                    پانچویں جماعت تک ابا جی کے زیر سایہ سلسلہ تعلیم جاری رہا اور اس عرصہ میں، میں نے پورے پانچ سپارے حفظ کر لیے تھے ۔ 1970 کی گرمیوں کی چھٹیوں میں نجانے اباجی کو کیا سوجھی کہ مجھے امی جان کے ہمراہ بڑے بھائی کے ساتھ رخصت کر دیا۔ شاید اس لیے کہ ان کا قصبہ میری تعلیم کے قابل نہ رہا تھا یا شاید اعلی تعلیم کے لیے میرا کسی بڑے شہر جانا ضروری تھا ۔ سنا ہے کہ یہ تجویز حج کے فوراً بعد ابا جی کے ذہن میں آگئی تھی جس پر عمل انہوں نے دس سال بعد کیا ۔ ابا جی کی یہ رخصت مجھے وقت سے بہت پہلے بوڑھا کر گئی تھی۔ ا یف ایس سی میں میرے کیمسٹری کے استاد کہا کرتے تھے کہ تمہارے چہرے پر موت کی زردی چھائی رہتی ہے اور آنکھوں میں گہری ویرانی ۔ میں انہیں سوائے اس کے کیا کہہ سکتا تھا:

میری آنکھوں کو مت دیکھو
ان کی اوٹ میں شام غریباں


 ان کی آڑ میں دشت ازل ہے
میرے چہرے کو مت دیکھو


اس میں کوئی وعدہ فردا
 اُس میں کوئی آج نہ کل ہے

            1962 میں وہ حج کو تشریف لے گئے تھے ۔ اس وقت سے لے کر وقت آخر تک ہمیشہ ارض پاک کو یاد کیا کرتے تھے ۔ کثرت سے درود شریف پڑھا کرتے ، درود پڑھتے ہوئے وہ سیدنا و مولانا کے الفاظ کا خاص اہتمام فرماتے تھے اور کبھی کبھی حج کے زمانے کا یہ واقعہ بھی سنایا کرتے تھے کہ میں حرم پاک میں بیٹھا درود شریف پڑھ رہا تھا کہ ایک عرب آیا اس نے کہا حاجی ! مولانا نہ پڑھو کیونکہ مولا تو ایک ہی ہے ۔ ابا جی کہا کرتے تھے کہ عربوں کا اپنا توحیدی انداز ہے اور ہمارا محبت رسولﷺ کا اپنا رنگ ۔

             ریٹائرمنٹ کے بعد اللہ تعالی نے اباجی کو دو خوشخبریاں عطا کی تھیں ۔ ایک حج اور دوسری میری پیدائش۔ ایک دفعہ کہنے لگے کہ فلاں شخص کے 65 سال کی عمر میں اولاد ہوئی تو میں نے بے ساختہ کہا جب میں پیدا ہوا تھا تو اس وقت میرے والد کی عمر بھی 60 سال تھی ۔ یہ پہلا اور آخری موقع تھا کہ جب میں نے ابا جی کو شرماتے ہوئے دیکھا تھا۔

             ان کی رائے ان کے نزدیک ہمیشہ صحیح ہوتی تھی اور اپنے فیصلے وہ خود ہی کرنے کے قائل تھے ۔ شاید اسی وجہ سے دادا جان کی خواہش ان کے فیصلے پر قربان ہوئی اور شمس الدین ، خلیل احمد شاہ بن گیا اور نیاز بی بی صفیہ میں بدل گئی ۔دل و جان سے حنفی دیوبندی مسلک کے قائل تھے اور باقی تمام مسالک کو بڑے خلوص سے گمراہ سمجھتے تھے ۔

            پانچویں جماعت کے بعد گریجوایشن تک زندگی بھائی جان کے زیر سایہ چل پڑی تھی ۔ اس عرصہ میں شاذ ہی ابا جی کی زیارت ہوئی تھی اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انہیں ابا جی کہتے ہوئے جھجک سی محسوس ہوتی تھی اور بھائی جان کو ابا جی نہ کہتے ہوئے ۔

            ابا جی کی جوانی بھی کیا بھرپور جوانی تھی ۔ لمبا قد ، مضبوط اور سڈول جسم ، گھنی داڑھی ، گرجدار آواز اور سر پررومی ٹوپی۔ یہ ان کا خاص نشان تھا ۔ اس لیے ایک کونسلر کو جب الیکشن میں رومی ٹوپی کا نشان الاٹ ہوا تو یہ ٹوپی حاصل کرنے کے لیے اسے اباجی کے پاس آنا پڑا تھا۔                                       

             ۱۹۸۲ میں ، جب میں مستقل لاہور شفٹ ہو گیا، تو پھر ابا جی سے طویل ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا مگر اس اثنا میں ابا جی بہت بوڑھے ہو چکے تھے ۔ جوان کمر خم کھا چکی تھی، ہاتھوں میں رعشے کے ساتھ عصا بھی آگیا تھا ،چہرے پر جھریاں پڑ گئی تھیں، آنکھوں کی بینائی کو موتیا لاحق ہو گیا تھا اور ٹانگیں سوکھ گئی تھیں ۔ ایک پاؤں تو ویسے ہی جامد ہو گیا تھا لیکن اس کے باوجود ان کا عزم جواں ،اور ہمت بلند تھی ۔ تہجد اب بھی باقاعدگی کے ساتھ ادا کرتے تھے اور ذکر کی ضربیں، اب بھی ویسے ہی بآواز بلند قلب پہ چوٹ لگاتی تھیں۔

