محمد بن ادریس شافعیؒ

مصنف : مولانا برکت اللہ بھٹو

سلسلہ : مشاہیر اسلام

شمارہ : اپریل 2009

المعروف امام شافعی (۱۵۰ھ تا ۲۰۴ھ)

            آپ کا اصل نام محمد ہے، لیکن عوام الناس میں امام شافعی ؒ کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ ؒ کے نسب میں شافع نامی ایک شخص آتے ہیں جو صحابی رسول تھے ان کی نسبت سے شافعی کہلاتے ہیں۔ ابو عبد اللہ کنیت اور لقب ناصر الحدیث تھا۔پورا نسب نامہ اس طرح ہے۔ محمد بن ادریس بن عباس بن عثمان بن شافع بن سائب بن عبید بن عبد یزید بن ہاشم بن مطلب بن مناف۔ آپ قریشی اور مطّلبی ہیں، عبد مناف تک آپ کا نسب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آ کر ملتا ہے۔

            امام احمد بن حنبلؒ کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر صدی کے آخر میں ایک ایسا عالم دین پیدا کرتا ہے جو لوگوں کو سنت کی تعلیم دیتا ہے اور دین اسلام کا دفاع کرتا ہے۔ پہلی صدی کے آخر میں حضرت عمر بن عبد العزیزؒ پیدا ہوئے اور دوسری صدی کے آخر میں امام شافعی ؒ پیدا ہوئے۔

             امام شافعی ؒ کی والدہ کے مطابق جب ان کو حمل تھا تو انہوں نے خواب دیکھا کہ مشتری ستارہ میرے جسم سے نکلا اور مصر میں آ کر گرا اور پھر اس کی روشنی ہر شہر تک پہنچی۔ معبروں نے اس کی تعبیر یہ بتائی کہ جو بچہ پیدا ہو گا وہ بڑا عالم بنے گا اور مصر سے ان کا علم تمام شہروں میں پھیلے گا۔

            آپؒ رجب ۱۵۰ھ کو فلسطین کے شہر غزہ میں پیدا ہوئے۔ یہ وہی سال ہے جس میں امام ابو حنیفہؒ فوت ہوئے تھے۔ خدا کی شان دیکھئے ایک عالم اس دار فانی سے جاتا ہے تو دوسرا آتا ہے۔ اسی شہر میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پردادا ہاشم فوت اور دفن ہیں ۔

            امام شافعی کے والد مدینہ کے قریب تبالہ نامی قصبے میں تھے۔ معاش کی تلاش میں شام پہنچے۔ قبیلہ ازدیمن کا ایک مشہور قبیلہ ہے۔ وہاں کی ایک عورت فاطمہ سے آپؒ نے شادی کی۔ امام شافعیؒ یتیم پیدا ہوئے تھے یا بچپن میں یتیم ہو گئے تھے۔ رضاعت کے دو سال گزارنے کے بعد والدہ آپ ؒ کو مکہ لے آئیں جہاں آپؒ کے چچا اور خاندان کے افراد رہتے تھے۔ اس ڈر سے کہ غلط ماحول میں رہ کر بچے پر برے اثرات نہ پڑیں۔ والدہ نے بچپن سے ہی آپؒ کو علم حاصل کرنے پر لگا دیا۔ گھر میں غربت اور عسرت تھی، اتنے پیسے بھی نہ تھے کہ استاد کی خدمت میں پیش کریں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ذہانت و ذکاوت کی نعمت سے آپ کو مالا مال کر دیا تھا۔ استاد بچوں کو جو سبق پڑھاتے تھے وہ سنتے ہی آپ کو یاد ہو جاتا تھا۔ پھر استاد کی غیر حاضری میں آپ بچوں کو وہی سبق پڑھاتے تھے۔ یہ حالت دیکھی تو معلم بڑا خوش ہوا اور بغیر معاوضے کے پڑھانے لگا۔آپؒ نے سات سال کی عمر میں ہی قرآن پاک حفظ کر لیا تھا۔ اس وقت علم الحدیث کا بڑا چرچا تھا۔ بڑے بڑے شہروں میں محدثین مسندیں بچھائے لوگوں کو احادیث سناتے تھے اور دور دور سے لوگ سفر کر کے آتے اور محدثین سے احادیث سنتے۔ آپؒ کو بھی حدیث سننے اور یاد کرنے کا بڑا شوق ہوا۔ آپ جو بھی حدیث سنتے تھے اسی وقت یاد کر لیتے اور پھر جلدی سے اسے کسی کپڑے ، چمڑے ، پتھر یا کھجور کے پتے یا جو بھی چیز ہاتھ آتی اس پر لکھ لیتے۔ والدہ کے پاس اتنے پیسے بھی نہ ہوتے تھے کہ کاغذ خرید سکیں۔ جب آپ دس سال کی عمر کو پہنچے تو حدیث کی مشہور کتاب موطا امام مالک بھی آپ نے یاد کر لی۔

