گفتگو کے اسلامی آداب - ۲

مصنف : خطیب محمد انصر

سلسلہ : دین و دانش

شمارہ : اپریل 2009

(پہلی قسط کے لیے دیکھیے ، شمارہ مارچ ۲۰۰۹)

تجارت ہو ملازمت ہویا کوئی اور کام ہرشخص دراصل کچھ دیتا ہے اور کچھ لیتا ہے۔ ملازم اپنی صلاحیت و محنت کے بدلے میں اس کی اجرت حاصل کرتا ہے تو تاجر اپنے مال کا معاوضہ لیتا ہے۔ خریدار روپے دیتا ہے اور اس کے عوض کچھ پاتا ہے۔ مسلمان برائیوں کو روکتا ہے اور بھلائیوں کو عام کرتا ہے اور اس کے بدلے میں آخرت کا توشہ جمع کرتا ہے۔ خریدوفروخت ، لین دین ہو یا دعوت وتبلیغ، غرض ہر کام کے لیے آدمی کو اپنی زبان کے صحیح استعمال کا علم حاصل کرنا بے حد ضروری ہے۔ جو شخص فنِ گفتگو سے واقف نہیں ہوتا اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی تاجر لاکھوں روپے کے سرمایے سے عالیشان دکان کھولے مگر مال فروخت کرنے کے لیے ایسے لوگوں (salesman) کو کام پر لگائے جو نہ مسکرانا جانتے ہوں اور نہ میٹھے جملے بول سکتے ہوں تو وہ دکان دار انمول و نایاب چیزیں جمع کر کے بھی اپنی خواہش کے مطابق تجارت نہیں کر سکتا۔ لہٰذا ذیل میں گفتگو سے تعلق رکھنے والی اہم باتیں بتائی گئی ہیں۔

لوگ مشہور و معروف شخصیتوں سے ملاقات کرنے اور ان سے گفتگو کرنے کے خواہش مند ضرور ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کی زبان سے جب وہ اپنا نام سن لیتے ہیں تو خوشی سے پھول جاتے ہیں۔ اُن سے گہری محبت کا اظہار کرتے ہیں اور تعلقات کو تادیر قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ سے گفتگو:

کسی شخص کو اللہ تعالیٰ سے گفتگو کرنے کا موقع مل جائے اور اللہ تعالیٰ اس شخص کا نام لے کر پکارے تو اس کی خوشی کی کوئی حد نہیں ہوگی اور وہ اپنی گفتگو جاری رکھنے کی تمنا کرے گا۔ یہی حال حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ہوا، جس کا ذکر اللہ تعالیٰ سورۂ طٰہٰ میں فرماتا ہے:

‘‘موسٰی ؑ آگ لینے کے لیے پہنچے تو ندا آئی: اے موسٰیؑ ! میں ہی تیرا رب ہوں’’۔ (طٰہٰ:۱۲)

اس طرح گفتگو شروع ہوئی۔ تھوڑی دیر بعد اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا: ‘‘اور اے موسٰیؑ ! یہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے؟ موسٰی ؑنے جواب دیا: یہ میری لاٹھی ہے، اس پر ٹیک لگا کر چلتا ہوں، اس سے اپنی بکریوں کے لیے پتے جھاڑتا ہوں اور بھی بہت سے کام ہیں جو اس سے لیتا ہوں’’۔ (طٰہٰ: ۱۷-۱۸)

نام یاد رکھنے کا فن:

مولانا عبیداللہ سندھیؒ ایک بار لاہور تشریف لے جا رہے تھے۔ مولانا مودودیؒ کو جب مولانا سندھیؒ کی آمد کی اطلاع ملی تو ملاقات کرنے کی غرض سے لاہور کینٹ اسٹیشن پر پہنچے۔ آپ لکھتے ہیں کہ مولانا سندھیؒ سے میری پہلے کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی مگر ریل جب کینٹ اسٹیشن پر رُکی تو گھوم پھر کر اِدھر اُدھر دیکھا۔ مولانا ایک ڈبے سے اُترے۔ سیدھے میری طرف آئے اور ہاتھ پکڑ کر کہا: ‘‘آپ سید ابوالاعلیٰ صاحب ہیں؟’’

میں نے ان سے پوچھا: آپ نے مجھے کیسے پہچانا؟ فرمانے لگے: ‘‘میں نے آپ کی تحریروں سے آپ کا حلیہ ایسا ہی پایا۔ اس لیے آپ کو فوراً پہچان گیا’’۔

تحریکِ خلافت کے مصنف قاضی عدیل عباسی لکھتے ہیں کہ مولانا آزاد سے میری پہلی ملاقات لاہور میں ہوئی۔ دوسری ملاقات پانچ سال بعد دلّی اسٹیشن پر ہوئی تو مولانا نے فوراً کہا: ‘‘کہیے عدیل صاحب مزاج تو اچھے ہیں’’۔

لوگوں کے نام یاد رکھنے سے کئی فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ تعلقات میں اضافہ ہوتا ہے، چاہت و محبت بڑھتی ہے حتیٰ کہ تجارت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ نام یاد رکھنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ آدمی سے ملاقات کے بعد اس کا نام اور اس کی شکل کو کئی بار تصور میں لائیں یہاں تک کہ وہ ذہن نشین ہوجائے۔

نرم انداز سے گفتگو:

فرعون جیسے ہٹ دھرم اور سرکش آدمی کے پاس اپنے نبی حضرت موسٰی ؑکو بھیجتے وقت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ‘‘جاؤ تم دونوں (موسیٰ و ہارون) فرعون کے پاس کہ وہ سرکش ہوگیا ہے اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے’’۔ (طٰہٰ ۴۳- ۴۴)

نرم و شیریں کلام کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مخاطب (سننے والے) کے دل میں متکلم (بولنے والے) کی باتوں پر غور کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے جس کی وجہ سے دھیرے دھیرے نفرتیں اور دُوریاں ختم ہوجاتی ہیں اور محبت و بھائی چارگی کا جذبہ اُبھرتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ سورۂ مومنون میں فرماتا ہے: ‘‘برائی کو اس طریقے سے دفع کرو جو بہترین ہو’’۔ (مومنون: ۹۶)

مخاطب کی خوبیوں کی تعریف

متکلم جب مخاطب کی تعریف کرتا ہے تو وہ خوش ہوجاتا ہے۔ مخاطب کی خوشی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ضرور متکلم کی باتوں پر غور کرے گا۔

