دین اخلاص اور خیرخواہی کا نام ہے

مصنف : مجاہد شبیر احمد فلاحی قاسمی

سلسلہ : دین و دانش

شمارہ : مئی 2009

            تمیم الداریؓ ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: الدین النصیحۃ. قلنا لمن قال: للّٰہ ولکتابہ، ولرسولہ، ولأئمۃ المسلمین وعامتہم. (مسلم کتاب الایمان، باب بیان ان الدین النصیحۃ: ۹۵)

            ‘‘حضرت تمیم داریؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دین خیر خواہی کا نام ہے۔ ہم نے پوچھا: کس کے لیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، مسلمانوں کے ائمہ کے لیے اور عام مسلمانوں کے لیے۔’’

            عربی زبان میں ‘النصیحۃ’ اخلاص کو کہتے ہیں۔ لغت میں ‘نصحاً’ کے معنی خالص ہوناہے۔

            یہ حدیث عظیم الشان مرتبہ کی حامل ہے۔ علما نے لکھا ہے کہ یہ حدیث ان چار میں سے ایک ہے جو اسلام کے تمام امور کی جامع ہیں اور جن پر اسلام کا دار و مدار ہے۔ (مسلم شرح النووی ۳۷، جلد اول، جز: ۳)

            اس حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دین اخلاص اور خیرخواہی کا نام ہے۔ گویا کہ اگر انسانی مزاج میں اخلاص نہ ہو بلکہ اس کی جگہ پر کھوٹ، بغض، حسد، کینہ، ہٹ دھرمی اور ذاتی مفادات ہوں تو اس کو دین قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس لیے کہ دین اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے۔ اور اسلام سِلم سے بنا ہے جس کے معنی امن و آشتی کے ہیں اور جہاں پر خلوص اور خیر خواہی کا جذبہ ہو وہاں امن وآشتی کا ہونا لازمی ہے۔

            صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث سنی تو انہوں نے پوچھا اے اللہ کے رسولؐ! یہ خلوص اور خیرخواہی کا جذبہ ہم اپنے دلوں کے اندر کس کے لیے پیدا کریں؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ترتیب کے ساتھ پانچ چیزوں کا تذکرہ کیا۔

۱۔ اللہ کے لیے

            اللہ کے لیے خلوص کا مطلب یہ ہے کہ ہم اللہ کو ایک جانیں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ اسی طرح اللہ کی صفات کو اسی کے لیے مختص کریں جیسے خالق، مالک، رزاق، حافظ، رحمان، رحیم، حیّ، قیوم وغیرہ صفات اسی کے شایان شان ہیں۔

            اس کے علاوہ اللہ کو ہی قانون ساز تسلیم کرنا ، اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والی کی ملامت سے نہ ڈرنا یہ سب اسی اخلاص کے مظاہر ہیں۔ اسی بات کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چھوٹے سے فقرے میں یوں بیان کیا ہے: رضیت باللّٰہ تعالیٰ رباً. (مسلم کتاب الایمان)

            ‘‘میں اللہ کے رب ہونے پر راضی ہوا۔’’

            یعنی اس اقرار کے بعد اگر پوری دنیا میری مخالف ہو جائے تب بھی میں اس عہد سے نہ پھروں گا۔ اللہ کو رب تسلیم کرنے کامطلب تمام غیر اللہ کا انکار ہے، چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہوں۔ اور اللہ کو رب تسلیم کرنے کے بعد جو کیفیت ایک بندے کی ہوتی ہے، اس کا بیان اس آیت میں ہوا ہے: قُلْ إِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن. (الانعام: ۱۶۲)

            ‘‘بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔’’

            وہ اگر کسی سے جڑتا ہے تو اللہ کے لیے، محبت کرتا ہے تو اللہ کے لیے، نفرت کرتا ہے تو اللہ کے لیے، کچھ دیتا ہے تو اللہ کی خوشنودی کی خاطر، منع کرتا ہے تو طلب رضا کے لیے: من احب للّٰہ وابغض للّٰہ واعطی للّٰہ ومنع للّٰہ فقد استکمل الایمان. (ابو داؤد، کتاب السنۃ، باب الدلیل علی زیادۃ الایمان ونقصانہ: ۴۶۸۱)

