پولیس ٹارچر اور انڈیا

مصنف : صلاح الدین

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : مئی 2009

            ہندستان میں پولیس حراست میں ایذائیں پہنچانا عام بات ہے۔بھارت اس وقت ایک عالمی طاقت کے روپ میں سر ابھارنے کی کوشش میں ہے اور معاشی ترقی میں بھی اس کے گن گائے جا رہے ہیں لیکن انسانی حقوق کے سلسلے میں اس کا ریکارڈ اچھا نہیں ہے اور ٹارچر یعنی پولیس حراست میں ایذا رسانی کے حوالے سے اس کا نام سب سے اوپر مانا جاتا ہے۔

            ٹارچر کے خلاف کام کرنے والے ایک ادارے ساؤتھ ایشین ہیومن رائٹس ڈاکومینٹشن کے ڈائریکٹر روی نائر کہتے ہیں کہ بھارتی سماج میں پولیس کی ایذارسانی کو برا نہیں مانا جاتا ہے۔'چاہے کوئی پاکٹ مار ہو یا بڑا مجرم تشدد عام بات ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 'ایک بار تشدد کا ایک معاملہ ہم ایک سابق وزیر اعظم کے پاس لے گئے تاکہ ان کی مدد لی جا سکے لیکن جب میں نے ان سے مدد کی بات کہی تو ان کا جواب تھا کہ پولیس کسڈی میں آؤ بھگت تو ہوتی نہیں اور نہ ہی پوجا کی جاتی ہے وہاں تو مجرموں کو ایذائیں ہی دی جاتی ہیں۔ ذرا سوچیے اگر ٹارچر کے متعلق کسی ملک کے وزیراعظم کا یہ تصور ہو تو پھر اس میں کمی آئیگی یا بڑھاوا ملیگا’۔

            انسانی حقوق کے کارکن گوتم نو لکھا پولیس حراست میں ٹارچر کی وجہ بتاتے ہیں کہ 'بھارت میں ٹارچر کوئی نئی بات نہیں لیکن پچھلے کچھ برسوں میں دہشت گردی کے نام پر اس میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ پہلے یہ سکھوں کے خلاف زیادہ ہوتا تھا اور پھر کشمیر میں جہاں کم سے کم ساٹھ ہزار افراد کو ٹارچر کا نشانہ بنایا گیا ہے اورآج کل دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کو خاص طور پر اور ماؤنوازوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے’۔

            بھارت میں دہشت گردی کے نام پر حالیہ برسوں میں پولیس اور سکیورٹی ایجنسیز نے سینکڑوں بے قصور مسلم نوجوانوں کر حراست میں لیا اور پھر تفتیش کے نام پر ان کے ساتھ جو سلوک ہوا اس پر کئی حلقوں کی طرف سے سخت نکتہ چینی ہوئی۔

            ریاست آندھر اپردیش کی حکومت نے خود یہ بات تسلیم کی ہے کہ پولیس نے ایسے بہت سے افراد پر تشدد کیا ہے۔ انہیں میں سے ایک شخص عبدالواجد اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں بتاتے ہیں کہ 'گوکل چاٹ اور لمبنی پارک میں دھماکہ کے دوسرے روز مجھے پولیس نے اس وقت پکڑا جب میں کام پر جا رہا تھا۔ مجھ پر برقعہ ڈال دیا اور پتہ نہیں کہاں لے گئے۔ میرے سارے کپڑے اتار دیے۔ شروع میں مجھے اتنا مارا کہ میری چیخ بھی نکلنی بند ہوگئی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ قبول کر لے کہ تونے ہی دھماکے کیے ہیں۔ پھر کہنے لگے کہ یہ ایسے نہیں مانے گا۔ اس کے بعد انہوں نے میرے نازک مقامات پر بجلی کے جھٹکے دیے اور یہ حال کر دیا کہ جھٹکوں کے گہرے نشان اب تک موجود ہیں۔ وہ مجھے الٹا لٹکا دیتے تھے اور آنکھوں اور کان کے پاس چنگاری مارتے تھے۔ مجھے پیشاب کی جگہ خون آ رہا تھا اور جب بہت تکلیف ہوئی تو میں نے انہیں بتایا کہ خون کر رہا ہوں تو پولیس نے مجھ سے کہا کہ یہ تو کچھ بھی نہیں آخر میں تمہیں پولیس مقابلے میں مار دیں گے۔ میں نے بڑی منت سماجت کی کہ میرے والد نہیں اور میں تنہا گھر میں کمانے والا ہوں لیکن کسی نے نہیں سنا اور آٹھ روز تک میرے ساتھ یہی سلوک ہوتا رہا’۔چند ماہ بعد پولیس نے عبدالواجد کو بے قصور بتاکر چھوڑ دیاتھا اور اب وہ پھر سے اپنی روزی روٹی کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں۔