ہجرت سے تین سال پہلے مدینہ کا ایک شخص حج کے لیے مکہ گیا۔ اس کا نام صوید بن صامت تھا۔ اللہ کے رسولؐ کی باتیں سن کر اس نے کہا: آپ جو باتیں پیش کر رہے ہیں، ویسی ہی ایک چیز میرے پاس بھی ہے۔ آپؐ نے پوچھا: وہ کیا ہے؟ اس نے کہا: مجلۂ لقمان۔ پھر آپؐ کی فرمائش پر اس نے مجلہ (رسالہ/ کتاب) کا کچھ حصہ آپؐ کو سنایا۔ آپؐ نے فرمایا: یہ بہت اچھا کلام ہے مگر میرے پاس ایک اور کلام اس سے بھی بہتر ہے۔ اس کے بعد آپؐ نے اسے قرآن سنایا اور اس نے اعتراف کیا کہ یہ بلاشبہ مجلہ لقمان سے بہتر ہے’’۔ (سیرت ابن ہشام)

حوصلہ افزائی:

گفتگو یا تقریر سے ایسا محسوس ہو کہ مخاطب آگے بڑھنے میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہا ہے تو ضروری ہے کہ اس کی ہمت افزائی کی جائے تاکہ وہ آگے بڑھ سکے۔ بالخصوص بچوں اور کند ذہن لوگوں کی حوصلہ افزائی بہت ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے پاس جانے کا حکم دیا تو حضرت موسیٰ و حضرت ہارون علیہما السلام دونوں نے عرض کیا: ‘‘پروردگار! ہمیں اندیشہ ہے کہ وہ ہم پر زیادتی کرے گا یا پِل پڑے گا (یعنی ہم پر حملہ کرے گا)۔ (اللہ تعالیٰ نے فرمایا:) ڈرو مت، میں تمہارے ساتھ ہوں، سب کچھ سن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں’’۔ (طٰہٰ: ۴۵-۴۶)

ہچکچاہٹ:

بعض موقع پر متکلم کی کوئی بات واضح نہیں ہوتی۔ عام لوگ بالخصوص طلبہ و طالبات ہچکچاہٹ کی وجہ سے اپنے معلم سے وضاحت طلب نہیں کرتے۔ یہ ہچکچاہٹ علم حاصل کرنے یا اپنی بات پیش کرنے میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ لہٰذا واقفیت حاصل کرنے کے لیے سوال کرنے سے نہیں گھبرانا چاہیے۔

ناواقفیت کی دواسوال کرنا:

حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ وہ صحابہ کرام کی ایک جماعت کے ساتھ سفر میں نکلے۔ ان میں سے ایک شخص کے سر پر پتھر لگا جس سے سر زخمی ہو گیا۔ پھر اس شخص کو غسل کی حاجت ہوگئی۔ اس نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ کیا تیمم کرنا جائز ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ تمہیں تیمم کرنے کی گنجائش نہیں۔ چنانچہ اس نے غسل کیا اور اس کے نتیجہ میں اس کا انتقال ہوگیا۔ جب وہ لوگ لوٹ کر رسولؐ اللہ کے پاس حاضر ہوئے اور آپؐ کو واقعہ بتایا تو رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: ‘‘ان لوگوں نے اسے مار ڈالا۔ اللہ انہیں مار ڈالے، جب ان لوگوں کو معلوم نہیں تھا تو پوچھ کیوں نہیں لیا، ناواقفیت کی دوا سوال کرنا ہے’’۔ (ابوداؤد)

ناواقف باتوں کا علم حاصل کرنے کے تعلق سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ‘‘اہلِ ذکر سے پوچھ لو، اگر تم خود نہیں جانتے’’۔ (النحل:۴۳)

کثرت سے سوالات کرنا منع ہے:

مولانا منظور نعمانیؒ ایک حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ نئے نئے سوالات کرنا انسان کی فطرت ہے لیکن اس عادت کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کھوج کرید کرنے کا شوق زیادہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ شوق جتنا زیادہ پیدا ہوتا ہے اتنا ہی عمل کا جذبہ کم ہوجاتا ہے۔ پیغمبروں سے زیادہ سوالات کرنے میں ایک خرابی یہ بھی ہوتی ہے کہ پیغمبروں کی جانب سے جواب ملنے کے بعد اُمت کی پابندیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ غرض ان وجوہ سے غیرضروری سوالات کرنے کی صحابہؓ کو بھی ممانعت کردی گئی تھی جس کے بعد وہ بہت کم سوال کرتے تھے۔ (معارف الحدیث:، ج۱، ص ۷۶)

بنی اسرائیل پڑوسی قوموں کی گاؤپرستی سے متاثر ہوچکے تھے اور ان کے دلوں میں گائے کی عظمت اور اس کی پرستش کا جذبہ پیدا ہوچکا تھا حالانکہ وہ مسلمان تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں آزمانے کے لیے گائے کی قربانی کا حکم دیا۔ بنی اسرائیل کے لوگ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق گائے قربان کرنے کے بجائے کثرت سے سوالات کرنے لگے۔

حضرت موسٰیؑ سے ان لوگوں نے پہلے یہ پوچھا کہ اس گائے کی عمر کیا ہو؟ پھر سوال کیا کہ اس کا رنگ کیا ہو؟ پھر بولے: موسٰی ؑ اپنے رب سے پوچھ کر صاف صاف بتاؤ کہ کیسی گائے اسے مطلوب ہے؟ یہ لوگ جیسے جیسے سوالات کرتے گئے ویسے ویسے مشکل میں پھنستے گئے۔ آخرکار اللہ تعالیٰ نے اس سنہرے رنگ کی گائے کی طرف اشارہ کردیا جسے اس زمانے میں پوجا کرنے کے لیے مختص کیا جاتا تھا۔

غیرضروری سوالات کی ممانعت:

۲۵۰ء میں حضرت عیسٰی ؑکے پیروؤں پر لوگ سخت ظلم ڈھانے لگے۔ اس وقت کچھ نوجوان اپنا ایمان بچانے کے لیے اپنا گاؤں افسس (Ehphesus) چھوڑ کر ایک غار میں جابیٹھے۔ پھر سوگئے۔ ۴۴۶ء میں یہ لوگ بیدارہوئے۔ کھانے پینے کاسامان خریدنے کے لیے ایک آدمی کو شہر بھیجا مگر وہ پکڑا گیا۔ یہ لوگ اصحابِ کہف کے نام سے مشہور ہوئے۔ ان کے ساتھ ان کا ایک کتا تھا جو غار کے دہانے پر ہاتھ پھیلائے بیٹھا تھا۔

اللہ سورۃ الکہف میں فرماتا ہے: ‘‘کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا اور کچھ دوسرے کہہ دیں گے کہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا۔ یہ سب بے تکی ہانکتے ہیں۔ کچھ اور لوگ کہتے ہیں کہ سات تھے اور آٹھواں اُن کا کتا تھا۔ کہو میرا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنے تھے۔ کم ہی لوگ ان کی صحیح تعداد جانتے ہیں۔ پس تم سرسری بات سے بڑھ کر اُن کی تعداد کے معاملے میں لوگوں سے بحث نہ کرو اور نہ ہی ان کے متعلق کسی سے کچھ پوچھو’’۔ (الکہف:۲۲)