            ‘‘جس نے اللہ کے لیے محبت کی، اللہ ہی کی خاطر کسی سے نفرت کی، اللہ ہی کی رضا کے لیے دیا اور اللہ کی خوشنودی کے لیے منع کیا تو اس کا ایمان مکمل ہو گیا۔’’

            گویا اس کی زندگی کا لمحہ لمحہ اللہ کی بندگی میں گزرتا ہے۔ ان تمام معاملات میں وہ اپنی خواہش کا پیرو نہیں ہوتا، بلکہ اس کے رب نے جس چیز کے کرنے کا حکم دیا ہے، اس پر بغیر کسی لیت و لعل کے عمل کرتا ہے اور اس کے رب نے جس سے بھی روکا ہے اس سے رک جاتا ہے۔ إِذْ قَالَ لَہُ رَبُّہُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْن.(البقرہ: ۱۳۱)

            ‘‘جب اس کے رب نے اس سے کہا: مسلم ہو جا، تو اس نے فوراً کہا میں مالک کائنات کا مسلم ہو گیا۔’’

            اگر کسی کے اندر واقعی یہی کیفیت پیدا ہوتی ہے تو یہی دراصل اللہ کے لیے نصح اور خیر خواہی ہے۔

۲۔ اللہ کی کتاب کے ساتھ خیر خواہی

            اللہ کی کتاب کے ساتھ خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ سب سے پہلے اس بات پر ایمان لایا جائے کہ یہ کتاب اللہ کی نازل کردہ ہے۔ جس کو اللہ نے اپنے برگزیدہ فرشتے کے ذریعے اپنے پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا۔

            اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ‘لا ریب فیہ’۔ اگر کوئی چیز انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل ہوئی تو وہ یہی کتاب ہے: ہُدیً للناس۔ اس کے علاوہ اس کتاب کے تمام احکام کو بے چون و چرا تسلیم کیا جائے اور ان میں تھوڑی سی بھی تبدیلی کو گوارا نہ کیا جائے۔ عملی طور پر اللہ کی کتاب کے ساتھ خیر خواہی یہ ہے کہ اس کی تلاوت اس طرح کی جائے جیسا کہ اس کا حق ہے: الَّذِیْنَ آتَیْنَاہُمُ الْکِتَابَ یَتْلُونَہُ حَقَّ تِلاَوَتِہ.(البقرہ: ۱۲۱)

            ‘‘جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی، وہ اسے اُس طرح پڑھتے ہیں جیسا کہ پڑھنے کا حق ہے۔’’

            اس کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی جائے، اس کو یاد کیا جائے، اس کی حقیقی دعوت کو عام کیا جائے، اس کے احکام تمام انسانوں کوسنائے جائیں اور ان کو اپنی عملی زندگی میں اپنایا جائے۔ اگر صرف کتاب اللہ کی تلاوت کی جائے اور باقی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوا جائے یا اس کو چھوڑ کر انسانوں کی لکھی ہوئی کتابوں کے ساتھ اتنی عقیدت برتی جائے کہ کلام اللہ کی عقیدت ماند پڑ جائے تو یہ قرآن کے ساتھ خیر خواہی نہیں بلکہ زیادتی ہے۔ انہی لوگوں کے بارے میں قیامت میں کہا جائے گا: وَقَالَ الرَّسُولُ یَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِیْ اتَّخَذُوا ہَذَا الْقُرْآنَ مَہْجُورًا. (الفرقان: ۳۰)

            ‘‘اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب! میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو نشانۂ تضحیک بنا لیا تھا۔