            سپریم کورٹ کے وکیل کولن گونزلوز کے مطابق کوئی بھی شخص اگر سکیورٹی فورسز کے ہاتھ لگ گیا تو پھر وہ کوئی بھی ہو ان کی کسٹڈی میں وہ اذیتوں سے بچ نہیں سکتا۔'میں آپ کو بتاتا ہوں کہ منی پور میں ایک سیشن جج نے ایک ناگا لڑکے کو ضمانت دے دی تھی۔ اس علاقے کے بریگیڈئرنے اس جج کو اٹھایا اور اسے آسام رائفل کے کمپاؤنڈ لے جاکر اس کی شرمگاہ میں الیکٹرک شاکز دیے۔ تو اگر فوج سیشن جج کے ساتھ یہ سلوک کر سکتی ہے تو عام آدمی کے ساتھ تو وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں’۔

            سپریم کورٹ کی معروف وکیل ورندا گرور کہتی ہیں کہ حکومتی ادارے یہ سمجھتے ہیں کہ ملک میں جرائم بڑھ رہے ہیں اور پولیس کو اس پر قابو پانے کے لیے پوری چھوٹ ملنی چاہیے اس لیے ان کے اس رویے پر انگلی تک نہیں اٹھائی جاتی۔'ہمارے یہاں تفتیش اور پولیس کارروائی کا مطلب مار پٹائی ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ اس کے خلاف کچھ بھی نہیں ہوتا۔ امریکہ نے ابو غریب میں جو کچھ کیا اسے پوری دنیا جان گئی لیکن بھارت میں تو یہ ہر روز ہورہا ہے’۔

            روی نائر کے مطابق پولیس کا کام تفتیش ہوتا ہے لیکن اسے اس کے لیے تربیت نہیں دی جاتی اس لیے بھی پولیس ایسی حرکتیں کرتی ہیں۔' فورنسک تفتیش کے لیے پولیس کی تربیت کا انتظام نہیں ہے۔ انہیں یہ آتا ہے کہ کیسے وہ ایذائیں دیں تا کہ پتا ہی نہ چلنے پائے’۔

            بھارت میں انسانی حقوق کے کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق سال دوہزار چار، پانچ میں چودہ سو ترانوئے افراد ٹارچر کے سبب ہلاک ہوئے جن میں سے ایک سو چھتیس پولیس کسڈی میں اور تیرہ سو ستاون عدالتی تحویل میں مرے۔ یعنی ہر روز کم سے کم تین لوگ پولیس کی زیادتی کے سبب ہلاک ہوئے جبکہ نشانہ کتنے بنے اس کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے۔ لیکن اس بارے میں پولیس کے خلاف کارروائی برائے نام ہی ہوئی۔

            غیر سرکاری تنظیموں کے اعداد و شمار کے مطابق حالیہ برسوں میں پولیس تحویل میں ایذارسانی کے واقعات میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ سماجی کار کن گوتم نو لکھا کہتے ہیں۔'ایسا لگتا ہے کہ قومی سلامتی کے نام پر سکیورٹی ایجنسیز کو کچھ بھی کرنے کی چھوٹ حاصل ہے۔ اگر لوگ مر بھی جائیں تو کسی کو کوئی پرواہ نہیں، آپ عدالت، حکومت، پولیس اور انتظامیہ کو عرضیاں دیتے رہیے کچھ بھی نہیں ہوتا ہے’۔

            لیکن محکمہ پولیس ان تمام باتوں سے انکار کرتا ہے۔ دارالحکومت دلی میں پولیس کے ترجمان راجن بھگت کہتے ہیں کہ تھرڈ ڈگری کا استعمال تو ممکن ہی نہیں اور اگر کبھی کوئی معاملہ سامنے آتا بھی ہے تو اس کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔' کوئی بھی سینئر افسر اس کی حمایت نہیں کرتا اور ہمارے علم میں اگر ایسا کچھ آیا ہے تو اس کے خلاف کارروائی کی ہوئی ہے’۔

