میں نے کیوں اسلام قبول کیا؟

مصنف : معظم حسین (وکاس نند برہما چاری)

سلسلہ : من الظلمٰت الی النور

شمارہ : مئی 2009

            میرا آبائی وطن ہندستان میں مغربی بنگال کا ایک علاقہ مدنا پور ہے ۔ ۲۵ ، اکتوبر ۱۹۵۵میری تاریخ پیدایش ہے ۔ بردوان یونیورسٹی مغربی بنگال سے میں بنگالی ادب میں بی اے آنرز کیا اور بعدازاں سنسکرت ادب کی اعلی ترین ڈگری ‘‘کاپیا تیرتھ’’حاصل کی ۔

            قبول اسلام سے قبل میں وکاس نند برہما چاری ضلع پرولیا مغربی بنگال میں شیام سندر آشرم کے تحت ایک مٹھ میں تقریباً سات برس تک مہاراج کی حیثیت سے رہا۔ میرے والد بردوان اسٹیٹ کے راج پروہت تھے۔اس وقت ان کی مٹھ میں دو تا ڈھائی ہزار شاگرد رہتے تھے۔جو ان سے ویدک گرنتھوں اور ہندو دھرم کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔مٹھ دراصل ہندو راجا مہاراجاؤں کی طرف سے تحفے میں دی گئی زمینیں اور جاگیریں ہوتی ہیں جن کو آباد کرکے وہ اپنے دھرم کی اشاعت کا کام کرتے ہیں۔سنسکرت ادب میں ‘‘کاپیا تیرتھ’’ جیسی اعلی ڈگری حاصل کر کے میں ویدگ گرنتھوں کا پرچار کرتے ہوئے دھارمک خدمت انجام دے رہا تھالیکن کسے معلوم تھاکہ اللہ تعالی مجھے سنسکرت زبان ہی کے ذریعے اسلام و دین کی خدمت کی سعادت عطا کرنے والا ہے۔ جس کا اظہار ۱۹۹۲ میں قبول اسلام اور ہدایت کی شکل میں ہوا اور میں وکاس نند برہما چاری سے معظم حسین بن گیا۔

             ایک دھارمک میلے میں میں اپنے دھرم کی کتابیں مفت تقسیم کر رہا تھا کہ کسی مسلمان نے مجھ سے یہ سوال کیا ، بھائی صاحب، آپ کی گرنتھوں میں کیا مذہب اسلام اور اللہ کے آخری نبی محمدﷺ کا ذکر بھی آیا ہے۔کیا اس معاملے میں آپ ہماری کچھ مدد کر سکتے ہیں۔میں نے کہا اس قسم کا کوئی ذکر موجود نہیں۔ اس پر اس مسلمان نے مجھے کئی حوالے دیے ۔اسوقت میری انا کو ٹھیس پہنچی کہ میں سنسکرت کا ماہر ، ویدوں کا عالم ہوں لیکن ایک مسلمان مجھ سے زیادہ پراچین گرنتھ کے بارے میں جانتا ہے ۔ چوں کہ حق تعالی کی جانب سے ہدایت کا فیصلہ ہو چکا تھا اور حق کا بیج میرے دل میں گھر کر چکا تھا اس لیے میں نے حق کی تلاش کا سفر شروع کیا۔ہندو دھر م کی پرانی کتابوں کو بارباردیکھااو رمختلف جگہوں پر جا کر ویدوں کے متعلق مزید معلومات حاصل کیں۔ آخر میں اپنے والد کے استاد گرودیو پنچاتن کاپیا تیرتھ سے ملاقات کے لیے گیا او ران سے پوچھا کہ کیا ویدوں اور گرنتھوں میں مذہب اسلام اور محمد ﷺ کے بارے میں کچھ لکھا ہے ۔ انہوں نے چند اشارے اورنکات فوراً بتا دیے۔لیکن ساتھ ہی بری طرح ڈانٹ بھی دیا کہ تمہارا اس سے کیا کام؟پوجاپاٹ میں ان چیزوں کی ضرورت پیش نہیں آتی ۔ تم یہ سب کیوں جاننا چاہتے ہو۔