            ایک مرتبہ آپؒ نے خواب میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بچے! تم کس خاندان سے ہو؟بچے نے جواب دیا: میں آپؐ ہی کے خاندان سے ہوں۔اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؒ کو اپنے قریب بلایا اور لعاب دہن ان کے منہ میں ڈالا اور پھر دعا دی کہ ‘‘ جا اللہ تعالیٰ تجھے اپنی برکت سے نوازے۔’’چند دنوں کے بعد پھر ایسی زیارت نصیب ہوئی۔ دیکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ میں نماز پڑھا رہے ہیں۔ نماز سے فارغ ہوئے تو نمازیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور لوگوں کو تعلیم دینی شروع کی۔ امام شافعیؒ کو بھی علم کا شوق تھا اس لئے آگے بڑھ کر عرض کیا : اے اللہ کے رسول! مجھے بھی سکھائیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نگاہ ننھے شافعی پر ڈالی اور آستین مبارک سے ایک میزان نکال کر دیتے ہوئے کہا: ‘‘یہ میری طرف سے تیرے لئے عطیہ ہے۔’’صبح کو یہ خواب جب آپ نے معبرین سے بیان کیا تو کسی بزرگ نے اس کی تعبیر یہ نکالی کہ تم دنیا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور علم کو عام کرو گے اور پھر واقعی آپؒ دنیا میں فقہ کے امام بنے۔اس وقت مکہ میں مسلم بن خالد رنجیؒ درس دیا کرتے تھے۔ مکتب کی تعلیم سے فارغ ہو کر تین سال تک آپؒ ان کی مجلس میں بیٹھ کر علم حاصل کرتے رہے۔ تحصیل علم کے ساتھ ساتھ آپ کو تیر اندازی اور گھڑ سواری کا بھی بڑا شوق تھا اور ان دونوں میں آپ نے مہارت حاصل کر لی۔ عربیت میں مہارت حاصل کرنے کے لئے آپ بادیہ میں چلے جاتے تھے۔ قبیلہ بنو ہذیل اپنی فصاحت بلاغت، عربیت اور اشعار میں پورے عرب میں مشہور تھا۔ آپ پورے سترہ سال سفر اور حضر میں ان کے ساتھ رہے اور ان سے علوم میں ایسی مہارت حاصل کر لی کہ اصمعی جیسا شاعر اور ادب و لغت کا امام بھی ان سے اپنے اشعار درست کراتا تھا۔آپؒ کے چچا محمد بن علی بن شافع بھی محدث تھے۔ آپ نے ان سے بھی احادیث پڑھیں۔ آپ کی ذہانت، مہارت اور علمیت سے متاثر ہو کر آپ کے استاد مسلم بن خالدؒ نے آپ کو فتوی دینے کی اجازت دے دی تھی۔ اس وقت آپ پندرہ سال کے تھے۔ علم میں مزید پختگی حاصل کرنے کے لئے اب آپؒ کو امام مالک ؒ کی خدمت میں جانے کا شوق ہوا،مگر تنگی دامن حائل تھا۔ استاد کے مشورے سے کہیں سے پیسوں کا انتظام ہو گیا اس کے بعد استاد سے او ربعض روایتوں کے مطابق والی مکہ سے سفارشی خط لے کر آپ امام مالک کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ والی مدینہ بھی ساتھ تھے۔ دروازے پر دستک دینے پر اندر سے لونڈی آئی۔ والی مدینہ نے اپنے آنے کی اطلاع دی۔ کچھ دیر کے بعد جواب آیا کہ اگر کوئی مسئلہ پوچھنا ہے تو لکھ دیجئے جواب تحریراً مل جائے گا۔ آپ نے پیغام بھیجا کہ ‘‘والی مکہ کا ایک ضروری خط لایا ہوں۔’’آخر امام مالکؒ باہر تشریف لائے۔ والی مکہ کا خط پڑھا تو فرمایا:‘‘سبحان اللہ! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا علم اب وسیلوں اور سفارشوں سے حاصل کیا جانے لگا ہے۔’’یہ کہہ کر خط امام مالکؒ نے پھینک دیا۔ امام صاحب کا غصہ، رعب و دبدبہ او رجلال کا یہ اثر تھا کہ والی مدینہ خاموش رہا، کوئی جواب ان سے نہیں بن پا رہا تھا۔یہ حالت دیکھ کر آپؒ خود ہی ہمت کر کے آگے بڑھے اورعرض کیا:‘‘میں قریشی اور مطّلبی ہوں۔ علم حدیث حاصل کرنے کا مجھے شوق ہے۔’’امام مالکؒ نے پوچھا: تمہارا نام کیا ہے؟

