یہ بھی انسان ہیں!

مصنف : روپا جھا

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : مارچ 2009

            مجھے کبھی نہیں بھولے گی ریت میں دھنسی ہوئی ، بجھی بجھی آنکھیں، چھوٹا قد، دبلے پتلے 45 سالہ کے ریوا رام کی تصویر۔

            یہ بھی یاد ہے کہ میں دلی کے سیور ورکرز پر کہانی لکھنے کے لیے نکلی تھی۔ وہ ایک عام دن تھا اور ریوارام بھی ایک عام دن کی طرح اپنے کام کے لیے تیار تھے، لیکن مجھے اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ جو نظارہ میں دیکھنے جا رہی ہوں اسے دیکھ کر مجھے اس قدر شرمندہ ہونا پڑے گا۔

            ریوارام دلی کے ایک پوش علاقے میں بند پڑے ایک مین ہول کی صفائی کے لیے تیار ہوئے تھے۔ مین ہول کا ڈھکن جیسے ہی کھلا اس کی بدبو سے مجھے اپکائی آنے لگی۔

            لیکن ریوا رام کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا وہ ننگے بدن ، بغیر کسی ماسک یا باڈی سوٹ کے مین ہول میں نیچے اترے اور گندگی صاف کرنا شروع کر دیا۔ انہوں نے گھوڑے کی لگام کی طرح ایک رسّی اپنے بدن سے باندھ رکھی تھی جس کا ایک سرا ان کے دوسرے ساتھیوں نے باہر سے پکڑا ہوا تھا۔ مین ہول کا دائرہ اتنا چھوٹا تھا کہ اس کی گندگی سے رگڑ کھائے بغیر ریوا رام مین ہول میں اتر نہیں سکے۔ دیواروں پر کیچڑ کی موٹی پرتیں ، چاروں طرف سر چکرا دینے والی بدبو اور زہریلی گیس تھی۔ میں نے دیکھا کہ ریوا رام آٹھ فٹ گہرے مین ہول میں مسلسل کھانس رہے تھے اور گندگی ہاتھوں سے نکال کر باہر اپنے ساتھیوں کو دے رہے تھے۔ اچانک علاقے کے کسی گھر میں کسی نے اپنے ٹائلٹ میں فلش کیا ہوگا جس کے سبب پاخانے سے بھرا ہوا پانی ریوا رام کے سر پر گرنے لگا۔ کچھ لمحوں میں ہی ریوا رام اس سے لت پت ہو گئے۔ ان کی آنکھیں جلنے لگیں اور سانس پھولنے لگا۔ انہیں کھینچ کر باہر نکالا گیا۔ کھانستے ہوئے جب باہر نکلے تو کہنے لگے ‘گیس لگ گئی ہے ذرا پانی دینا۔’ چہرے پر پانی کے چھینٹے پڑتے تو انہیں یقینا بہتر محسوس ہوتا۔ ان کے دوستوں نے پڑوس کے بڑے گھروں کے عالی شان دروازوں کو کھٹکھٹانا شروع کیا۔ لیکن مجھے اس بات پہ حیرانی نہیں ہوئی کہ دروازے نہیں کھلے۔ صرف شرم آئی کہ یہ سچائی میرے سامنے تھی۔

            ریوا رام دلی کے سیوروں اور مین ہولز کی صفائی کرنے والے تقریبا چھ ہزار بیل داروں (مزدوروں) میں سے ایک ہیں۔ ہندوستان میں نالوں ، سیورز اور مین ہولز کی صفائی کی ذمہ داری انہیں بیل داروں پر ہوتی جو عام طور پر دلت ہوتے ہیں۔ریوا رام سرکاری ایجنسی دلی جل بورڈ کے ملازم ہیں۔ شہر کے تقریباً چھ ہزار کلومیٹر کے سیور پائپز کی صفائی کی ذمہ داری اسی سرکاری ایجسنی کی ہوتی ہے۔ایک ڈاکر آشیش متل نے اس قسم کے ملازمین کی صحت اور سلامتی سے متعلق ایک تحقیق کی ہے۔ ان کے مطابق ‘ بیلداروں کو سیورز میں میتھین اور ہائیڈروجن سلفائیڈ جیسی گیسوں کے درمیان مسلسل رہنا پڑتا ہے جس سے انہیں جلد ، سانس اور سر درد جیسی بیماریوں کے علاوہ طویل عرصے تک چلنے والی بیماریاں ہو جاتی ہیں۔’ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جس ماحول میں یہ لوگ کام کرتے ہیں اس کے سبب ان کی عمر اوسط ہندوستانی کے مقابلے دس سال کم ہو جاتی ہے۔

            انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں ایک سیدھا سوال سامنے رکھتی ہیں۔ جب کھیلوں کے لیے اربوں روپے خرچ کیے جا سکتے ہیں تو سیور سسٹم کو پوری طرح سے مشین سے صاف کیوں نہیں کیا جا سکتا ہے؟

             سرکار کا دعوی ہے کہ بیلدار صرف ایمرجنسی کے حالات میں ہی ان مین ہولز یا سیور پائپز کی صفائی کرتے ہیں لیکن شاید یہ سچ بھی کسی سے چھپا نہیں ہے کہ دلی جیسے شہر میں ہر دن ایمرجنسی جیسے حالات ہوتے ہیں۔ سرکاری ایجنسی یہ بھی دعویٰ کرتی ہیں کہ بیلداروں کے لیے سبھی قسم کے حفاظتی آلات موجود ہیں۔ میں نے جب کھانستے ہوئے ریوا رام سے پوچھا‘ آپ کو غصہ نہیں آتا کہ یہ کام آپ کو کرنا پڑتا ہے؟ ’تو جواب ملا‘ نہیں میڈم کم از کم سرکاری نوکری تو ہے ،ناخواندہ ہوں اور کروں بھی کیا؟ پھر ہماری ذات تو صدیوں سے یہی کام کرتی رہی ہے۔’

            میں نے اس کے بعد ہندستان کے آئین میں سبھی باشندوں کے لیے برابری کے حق کے بارے میں کوئی ذکر نہیں کیا۔

 (بشکریہ ، بی بی سی اردو ڈاٹ کام)

٭٭٭