            مجھے حق کی تلاش تھی لہذا میں نے اپنا سفر جاری رکھا۔ میں مسیحی مشنر ی بھی گیابدھ مت کے مذہبی مقامات پر بھی حاضری دی لیکن کہیں سے اطمینان بحش جوابات نہ مل سکے اس جدوجہد میں ایک دن میری ملاقات جامعۃ العلوم کھڑک پور مغربی بنگال کے مفتی محمد عثمان سے ہو گئی ۔ میں نے ان سے اسلام اور پیغمبر اسلام کے بارے میں سوالات کیے تو انہوں نے مدرسے میں آنے کی دعوت دی۔وہاں انہوں نے اسلام کی بنیادی تعلیمات اور محمدﷺ کی سیرت کی تفصیلات بتائیں۔قرآن کریم کی مختلف آیا ت سن کر میرا سینہ اسلام کے لیے کھل گیاحتی کہ مزید جستجو کے بعد میں نے ۱۵ ، اگست ۱۹۹۲ کو مفتی عثمان صاحب ہی کے ذریعے کلمہ پڑ ھ کر مسلمان ہو گیا۔

            یہ ایک حقیقت ہے کہ جو بھی حق کا ساتھ دیتا ہے تو باطل اس کے مدمقابل آ کھڑا ہوتا ہے ۔ قبول اسلام کے بعد میرے لیے بھی مصائب کا پہاڑ کھڑا ہو گیا۔ اپنا منصب ، جاگیر اور سب کچھ چھوڑنا پڑا۔گھر سے بے گھر ہو نا پڑا۔ جسم کے کپڑوں کے ساتھ خالی ہاتھ ، خالی جیب چار ماہ تک در در کی ٹھوکریں کھائیں او رمختلف آزمایشوں سے گزرنا پڑا۔ آخر میں نے مفتی صاحب کے مدرسے میں ملازمت اختیار کر لی۔اس کے بعد لکھنؤ کا سفر ہوا جہاں چند اہل علم اور بزرگوں کی سر پرستی میں تقریباً چار سال تک دعوت و تبلیغ کے مشن میں کام کرنے کاموقع ملا۔ اس کے بعد ایک ہندی رسالے ‘‘وشو ایکتا سندیش ’’ میں ویدک گرنتھ پر مضامین لکھنے کاسلسلہ شروع کیااور ویدک گرنتھ کے حوالے سے توحید ، رسالت او رآخرت پر روشنی ڈالنی شروع کی ۔ اور ساتھ ہی یہ بتاناشروع کیا کہ شرک اور مورتی پوجا کی ابتدا کیسے ہوئی۔

            والد صاحب کی عمر ۹۶ برس اور والدہ کی عمر ۹۰ برس تھی۔ انتقال سے چند برس قبل ایک دن میں نے انہیں ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دی۔والد صاحب چونکہ خود پروہت تھے اس لیے میں نے ان کو ان ہی کی زبان میں سمجھانا شروع کیا۔ویدوں اور گرنتھوں کے مختلف حوالے دیے۔مرنے کے بعد کے حالات بیان کیے اور جنت دوزخ کی تفصیلات بیان کیں۔میری والدہ نے کہا کہ آپ دونوں باپ بیٹا آپس میں اسلام کے بارے میں گفتگو کرومیں تم دونو ں کی باتیں سن کر اپنا فیصلہ دوں گی۔ تفصیلی گفتگو کے بعد ماتا جی نے کہا کہ انہیں تو اسلا م کے بارے میں اطمینا ن ہو رہا ہے ۔بعدا زاں دونوں نے اسلام قبول کر لیا۔اس کے بعد وہ تقریباً دو برس زند ہ رہے ۔لیکن میرے دوسرے بھائیوں نے انہیں گھر ہی میں نظر بند رکھا۔ میں نے ان کی لاکھ منت سماجت کی کہ مجھے کوئی وراثت نہیں چاہیے بس مجھے ماں باپ دے دیجیے لیکن کسی نے میری ایک نہ مانی ۔ میرے والدین میرے بھائیوں کے پاس ہی فوت ہوئے اس پر بھی میں نے انہیں بہت سمجھایا کہ ان کی لاشوں کو میرے سپر د کردو تا کہ میں ان کی اسلامی طریقے سے تدفین کر سکوں مگر وہ بضدر ہے او ر انہیں نذر آتش کر دیا ۔ اور میں صبر کے گھونٹ پی کر ان کے حق میں مغفرت کی دعا کرتا رہا۔