            آپ نے جواب دیا: ‘‘محمد’’امام مالک ؒ نے کہا: یا محمد اتق اللہ واجتنب المعاصی فسیکون لک شان.‘‘اے محمد! اللہ سے ڈرتے رہو، گناہوں سے بچتے رہو، عنقریب دنیا میں تمہاری شان ہو گی۔’’اس کے بعد امام مالکؒ نے آپؒ کو درس میں بیٹھنے کی اجازت دے دی۔ اندازاً تین سال تک آپ ان کی مجلس میں رہے۔ امام مالکؒ سے موطا کی روایت حاصل کرنے کے بعد آپ ان سے فتوی بھی سیکھتے رہے۔

            ایک دفعہ قمریوں کے ایک تاجر نے امام مالکؒ کے حلقہ درس میں آ کر ایک مسئلہ پیش کیا کہ حضرت میں نے ایک شخص کو قمری فروخت کر دی اور اس سے کہا کہ یہ خوب بولتی ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد خریدار نے آ کر شکایت کی کہ یہ تو بولتی ہی نہیں، واپس لے لو۔ بات گرم ہو گئی تو میں نے غصہ میں آ کر کہا کہ اگر یہ نہیں بولتی تو میری بیوی کو طلاق ہو جائے۔امام مالکؒ نے فرمایا: ‘‘طلاق تو ہو گئی کیونکہ وہ خاموش رہتی ہے۔’’بے چارہ تاجر غمگین ہو کر واپس چلا گیا۔ امام شافعیؒ بھی درس میں شریک تھے۔ آپ چپکے سے اٹھے اور دور جا کر تاجر کو پہنچے اور پوچھا: کہ تیری قمری اکثر بولتی ہے یا اکثر خاموش رہتی ہے؟تاجر نے کہا: وہ اکثر تو بولتی ہے کبھی کبھار چپ بھی ہو جاتی ہے۔امام شافعیؒ نے کہا: پھر مطمئن رہو تمہاری بیوی کو طلاق نہیں ہوئی، یہ کہہ کر آپؒ چپکے سے آ کر درس میں بیٹھ گئے۔ وہ شخص اطمینان حاصل کرنے کے لئے پھر امام مالکؒ کے پاس آ گیا اور اپنا مطلب بیان کرتے ہوئے کہا : حضرت یہ نوجوان تو کہتے ہیں کہ طلاق نہیں ہوئی۔ امام صاحب نے شافعی سے کہا : کہ یہ غلط فتوی تم نے کیسے دے دیا؟ امام شافعی نے ادب سے عرض کیا کہ حضرت ! تاجر کا کہنا ہے کہ قمری اکثر بولتی ہے کبھی کبھار چپ ہو جاتی ہے اور آپؒ نے ہمیں وہ حدیث پڑھائی ہے کہ فاطمہ بن قیس نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں آ کر عرض کیا تھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! معاویہ اور ابو جہم دونوں نے مجھے شادی کا پیغام دیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشورہ دیں کس سے نکاح کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معاویہ تو تنگ دست ہے اور ابو جہم کاندھے سے لکڑی کبھی اتارتا ہی نہیں۔’’ حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ ابو جہم سوتا بھی ہے اور دوسرے کام بھی کرتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ اکثر عورتوں کو مارتا رہتا ہے، اس کی قمری بھی اکثر بولتی ہے اس لئے میں نے سمجھا کہ اس کی بیوی کو طلاق نہ ہوئی۔ شافعیؒ کے اس نکتے سے امام مالکؒ بہت خوش ہوئے اور فہم و فراست کی داد دیتے ہوئے کہا:‘‘تم میں فتوی دینے کی صلاحیت پیدا ہو گئی ہے۔ اب تم آئندہ فتوی دے سکتے ہو۔’’

