دعوت کا ہتھیار، صبر و تحمل

مصنف : عقیدت اللہ قاسمی

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : مارچ 2009

۱۹۸۴ء کی بات ہے صحافت کے میدان سے سہ روزہ دعوت میں کام کرنا شروع کیا تو بعض بہی خواہ بزرگوں اور رفقاء و احباب نے کہا: ‘‘میاں! تمہارے استاد حاجی عبدالرحمن صاحب تم سے سخت ناراض ہیں۔ انہوں نے ایک جگہ تقریر کرتے ہوئے تمہارے بارے میں یہاں تک کہہ دیا ہے کہ وہ ہمارا شاگرد ضرور ہے مگر نالائق گمراہ ہوگیا ہے۔ وہ جماعت اسلامی میں شامل ہوگیا ہے’’۔

حضرت الاستاذ الحاج عبدالرحمن صاحب بڑے نیک و صالح بزرگ تھے۔ بہت دین دار تھے، جمعیۃ العلماء ہند اور تبلیغی جماعت کے سرگرم افراد میں شامل تھے۔ قصبے میں طویل عرصے سے حکومت سے منظور شدہ ایک پرائمری سطح کا اُردو میڈیم اسکول اسلامیہ چشمۂ فیض کے نام سے چلاتے رہے تھے۔ چار نسلوں کے استاد رہے۔ آخر دم تک نہ صرف مکتب کو اُردو میڈیم رکھا بلکہ قرآن کریم و دینیات کی تعلیم اور اسلامی اخلاق کی تربیت پر بھی زور دیتے رہے۔ مختلف ادوار میں وقفہ وقفہ سے حفظ قرآن کا بھی اہتمام کرتے رہے کہ جب بھی حفظ کرانے کا تجربہ یا صلاحیت رکھنے والا آدمی میسر آگیا حفظ کی کلاس باقاعدہ شروع کرا دی۔ چنانچہ بہت سے لوگ ان کے طفیل دولت حفظ قرآن سے مالامال ہوئے۔ قناعت اور سادگی کا یہ عالم کہ ۱۹۸۷ء میں بھی مدرسے سے کُل دو سو روپے تنخواہ کے نام پر لیتے تھے۔

ان دنوں کی بات ہے جب ۲۰ویں صدی کے آغاز میں اسکولوں میں ہندی متعارف کرانے کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ مسلمان اپنی شیریں زبان اُردو کے ساتھ مبینہ طور پر کھردری، اکھڑا اور بے مزہ بغیر مٹھاس و کشش والی ہندی کا پیوند لگتے دیکھ کر ناگواری کا اظہارکر رہے تھے۔ حاجی صاحب فرماتے تھے: اس سال ہندی مڈل اسکول میں ہمارے اُوپر زبردستی تھوپی گئی جس سے ہمیں بالکل انسیت نہیں بلکہ کراہیت تھی۔ اس لیے ہندی کے پرچے میں فیل ہوگئے اور مڈل سے پڑھنا چھوڑ دیا لیکن مطالعہ کا زبردست شوق تھا۔ اپنے طور پر مطالعہ کا سلسلہ عمر بھر جاری رہا۔ فارسی بھی اچھی جانتے تھے۔ راقم کو کئی کتابیں فارسی کی پڑھائی تھیں۔ جب قصبے اور علاقے میں کوئی باقاعدہ عالم نہیں تھا، عقائد اسلامی، فقہ اور ترجمہ و تفسیر قرآن کے مطالعے سے اتنا شغف رکھتے تھے کہ باقاعدہ عالم کی کمی محسوس نہ ہونے دیتے تھے۔ اس کمی کو خود ہی پورا کردیتے تھے۔ لوگ طرح طرح کے مسائل میں رجوع کرتے اور وہ اپنے وسیع مطالعہ غوروفکر اور بصیرت علمی سے ان کی ضرورتیں پوری کرتے، تسلی بخش جواب دیتے اور مطمئن کرتے۔ مسجد میں نماز بھی پڑھاتے تھے اس لیے لوگ مولوی صاحب بھی کہتے تھے۔ بحیثیت استاذ عام طور سے منشی جی کہلائے اور فریضۂ حج کی سعادت حاصل ہوگئی تو حاجی صاحب کہلانے لگے۔ جمعیۃ العلماء اور تبلیغی جماعت کے طریق کار کے مطابق کئی لوگوں کو کلمہ پڑھا کر حلقہ بگوش اسلام بھی کیا۔ میدانِ تدریس کے لیے خود کو ہمیشہ وقف رکھا۔ چنانچہ نئے نئے تجربات بھی کرتے رہے اور نئے نئے گُر بھی اختیار کرتے ۔ نوکری کے لیے استادی نہیں کرتے تھے بلکہ استادی کے لیے نوکری کرتے تھے۔ پرائمری سطح پر ریاضی اتنی پڑھا دیتے تھے کہ ہائی اسکول میں بھی ارتھ میٹکس میں کوئی نئی چیز سامنے نہ آتی تھی۔ اُردو املا، خطوط نویسی، نثر اور نظم کے اقتباسات اپنے الفاظ میں لکھنے اور محاوروں کے استعمال کی خوب مشق کرا دیتے تھے۔ ریاضی سمیت کئی سبجیکٹ پر اس قدر کمانڈ تھی کہ اچھے اچھے گریجویٹ مقابلے میں ٹک نہیں پاتے تھے۔