            وید تقریباً دس تا گیارہ ہزار برس قبل کی کتاب ہے لیکن فی الوقت موجودہ شکل میں تقریباً ساڑھے تین ہزار قبل کی ہے اس سے پہلے اسے کتابی شکل نہیں دی گئی تھی ۔

            ہندو شریعت میں رشی منو کی لکھی ہوئی ایک کتاب ‘ منوسمرتی’ یا جیون ودھان گرنتھ ا یک معروف کتاب مانی جاتی ہے جس میں یہ لکھا ہے کہ ویدک اصولوں کے مطابق کس طرح زندگی گزاری جائے ۔ میں نے منوسمرتی کے بہت سے اصولوں اسلامی مسائل اور طور طریقوں کے بہت قریب پایا۔اس طرح پران میں جل پلاون منو کے عنوان سے نوح علیہ السلام کی کشتی کا پورا واقعہ موجود ہے ۔ ویدوں میں نبیوں کو منو کہا گیا ہے ۔ آدم علیہ السلام کو پہلا منو کہا گیا ہے اور آدم علیہ السلام کی ساتویں نسل میں کشتی کا پورا واقعہ تفصیل سے بیا ن کیا گیا ہے ۔کلکی پران میں نبیﷺ کے بارے میں تمام تفصیلات درج ہیں کہ کلکی اوتا کس طرح پیدا ہوں گے ۔ آپ کی والدہ کا نام سمتی یعنی آمنہ اور والد کا نام وشنویس یعنی مالک کی عبادت کرنے والا (عبداللہ)ہو گا اور انہیں جنگ میں مالک کی مدد ملے گی اور ان کے چار خلفا دنیا سے شروفساد کو مٹا دیں گے ۔

            اتھر وید کا ایک اپنشد ہے جسے اللہ اپنشد کہتے ہیں۔ اس میں دس منتر ہیں۔ جس میں توحید ، رسالت اور اسلامی عقائد کا کھلا اظہار ہے ۔اللہ سبحانہ وتعالی کی کبریائی بیان کرنے کے لیے ایک منتر ہے ۔‘‘ہند ہوتارو، مندرو، اندر ہوتاروم، ہاسوندرا، اللہ جیشننگھ، اللہ شر شننگھ پرم پررن، برہمان اللہ ہوالام’’ یہ اندر کی تعریف میں کہے گئے الفاظ ہیں کہ وہ ساری کائنات کا بادشاہ ہے اس کا نام ا للہ ہے وہ بہت بڑا ہے وہ سب کچھ کر سکتا ہے اس میں کوئی کمی نہیں ہے او روہی برہما (اللہ) ہے ۔

            مسلم بھائیوں سے میری درخواست ہے کہ وہ اسلام جیسی نعمت کی قدر کریں اور اسلا م پر مکمل عمل کریں او ردوسروں کو حق و صداقت کی دعوت دیں۔

            ہندووں کو میں یہ سندیس دینا چاہتا ہوں کہ اس سارے سنسار کا مالک و ایشور ایک ہی ہے بس اسی کو مانو، اور اسی کی مانو، اور جس کلکی اوتار کا آپ انتظار کر رہے ہیں وہ چودہ سو برس پہلے عرب کی دھرتی پر آچکے ہیں ان کا نام ہے محمد ﷺ۔وہی سمتی یعنی آمنہ کے لعل اور وشنویس یعنی عبداللہ کے بیٹے ہیں انہوں نے ہی کم وقت میں جزیرہ عرب و قرب و جوار میں کے علاقے میں ساری برائیاں مٹا دیں۔ ان ہی کو مالک کی طرف سے جنگ بدر میں کھلے طور پر مدد حاصل ہوئی اور ان ہی کے خلفا نے ایک بڑے حصے کو فتح کیا اور حق کا بول بالا کیا۔اس لیے اس کلکی اوتار کو مان لو اسی میں تمہاری دنیا او رآخرت کی بھلائی ہے۔