اللہ تعالیٰ کے لیے یہ بڑا کام نہیں کہ کسی کو دو سو سال سلائے اور پھر اُٹھا بٹھائے۔ اسی طرح اللہ قیامت کے دن سب لوگوں کو زندہ کرے گا۔ یہ واقعہ دراصل آخرت کا یقین مضبوط کرتا ہے۔ جو لوگ مقصد کو چھوڑ کر اصحابِ کہف کی تعداد، ان کے نام اور ان کے کتے کا رنگ وغیرہ پر بحث کرتے ہیں، وہ غیرضروری سوالات کرتے ہیں اور اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔ ایسے لوگ وقت کا صحیح استعمال نہیں جانتے اور وقت گزرنے کے بعد پچھتاتے ہیں۔

لوگوں کی معلومات پر سوالات کرنا:

اللہ کے رسولؐ کے تعلق سے حضرت خارجہ بن زید بن ثابتؓ کہتے ہیں کہ: ‘‘آپؐ کی عادتِ شریفہ یہ تھی کہ جب ہم دنیا کا ذکر کرتے تو آپؐ بھی ہمارے ساتھ دنیا کا ذکر فرماتے اور جب ہم آخرت کا ذکر کرتے تو آپؐ بھی ہمارے ساتھ آخرت کا تذکرہ فرماتے اور جب ہم کھانے پینے کا ذکر کرتے تو آپؐ بھی ہمارے ساتھ اس کا ذکر فرماتے’’۔ (ترمذی)

علامہ اقبال’، مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ اور مولانا ابوالکلام آزادؒ جیسے لوگوں کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ یہ لوگ جس قسم کے آدمی سے ملتے، اُس سے اُس کی معلومات پر سوالات کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے اُن کی محفلوں میں قرآن، حدیث، تاریخ اور ادب سے لے کر کھانے کی قسموں اور پکوان کی ترکیبوں پر بھی گفتگو ہوتی تھی۔ ڈاکٹروں اور حکیموں سے ملاقات ہوتی تو علم طب اور صحت کی باتیں ہوتی اور کاروباری لوگوں سے کاروباری مسائل پر گفتگو کی جاتی تھی۔

اپنی باتیں سنانا:

بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں خاص و عام سب کو سنانا نقصان دہ عمل ثابت ہوتا ہے اور یہ نقصان خود بیان کرنے والے کو بھگتنا پڑتا ہے۔ ممکن ہے کہ اس سے دوسروں کو بھی نقصان پہنچے۔ لہٰذا جو بات جس کو سنانا ضروری ہو، صرف اسی کو سنانی چاہیے۔

حضرت یوسفؑ نے جب اپنے والد سے کہا: اباجان! میں نے خواب دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے ہیں اور سورج اور چاند ہیں اور وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔ جواب میں ان کے والد نے کہا: بیٹا! اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ سنانا، ورنہ وہ تیرے درپے آزار ہوجائیں گے۔ (یعنی تکلیف پہنچانے کی کوشش کریں گے) حقیقت یہ ہے کہ شیطان آدمی کا کھلا دشمن ہے’’۔ (یوسف:۴-۵)

حضرت حذیفہ بن الیمانؓ وہ سعادت مند صحابی ہیں جنہیں اللہ کے رسولؐ نے تمام منافقوں کے ناموں سے آگاہ کردیا تھا تاکہ وہ اُن کی حرکات و سکنات پر نظر رکھیں۔ یہ ایک ایسا راز تھا جسے حضرت حذیفہؓ کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا حتیٰ کہ خلفائے راشدینؓ بھی منافقوں کے متعلق ہمیشہ اُن کی طرف رجوع کرتے تھے۔ اسی وجہ سے آپؓ ‘‘رازدارِ رسولؐ ’’ کے لقب سے مشہور ہوئے۔

ایک بار حضرت عمرؓ نے حضرت حذیفہؓ سے دریافت کیا کہ ‘‘میرے گورنروں میں سے کوئی منافق ہے؟’’ حضرت حذیفہؓ نے کہا: ‘‘ہاں ایک ہے’’۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا: ‘‘کون؟’’ حضرت حذیفہؓ نے اس کا نام نہیں بتایا اس لیے کہ وہ راز تھا۔

حضرت عمرؓ نے اپنی فراست سے اس کو پہچان لیا اور پھر معزول کردیا۔

بے خوف گفتگو

گفتگو کے وقت مخاطب کی عمر اور مرتبے کا بھی لحاظ رکھنا چاہیے مگر اُن سے مرعوب یا خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے۔ ایک جنگ میں چالیس پچاس ہزار فوجیوں کا لشکر ہونے کے باوجود رومی سپہ سالار نے مسلمانوں سے صلح کی خواہش ظاہر کی۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے حضرت معاذ بن جبلؓ کو سفیر بنا کر بھیجا۔ رومیوں نے اپنے سازوسامان اور فوج کی کثرت کا ذکر کر کے حضرت معاذؓ کو مرعوب کرنا چاہا مگر حضرت معاذؓ نے جواب دیا: ‘‘اگر تم اسلام قبول کرلو توہمارے بھائی ہو۔ یہ منظور نہیں تو جزیہ دو، ہم تمہاری حفاظت کے ذمہ دار ہوں گے۔ اگر یہ بھی منظور نہیں تو پھر ہمارے تمہارے درمیان تلوار فیصلہ کرے گی۔ تم ہمیں تعداد سے ڈراتے ہو۔ اگر تمہاری تعداد آسمان کے ستاروں کے برابر بھی ہو تو کچھ پروا نہیں۔ ہمارا اللہ فرماتا ہے کہ کبھی تھوڑے بھی بہتوں پر غالب آجایا کرتے ہیں۔

ایک اور جنگ میں رومی فوج کے سپہ سالار ‘‘باہان’’ نے صلح کا پیغام بھیجا۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے حضرت خالدؓ بن ولید کو سفیر بناکر باہان کے پاس بھیجا۔ گفتگو کے دوران باہان نے کہا: ‘‘تم جیسی جاہل وحشی اور بے سروسامان قحط زدہ قوم اس ملک کو کیا فتح کرے گی۔ پھر اس نے واپس چلے جانے پر سپہ سالار سے لے کر سپاہی تک ہر ایک کو بطور تحفہ چند دینار دینے کا وعدہ کیا۔

حضرت خالدؓ نے ایامِ جاہلیت کی ساری برائیوں کا اعتراف کرتے ہوئے فرمایا: ‘‘اللہ نے ہم پر رحم کیا اور ایک پیغمبر بھیجا جو خود ہماری قوم سے تھا۔ پھر آپؐ کی حسنات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: اس پیغمبرؐ نے ہم کو یہ بھی حکم دیا کہ ہم اس کے لائے ہوئے دین کو دنیا میں پھیلائیں۔ جس نے اس دین کو مان لیا وہ ہمارا بھائی ہے۔ جو دین میں داخل نہیں ہوا مگر جزیہ دینا قبول کیا، ہم اس کی حفاظت کے ضامن ہیں، جس کو دونوں (باتوں) سے انکار ہو تو پھر وہ سمجھ لے کہ اس کا واسطہ ایسے لوگوں سے پڑا ہے جو موت کو اسی طرح عزیز رکھتے ہیں جیسے زندگی کو’’۔

