ملکی ترقی اور قومی زبان

مصنف : پروفیسر ریاض محبوب

سلسلہ : لسانیات

شمارہ : مئی 2009

            کیا واقعی کوئی خاص زبان ہی حصول علم کا ذریعہ ہوتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ زبان خیالات کے اظہار اور انھیں آگے منتقل کرنے کا ذریعہ ہے۔ علم الاشیاء (سائنسی و غیر سائنسی تمام علوم) کسی بھی طاقتور زبان میں پڑھائے، سکھائے اور آگے منتقل کیے جا سکتے ہیں۔ہر زبان تصورات و نظریات کے اظہار کے ساتھ اپنا مخصوص تہذیبی پس منظر اور اثرات بھی رکھتی ہے۔ دنیا کی بہت ساری زبانوں میں انگریزی بھی ایک قابل قدر زبان ہے جو دنیا کے ایک قابل لحاظ حصے میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ دنیا کی غالب قوت کی زبان ہونے کے ناتے گہرے تہذیبی اثرات بھی رکھتی ہے۔ اس کا عملی اظہار آج پاکستان کی نسل نو کی سوچ، فکر اور اطوار میں دیکھا جا سکتا ہے۔ گزشتہ پچپن سالہ قومی زندگی کا ایک ہلکا سا جائزہ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ پاکستانی قوم ابھی حقیقی آزادی سے ہمکنار نہیں ہو سکی اور کسی انسانی آبادی کا سب سے بڑا المیہ اس کا غلام بن کر رہنا ہے۔ کیا ہمارے افکار اور اطوار آزاد قوموں جیسے ہیں؟ طبقہ اشرافیہ جو گزشتہ نصف صدی سے اقتدار پر قابض ہے، نہ صرف اس غلامی پر مطمئن ہے بلکہ نازاں و فرحاں بھی نظر آتا ہے۔ غلامی کے اسباب کا جائزہ لیں تو سب سے بڑا سبب انگریزوں کا مسلط کردہ نظام تعلیم اور ان کی زبان ہے۔ ایک غیر ملکی زبان کو حصول علم کی راہ میں دیوار بنا کر حائل کر دیا گیا ہے۔ خود مختار اقوام کے بچے علم پڑھ رہے ہیں جبکہ ہم نے اپنے بچوں کو ایک غیر ملکی زبان پڑھانے پر لگایا ہوا ہے۔ کیا دنیا سے نو آبادیاتی دور ابھی ختم نہیں ہوا؟ بدیسی زبان نے ہماری نوجوان نسل کو ذہنی طور پر غلام اور مرعوب رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے بلکہ اس کی ذہنی صلاحیتوں اور قوتِ کار کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔

            جدید دنیا کے ماہرین تعلیم کا اس حقیقت پر اتفاق ہے کہ تعلیم کا مؤثر ترین ذریعہ بچے کی مادری اور قومی زبان ہو سکتی ہے۔ جو اس کے گھر، مسجد، بازار، اسکول، ماحول اور معاشرے کی زبان ہو وہی حصول علم کی زبان ہو تو اس کی ذہنی نشو و نما کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ قوم کا وہی بچہ جسے براہ راست علم الاشیاء سے واقف کروایا جا سکتا ہے، ایک طویل عرصہ تک اجنبی زبان کی رکاوٹیں دور کرتا رہتا ہے۔ ماہرین تعلیم یہ بھی کہتے ہیں کہ بچہ جس زبان میں خواب دیکھے اگر وہی زبان اس کا ذریعہ تعلیم ہو ، اسی زبان میں وہ سوچ و فکر کرے تو علوم و فنون کی زیادہ وسیع دنیا کے دروازے اس پر وا ہو جاتے ہیں اور وہ زیادہ خود اعتمادی کے ساتھ عملی زندگی میں قدم رکھنے کے قابل ہو جاتا ہے۔