رفقاء و احباب کے کہنے پر ان کی کہی ہوئی باتوں کے بارے میں احساس ضرور ہوا، لیکن سب کو یہی جواب دیا: ‘‘وہ میرے استاذ ہیں میرے بدخواہ نہیں، خیرخواہ اور بہی خواہ ہیں انھوں نے جو کچھ کہا ہوگا اپنے علم اور دانست میں میرے بھلے کے لیے اور دردمندی و خلوصِ نیت کے ساتھ ہی کہا ہوگا’’۔

موقع ملنے پر حاضر خدمت ہوا تو آنکھوں میں نفرت اور چہرے پر خشونت و ناگواری کے نقوش و آثار واضح تھے۔ ادب کے ساتھ سلام کیا۔ کافی دیر بیٹھا رہا، مختلف موضوعات کے حوالے سے سلسلۂ کلام شروع کرنے کی کوشش کی مگر ادھر سے ہوں، ہاں سے آگے بات نہ بڑھی۔ طرزِ عمل حوصلہ شکنی ہی کا رہا۔ آخر دکھے دل سے اُٹھ کر چلا آیا۔ لیکن ہمت نہیں ہاری۔ کسی بدگمانی یا بُرے خیال کو دل میں جگہ نہیں دی۔ ڈھٹائی کے ساتھ کچھ دن بعد پھر پہنچا۔ اپنی سی ہرممکن کوشش کی مگر سلسلۂ کلام شروع ہی نہیں ہوپایا۔ تاہم بار بار کے آتے جاتے رہنے سے برف خود ہی پگھلی۔ نہ کبھی کوئی حرفِ شکایت زبان پر آیا نہ کوئی سوال کیا کہ آخر بولتے کیوں نہیں؟ اس بے رُخی کی وجہ کیا ہے؟ حسب ِ ضرورت گفتگو ہونے لگی تو حوصلہ بڑھا، عزائم و ارادوں نے مہمیز کیا۔ ان کے شوق مطالعہ کے بھروسے پر سہ روزہ دعوت کا ایک مضمون لے کر پہنچ گیا جس کے بارے میں یقین تھا کہ وہ ان کے مزاج اور سوچ و فکر کے عین مطابق ہے۔ اخبار کو ہر طرف سے لپیٹ کر اور تہہ کر کے صرف اس مضمون کو لے جاکر پیش کیا کہ ذرا یہ مضمون دیکھ لیجیے گا۔ شاید آپ کو پسند آئے۔ اخبار کی شکل و صورت سے اس کا پتا چل رہا تھا پھر بھی ہاتھ میں لیتے ہی تہیں کھلیں تو دعوت کا ٹائٹل سامنے تھا، جسے کبھی دیکھا یا پڑھا تو نہ تھا مگر نام ضرور سن رکھا تھا اور جانتے تھے کہ یہ جماعت اسلامی کا اخبار ہے۔ گویا بجلی کا کرنٹ لگا، پھینکا تو نہیں پھر بھی ناپسندیدگی کے ساتھ ہاتھ سے اس طرح چھوڑا کہ اخبار میز پر گر پڑا۔ دل کو تسلی دی کہ اخبار میز پر رکھ لیا ہے۔ میرے منہ پر تو نہیں دے مارا۔ کچھ دیر بیٹھا رہا، اِدھر اُدھر کی باتیں کیں اور اُٹھ کر چلا آیا۔ کچھ دن بعد پھر اسی طرح ایک مضمون پیش کر کے اخبار حوالہ کردیا۔ اب یہ ایک معمول سا ہوگیا۔ جب جاتا کوئی نہ کوئی مضمون چھانٹ کر اس کے حوالے سے اخبار لے کر پہنچا جاتا۔ بوڑھے بزرگ تھے مطالعے کے شوقین تھے، نہ چاہتے ہوئے بھی سامنے رکھا اخبار اُٹھا کر پڑھنے لگتے۔ اولاً جستہ جستہ پڑھا، عنوانات دیکھے پھر بالاستیعاب پڑھنے لگے۔ کوئی اختلافی اور قابلِ اعتراض و قابلِ گرفت بات نہ ملنے پر ایک بار فرمایا: ‘‘بھئی! ہم تو سبھی عالموں کا ادب و احترام کرتے ہیں وہ عالم ہیں اگر ان کے درمیان کوئی علمی اختلاف ہے تو اس کو وہ جانیں۔ اللہ جانے، جو جیسا ہوگا اس کے بارے میں اللہ خود فیصلہ کرے گا۔ نہ ہماری رائے لے گا نہ ہم سے کوئی فتویٰ پوچھے گا پھر ہم کسی کے پیچھے کیوں پڑیں۔