۳۔ اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ خیر خواہی

            اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا بندہ اوراس کا رسول تسلیم کیا جائے۔ آپؐ کی تمام تعلیمات پر صدقِ دل سے ایمان لایا جائے، آپؐ کے اوامر اور نواہی کی اطاعت کی جائے اور آپؐ کے لائے ہوئے دین کی حفاظت کے لیے ہمیشہ تیار رہا جائے۔ ان لوگوں کو دشمن سمجھا جائے جو اللہ کے رسولؐ کے ساتھ دشمنی کرتے ہوں اور ان لوگوں کے ساتھ خوش گوار تعلقات رکھے جائیں جو اللہ کے رسولؐ کے ساتھ اپنی محبتوں اور عقیدتوں کو جوڑتے ہوں۔ اللہ کے رسولؐ کی عزت و توقیر کی جائے، آپ کی سنتوں کو زندہ کیا جائے، آپؐ کی لائی ہوئی شریعت کی طرف دعوت دی جائے اور اس کی اشاعت کی جائے۔ آپؐ کے خلاف لگائے جانے والے الزامات و اعتراضات کا منہ توڑ جواب دیا جائے۔ دراصل یہ تما م چیزیں آپؐ کی خیر خواہی کے اجزا ہیں۔ اسی طرح آپؐ کے علوم کی نشر و اشاعت کرنا اور ان میں غور و فکر کرنا، لوگوں کو اس کی طرف بلانا اور ان کو سیکھنا اور سکھانا اور احادیث کے دروس کے وقت ادب و اکرام کا مظاہرہ کرنا اور خاموشی کے ساتھ سننا بھی اس میں شامل ہیں۔ آپؐ کے اہلِ بیت اور صحابہؓ کی محبت اپنے دلوں میں پیدا کرنا اور جو شخص آپؐ کی لائی ہوئی شریعت میں بدعت کا مرتکب ہو رہا ہو اس سے لاتعلقی کا اظہار کرنا بھی اسی کے مظاہر ہیں۔ اس کے علاوہ آپؐ کی محبت کو تمام محبتوں پر غالب رکھنا کمالِ ایمان اور کمالِ اخلاص کی دلیل ہے۔ آپؐ نے فرمایا: لا یؤمن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین. (بخاری، کتب الایمان، باب حب الرسول من الایمان: ۱۵)

            ‘‘تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے، اس کی اولاد اور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔’’

            اور مزید اپنی تمام خواہشات کو اللہ کے رسول ؐ کی لائی ہوئی شریعت کے تابع کرنا ایمان کو مزید پختگی بخشتا ہے: لا یؤمن احدکم حتی یکون ہواہ تبعاً لما جئت بہ.

            ‘‘تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی خواہشات میری لائی ہوئی تعلیمات کے تابع نہ ہو جائیں۔’’

۴۔ائمۂ مسلمین کے ساتھ خیر خواہی

            ائمہ سے مراد مسلمانوں کے خلفا اور ان کے امرا ہیں۔ اور ان کے ساتھ خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ حق کے معاملے میں ان کی اطاعت کی جائے اور ان کی معاونت کی جائے۔ اگر ان سے کبھی صحیح راستے سے انحراف ہو رہا ہو تو بہت ہی نرمی اور محبت کے ساتھ عوام میں اس کو مشتہر کیے بغیر ان کو اس کی طرف متوجہ کیا جائے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من اراد ان ینصح بسلطان بامر فلا یبدلہ علانیۃ، ولکن لیاخذ بیدہ، فیخلو بہ، فان قبل منہ فذاک والا کان قدادی الذی علیہ لہ. (مسند احمد: ۳\ ۴۰۴، رقم ۱۵۴۰۸)

            ‘‘تم میں سے جو شخص کسی حکمران کو کسی چیز کی نصیحت کرنا چاہے تو علانیہ اس کا اظہار نہ کرے، بلکہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے تنہائی میں نصیحت کرے۔ اگر اس نے نصیحت قبول کی تو بہتر ورنہ تم نے اپنی ذمہ داری ادا کر ہی دی۔’’

             کبھی ان کے خلاف بے جا بغاوت نہ کی جائے، بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی ان کی اطاعت پر ابھارا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں قرآن مقدس میں اطاعت اللہ اور اطاعتِ رسول کا تذکرہ کیا ہے وہیں اولو الامر کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ مگر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت غیر مشروط طریقے پر مطلوب ہے اور اولو الامر کی اطاعت مشروط ہے۔ یعنی جب تک یہ لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکام کے تحت اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہوں، تب تک ان کی اطاعت کی جائے۔

            بعض لوگوں نے ائمۃ المسلمین میں گروہِ علما کو بھی شامل کیا ہے۔ ان کے ساتھ خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ دین کے بارے میں ان کے اقوال کو قبول کیا جائے اور احکام میں ان کی تقلید کی جائے اور ساتھ ہی ان کے بارے میں حسن ِ ظن رکھا جائے۔