ایک اور مرتبہ حضرت ابوعبیدہؓ کے حکم سے حضرت خالدؓ بن ولید ‘‘قنسرین’’ کی فتح کے لیے نکلے۔ اہلِ قنسرین چند دن قلعہ بند ہوکر مدافعت کرتے رہے تو حضرت خالد بن ولیدؓ نے انہیں پیغام بھیجا: ‘‘اگر تم بادلوں میں بھی جا چھپو گے،جب بھی اللہ تعالیٰ ہمیں اُٹھا کر تمہارے پاس پہنچا دے گا یا تمہیں ہمارے پاس اُتار دے گا’’۔

احساسِ برتری:

بعض لوگ گفتگو کے دوران میں اپنے آپ کو دوسروں سے برتر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو شیطان اور شیطان کی پیروی کرنے والوں کی تباہی کا سبب بنتی ہے۔ حضرت آدم ؑ کے تعلق سے شیطان کہتا ہے: ‘‘کیا میں اس کو سجدہ کروں جسے تو نے مٹی بنایا ہے’’۔ (بنی اسرائیل: ۶۱) اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابلیس مٹی سے بنا ہوا نہیں ہے۔ اس وجہ سے وہ احساس برتری میں مبتلا ہے اور اسی لیے وہ حضرت آدمؑ کو ادنیٰ سمجھتا ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ملکِ مصر میں جو فرعون تھا، وہ بھی اسی مرض میں مبتلا تھا، اس کی وجہ سے وہ انا ربکم الاعلٰی (النازعات:۲۴) ‘‘میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں’’ کہا کرتا تھا۔

احساسِ برتری کے اظہار کے لیے جو لفظ سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے وہ ‘‘میں’’ ہے۔ لہٰذا ‘‘میں’’ اور اس جیسے الفاظ بولنے سے گریز کریں۔ بعض لوگ اپنی برتری دکھانے اور لوگوں کو مرعوب کرنے کے لیے دولت خوب خرچ کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک آدمی کے تعلق سے اللہ تعالیٰ سورۃ بلد میں فرماتا ہے: ‘‘کہتاہے میں نے ڈھیروں مال اُڑا دیا’’(آیت:۶)۔ یہ مال جو اڑایا گیا ہے وہ کسی نیک کام میں نہیں بلکہ اپنی دولت مندی اور اپنی بڑائی کے اظہار میں خرچ کیا گیا۔

‘‘برتری’’ نہ دولت سے خریدی جاتی ہے اور نہ کسی اور ذریعے سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہ مفت ملتی ہے مگر ان لوگوں کو جو اس کے قابل ہوتے ہیں۔ اللہ کے رسولؐ سارے انسانوں سے برتر ہونے کے باوجود اپنے آپ کو برتر نہیں سمجھے تھے۔ آپؐ کی خاکساری و انکساری کے تعلق سے حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ ‘‘مدینہ والوں کی لونڈیوں میں سے ایک لونڈی تھی، (اسے آپؐ سے اپنی کسی پریشانی کا ذکر کرنا ہوتا تو) وہ رسولؐ اللہ کا ہاتھ پکڑتی اور جہاں چاہتی آپؐ کو لے جاتی’’۔ (بخاری)

حضرت انسؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ آپؐ بیمار کی عیادت فرماتے، جنازے کے ساتھ جاتے، مملوک و غلام کی دعوت قبول کرلیتے اور گدھے پر سوار ہولیتے۔ (بیہقی)

احساسِ کمتری:

کوئی آدمی بدشکل ہوتا ہے، کوئی کسی پیدائشی مرض میں مبتلا ہوتا ہے۔ کوئی اپنی غربت کی وجہ سے پریشان ہوتا ہے۔ کوئی اپنے گھر یا سماج کے کلمات کو ذہن میں پیوست کرلیتا ہے اور اپنی کمزوریوں پر بہت زیادہ توجہ دیتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو دوسروں سے کمتر سمجھنے لگتا ہے۔ ایسے شخص کو اپنی خوبیوں کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ وہ ہمیشہ دوسروں کی دولت، شہرت اور صلاحیت حتیٰ کہ صالحیت سے بھی جلنے لگتا ہے۔ ایسا شخص تنہائی پسند کرنے لگتا ہے یا لوگوں سے مایوسی، نفرت اور حسدوجلن کا اظہار کرتا ہے۔

ابوجہل ایک مرتبہ اپنی اسلام دشمنی کی حقیقت یوں بیان کرتا ہے کہ ‘‘ہم اور عبدِمناف (عبد المطلب بن ہاشم بن عبد ِ مناف) میں مقابلہ تھا کہ کون شرف میں بڑھ کر ہے۔ انھوں نے بھی کھانے کھلائے اور ہم نے بھی۔ انھوں نے بھی ذمہ داریوں کے بار اُٹھاے اور ہم نے بھی اُٹھائے۔ انھوں نے بھی مال دیے اور ہم نے بھی دیے۔ یہاں تک کہ ہم اور وہ برابر ہوگئے۔ پھر کہنے لگے کہ ہم میں ایک نبی ہے جس کے پاس آسمان سے وحی آتی ہے۔ اب یہ ہم کہاں سے لائیں۔ خدا کی قسم! ہم اسے نہیں مانیں گے اور نہ اس کی تصدیق کریں گے۔ (سیرت ابن ہشام، ج ۱،ص ۳۳۷- ۳۳۸)

ابوجہل نے احساسِ کمتری کی وجہ سے نہ صرف اپنی دنیا و آخرت تباہ کرلی بلکہ دوسروں کی دنیا و آخرت بگاڑنے والا خطرناک مجرم بن گیا۔ اس مصیبت یعنی احساسِ کمتری سے نجات کا طریقہ یہ ہے کہ اپنی خوبیوں اور خامیوں کو پہچانیں اور خامیوں کو دُور کریں۔ دوسروں کے عیوب ٹٹولنے کے بجائے ان کی خوبیاں تلاش کریں اور انہیں اپنائیں۔ بڑے لوگوں سے تعلقات بڑھائیں اور گفتگو کے دوران مخاطب کے دل میں نفرت و کراہت پیدا کرنے والے کلمات سے اپنی زبان کو بچائیں۔

جوشیلے کلمات:

گفتگو کے دوران کبھی متکلم جوش میں آجاتا ہے یا متکلم کے سخت کلمات کی وجہ سے مخاطب طیش میں آجاتا ہے۔ کچھ لوگ شرارتاً فساد بھڑکانے کی غرض سے ایسے جملے بولتے ہیں اور بعض اپنی جہالت کی وجہ سے۔

۱- اللہ کے حکم سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو اسلام کی دعوت دی تو گفتگو کے دوران فرعون نے یہ سوال کیا: ‘‘اور پہلے جو نسلیں گزر چکی ہیں، ان کی پھر کیا حالت تھی’’۔ (طٰہٰ:۵۱)۔ مطلب یہ کہ کیا ہمارے باپ دادا گمراہ تھے؟ کیا وہ سب احمق تھے؟ اور کیا وہ سب عذاب کے مستحق تھے؟ ممکن ہے کہ یہ فرعون نے اہلِ دربار اور عام لوگوں کے دلوں میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعوتِ اسلام کے خلاف تعصب بھڑکانے کے لیے کہا ہو۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اس کا علم میرے رب کے پاس ایک نوشتے (دستاویز) میں محفوظ ہے۔ میرا رب نہ چوکتا ہے نہ بھولتا ہے۔ (طٰہٰ: ۵۲) اس وقت اگر موسیٰ علیہ السلام یہ کہہ دیتے کہ ہاں وہ سب جاہل اور گمراہ تھے تو فساد بھڑک اُٹھتا اور فرعون اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتا۔ لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بڑا حکیمانہ جواب دیا کہ ان کا حال اللہ بہتر جانتا ہے۔

۲- حضرت سلیمان علیہ السلام کے خط کے تعلق سے ملکۂ سبا نے اپنے فوجیوں سے رائے طلب کی تو فوجیوں نے جوشیلا جواب دیا: ‘‘وہ بولے کہ ہم طاقت ور اور سخت جنگ جُو ہیں……’’ (النحل:۳۳) ملکہ اپنی ہوش مندی اور ہوشیاری کا ثبوت دیتی ہے اور فوجیوں کے جواب کو رد کردیتی ہے۔ اس نے کہا کہ ‘‘بادشاہ جب کسی شہر میں داخل ہوتے ہیں تو اس کو تباہ کردیتے ہیں اور وہاں کے عزت والوں کو ذلیل کردیتے ہیں’’۔ (النحل:۳۴)

ان شاء اللہ کہو:

گفتگو کے دوران حسب ِ موقع ان شاء اللہ کہنا چاہیے کیونکہ ہر کام اسی وقت ہوتا ہے جب اللہ چاہتا ہے۔ اسلامی تاریخ کا ایک واقعہ یہ ہے کہ یہود کے اُکسانے پر مشرکینِ مکہ نے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو آزمانے کے لیے ‘‘اصحابِ کہف’’ کے بارے میں سوال کیا۔ تفسیرعثمانی میں ہے کہ حضرت محمدؐ نے حضرت جبرئیل ؑکے ذریعے اللہ تعالیٰ سے اصحابِ کہف کی حقیقت معلوم کرلینے کے ارادے سے مشرکین کو اگلے دن جواب دینے کا وعدہ کردیا۔ پندرہ دن تک حضرت جبرئیل ؑ نہیں آئے جس کی وجہ سے مشرکین ہنسی مذاق کرنے لگے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا یہ حکم نازل ہوا: ‘‘اور کسی چیز کے بارے میں بھی یہ نہ کہا کرو کہ میں کل یہ کام کروں گا ، (تم کچھ نہیں کرسکتے) الاّ یہ کہ اللہ چاہے۔ اگر بھولے سے ایسی بات زبان سے نکل جائے تو فوراً اپنے رب کو یاد کرو……’’ (الکہف:۲۳-۲۴)

اللہ تعالیٰ سورۂ تکویر میں فرماتا ہے: ‘‘اور تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا، جب تک اللہ رب العالمین نہ چاہے’’۔ (التکویر:۲۹)

وعدہ خلافی مت کرو:

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ‘‘اور عہد کی پابندی کرو بے شک عہد کے بارے میں تم کو جواب دہی کرنی ہوگی’’۔ (بنی اسرائیل:۲۴) تفسیر عثمانی میں ہے کہ عہد میں سب عہد داخل ہیں، خواہ اللہ سے کیے جائیں یا بندوں سے بشرطیکہ غیرمشروع (غیراسلامی نہ ہوں)۔(ص: ۳۷۹، ص:۲)

اسلامی حکومت کے حکام و عمال غیرمسلموں سے اس معاہدے کے تحت جزیہ وصول کرتے ہیں کہ حکومت انھیں اپنی حفاظت میں رکھے گی۔ واقعہ یہ ہوا کہ رومی فوجیں اسلامی فوجوں کے ہاتھ شکست پر شکست کھانے لگیں تو قیصرِروم نے مسلمانوں کو ملکِ شام سے باہر کرنے کے لیے اپنے تمام مقبوضات کی فوجوں کو جو دو لاکھ کے قریب قریب تھیں، انطاکیہ میں جمع کیا۔ اسلامی لشکر کے سالاروں نے مسلم فوجیوں کو مقبوضہ علاقوں سے واپس بلاکر مقابلے کے لیے فوج اکٹھا کرلی۔ حفاظت کرنے والی فوج جس علاقہ میں نہ ہو، اس علاقہ کے لوگوں کا تحفظ کیسے ہوسکتا ہے؟ لہٰذا دمشق اور حمص وغیرہ شہروں کے غیرمسلم بھائیوں سے یہ کہہ کر جزیہ کی رقم لوٹا دی گئی کہ سرِدست فوج باہر جارہی ہے، اس لیے حفاظت ممکن نہیں۔

جزیہ واپس دے کر مسلمانوں نے اپنے وعدہ کی پابندی کا جو مظاہرہ کیا، اس سے وہاں کے عیسائی اور یہودی عوام بہت متاثر ہوئے۔ وہ بہت دکھے ہوئے دل سے دعائیں دینے لگے کہ خدا تم کو (اسلامی فوجوں کو) جلد واپس لائے۔

زبانِ حال:

بولنے اور سننے کے عمل میں صرف زبان اور کان ہی حصہ نہیں لیتے بلکہ جسم کے مختلف اعضا بھی شریک ہوتے ہیں۔ زبان جس سے ہم گفتگو کرتے ہیں اس کو زبانِ قال کہتے ہیں اور اعضاء جسم کی حرکتوں کو زبانِ حال (body language) کہا جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے جس طرح انسان کو زبانِ قال سے گفتگو کرنے کی قدرت عطا کی ہے، اسی طرح زبانِ حال سے گفتگو کرنے کا طریقہ بھی فطرت میں رکھ دیا ہے۔ شیرخوار بچہ اپنی ماں کو دیکھتا ہے تو مسکراتا ہے اور دونوں ہاتھ اپنی ماں کی طرف بڑھا دیتا ہے اور تیزی سے پیر پٹختا ہے۔ ایسی حرکت سے نہ صرف وہ اپنی محبت و خوشی کا اظہار کرتا ہے بلکہ گود میں لینے کی التجا بھی کرتا ہے۔ زبانِ حال سے بچہ جو گفتگو کرتا ہے اس میں اتنی زبردست کشش ہوتی ہے کہ ماں اسے گود میں لے لیتی ہے، بوسہ دیتی ہے اور اسے سینے سے لگاکر اس کی محبت کا جواب زبانِ قال اور زبانِ حال دونوں طریقوں سے دیتی ہے۔