            ایک تعلیمی سروے کے مطابق غیر ملکی زبان کی لازمی حیثیت کے باعث میٹرک تک پچاس فیصد طلبہ اسکول چھوڑ جاتے ہیں، اگر ایک کالج میں ساڑھے سات سو طلبہ فرسٹ ائیر میں داخل ہوں تو پہلی کوشش میں صرف اڑھائی تین سو انٹر پاس کر کے ڈگری کلاسز میں پہنچنے کے قابل ہوتے ہیں۔ بی اے ، بی ایس سی کا انگریزی نصاب مشکل تر بنایا جا رہا ہے تاکہ یونیورسٹی میں پہنچنے والے طلبہ آٹے میں نمک کے برابر رہ جائیں۔ بی اے تین سال کرنے کی تجویز بھی اسی پروگرام کا حصہ ہے۔ جس قوم کی اعلیٰ تعلیم میں قدم رکھنے والی نسل ہر سال اجنبی زبان کے باعث تعلیم چھوڑ کر گھروں کی راہ لے، آخر وہ کس طرح ترقی کے راستہ پر گامزن ہو سکے گی۔ قومی ذہانت (Talent) کا اس قدر وسیع پیمانے پر ضیاع ہمارے قومی وجود کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ تعلیم ہی وہ واحد راستہ ہے جس پر چل کر ہم عزت، ترقی اور خود مختاری کی منزل حاصل کر سکتے ہیں۔ اسی ذریعے سے ہم اپنے تاریخی ورثے، نظریات وسماجی پس منظر سے آگاہ ہو کر تعمیر و ترقی کا سفر طے کر سکتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے انگریزی کی لازمی حیثیت نے ہماری نوجوان نسل کو ذہنی طور پر اغیار کا غلام بنایا، انھیں احساس کمتری میں مبتلا کیا اور ہمارے قومی وجود کے حصے بخرے کر کے رکھ دیئے۔ مولوی کو یہ کہہ کر گالی دینے والے کہ اس نے قوم کو چار حصوں (وہابی، بریلوی، دیو بندی، شیعہ) میں تقسیم کر دیا ہے، یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ بے خدا اور بے مقصد نظام تعلیم نے پاکستانی قوم کی تقسیم میں کیا کردار ادا کیا ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ انٹرنیشنل اسکول آف شوئیفات میں تیار ہونے والی نسل امریکن اسکول والوں سے اپنے آپ کو بالا تر سمجھتی ہے! کیا ایچی سن کالج اور بیکن ہاؤس والوں میں رشتۂ اخوت قائم ہے؟ کیا کیتھڈرل اسکول میں پروان چڑھنے والی نسل اپنے آپ کو دوسروں سے اعلیٰ خیال نہیں کرتی؟ کیاڈویژنل پبلک اسکولوں اور آرمی پبلک سکولوں میں ایک الگ قوم تیار نہیں ہو رہی ۔ علیٰ ہذا القیاس اس نظام تعلیم کی شودر نسل (طبقہ اشرافیہ ایسا ہی خیال کرتا ہے) گورنمنٹ اسکولوں اور کالجوں میں پنپ رہی ہے۔ اس نظام تعلیم نے بانی پاکستان کے ارشاد ‘‘ایمان، اتحاد اور تنظیم’’ کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں۔

