سوال ، جواب (ترتیب و تہذیب ، شاہد محمود)

مصنف : جاوید احمد غامدی

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : مئی 2009

ج: اس کے ناجائز ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے۔لیکن آدمی کو کوئی ایسا عضو دوسرے کو نہیں دینا چاہیے جس سے خود اُس کے اندر کوئی نقص پیدا ہو جائے۔ مثلاً اللہ نے آپ کو دو آنکھیں دی ہیں، آپ کہیں کہ ایک نکال لیجیے، یہ درست نہیں ہے۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ اس دنیا کی زندگی میں یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کرتے ہیں کہ آدمی کے اوپر کیا بوجھ ڈالے گئے ہیں۔ لیکن اگر کوئی ایسا عضو ہے جس سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا، جیسا کہ عام طور پر اب ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ایک گردہ نکال لینے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتاتو آپ دے سکتے ہیں۔ دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد تو کوئی مسئلہ ہی باقی نہیں رہتا، اس لیے آدمی جو عضو بھی دینا چاہے اُس کے بارے میں وصیت کر سکتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج:اس میں کوئی شک نہیں کہ اِس طرح کی چیزیں انسان کی نفسیات پر اثر انداز ہوتی اور بہتری کا باعث بھی بن جاتی ہیں۔ ارتکازِ توجہ بجائے خود بہت سے امراض کا علاج ہے۔ اصول میں اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا، لیکن اس میں چونکہ انھوں نے اللہ کے لفظ کو دیکھنے کے لیے کہا ہے اس وجہ سے اس کا بڑا اندیشہ ہے کہ یہ چیز ایک بدعت بن جائے اور بالکل اسی طرح صوفیانہ مراقبوں کی شکل میں رائج ہو جائے۔ دین کے معاملے میں ہمیشہ محتاط رہنا چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اگر مسجد آپ کی معاشی ذمہ داریوں کی جگہوں مثلاً دفاتر، مارکیٹوں یا بازار وغیرسے دور ہے یا وہاں سے جانا زحمت کا باعث بنتا ہے تو آپ نماز پڑھنے کے لیے کوئی جگہ مخصوص کر سکتے ہیں۔ یہ ایک عارضی مسجد ہوتی ہے، اُس کو مسجد الدار کہتے ہیں۔ یہاں نماز پڑھنے کا اجر وہی ہو گا جو مسجد میں باجماعت نماز کا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: صحابہ کی تعریف یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وقت گزارا، آپ کی صحبت اٹھائی، شب و روز آپ کے ساتھ رہے اور ایک قابل لحاظ مدت تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کو اپنے ایک ساتھی کی حیثیت سے دیکھتے رہے۔ان سب صحابہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے ، بلکہ اس معاملے میں تو بہت تعیین ہو گئی ، اس کی وجہ یہ ہے کہ بیعت رضوان کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو لوگ گئے اور انہوں نے حضور ؐ کے ہاتھ پر بیعت کی، ان سب کے بارے میں اللہ نے یہ بشارت دی ہے کہ اللہ ان سے راضی ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: خاتون اگر اپنے باپ کے گھر میں ہے تو یہ باپ کی ذمہ داری ہے۔ اگر باپ نہیں ہے تو بھائیوں کی ذمہ داری ہے، اگر اپنے شوہر کے گھر میں ہے تو ان کی ذمہ داری ہے۔ اور اس کی ضروریات پوری کرنا محض کوئی تطوع نہیں ، بلکہ فرض ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: دین پر عمل کرنے کے لیے کم سے کم ذمہ داری اللہ کے پیغمبر نے یہ بیان کی ہے کہ اپنے اخلاقی وجود کو درست کیجیے۔ نماز کا اہتمام کیجیے۔ روزوں کا مہینا آئے تو روزے رکھیے۔ اللہ توفیق دے تو حج کیجیے اور اپنے مال سے انفاق کیجیے۔اس ذمہ داری کو قرآن نے بھی بیان کیا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ آیت ایک خاص مقام پر آئی ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کی تردید کی ہے کہ محض بن ماں کا بیٹا ہونے کی بنیاد پر حضرت عیسیٰ خدا نہیں ہو گئے۔ سیدنا آدم علیہ السلام کو تو اللہ تعالیٰ نے ماں باپ، دونوں کے بغیر پیدا کیا، اس کے باوجود وہ خدا نہیں ہو گئے تو پھر حضرت عیسیٰ کیسے خدا ہو سکتے ہیں؟

(جاوید احمد غامدی)

ج: رضاعت اس وقت قائم ہوتی ہے جب بچے کو گود لے کر دودھ پلایا گیا ہو۔ اس صورت میں وہ کم ہو یا زیادہ، رضاعت قائم ہو جاتی ہے۔ مجبوری یا اتفاقاً معاملہ ہو جانے سے رضاعت قائم نہیں ہوتی۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: عورتوں کے قبرستان جانے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ ان آداب کا لحاظ رکھیں جو قبرستان جانے کے لیے ضروری ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے عورتوں کو اس سے روکا تھا کیونکہ اس زمانے میں عورتیں نوحہ کرتی اور بال نوچتی تھیں۔ لیکن جب مسلمان عورتوں کی تربیت ہو گئی تو آپؐ نے فرمایا کہ اب تم جا سکتی ہو۔

(جاوید احمد غامدی)

ج:اس موقع پر جتنا ممکن حد تک قبلہ کا تعین ہو سکے کر لیں۔ سفر میں آپ چونکہ ایک ایسی سیٹ پر بیٹھے ہوتے ہیں جس میں آپ کے لیے بہت زیادہ انتخاب کا موقع نہیں ہوتا، اس لیے جس سمت میں آپ کے لیے نماز پڑھنا ممکن ہو اس میں پڑھ لیجیے ، ساری سمتیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔البتہ کوشش ضرور کرنی چاہیے کہ ممکن حدتک قبلے کی تعیین کا اہتمام ہو جائے ۔ اگر آپ محسوس کرتے ہیں کہ تھوڑا رخ بدلنے کے نتیجے میں قبلے کی صورت حال بہتر ہو جائے گی توتھوڑی تاخیر کر لیجیے ۔ اگرسفر سے پہلے نماز جمع کر کے پڑھ سکتے ہوں تو پہلے جمع کر کے پڑھ لیجیے اور اگر بعد میں جمع کر سکتے ہوں تو بعد میں جمع کر کے پڑھ لیجیے۔ یہ ساری صورتیں موجود ہیں ان میں سے جس پر آپ چاہیں، عمل کر سکتے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: پورے کا پورا دین تطہیر اور تزکیے پر مبنی ہے۔ ہمارے دین کا مقصد ہی یہ ہے کہ لوگوں کو جسمانی، نفسی، روحانی، عقلی ، علمی ہر لحاظ سے پاک رکھا جائے۔ انسان اپنی عقل سے اس کا فیصلہ آسانی سے نہیں کر سکتا کہ یہ پاکیزگی کس درجے کی ہونی چاہیے اور کس معاملے میں کتنی ہونی چاہیے،۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت میں اس کے آداب اور حدود مقرر کر دیئے ہیں۔ بعض معاملات میں اتنا ہی کافی ہے کہ آپ اپنے اعضا کو دھو لیں اور بعض معاملات میں اللہ تعالیٰ نے پورے جسم کو اچھی طرح دھونا لازم کیا ہے۔ انسان چونکہ ایک حیوانی مرحلے سے گزرتا ہے اور یہ بہیمیت اس کے پورے کے پورے جسم کا حصہ بن جاتی ہے تو غسل ہی درحقیقت اس کو اس سے نکال کر صحیح انسانی سطح پر لاتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: بالکل دے سکتے ہیں اور ایسی صورت میں زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔ یہ ایک خدمت ہے اور زکوٰۃ کے مصارف میں سے ایک مصرف ہے۔ زکوٰۃ کا قاعدہ یہ ہے کہ اگر حکومت مانگے تو پھر تو اسی کو دینی چاہیے، اگر حکومت نہیں مانگتی اور آپ ذاتی طور پر ادا کر رہے ہیں تو پھر اس کا ایک مصرف فی سبیل اللہ بھی ہے یعنی دین کی خدمت یا لوگوں کی بہبود کا کوئی کام ہو تو اس میں آپ زکوٰۃ دے سکتے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن مجید میں صریح الفاظ میں یہ کہا گیا ہے کہ حضور خاتم النبیین ہیں۔ قرآن نے اس میں بہت کمال یہ کیا ہے کہ ‘خَاتَمَ النبیین’ کہا ہے، ‘خَاتِمَ النبیین’ نہیں کہا۔ اور کسی تاویل کی گنجایش نہیں رہنے دی۔ ‘خَاتَمَ النبیین’ کا مطلب ہے ، نبیوں کی مہر ۔ مہر یا تو Seal ہوتی ہے یا Stamp ہوتی ہے۔ آپ Seal کے معنی میں لیں گے تب بھی نبوت ختم ہو گئی۔ stamp کے معنی میں لیں گے تب بھی ختم ہو گئی۔ اس لیے کہ پھر یہ سوال پوچھا جائے گا کہ اگر بعد میں کوئی آیا ہے تو اس کی نبوت کی تصدیق حضورؐ سے دکھا دیجیے۔ حضورؐ نے کسی آنے والے کی تصدیق نہیں فرمائی، لہٰذا آپ پر نبوت کا دروازہ بند ہو گیا ہے۔

جہاں تک عیسائیوں کا حضرت عیسیٰ کو آخری نبی قرار دینے کے معاملہ ہے تو اس بات کی تردید خود سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اپنی زندگی میں ہی کرتے نظر آتے ہیں۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی انجیل ہمارے پاس موجود ہے۔ اس میں وہ جگہ جگہ فرماتے ہیں کہ ‘‘میرے بعد آنے والا مددگار ’’،‘‘ میرا اس میں سے کچھ بھی نہیں ہے’’، ‘‘دیکھو میں جا رہا ہوں اور دنیا کا سردار آنے والا ہے’’۔ وہاں تو ختم نبوت کی کوئی آیت ہی نہیں ہے۔

 

(جاوید احمد غامدی)

ج: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل کو قربانی کے لیے پیش کیا تھا۔ حضرت اسماعیل کا ذبیح ہونا قرآن مجید سے بھی واضح ہے اور تورات سے بھی واضح ہے۔ باوجود اس کے کہ تورات میں اس جگہ حضرت اسحاق کا نام داخل کیا گیا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس میں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ غصہ کب کرنا چاہیے، اس پر قابو کب پانا چاہیے اور کتنا غصہ کرنا چاہیے۔ غصہ اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ یہ نہ ہو تو آدمی کے اندر غیرت، حمیت اور اخلاقی حدود کا احترام ختم ہو جائے گا۔ اصل چیز یہ ہے کہ اس کا موقع ٹھیک ہونا چاہیے۔ اور اتنی مقدار میں کرنا چاہیے جتنی مقدار اس مقصد کے لیے موزوں ہے۔ اگر آدمی کے اندر غصہ نہیں ہو گا تو وہ اپنا دفاع، اپنی مدافعت، اپنی قوم کا دفاع، اپنے وطن کی مدافعت اور اپنے ناموس کی مدافعت کچھ بھی نہیں کر سکے گا۔ اللہ نے یہ نعمت ایسے ہی نہیں دی ہوئی۔ اس کو کنٹرول کر کے رکھنے کی ضرورت ہے۔ حضرت موسیٰ کو جس بات پر غصہ آیا تھا وہ بڑی ناجائز بات تھی۔ جب وہ کوہ طورپر گئے تو پیچھے قوم میں حضرت ہارون کو مقرر کر گئے تھے، جب وہ تورات لے کر واپس آئے تو معلوم ہوا کہ قوم کا ایک بڑا حصہ ایک بچھڑے کی پرستش کر رہا ہے۔ ان کو احساس ہوا گویا ہارون نے اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کیں۔ یہ بڑے صحیح موقع پر ان کو غصہ آیا۔ اگر کسی آدمی کو غلط موقع پر غصہ آئے تو اس سے بڑا بیوقوف کوئی نہیں ہے۔ اور صحیح موقع پر نہ آئے تو اس سے بڑا بھی بیوقوف کوئی نہیں ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ بڑی سادہ سی بات ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عام طور پر ہر معاملے میں طاق عدد پسند فرمایا ہے، جیسے آپ ہر کام میں دایاں پسند فرماتے تھے۔ دائیں طرف پاؤں پہلے رکھیں گے، دائیں طرف سے نکلیں گے۔ یہ حضورؐ کا عام طریقہ تھا۔ دائیں ہاتھ سے کھانا پینا تو آپ نے سنت کے طور پر جاری کر دیا، لیکن عام زندگی میں بھی آپ اس کا خیال رکھتے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قیامت میں جب اللہ تعالیٰ اہل جنت کو نامۂ اعمال پکڑائیں گے تو وہ دائیں ہاتھ میں پکڑائے جائیں گے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اس بات کا احساس ہمیشہ زندگی میں رہے کہ ہمیں اللہ وہاں پر دائیں ہاتھ والوں میں اٹھائے۔ ایسے ہی حضور ؐ طاق عدد پسند کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ توحید کا تصور ذہن میں پوری طرح راسخ ہو جائے۔ اسی مناسبت سے جنازے کے موقع پر بھی صفوں کی طاق تعداد کا لحاظ کیا جاتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آدمی خود اپنے اجتہاد سے یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ میں اس وقت کیسی کیفیت میں ہوں کہ جو ایک مسافر کو لاحق ہوتی ہے۔ یہ اللہ کی دی ہوئی رخصت ہے۔ اگر کوئی محسوس کرتا ہے کہ اس کے اوپر مسافرت کی کیفیت ہے تو نماز قصر کر لے۔اگر محسوس کرے کہ بہت آرام سے ہے، کوئی مسئلہ نہیں ہے تو پوری پڑھ لے، اللہ اجر دے گا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: فرقۂ اہلِ قرآن کسی ایک دور کی چیز نہیں ہے۔ مختلف ادوار میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں جو یہ کہتے رہے ہیں کہ قرآن کے علاوہ اور کہیں دین نہیں پایا جاتا۔ یہ ایک عام نقطۂ نظر رہا ہے۔ ہمارے ہاں اس کی ابتدا چکڑالے کے بعض بزرگوں سے ہوئی، اس کے بعد اور بہت سے لوگ اس میں آتے رہے مثلاً احمد دین صاحب وغیرہ، یہاں تک کہ غلام احمد پرویز صاحب نے اس کو اپنے کمال پر پہنچایااور غالباً وہ اس کے آخری آدمی تھے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ کھانا حرام نہیں ہوتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کھانا کسی غیر اللہ کے نام پر نہیں پکایا جاتا۔ اور اگر اس کھانے کو کوئی مذہبی چیز قرار نہ دیا جائے تو اس کے پکانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ جب آپ کسی روایت یا تہوار میں مذہب داخل کرتے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس کو sanction حاصل ہو، اگر نہیں ہے تو پھر وہ چیز دین میں بدعت ہو جائے گی، جو ایک بڑا گناہ ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: تزکیے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ خدا کے دین پر عمل کریں۔ دین اترا ہی اس لیے ہے کہ وہ آپ کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا تزکیہ کرے۔ جب آپ علم اور عمل دونوں میں پورے دین کو مکمل طور پر اپنا لیتے ہیں تو آپ کا مکمل تزکیہ ہو جاتا ہے۔ آپ جتنا اپناتے ہیں اس کے لحاظ سے آپ کا تزکیہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ دین پر عمل کرنے کے لیے آدمی میں رغبت پیدا کرنے کے لیے یا اس کو متوجہ کرنے کے لیے بہت سے نفسیاتی طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں اور وہ صوفیا بھی اختیار کرتے ہیں۔ جیسے ہم اپنے بچوں میں اسکول جانے کی رغبت پیدا کرتے اور ان کی سستی دور کرتے ہیں، ایسے ہی دین پر عمل کی رغبت پیدا کرنے کے لیے بھی نفسیاتی علاج معالجہ بھی ہوتا ہے اور بعض لوگ اس میں بڑا موثر طریقہ بھی اختیار کر لیتے ہیں۔ صوفیا اگر اس کے لیے دین میں کوئی بدعت داخل نہ کریں تو یہ کوئی قابل اعتراض چیز نہیں، لیکن چونکہ وہ ان حدود کا لحاظ نہیں رکھتے، اس لیے بعض اوقات اس پر اعتراض کرنا پڑتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: کلی کرنا، ناک صاف کرنا، منہ کو صاف رکھنایہ سب خود دین کے اندر ایک سنت کے طور پر جاری کیے گئے ہیں، لیکن وضو کا یہ لازمی حصہ نہیں ہیں۔ آپ کریں تو بہت اچھی بات ہے، آدمی کو اچھا وضو ہی کرنا چاہیے، لیکن اگر کسی وقت آپ نے نہیں کیا تو اس کے بغیر بھی وضو ہو جائے گا۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آخرت میں سزا سے بچنے کے لیے توبہ و استغفار اور تلافی ضروری ہے۔ دنیا کی سزا اس کے لیے کافی نہیں ہے کہ وہ بچ جائے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک چور کو ہم سزا دے رہے ہوں اور وہ اس موقع پر اللہ تعالیٰ اور اس کے قانون دونوں کو گالیاں دے رہا ہو۔ آخرت کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: جب آپ دیکھ رہے ہیں کہ امام کی قراء ت آپ تک نہیں پہنچ رہی یا وہ سری نماز پڑھا رہا ہے تو آپ ضرور سورۂ فاتحہ پڑھیے۔ یہی عقلِ عام کا تقاضا ہے۔ اس معاملے میں چونکہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی متعین حکم نہیں دیا، بلکہ لوگوں نے آپ کی بعض باتوں سے قیاس کیا ہے تو ان سب کو عقل عام کی روشنی میں دیکھنا چاہیے۔ یہ اجتہادی معاملہ ہے اور اس میں وہی رائے اختیار کرنی چاہیے جو معقولیت پر مبنی ہو۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ پاکیزہ کلمات ہیں۔ ان میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ جن کو دین یا شریعت کے خلاف کہا جا سکے۔ ان کے معنی بھی بہت اچھے ہیں، لیکن ان کی کوئی شرعی حیثیت اس معنی میں نہیں ہے کہ اللہ کے پیغمبر نے وہ مقرر کیے ہیں۔ اس سے زیادہ ان کی کوئی حیثیت نہیں کہ علما نے لوگوں کو اچھی باتوں کی تعلیم دینے کے لیے ان کو جمع کر دیا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس معاملے میں دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔ پاکستان کے قانون کے مطابق عائلی عدالتیں موجود ہیں،یا تو وہ عدالت سے رجوع کریں۔ وہاں فیصلہ ہو جائے گا۔اور جو بھی فیصلہ بھی ہو، اس سے بحث نہیں کہ وہ صحیح ہو یا غلط، وہ نافذ ہو جائے گا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی وہی فیصلہ مانا جائے گا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ کسی صاحب علم کو ثالث بنائیں، اپنا مقدمہ اس کے سامنے پیش کریں اور وہ جو فیصلہ دے اس کو قبول کر یں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: مرد و عورت کی دوستی جہاں بھی ہو گی ، فتنوں کا باعث بنے گی۔ اور یہ فتنہ ایسا ہے کہ ممکن ہے کہ اس کے نتائج اتنے خطرناک نکلیں کہ آگے کی زندگی بالکل ہی مخدوش ہو کر رہ جائے۔ اگر اس طرح کی دوستی کرنی ہے تو پھر عفت و عصمت جیسے احساسات کو اپنی سوسائٹی سے نکالنا ہو گا، کیونکہ ان کے ہوتے ہوئے اس چیز کی کوئی گنجایش موجود نہیں۔ عمومی یا خیر سگالی کے تعلقات رکھنے یا اچھا رویہ اختیار کرنا میں تو کوئی حرج نہیں، لیکن اس سے آگے بڑھ کر جب بات جائے گی تو پھر وہ خرابیوں اور فتنوں کا باعث بنے گی۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: میرے نزدیک عقیقے کے معاملے میں فیصلہ کن بات وہ ہے جو خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہو گئی ہے۔ آپ سے عقیقہ کے بارے میں پوچھا گیا ۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے یہ عقیقے وغیرہ کا لفظ تو پسند نہیں ہے، البتہ کسی کے ہاں بچہ پیدا ہوتو وہ اپنے بچے کے لیے قربانی کر لے۔ یہ ایک نفل قربانی ہے جو بچے کے شکرانے میں کی جاتی ہے۔ اس چیز کی کوئی پابندی نہیں ہے کہ آپ ایک قربانی کریں یا دو کریں۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں روایت ہے کہ آپ نے حسن و حسین کی پیدایش کے موقع پر ایک بکرے کی قربانی کی۔ بعد کے فقہا نے اس میں لڑکے کے لیے دو اور لڑکی کے لیے ایک قربانی کرنے کا فرق قائم کیا ہے۔ یہ فرق لڑکے اور لڑکی کے معاملے میں جو تمدنی روایات ہیں، اس سے پیدا ہوا ہے، دین میں اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اللہ تعالیٰ کی شریعت میں چند چیزیں اس معاملے میں زیر ِ بحث آئی ہیں۔ ایک یہ بات زیر بحث آئی ہے کہ عورتوں اور مردوں کو جب کبھی ملنا پڑے، خواہ وہ گھروں میں ہوں، خواہ باہر ہوں تو انھیں کن آداب کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ وہ آداب سورۂ نور میں بیان ہوئے ہیں کہ خواتین اور مردوں کو کس طریقے سے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنی چاہیے، اپنی نگاہیں کس طرح رکھنی چاہییں، ان میں کیسی حیا ہونی چاہیے۔ عورتوں کے لیے مزید ایک بات یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اپنے سر کی اوڑھنیاں اپنے سینے پر بھی اچھی طرح لے لیں اور اپنی زینتوں کی نمایش نہ کریں۔ یہ مردوں اور عورتوں کے ملنے جلنے کے آداب ہیں۔ دوسری بات شریعت میں جو بتائی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ میاں اور بیوی کے ما بین جو رشتہ قائم ہوتا ہے ، اس میں مرد کو ایک درجہ برتری حاصل ہے تاکہ گھر کا نظم و نسق چلایا جا سکے۔ پھر اس کے بعد طلاق اور نکاح کے معاملے میں حدود و اختیارات بتائے گئے ہیں، جس میں کچھ مردوں کے حقوق ہیں اور کچھ عورتوں کے حقوق ہیں۔ اس کے علاوہ باقی معاملات کو اللہ تعالیٰ نے انسانی تمدن پر چھوڑ دیا ہے۔ ان کے حالات کے لحاظ سے عورتیں اپنا کردار متعین کرتی ہیں۔ اور یہ کردار ایک تمدن میں مختلف ہو سکتا ہے اور دوسرے میں مختلف۔ تمدنی تبدیلیاں انسانی زندگی میں آتی رہتی ہیں۔ ہمارے ہاں جو عورتوں کا کردار اشرافیہ بیان کرتی رہی ہے، وہ تو صرف ان لوگوں کے ہاں تھا کہ جن کے ہاں پانچ سات ملازم ہوتے تھے۔ وہ عام خواتین کا کردار نہیں ہے۔ ہمارے دیہات میں عورتوں کو باہر نکل کر کام کرنا پڑتا تھا۔ کھیتوں میں جا کر اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا پڑتی تھیں۔ جانورں کو چارہ ڈالنا، ان کے لیے چارہ کاٹ کر لانا،دودھ دوہنا یہ تو کم و بیش عورتوں ہی کی ذمہ داری تھی۔ اس وجہ سے اس معاملے میں کوئی لگا بندھا اصول شریعت میں قائم نہیں کیا گیا۔ باقی تمام معاملات میں انسانوں کو آزادی دی گئی ہے ۔ وہ اپنے حالات کے لحاظ سے اپنا کردار خود طے کر سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس وقت جو بعض چیزیں ہو رہی ہیں ، وہ اپنے اندر بعض اخلاقی قباحتیں رکھتی ہیں، بعض تمدنی نقصانات رکھتی ہیں، ان پر عقل کی روشنی میں بات کرنی چاہیے اور لوگوں کو اس کے بارے میں توجہ بھی دلانی چاہیے، لیکن شریعت کے حدود اتنے ہی ہیں جتنے بیان ہو چکے ہیں۔ یہ ملنے جلنے کے اور باہر نکلنے کے آداب ہیں، ان پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ عورت اپنے کاروبار کے لیے، اپنے معاملات کے لیے باہر جا سکتی ہیں۔البتہ ان آداب کا انھیں ہر جگہ لحاظ کرنا چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس طرح کے تمام علوم زیادہ تر توہمات پر مبنی ہوتے ہیں۔ ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ مختلف قسم کے قیافے ہیں جو لگائے گئے ہیں۔ انسان خواہ کتنا ہی پڑھ لکھ جائے، وہ بنیادی طور پر توہم پرست ہوتا ہے۔ اس طرح کی چیزوں میں اس کو بڑی رغبت محسوس ہوتی ہے۔ بندۂ مومن کا کام یہ ہونا چاہیے کہ وہ ایک طرف اپنے اللہ پر یقین رکھے اور اللہ کی کتاب اور پیغمبر سے رہنمائی حاصل کرے۔ اور دوسری جانب اس کو سائنٹیفک علوم میں دلچسپی ہونی چاہیے یعنی وہ علوم جو انسانیت کے لیے مفید ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: بیت اللہ کے ادب و احترام کی وجہ سے ہم یہ کوشش کرتے ہیں کہ اس جانب ہمارے پاؤں نہ ہوں۔ یہ آداب سے متعلق چیز ہے، ان آداب کا لحاظ حضورؐ نے بھی کیا، آپ کے صحابہ نے بھی کیا۔ یہ لازمی چیزیں نہیں ہیں اور نہ ان میں گناہ و ثواب کا مسئلہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پرآپ کے والد ہیں تو آپ چارپائی بچھاتے وقت یہ خیال رکھیں گے کہ ان کی طرف آپ کے پاؤں نہ ہوں اسی طرح اللہ تعالیٰ کے گھر کی حرمت اور ادب کا تقاضا بھی یہ ہے کہ اس جانب آدمی پاؤں نہ کرے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے اوپر جنات کا جو کچھ بھی تصرف ہوتا ہے ، وہ نفسیاتی نوعیت کا ہوتا ہے۔ جب وہ نفسیاتی تصرف کرتے ہیں تو خود انسان کے اندر بعض اوقات ایسی تبدیلیاں آ جاتی ہیں کہ جس سے وہ اپنے آپ کو نقصان پہنچا لیتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے سامنے یہ ہدف رہے کہ آپ کو جنت کی اعلیٰ ترین نعمتیں پانی ہیں اور یہ بات ذہن میں رہے کہ جنت کی نعمتیں پانے کے لیے اس دنیا میں اپنے نفس کو پاکیزہ رکھنا ہے اور اپنے دل کو خدا کی یاد سے آباد رکھنا ہے۔ اس طرح آپ بہت سی ایسی چیزوں سے بچ جائیں گے۔ اور اگر کہیں قدم پڑے گا بھی تو فوراً آپ کی کوشش یہ ہو گی کہ اپنے دل کو اس سے پاک کر لیں۔ یہ نہ کوئی فقہ کا مسئلہ ہے اور نہ ہی کسی مفتی کے فتویٰ دینے کی چیز۔ وہ چیزیں جن کو اللہ تعالیٰ نے صراحتاً ممنوع قرار دے دیا ہے، ان میں تو علما بتا سکتے ہیں۔ باقی چیزوں میں ایک مثبت پہلو ہے جس کو نگاہ میں رکھنا چاہیے کہ آپ اپنے دل کو آلایش سے پاک رکھیں اور اپنی زبان کو خدا کے ذکر سے تر رکھیں تواس کے نتیجے میں آہستہ آہستہ یہ چیزیں خود بخود آپ کی رغبت سے نکل جائیں گی۔

(جاوید احمد غامدی)