            لاہور آنے کے بعد وہ باقاعدگی سے میرے ہر اس خط کا جواب دیا کرتے تھے جس کے ساتھ میں انہیں رقم ارسال کیا کرتا تھا واپسی ڈاک وہ یہ لکھنا نہ بھولتے کہ آپ کی بیوی کو سلام ۔ اس پر کبھی کبھی بیگم صاحبہ جھنجلا جاتیں اور کہتیں‘‘ میں صرف آپ کی بیوی ہوں ان کی کچھ نہیں لگتی’’ مگر ان کی آخری بیماری کے زمانے میں احساس ہوا کہ میری بیوی ان کی بھی کچھ لگتی تھی کیونکہ وہ اس وقت میری بیوی کو نہیں بلکہ اپنی بہو کو نام لے کر یاد کرتے تھے ۔ ویسے میرا خیال ہے کہ انہیں شروع ہی سے میری بیگم سے پیار ہو گیا تھا کیونکہ ولیمے کے دن انہوں نے اس کے ساتھ بیٹھ کر فوٹو بھی اتروا لی تھی حالانکہ ان کے خیال میں فوٹو بنوانا گنا ہ تھا۔

             لاہور میں میرے گھر دو بار آئے تھے ، ایک بار اس وقت جب کہ گھر کچا تھا اور میرا بڑا بیٹا، چھوٹا تھا۔ وہ مٹی کی مٹھیاں بھر کر ان کے بستر پر ڈال دیتا اور وہ اس کے گلے میں اپنی کھونٹی حمائل کرکے اسے بلاتے تو جواباً وہ انہیں ‘‘سوٹی والا بابا’’ کہا کرتا ۔ اس دوران میں وہ کبھی کبھی رائے ونڈ جانے کی فرمائش بھی کیاکرتے تھے حالانکہ ان کے خیا ل میں رائے ونڈ والوں میں بھی تھوڑی سی گمراہی موجود تھی۔ دوسری بار اس وقت میرے گھر آئے تھے جب گھرپکا ّتھا اورمیں نے ان پر اپنی پکی محبت کا حق جتا دیا تھا جس پر وہ رو پڑے تھے ، کہنے لگے کہ‘‘ بیٹا میرے پاس اب رہ ہی کیا گیا ہے ، اب میں تمہیں کیا دے سکتا ہوں ’’۔ یہ وہ لمحہ تھا جب مجھے ان سے محبت ہو گئی تھی ۔

            اور ہاں تیسری بارمیں نے انہیں لکھا تھا کہ وہ مستقل طور پر لاہور آجائیں لیکن یہ بات غالباً انہیں پسند نہ آئی اور جلد ہی وہ اپنے مستقل گھر کو سدھار گئے ۔

            وہ ایسے کہ رمضان کی چھ تاریخ تھی حسب معمول وہ مسجد میں معتکف تھے کہ وہیں ان پر فالج کا حملہ ہوا ۔ وضو گاہ کے قریب گر پڑے ، اٹھنے کی ہمت نہ رہی ، پاؤں اور گھٹنوں پر چوٹ آئی ۔ مسجد کے قاری صاحب نے اٹھا کر گھر پہنچایا اور پھر پورا رمضان اور عید کے بعد چند ایام بھی اسی حالت میں گزر گئے ۔ پہلے پہل تو زبان بھی بند ہو گئی تھی۔ بعد ازاں زبان نے کام شروع کر دیا اور ایک ہاتھ نے بھی حرکت شروع کر دی جس کے اشارے سے وہ آخردم تک نماز پڑھ لیتے تھے ۔ ذہن بھی کبھی ساتھ نہ دیتا تھا لیکن اذان کی آواز آتے ہی نماز ضرور ادا کرتے ۔ ذہن زیادہ ہی ساتھ نہ دیتا تو سارا دن نماز ہی پڑھتے رہتے تھے ۔ یہ دیکھ کر مجھے مفتی زین العابدین کا کہنا یاد آگیا کہ ‘‘جو دین میں پاگل ہو گا وہ پاگل پن میں بھی دین ہی کی باتیں کرے گا،جس لائن میں محنت کی ہو گی دم واپسیں وہی لائن یاد آئے گی’’ ۔