            ایذا رسانی کا عمل پولیس کے لاک اپ میں تو عام بات ہے لیکن بعض حساس علاقے جیسے کشمیر، آسام اور منی پور میں اس کا رواج کچھ زیادہ ہی ہے اور ماہرین کے مطابق پولیس اس میں بھی جانب داری سے کام لیتی ہے اور خاص برداریوں کو ہی نشانہ بنایاجاتا ہے۔

            سپریم کورٹ کے وکیل کولن گونزالوز کہتے ہیں۔'پولیس میں عام طور مسلمانوں کو دہشتگرد مانا جاتا ہے اور جب بھی کچھ ہو وہی پکڑے جاتے ہیں۔ اس کے خلاف کوئی آواز بھی نہیں اٹھاتا کیونکہ پھر پولیس اس کی فیملی کو نشانہ بناتی ہے’۔ چنانچہ دھماکہ چاہے مسجد میں ہو یا پھر مندر میں سب سے پہلے شبہ میں آتے ہیں مسلم نوجوان۔ مکہ مسجد میں دھماکے کے بعد بی ٹیک کے ایک طالب علم عمران کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ خود بتاتے ہیں۔'مسجد میں دھماکے کے چند روز بعد پولیس نے مجھے اٹھا لیا تب سے آج تک میں پولیس کا ستایا ہوا ہوں۔ ان کی حراست میں ہاں بولوں یا نہ بس وہ مارتے تھے۔ مجھے ایسی ایسی جگہ شاٹس دیے تھے کہ میں آپ کو بتا نہیں سکتا، میرے عضو تناسل میں پانی کی بوتل لٹکا دیتے تھے جس سے مجھے بہت تکلیف ہوتی تھی۔ رات رات بھر سونے نہیں دیتے تھے بس یوں سمجھو کہ مجھے بالکل پاگل کردیا تھا۔ وہ بولتے کہ مسجد میں بلاسٹ میں کیا تھا اور جب میں کہتا کہ نہیں تو بس مار پٹائی۔عمران کا کہناتھا کہ پولیس کے بقول انہوں نے دس برس پاکستان میں ٹریننگ لی تھی۔'میری عمر بائیس سال ہے اور ساری سکولنگ بھی حیدرآباد میں ہوئی تو پھر کیا میں پیدا ہوتے ہی پاکستان چلا گیا تھا’۔

            گوتم نو لکھا کے مطابق اس طرح کا امتیازی سلوک کئی بار عدالتوں کے رویے میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔مالیگاؤں دھماکے کے ملزمین جنہیں ہندو تنظیموں کی حمایت حاصل ہے وہ جب عدالت میں پیش ہوتے ہیں تو جج ان سے ٹارچر کے بارے صرف پوچھتا ہی نہیں بلکہ خود معائنہ بھی کرتا ہے لیکن اس کے برعکس ممبئی کے ایک کیس میں ایک ملزم نے جج سے استدعا کی کہ اسے ٹارچر کیا گیا ہے لیکن جج نے نظرانداز کر دیا’۔

            عالمی قوانین کے تحت پولیس حراست میں اذیتیں دینا جرم ہے اور دنیا بھر میں اس کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات کیے گئے ہیں۔ بھارت نے بھی سنہ انیس سو ستانوے میں ٹارچر اور غیر انسانی سلوک سے متعلق اقوام متحدہ کے ایک کنوینشن پر دستحط کیے تھے لیکن گیارہ برس گزرنے کے کے بعد بھی حکومت نے اس کی توثیق نہیں کی ہے اور اب اطلاعات کے مطابق وہ ایک ایسا قانون لانا چاہتی ہے جس کے تحت ٹارچر کرنے والے کو سزا دی جا سکے۔

            قانونی ماہرین کے مطابق ہندوستان میں پولیس اور سرکاری ملازمین کو دفعہ 197 کے تحت رعایات حاصل ہیں اس لیے صرف قانون بنانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ ورندہ گرور کے مطابق قانون کے ساتھ ساتھ دفعہ 197 کو ہٹانے کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ کے معروف وکیل کولن گونزالوز کے مطابق ٹارچر کو ختم کرنے کے لیے پولیس کو جواب دہ بنانا ضروری ہے تبھی تبدیلی ممکن ہے۔'دفعہ 197 ختم کی جائے۔ اور جو پولیس ملازم ٹارچر میں ملوث پایا جائے اسے فورا ًبرخاست کیا جائے اور مقدمہ چلاکر جیل بھیجا جائے۔ اگر ایسا قانون بنے تو تبدیلی ممکن ہے’۔

(بشکریہ ، بی بی سی اردو ، ڈاٹ کام)