            حصول علم کے بعد آپؒ واپس مکہ آئے۔ اب آپؒ کو حصول معاش کی فکر دامن گیر ہوئی۔ ان ہی دنوں میں خلیفہ ہارون الرشید کا ایک افسر اعلیٰ مکہ میں آیا ہوا تھا۔ اشراف قریش نے اس کے سامنے امام شافعیؒ کے علم و کمالات کی بڑی تعریف کی اور اس بات کی تمنا کی کہ ان کو کسی سرکاری خدمت پر لگا دیا جائے۔ افسر نے آپ کو اس پر راضی کیا لیکن غربت کی وجہ سے سامان سفر بھی مہیا نہ ہو سکا۔ آخر ماں نے کوئی چیز رہن رکھ کر کچھ رقم لی اور اس طرح امام شافعیؒ یمن پہنچ گئے۔ افسر اعلیٰ نے آپ کو ایک کام پر مقرر کیا جسے آپؒ نے شوق و دلجمعی سے پورا کیا۔ افسر نے دوسرے اور پھر تیسرے کام پر لگایا وہ کام بھی آپ نے مہارت سے انجام دئیے۔ حکومت نے خوش ہو کر آپ کو نجران کا والی بنا دیا۔ آپؒ پہلے صاحب علم تھے اب صاحب امر بھی ہو گئے۔ اور اس منصب سے آپؒ اچھی طرح واقف تھے اس لئے پورے انصاف کے ساتھ آپؒ اس عہدے کو استعمال کرنے لگے۔ آپؒ کے حسن اخلاق، شرافت، عدل و انصاف اور علم وفضل سے خلق خدا کو فائدہ ہونے لگا۔ آپؒ نے رشوت اور جانبداری کے تمام راستے بند کر دئیے۔ ظلم و زیادتی سے خود بھی دور رہتے اور دوسرے والیوں کو بھی اس سے دور رہنے کی ترغیب دیتے تھے۔ یہ بات ان لوگوں کو آخر کیسے راس آ سکتی تھی جو رشوتیں کھا کھا کر موٹے ہو گئے تھے۔ خاص کر بنو ثقیف اور ان کے موالی تو حکمرانوں سے اپنا معاملہ درست رکھتے تھے۔ اور پھر جو من مانیاں چاہتے تھے کرتے تھے۔ جب امام شافعیؒ کے ہاں کی ان دال نہ گلی تو ان کو بڑی مایوسی ہوئی اور وہ امام شافعیؒ کے دشمن ہو گئے۔ پھر امام شافعیؒ کے خلاف دربار خلافت میں شکایتیں پہنچنا شروع ہو ئیں: کہ‘‘یمن میں امام شافعی عوام میں بڑے مقبول ہو رہے ہیں اور علویوں سے ان کا خفیہ رابطہ ہے یہ کسی وقت بھی بغاوت کر سکتے ہیں۔’’ مطرف نے تو باقاعدہ ایک خفیہ رپورٹ مرتب کر کے خلیفہ کو بھیجی کہ محمد بن ادریس سے خلافت کو بڑا خطرہ ہے یہ بڑا بااثر شخص ہے اور سیدوں کی در پردہ حمایت کرتا ہے۔ خلفائے بنو عباس تو علویوں سے شدید رقابت رکھتے تھے، ان کو خطرہ رہتا تھا کہ یہ لوگ عوام کے جذبات کو بھڑکا کر عباسیوں سے خلافت چھین سکتے ہیں۔ اس لیے جہاں بھی اس بات کا خطرہ نظر آتا تھا فوراً سب علویوں کو قتل کیا جاتا تھا۔ ۱۸۴ھ میں ہارون الرشید کو جب علوی سادات کے حوالے سے شافعیؒ کی شکایتیں پہنچنی شروع ہوئیں تو وہ آگ بگولہ ہو گیا۔ والی یمن کو اس نے خط لکھا کہ محمد بن ادریس شافعی سمیت جتنے بھی سید ممکن ہو سکیں ان سب کو گرفتار کر کے دربار خلافت میں بھیج دو۔والی یمن نے حکم کی تعمیل میں تقریباً تین سو سادات کو گرفتار کر کے بغداد بھیج دیا۔ خلیفہ اس وقت رقہ میں تھا، انہوں نے حکم دیا کہ روزانہ دس دس سید قتل کئے جائیں۔ جب امام شافعیؒ کی باری آئی تو آپؒ نے خلیفہ کے سامنے ایسی تقریر کی کہ ہارون سن کر لاجواب ہو گیا۔رقہ کے قاضی امام محمد بن حسن شیبانیؒ بھی اس وقت خلیفہ کے پاس موجود تھے انہوں نے بھی سفارش کی کہ امیر المومنین ! شافعی کو علم کا وافر حصہ ملا ہے یہ ایسے نہیں ہو سکتے جیسا کہ ان کے بارے میں کہا جا رہا ہے۔ چنانچہ ہارون الرشید شافعیؒ کے بارے میں ٹھنڈا پر گیا، اور ان کو امام محمد کے حوالے کر دیا۔ اس وقت امام شافعی ۳۴ سال کے تھے۔