             ابا جی نے ساری عمر، بلاشبہ، نمازوں میں فنا کی تھی اس لیے وقت آخر انہیں نمازوں کے سوا کچھ یاد نہ آتا تھا۔ یاد داشت تیز ہوجاتی تو دور دور کے رشتہ داروں کے حال احوال بھی پوچھتے ۔ ایک ایک کو بلا کر ملتے۔ انہی ایام میں جب میں عیادت کے لیے والدہ صاحبہ اور برادر نسبتی کے ساتھ حاضر ہوا تو فرمائش کر کے بھائی سے نعت سنی اور پھر درودشریف سننے کی فرمائش کی اور درودشریف میں سیدنا ومولانا پڑھنے کی باربار تاکید کی۔ رات کو طبیعت قدرے سنبھل گئی تو ہم نے اٹھا کر بٹھا دیا۔کافی دیر باتیں کرتے رہے جو کہ بمشکل سمجھ آرہی تھیں ۔ خصوصاً تصوف کے بارے میں کافی باتیں کیں ۔ مجھے کہنے لگے کبھی چودہویں کا چاند دیکھا ہے میں نے کہا جی ہاں، تو کہنے لگے کہ ذکر کی محنت کرو گے تو یہ دل ایسے ہی چمکے گا جیسے چودہویں کا چاند اور حسب عادت رابعہ بصری ؒ کا واقعہ بھی دہرایا کہ جب انہیں قبر میں رکھا گیا تو فرشتے نے پوچھا کہ تمہارا رب کون ہے ؟ کہنے لگیں کہ میں تو کہہ دوں گی میرا رب اللہ ہے اگر وہ نہ مانا تو پھر کیا ہو گا؟جاؤ پہلے اس سے پوچھ کے آؤ۔ جب صبح میں لاہور واپس آنے لگا تو کہنے لگے کہ جلدی واپس آنااور چند یوم کی چھٹی بھی لانا اور ٹائم پیس الارم والا بھی لے کر آناکیونکہ یہ لوگ مجھے سحری کے وقت جگاتے نہیں جب کہ میں نے روزہ رکھنا ہوتا ہے۔

            اس بیماری اور عالم بے خبری میں بھی یہ یاد تھا کہ انہوں نے چھ سیپارے رمضان میں پڑھے تھے اس لیے اپنے دل میں اس کا حساب رکھتے اور اس سے اگلا سیپارہ سننے کی فرمائش کرتے ۔ عید کے بعد میں بیگم اور بچوں کے ہمراہ حاضر ہوا تو بطور خاص عینک منگوائی ، اور اسے لگا کر میرے تیسرے بیٹے کو غور سے دیکھا جو کہ اس وقت چار ماہ کا تھا اور پھر زندگی میں پہلی بار دس روپے عیدی دی۔سب بچوں کو پیار کیااور بیگم کو بھی ۔ واپسی پر پھر رو پڑے۔ انہی ایام میں سب کو بلا کر کہتے کہ مجھے معاف کر دو ۔      سوچتا ہوں اللہ پاک نے انہیں کیسی عظیم مہلت عطا فرمائی تھی سب سے بخش بخشوا کر کیسی سہولت کے ساتھ 8 مئی کی شب ساڑھے نو بجے مسکراتے ہوئے اپنے گھر سدھار گئے۔ جب سے بیمار ہوئے تھے اکثر کہتے تھے کہ میں نے گھر جانا ہے ۔ سب کہتے کہ ابا جی آپ اپنے ہی گھر میں تو ہیں تو پھر بھی نہ مانتے ۔ میں نے ایک دن بڑا سمجھایا کہ ابا جی آپ اپنے گھر ہی ہیں پھر بھی نہ مانے۔ میں نے کہا ، آخر اپنا گھر کون سا ہے ،کہنے لگے جہاں اللہ رہتا ہے ۔ چنانچہ جلد ہی وہ اس گھرکو چلے گئے۔

            ابا جی اپنے والد کی تنہا نرینہ اولاد تھے ۔9 مئی 1990 کی سہ پہر جب میں اپنے ہاتھوں انہیں سپرد خاک کر رہا تھا تو معاً ًمجھے احساس ہوا کہ ابا جی‘ تنہا’ پیدا ہوئے ، سفر حیات میں بھی ‘تنہا’ ہی رہے اور سفر آخرت تو ‘تنہا’ہی طے کرنا تھا، سو کر لیا۔ اور جب دفن کے بعدمیں واپس ہو رہا تھا تو میں نے محسو س کیا کہ ابا جی سے میری وہ محبت جو چند ماہ پہلے شروع ہوئی تھی ،اب جوان ہو چکی تھی۔

            آج ابا جی کے 85 برسوں پر محیط اس سفرِ حیات میں ان کے ساتھ اپنی شعوری سنگت کا حساب لگاتا ہوں تو چند ماہ سے زائد نہیں بنتی اور ان چند ماہ سے احساس محبت کشید کرتا ہوں تو چند لمحات سے زیادہ نہیں بنتا اور وہ بھی ،وہ لمحے، جب ان کا جسم بو ڑھا ہو چکا تھا، یا وہ کہ جب ان کا ذہن، جسم کا ساتھ دینے سے انکار کر گیاتھا اور جسم فالج سے لاچار ہو گیاتھا اور یاپھر وہ جب کہ ان کی روح بھی جسد خاکی کا ساتھ چھوڑ چکی تھی۔۔ مگر لمحات محبت کا حساب بھلا کون کیا کرتا ہے کہ بسا اوقات یہ چند لمحات ہی زندگی کا حاصل ہوا کرتے ہیں۔

٭٭٭