            زبان کسی قوم کے تشخص اور پہچان کا اہم ذریعہ ہوتی ہے۔ افرادِ قوم میں اتحاد و یکجہتی پیدا کرنے میں زبان ایک اہم عامل ہے۔ وہ قوم جس کی اپنی زبان نہ ہو ، وہ پہلی صدی کی ہو یا اکیسویں صدی میں رہتی ہو، گونگی اور بہری تصور کی جائے گی۔ سامراج کی زبان کے اسیر لوگ آزاد نہیں، بلکہ ان کی قومی زندگی کا ہر شعبہ غلامی کے شکنجے میں کسا رہتا ہے۔ آج ہم غلام ہیں کہ سرکاری تقریبات میں اپنا لباس نہیں پہن سکتے، اپنی مرضی اور اپنے تاریخی پس منظر میں اپنے لیے ہفتہ کی چھٹی کا دن مقرر نہیں کر سکتے اور اپنی قومی زبان میں اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دے سکتے۔ پاکستانی قوم اگر آزادی چاہتی ہے تو اسے غلامی کی پہلی زنجیر انگریزی زبان کے تسلط سے آزاد ہونا ہو گا اگر ہم یہ زنجیر توڑنے میں کامیاب ہو جائیں تو شاید یہ غلامی کی آخری زنجیر بھی بن جائے۔ گزشتہ صدی کا منظر نامہ بڑا چشم کشا ہے۔ دنیا کی کئی اقوام نے اپنی قومی زبان کو ذریعۂ تعلیم بنایا۔ کیا چین، روس،جاپان، جرمنی اور فرانس پسماندہ ممالک میں شامل ہیں؟ جاپان دنیا کے ان معدودے چند ممالک میں شامل ہے جس کی اپنی فوج نہیں اور جو آج کی سپر طاقت کو سالانہ تاوان جنگ دینے پر مجبور ہے لیکن معاشی اور ذہنی طور پر ہم سے زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ دوسری جنگ عظیم (1939-45) میں دو جاپانی شہروں ہیرو شیما اور ناگا ساکی کی تباہی کے بعد جاپانی قیادت سرنگوں ہو گئی۔ اس نے زندگی کے تمام شعبوں میں امریکی شرائط پر معاہدے کیے لیکن ایک شعبہ بچا لیا اور وہ تعلیم کا شعبہ تھا۔ جاپانی قیادت نے تاریخ ساز فیصلہ کیا کہ اس کے بچے اس کی قومی زبان میں تعلیم حاصل کریں گے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج یہ قوم صنعت و حرفت اور زندگی کے دیگر شعبوں میں ایک باعزت اور باوقار مقام حاصل کر چکی ہے۔

            اکیسویں صدی میں اگر ہم واقعی ایک آزاد، خود مختار اور باعزت قوم کے طور پر زندہ رہنا چاہتے ہیں تو فوری طور پر ہمیں دو کام کرنا ہوں گے:

۱) پاکستان کے چاروں صوبوں بشمول آزاد کشمیر و شمالی علاقہ جات میں پرائمری تا یونیورسٹی تمام تعلیمی اداروں کا مرتبہ (Status) ایک کرنا ہو گا۔ اگر ہم ایک قوم ہیں تو قوم کے ہر بچے کا نصاب، لباس، فیس اور زبان بھی ایک ہونی چاہیے۔

۲) ماہرین تعلیم جن میں (Subject Specialist) اور دنیا کی مختلف زبانیں جاننے والے اہل علم شامل ہوں، کی ایک ٹیم تشکیل دی جائے جو تمام قدیم و جدید علوم کو بالخصوص میڈیکل، انجینئرنگ، کمپیوٹر ، زراعت اور کامرس کو قومی زبان اردو میں منتقل کرے۔ اگر ہندی، فارسی اور پشتو میں جدید علوم پڑھائے جا سکتے ہیں تو یہ کام اردو میں بھی ہو سکتا ہے۔ اصطلاحات کا ترجمہ کرنا ضروری اور لازمی نہیں ہے۔ اس کام کے لیے قومی سطح پر ایک باقاعدہ ادارہ بنایا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا تاکہ دنیا میں ہونے والی ہر ایجادات اورتبدیلیوں کو نصاب تعلیم میں سمونے کا کام بھی مسلسل ہوتا رہے۔ اردو دنیا کی بڑی زبانوں میں سے ایک زبان ہے کیونکہ دنیا کے جس حصے میں زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے انسانی آبادی کا زیادہ حصہ یہیں مقیم ہے۔ اس لحاظ سے بعض لوگ اردو کو دوسری بڑی زبان کا درجہ دیتے ہیں۔