            قدرت امام شافعیؒ سے ایک بڑا کام لینا چاہتی تھی اس لئے ان کو یمن سے کھینچ کر بغداد لائی تھی اورامام محمد بن حسن شیبانی کی شاگردی میں لا کر بٹھا دیا تھا۔ اس وقت مسلمانوں میں دو مکاتب فکر پائے جاتے تھے ایک اہل حدیث مکتبہ فکر کا مرکز تھا اور عراق اہل الرائے مکتبہ کا مرکز تھا۔ امام مالکؒ اہل الحدیث مکتبہ فکر کے امام تھے اور امام ابو حنیفہؒ اہل الرائے مکتبہ فکر کے امام تھے۔ امام شافعیؒ ، امام مالکؒ کی خدمت میں رہ کر حدیث کا علم اور فقہ و فتاوی جان چکے تھے اب قدرت ان کو امام محمدؒ کی خدمت میں لائی تھی تاکہ آپؒ اہل رائے حضرات کے خیالات بھی جان سکیں۔

            بغداد اس وقت علم اور اہل علم حضرات کا مرکز و محور تھا۔ ہر طرف سے شائقین علم کھینچ کھینچ کر یہاں جمع ہو رہے تھے۔ ہر وقت اور ہر طرف یہاں علم کی سر گرمی ، گہما گہمی اور چہل پہل جاری تھی۔ بحث و مباحثہ، مناظرے و مجادلے اور تکرار نے یہاں کی رونق میں اضافہ کر دیا تھا۔ ایسا منظر اور رونق مدینہ میں نہ تھی۔ شافعیؒ کو یہ ماحول بڑا پسند آیا۔ بغداد کے علماء فقہاء اور محدثین سے بحث مباحثوں نے شافعی کے علم میں پختگی پیدا کر دی۔آپ نے سب سے پہلے امام محمدؒ کی کتابوں کا مطالعہ کیا، اس کے بعد باقاعدہ ان کے شاگرد بن کر ان سے علم حاص کرتے رہے۔ ابن حجرؒ کی روایت کے مطابق آپ تین سال تک ان کی خدمت میں رہ کر علم کی پیاس بجھاتے رہے۔فرماتے تھے: ‘‘میں نے محمد بن حسنؒ سے ایک اونٹ کے بار برابر حدیث سنی ہے۔ اگر وہ نہ ہوتے تو علم میں میری زبان اتنی نہ کھلتی۔’’یہاں سے آپ واپس مکہ چلے آئے۔ اس وقت تک آپ حدیث، فقہ، فتاوی، تفاسیر، عربیت، اشعار، ایام العرب، فصاحت و بلاغت، نحو نیز تیر اندازی اور شہ سواری میں کمال حاصل کر چکے تھے۔ حجاز کی فقہ کے بعد عراق کی فقہ سے بھی آپ واقف ہو چکے تھے۔ آپ ؒ نے حصول علم کے لئے دور دراز کے سفر اختیار کئے اس طرح ان کے علم اور رائے میں پختگی آ گئی نیز امام محمد کی شاگردی میں رہ کر آپ کی اجتہادی فکر کو نئی جلا ملی۔ مکہ میں آ کر مالکی فقہ اور حنفی فقہ کوسامنے رکھ کر آپؒ نے ایک جدید فقہ کی بنیاد ڈالنی شروع کی اور اس کے لئے اصول وضع کرنے لگے۔ آپ حرم میں بیٹھ کر درس و تدریس بھی کرتے رہے۔ پہلے لوگ آپ سے ناواقف تھے لیکن اب جو لوگ ان کے درس میں آنے لگے تو آپؒ کے علم و فضل کو خراج تحسین پیش کرنے لگے۔ ایک بار امام احمد بن حنبلؒ، اسحٰق راہویہؒ اور یحییٰ بن معینؒ مکہ آئے تینوں محدث امام عبد الرزاق کے درس میں جا رہے تھے جب یہ حرم میں داخل ہوئے تو دیکھا ایک نوجوان مسند پر تشریف فرما ہے ا ورہجوم میں گھراہوا ہے اور وہ بڑی جرأت سے آواز دے رہا ہے کہ اے شام والو! اے عراق والو! مجھ سے احادیث رسولؐ کے متعلق جو چاہو پوچھو میں مطمئن کر وں گا۔ اسحٰق نے پوچھا : کہ یہ نوجوان کون ہے؟ بڑا ہی جری اور بے باک ہے۔ لوگوں نے بتایا کہ یہ محمد بن ادریس شافعی ہے۔اسحٰق نے ساتھیوں سے کہا: کہ چلو اس سے ذرا مکنو الطیور فی اوکارہم والی حدیث کا مطلب پوچھ لیں۔ احمد بن حنبلؒ نے جواب دیا کہ اس کا مطلب تو واضح ہے کہ رات کے وقت پرندوں کو گھونسلوں میں رہنے دو۔ لیکن پھر بھی چلو، پوچھتے ہیں، احمد بن حنبل نے امام شافعی سے کہا: کہ ذرا اس حدیث کا مطلب تو سمجھا دیں۔آپ نے فرمایا: زمانہ جاہلیت میں لوگ رات کو سفر پر جاتے تھے تو وہ پرندوں سے شگون لیتے تھے۔ وہ پتھر مار کر پرندے کو گھونسلے سے اڑاتے تھے۔ اگر پرندہ دائیں طرف جاتا تو اچھا شگون لیتے تھے کہ سفر کامیاب ہو جائے گا اور پھر سفر کو جاری رکھتے تھے۔ اگر پرندہ بائیں طرف اڑ کر جاتا تھا تو اس سے برا شگون لیتے تھے اور سفر سے رک جاتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس طرح نہ کرو۔ پرندوں کو ان کے گھونسلوں میں آرام کرنے دو او راللہ پر بھروسہ رکھو۔ امام شافعیؒ کی اس تشریح سے تینوں بہت مطمئن و خوش ہوئے۔

            آپؒ شروع میں امام مالکؒ کی فقہ پر بہت زور دیتے تھے اور اسی کے حوالے سے مشہور تھے لیکن حنفی فقہ سے واقفیت کے بعد آپ کی مالکیت میں کمی آنے لگی۔ اب بعض مسائل میں آپؒ امام مالک سے بھی اختلاف کرنے لگے تھے۔ مکہ میں جب آپؒ داخل ہوئے تو امام مالک کے شاگردوں نے آپ کو دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہا اور سر آنکھوں پر آپ کو بٹھایا لیکن جب آپؒ نے درس دینا شروع کیا تو وہ مایوس ہو گئے۔ آپؒ پہلے امام مالکؒ کا مسلک بیان کرتے پھر ابو حنیفہؒ کا مسلک بیان کرتے۔ دونوں کے اختلاف کو ذکر کرنے کے بعد پھر آپؒ اپنا مسلک بیان کرتے اس سے طلبہ بڑے متاثر ہوتے البتہ مالکی حضرات آپؒ سے ناراض ہو گئے۔نو سال تک آپ مکہ میں رہ کر جدید فقہ کے اصول و قوانین اور قواعد و ضوابط مرتب کرتے رہے۔ اس کے بعد یہ اصول لے کر آپؒ ۱۹۵ ھ میں بغداد چلے گئے کیونکہ امام مالک کی وفات کے بعد مدینہ اہل علم سے خالی ہو گیا تھا، صرف بغداد ہی ایسا شہر تھا جہاں علم، اہل علم اور طالبان علم کی رونقیں تھیں۔ اس سے پہلے آپؒ تین سال بغداد میں امام محمدؒ کے شاگرد کی حیثیت سے رہ چکے تھے۔ اب آپؒ اس حیثیت میں بغداد داخل ہوئے کہ تمام علوم عقلیہ و نقلیہ، فقہ ، حدیث اور فتاوی میں ممتاز تھے۔ آپ جیسے ہی شہر میں داخل ہوئے سب شائقین آپ کے گرد جمع ہو گئے اور حال یہ ہو گیا کہ دوسرے تمام اہل علم کی مجلسیں پھیکی پڑ گئیں۔ یہیں پر آپؒ نے اپنی مشہور کتاب الرسالہ تصنیف کی۔ یہاں جو اقوال آپ نے بیان کئے ان کو قول قدیم کہا جاتا ہے۔ یہاں جو شاگرد آپؒ نے تیار کئے ان میں چار شاگرد مشہور ہیں۔