زبانِ حال سے گفتگو انسان صرف بچپن ہی میں نہیں بلکہ اپنی موت تک کرتا ہے۔ زبانِ قال اور زبانِ حال میں فرق یہ ہے کہ زبانِ قال سے آدمی وہی باتیں کہتا ہے جو وہ دوسروں کو سنانا چاہتا ہے اور وہ باتیں نہیں کہتا جنہیں وہ چھپانا چاہتا ہے۔ زبانِ قال کے برعکس اعضائے بدن (زبانِ حال سے) کچھ وہ باتیں بھی بتا دیتے ہیں، جنھیں آدمی ظاہر کرنا نہیں چاہتا۔ آدمی کا حلیہ، اس کا چہرہ، اس کی آنکھیں، اس کے ہاتھ پاؤں، حتیٰ کہ اس کی جلد، بال اور ناخن سے اس کی حالت و ضرورت، اس کی تمنا، اس کا ارادہ اور اس کے اخلاق کا پتالگانا مشکل بات نہیں۔

یہ اعضائے بدن بے زبان ہونے کی وجہ سے آج اشاروں سے گفتگو کرتے ہیں کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انھیں بولنے کا موقع عطا کرے گا اور زبانِ قال پر تالا ڈال دے گا۔ لہٰذا ذیل میں زبانِ حال سے تعلق رکھنے والی چند باتیں پیش کی گئی ہیں۔

شیطان کا حلیہ:

اللہ کے رسولؐ ایک مرتبہ مسجد میں تشریف فرما تھے۔ اس وقت ایک آدمی مسجد میں آیا، اس کے سر اور داڑھی کے بال بکھرے ہوئے تھے، آپؐ نے اس کو اشارے سے سر اور داڑھی کے بالوں کو درست کرنے کا حکم دیا۔ اس نے بال درست کرلیے اور لوٹ کر آیا تو آپؐ نے فرمایا: کیا تمہارا سر اور داڑھی کے بالوں کو درست کر کے آنا اس سے بہتر نہیں ہے کہ تم میں سے کوئی سر کے بال بکھرے ہوئے ایسی وحشیانہ صورت میں آئے کہ گویا وہ شیطان ہے۔ (مؤطا)

اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شیطان کا حلیہ ڈراؤنا ہوتا ہے۔ لہٰذا ایسی شکل و صورت اختیار کرنے سے اللہ کے رسولؐ نے مسلمانوں کو منع فرمایا ہے۔

چہرہ:

آدمی جس وقت خوش ہوتا ہے اس وقت اس کے چہرے پر رونق ہوتی ہے۔ جس وقت کسی نقصان یا کسی حادثے کی وجہ سے فکرمند ہوتا ہے، اس وقت اس کا چہرہ مرجھایا ہوا ہوتا ہے۔ بہرحال آدمی اپنی حالت بیان کرے یا نہ کرے چہرہ اس کی حالت بیان کردیتا ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں چہروں کی کیفیت کا ذکر کرتا ہے: ‘‘بے شک نیک لوگ بڑے مزے میں ہوں گے، اُونچی مسندوں پر بیٹھے نظارے کر رہے ہوں گے۔ ان کے چہروں پر تم خوش حالی کی رونق محسوس کرو گے’’۔ (مطففین:۲۲-۲۴)

‘‘کچھ چہرے اس روز بارونق ہوں گے، اپنی کارگزاری پر خوش ہوں گے’’۔ (الغاشیہ: ۸-۹)

‘‘اور کچھ چہرے اداس ہوں گے اور سمجھ رہے ہوں گے کہ ان کے ساتھ کمر توڑ برتاؤ ہونے والا ہے’’۔ (القیامہ: ۲۴-۲۵)

‘‘کچھ چہرے اس روز (قیامت کے روز) خوف زدہ ہوں گے، سخت مشقت کر رہے ہوں گے، تھکے جاتے ہوں گے، شدید آگ میں جھلس رہے ہوں گے۔ (الغاشیہ: ۲-۳)

سورۂ رحمن میں فرماتا ہے: ‘‘مجرم وہاں اپنے چہروں سے پہچان لیے جائیں گے اور انہیں پیشانی کے بال اور پاؤں سے پکڑ پکڑ کر گھسیٹا جائے گا’’۔ (الرحمن: ۴۱)

مجرموں کے اُترے ہوئے چہرے اور ان کی خوف زدہ آنکھیں اور ان کی گھبرائی ہوئی صورتیں اور ان کے چھوٹتے ہوئے پسینے خود ہی یہ بتانے کے لیے کافی ہوں گے کہ وہ مجرم ہیں۔

منہ موڑنا:

شیرخوار بچہ جب شہد یا کوئی میٹھی چیز چکھتا ہے تو اپنی ننھی سی زبان ہونٹوں سے باہر نکال کر لذت کا اظہار کرتا ہے۔ اور جب اسے کوئی کڑوی دوائی پلائی جاتی ہے تو وہ آنکھیں بند کرلیتا ہے اور اپنا چہرہ موڑ لیتا ہے یعنی اپنی ناپسندیدگی ظاہر کرتا ہے۔ منہ موڑ کر پسندیدگی کا اظہار نہ صرف بچے بلکہ بڑی عمر کے لوگ بھی کرتے ہیں۔

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ (میری بہن) اسماء بنت ابوبکرؓ رسولؐ اللہ کے پاس آئیں اور وہ باریک کپڑے پہنے ہوئے تھیں تو آپؐ نے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا اور کہا: اے اسماء! عورت جب بالغ ہوجائے تو درست نہیں کہ اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر آئے سوائے چہرے اور ہاتھوں کے’’۔ (ابوداؤد)

منہ بنانا، گال پھلانا:

ولید بن مغیرہ (حضرت خالدؓ بن ولید کے باپ) اور دیگر سردارانِ قریش نے حضرت محمدؐ کو بدنام کرنے اور لوگوں کے دلوں میں اسلام سے نفرت پیدا کرنے کے لیے ایک میٹنگ منعقد کی۔ اس نشست میں لوگوں نے اپنی اپنی رائے پیش کی۔ ولید بن مغیرہ نے ان سارے الزامات کو رد کردیا، پھر بہت سوچ کر اس نے آپؐ پر ‘‘جادوگر’’ کا الزام لگایا۔ لوگوں نے اس کے الزام کو پسند کرلیا۔ اس وقت ولید بن مغیرہ کی جو کیفیت تھی، اس کو قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ بیان کرتا ہے:

‘‘خدا کی مار اس پر کیسی بات بنانے کی کوشش کی۔ پھر (لوگوں کی طرف) دیکھا۔ پھر پیشانی سیکڑی اور منہ بنایا۔ پھر پلٹا اور تکبر میں پڑگیا۔ آخرکار بولا کہ یہ کچھ نہیں ہے مگر ایک جادو جو پہلے سے چلا آرہا ہے۔ یہ تو ایک انسانی کلام ہے’’۔ (المدثر: ۲۰-۲۵)

پیشانی پر سلوٹیں ڈالنا:

آدمی پوری توجہ کے ساتھ کسی کام میں لگا ہو یا کسی اہم موضوع پر کسی سے گفتگو میں مصروف ہو، اس وقت توجہ بھٹکانے والا کوئی واقعہ پیش آجائے تو آدمی پیشانی پر سلوٹیں ڈال کر یا منہ بناکر افسوس کا اظہار کرتا ہے اور بے رُخی برتتا ہے۔

‘‘مکی دور میں ایک مرتبہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم عتبہ، شیبہ اور ابوجہل جیسے اسلام کے دشمنوں کو اسلام قبول کرنے کی ترغیب دے رہے تھے۔ اس وقت ابن اُم مکتوم نامی ایک نابینا آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اللہ کے رسولؐ کو اس وقت ان کی مداخلت ناگوار ہوئی اور آپؐ نے ان سے بے رُخی برتی۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سورۂ عبس نازل ہوئی۔ ‘‘ترش رَو ہوا اور بے رُخی برتی اس بات پر کہ وہ اندھا اس کے پاس آگیا’’۔ (عبس: ۱-۲)

اللہ کے رسولؐ فرماتے ہیں: ‘‘یہ بھی نیکی ہے کہ تم اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملو’’۔ (حدیث)

آنکھ:

دُور دراز علاقے میں رہنے والا آدمی اپنے گھر والوں کا خط پاکر یا فون کے ذریعے گھر والوں کی آواز سن کر خوش ہوجاتا ہے مگر اس کے دل کو سکون و اطمینان اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب وہ آنکھوں سے اپنے گھر والوں کو دیکھ لیتا ہے۔ تجارتی میدان میں خرید وفروخت کا اقرار خطوط و مراسلت سے ہوجاتا ہے مگر معاہدے سے پہلے لوگ ایک دوسرے سے براہِ راست ملتے ہیں تاکہ انھیں ایک دوسرے کو دیکھنے اور سمجھنے کا موقع حاصل ہو۔

آنکھیں نہ صرف دیکھنے کے کام آتی ہیں بلکہ وہ گفتگو میں بھی اہم کردار نبھاتی ہیں۔ بعض مواقع پر لوگ اپنی زبان بند رکھتے ہیں مگر اپنی آنکھوں سے گفتگو کرتے ہیں۔ اس وقت آنکھوں کی پتلیاں ہی اس گفتگو میں اہم رول ادا کرتی ہیں۔

آدمی خوشی کا کوئی پیغام سناتا ہے، پسند کی کوئی چیز دیکھتا ہے یا حاصل کرتا ہے تو اس وقت اس کی پتلیاں خودبخود پھیل جاتی ہیں۔ آدمی جب غصہ کی حالت میں ہوتا ہے، دل کو تکلیف پہنچانے والی بات یا خبر سنتا ہے، ناپسند چیز دیکھتا ہے یا کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہے جس سے آدمی کو تکلیف ہوتی ہے تو خودبخود اس کی پتلیاں بڑی یا چھوٹی ہوجاتی ہیں۔

آدمی کسی خوب صورت چیز کو دیکھتا ہے یا کھانے پینے کی کوئی ایسی شے دیکھتا ہے جو اسے حاصل نہیں ہے تو اس کے دل میں اس چیز کو پانے کی خواہش پیدا ہوجاتی ہے۔ اس وقت آدمی اپنی زبان سے اپنی خواہش کا اظہار نہیں کرتا مگر حرص و آز کی نگاہوں سے دیکھتا ہے۔ ایسے آدمی کو لوگ اس کی آنکھوں سے پہچان لیتے ہیں۔

نظریں نیچی رکھو:

اسلام جس طرح زبانِ قال کو قابو میں رکھنے کی تاکید کرتا ہے، اسی طرح نظروں کو نیچا رکھنے کی تاکید کرتا ہے۔ ‘‘اے نبیؐ! مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں، اللہ اس سے باخبر رہتا ہے’’۔ (النور:۳۰)

‘‘اور اے نبیؐ! مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اس کے جو خود ظاہر ہوجائے اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں’’۔ (النور: ۳۱)

حجۃ الوداع کے موقع پر قبیلہ خشعم کی ایک عورت راستے میں پیغمبراکرمؐ کو روک کر حج سے متعلق ایک مسئلہ پوچھنے لگی۔ فضل بن عباسؓ (پیغمبرؐ کے چچازاد بھائی، جو اس وقت نوجوان تھے) نے اپنی نگاہیں گاڑ دیں۔ نبیؐ نے ان کا منہ پکڑ کر دوسری طرف کردیا۔ (بخاری، ابوداؤد، ترمذی)

حضرت علیؓ روایت کرتے ہیں کہ نبیؐ نے فرمایا: کسی زندہ یا مُردہ کی ران پے نگاہ نہ ڈالو’’۔ (ابن ماجہ، ابوداؤد)

حضرت ابوسعیدؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘مرد، مرد کے ستر پر نظر نہ ڈالے اور عورت عورت کے ستر پر نظر نہ ڈالے اور مرد، مرد کے ساتھ ایک کپڑے میں نہ ہوجائے اور عورت، عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں نہ ہوجائے’’۔ (مسلم)

اسلامی تعلیمات میں نگاہوں کو نیچا رکھنے کی تاکید اس لیے کی گئی ہے کہ نگاہ بُرے خیالات کو جنم دیتی ہے اور بُرے خیالات بُرے اعمال کی تشکیل کرتے ہیں۔ مولانا شبیراحمد عثمانیؒ فرماتے ہیں کہ آدمی اگر نگاہ نیچی رکھنے کی عادت ڈال لے اور اختیار و ارادے سے ناجائز امور کی طرف نظر اُٹھا کر نہ دیکھا کرے تو بہت جلد اس کے نفس کا تزکیہ ہوسکتا ہے۔

جو لوگ اپنی نگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، انھیں اللہ تعالیٰ بہت پسند کرتا ہے۔ ایسے لوگ سماج میں بھی عزت کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں۔

قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ اپنے فرماں بردار بندوں کو یقین دلاتا ہے کہ (جنت کی) ان نعمتوں کے درمیان شرمیلی نگاہوں والیاں ہوں گی (الرحمن:۵۶)۔ سورہ الطور میں فرماتا ہے: ‘‘اور ہم خوبصورت آنکھوں والی حوریں ان سے بیاہ دیں گے’’۔ (الطور:۲۰)

شرمندگی، خوف اور غصے کے وقت آنکھوں کی حالت:

آدمی جس وقت اپنی کسی حرکت پر شرمندہ ہوتا ہے تو اپنا سر جھکا دیتا ہے، اپنا چہرہ چھپاتا ہے اور اپنی نگاہیں نیچی کرلیتا ہے۔ اس کے اندر کسی کو دیکھنے کی بھی ہمت نہیں ہوتی۔ اس کے برخلاف خوف کے وقت اس کا سر اٹھا ہوا ہوتا ہے۔ وہ اپنی آنکھیں کھلی رکھتا ہے مگر خوف کی وجہ سے وہ پتلیوں کو کسی طرف ٹھیرا دیتا ہے۔ پلک نہیں جھپکاتا۔ وہ سب کچھ دیکھتا ہے مگر سمجھ نہیں پاتا۔ وہ جس قدر خوف زدہ ہوتا ہے، اتنا ہی بدحواس یعنی کھویا ہوا ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ سورۂ ابراہیم میں فرماتا ہے: ‘‘اب یہ ظالم لوگ جو کچھ کر رہے ہیں، اللہ کو تم اس سے غافل نہ سمجھو۔ اللہ تو انھیں ٹال رہا ہے اس دن کے لیے جب حال یہ ہوگا کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں، سر اُٹھائے بھاگے چلے جا رہے ہیں، نظریں اُوپر جمی ہیں اور دل اڑے جاتے ہیں’’ (ابراہیم: ۴۲-۴۳)۔ غصے کا اظہار کرنے کے لیے لوگ بڑی تیز نظروں سے پلک جھپکائے بغیر دیکھتے ہیں یا مخاطب پر سر سے پیر تک نظر دوڑاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سورہ القلم میں فرماتا ہے: ‘‘جب یہ کافر لوگ کلامِ نصیحت سنتے ہیں تو تمہیں ایسی نظروں سے دیکھتے ہیں کہ گویا تمہارے قدم اکھاڑ دیں گے اور کہتے ہیں کہ یہ ضرور دیوانہ ہے’’۔ (القلم:۵۱)

حضرت ابوسعید خدریؓ کی روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: ‘‘سن لو بے شک غصہ انسان کے دل میں ایک انگیٹھی ہے، کیا تم نے اس کی آنکھوں کی سرخی اور رگوں کا پھولنا نہیں دیکھا’’۔ (ترمذی)

اعضا بدن کی گواہی:

اللہ تعالیٰ سورۂ یٰسین میں فرماتا ہے: آج ہم ان کے منہ بند کیے دیتے ہیں۔ ان کے ہاتھ ہم سے کہیں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے کہ یہ دنیا میں کیا کمائی کرتے رہے ہیں’’(یٰسین:۶۵)۔ النور میں فرماتا ہے: ‘‘اس دن اُن کی زبانیں اور اُن کے ہاتھ پاؤں اُن کے کرتوتوں کی گواہی دیں گے’’۔ (النور:۲۴)

سورۂ بنی اسرائیل میں فرماتا ہے: ‘‘یقینا، آنکھ، کان اور دل سب ہی کی بازپرس ہونی ہے’’۔ (بنی اسرائیل:۳۶)

سورہ حم السجدہ میں فرماتا ہے: ‘‘اور ذرا اس وقت کا خیال کرو جب اللہ کے یہ دشمن دوزخ کی طرف جانے کے لیے گھیر لائے جائیں گے۔ ان کے اگلوں کو پچھلوں کے آنے تک روک رکھا جائے گا۔ پھر جب سب وہاں پہنچ جائیں گے تو ان کے کان اور اُن کی آنکھیں اور اُن کے جسم کی کھالیں اُن پر گواہی دیں گی کہ وہ دنیا میں کیا کچھ کرتے رہے ہیں۔ وہ اپنے جسم کی کھالوں سے کہیں گے: ‘‘تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی؟’’

وہ جواب دیں گی: ‘‘ہمیں اسی خدا نے گویائی (بولنے کی قوت) دی ہے جس نے ہرچیز کو گویا (بولنے والا) کردیا ہے۔ اسی نے تم کو پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اور اب اسی کی طرف تم واپس لائے جارہے ہو۔ تم دنیا میں جرائم کرتے وقت جب چھپتے تھے تو تمھیں یہ خیال نہ تھا کہ کبھی تمھارے اپنے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہارے جسم کی کھالیں تم پر گواہی دیں گی۔ بلکہ تم نے تو یہ سمجھا تھا کہ تمہارے بہت سے اعمال کی اللہ کو بھی خبر نہیں ہے’’۔ (حم السجدہ: ۱۹-۲۲)

زمین بھی گواہی دے گی:

اللہ تعالیٰ سورۂ الزلزال میں فرماتا ہے: ‘‘اس روز وہ اپنے (یعنی زمین اپنے اُوپر گزرے ہوئے ) حالات بیان کرے گی’’۔ (الزلزال:۴)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے یہ آیت پڑھ کر پوچھا: ‘‘جانتے ہو اس کے وہ حالات کیا ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسولؐ کو زیادہ علم ہے۔ فرمایا: ‘‘وہ حالات یہ ہیں کہ زمین ہر بندے اور بندی کے بارے میں اس عمل کی گواہی دے گی جو اس کی پیٹھ پر اس نے کیا ہوگا۔ وہ کہے گی کہ اس نے فلاں دن فلاں کام کیا تھا۔ یہ ہیں وہ حالات جو زمین بیان کرے گی’’۔ (مسنداحمد، ترمذی و نسائی) گفتگو چاہے دوستوں سے ہو یا گھروالوں سے، خرید وفروخت کرنے والوں سے ہو یا نوکروں سے، دعوت و تبلیغ ہو یا وعظ و نصیحت، متکلم (بولنے والے) کو چاہیے کہ زبان کھولنے سے پہلے مذکورہ بالا آیت و احادیث کی یاد تازہ کرلیں۔ ورنہ اعضائے جسم اور زمین کے علاوہ مخاطبین (سننے والے) بھی قیامت کے دن خلاف گواہی دینے والوں میں شامل ہوں گے۔

بعض صالحین کا قول ہے کہ خوش نصیب ہے وہ شخص جس کے مرنے کے بعد اس کے گناہ بھی مرجائیں اور بدنصیب ہے وہ شخص جس کے گناہ اس کے مرنے کے بعد بھی باقی رہیں، یعنی اس کے گمراہ کن افکار و اقوال کتابوں، کیسٹوں اور سی ڈیز کی شکل میں باقی رہیں۔

٭٭٭