۵۔ عام مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی

            عام مسلمانوں سے خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ ان کے ساتھ بہتر سے بہتر سلوک کیا جائے، ان کو کسی قسم کی کوئی تکلیف پہنچانے سے گریز کیا جائے۔ جس طرح کے بھی حقوق ان سے متعلق ہوں ان کو فرض سمجھ کر ادا کر دیا جائے۔ مثلاً ہمسایہ ہو تو اس کے ساتھ کسی ظلم و جبر کا معاملہ نہ کیا جائے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

            اسی طرح ان پڑھ لوگوں کو تعلیم دی جائے ، کمزوروں کی مدد کی جائے، یتیموں اور مسکینوں کے مسائل میں دلچسپی لی جائے، اپنے قول و فعل سے ان کی مدد کی جائے اور ان کے عیوب کو چھپایا جائے۔ بڑوں سے عزت اور چھوٹوں سے شفقت کا معاملہ کیا جائے۔

            ان کے ساتھ بغض نہ رکھنا: لا تباغضوا، ان کے ساتھ حسد نہ رکھنا: لا تحاسدوا (بخاری : ۵۷) ، ان کو دھوکہ نہ دینا: من غشنا فلیس منا (مسلم: ۲۸۳)، ‘‘جس نے ہمیں دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے’’۔ اور ان کے لیے خیر میں وہی چیز پسند کرنا جو انسان خود کے لیے پسند کرتا ہو اور ان کے لیے شر کو ناپسند کرنا جس طرح اپنے لیے شر کو ناپسند کرتا ہو۔ ارشادِ نبویؐ ہے: لا یؤمن احدکم حتی یحب لاخیہ ما یحب لنفسہ. (بخاری: ۳۱)

            اسی طرح ان کے اموال، اعراض اورخون کو حرام سمجھنا اور اس کی حفاظت کرنا: فان دماء کم واموالکم واعراضکم بینکم حرام. (ترمذی: ۲۱۵۹)

            ‘‘کیونکہ تمہارا خون، تمہارے اموال، تمہاری عزتیں آپس میں (ایک دوسرے کے لیے) حرام ہیں۔’’

            اور ان کے خلاف اپنے غصے پر قابو رکھنا اور ان کی غلطیوں کو معاف کرنا اور ان کی کوتاہیوں سے درگزر کرنا: وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاس.(آل عمران: ۱۳۴)

            ‘‘اور غصے کو پی جانے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والے۔’’

            اور ان کی غیر موجودگی میں ان کے لیے دعائے خیر کرنا بھی اس میں شامل ہے:

            اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے آپسی کے حقوق کے بارے میں ارشاد فرمایا: حق المسلم علی المسلم ست، قیل: ما ہی یا رسول اللّٰہ؟ قال: اذا لقیتہ فسلم علیہ، واذا دعاک فاجبہ، واذا استنصحک فانصح لہ، واذا عطس فحمد اللّٰہ، واذا مرض فعدہ، واذا مات فاتبعہ. (مسند احمد: ۲\ ۳۷۲، رقم ۸۸۳۲)

            ‘‘مسلمان کے مسلمان پر چھ حقوق ہیں، پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول ؐ وہ کون سے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

            ۱۔ جب اس سے ملو تو اس کو سلام کرو۔

            ۲۔ جب وہ تمہیں بلائے (دعوت دے) تو اس کی دعوت پر لبیک کہو۔

            ۳۔ جب وہ تم سے مشورہ چاہے تو اسے مشورہ دو۔

            ۴۔ جب اس کو چھینک آئے تو وہ الحمد للہ کہے تو تم اس کے جواب میں یرحمک اللہ (اللہ تم پر رحم کرے) کہو۔

            ۵۔ جب وہ بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کرو۔

            ۶۔ جب اس کا انتقال ہو جائے تو اس کے جنازے میں شریک ہو۔’’

            یہ چھ حقوق ذکر کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صرف اتنے ہی حقوق ہم پر عائد ہوتے ہیں، بلکہ یہ چھ ایسے ہیں کہ ایک مسلمان کو اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، ان سے واسطہ پڑتا ہے۔ اس لیے جو شخص ان حقوق کے معاملے میں خیر خواہ ثابت ہو جائے، ان شاءاللہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ باقی تمام معاملات میں بھی نصح اور خیر خواہی اختیار کرے گا۔