(۱) ابو علی حسن بن محمد زعفرانی

(۲) ابو ثور ابراہیم بن خالد

(۳) احمد بن حنبل

 (۴) حسین بن علی کریسی۔

            دو سال تک بغداد میں رہ کر آپ علم کے پھول برساتے رہے۔ پھر مکہ چلے گئے اور ۱۹۸ ھ میں پھر آپؒ بغداد آئے۔ اس وقت بغداد میں افراتفری ، خانہ جنگی اور انتشار کا ماحول تھا امین اور مامون کے درمیان اختیارات و اقتدار کی جنگ چل رہی تھی جس میں مامون کامیاب اور امین قتل ہو چکا تھا۔ امین ہاشمی قریش اور عربی نسل تھا جبکہ مامون کی ماں عجمی تھی۔ امین کے قتل سے بغداد ایک لحاظ سے دائیں سے بائیں ہو گیا۔ جب تک امین خلیفہ تھا قصر خلافت اور حکومت ریاست میں عربوں کا پلہ بھاری تھا۔ فوج اور فوجی افسران میں بھی عربوں کی اہمیت حیثیت اور وقعت تھی۔ لیکن مامون جب کرسی اقتدار پر فائز ہوا تو عرب بددل ہو کر پیچھے ہٹتے گئے اور عجم ہر شعبہ میں چھاتے چلے گئے۔ ان حالات میں امام شافعیؒ کے لئے بغداد میں رہنا قابل سکون و اطمینان نہیں تھا اس لئے ایک ماہ سے کچھ بھی زیادہ بغداد میں نہ رہ سکے اور سیدھا مصر کا رخ کیا۔ ۱۹۹ھ میں آپ مصر آگئے۔ یہاں آ کر آپ پھر درس و تدریس میں مشغول ہو گئے۔ یہاں پہنچ کر آپؒ کو کافی اطمینان ملا، بغداد میں جو کام آپؒ کرنا چاہتے تھے اسے یہاں رہ کر پورا کیا۔ اب چونکہ فکر پختہ ہو چکی تھی اور اجتہادی رائے میں مضبوط ہو چکے تھے اس لئے آپؒ نے اپنے اقوال و آرا پر نظر ثانی کی۔ بعض اقوال سے آپؒ نے رجوع کیا اور بعض کو اسی طرح قائم رکھا اور بعض نئے اقوال بھی قائم کئے۔ یہی قول جدید کہلایا جاتا ہے اور قول قدیم سے مراد بغداد کا قول ہے۔ یہاں آپ کے چھ شاگرد مشہور و معروف رہے جو آپ کی فقہ کے حامل و ناشر رہے۔(۱) ابو ابراہیم بن یحییٰ مزنی(۲) ابو محمد ربیع بن سلیمان مراوی(۳) ابو محمد ربیع بن سلیمان بن داؤد جیزی(۴) ابو یعقوب یوسف بن یحییٰ بویطی(۵) ابو حفص حرملہ بن یحییٰ(۶) ابو موسیٰ یونس بن عبد الاعلیٰا ن ہی اصحاب نے امام صاحب کے بعد ان کے علوم و اقوال کو مرتب و مدون کیا او ران کے مسالک کو دنیا میں عام کیا۔ آپ چھ سال تک آرام و اطمینان سے درس و تدریس کا کام کرتے رہے اور پھر یہیں پر فوت ہو گئے۔ جب آپ بغداد چھوڑ کر مصر جا رہے تھے تو اس وقت یہ اشعار بے اختیار آپ کی زبان پر جاری ہو گئے تھے۔

اخی اری نفسی تتوق الی مصر

ومن دونہا المغادر والفقر

فواللہ ما ادری الحفظ والغنی

اساق الیہا ام اساق الی قبر

            ‘‘بھائی ! میں دیکھتا ہوں کہ میرا نفس مصر جانے کے شوق میں ہے حالانکہ اس سفر میں بڑی مشکلات بھی ہیں۔ خدا کی قسم مجھے نہیں معلوم کہ وہاں میں اطمینان و سکون کے لیے جا رہا ہوں یا قبر میں جانے کے لئے مجھے دھکیلا جا رہا ہے۔’’

            آپؒ بواسیر کے دائم المریض تھے۔ جس کی وجہ سے ۳۰ رجب ۲۰۴ھ کو ۵۴ سال کی عمر میں آپؒ اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔

            امام شافعیؒ ایک جامع العلوم شخصیت تھے۔ ہمارے ہاں آپ کو صرف ایک فقیہ کی حیثیت میں جاناجاتا ہے لیکن یہ صرف ان کی زندگی کا ایک پہلو ہے۔ بلاشبہ فقہ کے امام تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپؒ کو علم فراست سے بھی وافر حصہ ملا تھا۔ قمری والا واقعہ تو پیچھے گزر چکا ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی واقعات کتابوں میں محفوظ ہیں۔

            ایک مرتبہ دو آدمیوں نے مل کر ایک صندوق امانت کے طور پر آپؒ کی والدہ کے پاس رکھ دیا۔ کچھ دنوں کے بعد ان میں سے ایک شخص آیا اور وہ صندوق لے گیا۔ اس کے چند دن بعد دوسرا شخص بھی صندوق لینے پہنچ گیا۔ والدہ نے کہا: کہ صندوق تو تمہارا ساتھی لے جا چکا ہے۔ اس نے ضد کی کہ آپ نے اکیلے اس کو صندوق کیوں دیا جبکہ ہم دونوں نے مل کر یہ امانت آپ کے پاس رکھی تھی۔ امام صاحب کی والدہ کافی پریشان ہو گئیں کہ واقعی امانت تو دونوں نے رکھی تھی۔ اس وقت امام شافعی بھی گھر پہنچ گئے ، ماں نے پورا واقعہ ان کو سنایا۔ آپؒ ذرا بھی پریشان نہ ہوئے، سیدھا اس آدمی کے پاس گئے اورکہا : تمہاری امانت ہمارے پاس پڑی ہے لیکن تم اکیلے کیسے آ گئے؟ امانت تو تم دونوں نے مل کر رکھی تھی۔ یہ بات سن کر وہ شخص ہکا بکا رہ گیا۔

            علم نجوم میں بھی آپؒ کو کافی درک حاصل تھا۔ ایک مرتبہ کسی شخص کا زائچہ دیکھ کر اسے کہا کہ ۲۷ دن کے بعد تم کو بیٹا ہو گا جس کے بائیں کان میں سیاہ نشان ہو گا۔ او رپھر ۴۲ گھنٹے زندہ رہ کر فوت ہو جائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ لیکن بعد میں اس علم کو آپؒ نے ترک کر دیا۔ اسی طرح علم اشعار میں بھی آپؒ کو مہارت تامہ حاصل تھی۔ لیکن کبھی اسے زندگی کا مقصد نہیں بنایا۔آپؒ دنیا سے کوسوں دور بھاگتے تھے۔ دنیا آپؒ کے پیچھے چل کر آتی تھی۔ اور آپؒ اس کے آگے چل رہے ہوتے تھے۔ ہارون الرشید نے عہدہ قضا پیش کرنا چاہا لیکن آپؒ نے قبول نہ کیا۔ ایک بار ہارون نے پچاس ہزار درہم بھیجے تو آپؒ نے لینے سے انکار کر دیا۔ ہارون نے زبردستی دے دئیے تو بہ کراہت لے لئے۔ راستہ میں غریب ، سائل، حاجت مند جو بھی ملا ان میں تقسیم کرتے ہوئے اس حال میں گھر آئے کہ تھیلی میں دس ہزار دینار باقی تھے۔

٭٭٭