اسی زمانے میں دعوت کا نومسلم شخصیات نمبر شائع ہوا تھا جس میں ہیمنت کمار اگروال کے مولانا نسیم غازی اور ان کے بڑے بھائی بابوجگدیش اگروال کے بابو کلیم غازی بننے کا قصہ دعوت کے موجودہ مدیراعلیٰ پرواز رحمانی کے قلم سے لکھا ہوا شامل تھا۔ عرض کیا حضرت! ہمارے ضلع کے صدر مقام والے شہر میں جو بابو جگدیش اگروال مسلمان ہوئے تھے ان کے بارے میں تو آپ کو تفصیلات معلوم ہوں گی؟ بے دلی سے فرمایا: ہاں سنا تو تھا، لیکن ہمیں کچھ زیادہ معلومات نہیں ہیں’’۔ یہ لوگ جماعت اسلامی کے توسط سے حلقۂ بگوش اسلام ہوئے تھے اور شہروعلاقے میں خوب ہنگامے ہوئے تھے جب کہ حاجی صاحب کا تعلق جیساکہ اُوپر ذکر ہوا جمعیۃ علماء اور تبلیغی جماعت سے تھا اور اس زمانے میں جماعت اسلامی ان دونوں جماعتوں کی نظر میں بہت مبغوض تھی۔ موقع پاکر مضمون کھول کر پیش کردیا۔ ظاہر ہے یہ نہیں ہوسکتا تھا کہ ایسے مضمون کو نہ پڑھیں یا ایک ہی مضمون پڑھ کر چھوڑ دیں۔ اطمینان کے ساتھ پورا نمبر پڑھا، پھر ایک موقع پر ‘‘نومسلم بیٹے کا ماں کے نام خط’’ نامی کتابچہ پیش کرتے ہوئے عرض کیا: نسیم غازی صاحب کے قصے میں جس خط کا ذکر آیا ہے وہ خط یہ ہے، اور دے کر چلا آیا۔

کچھ روز کے بعد ملاقات ہونے پر فرمایا: ‘‘بھئی! تم نے جو نومسلم بیٹے کا خط دیا تھا وہ ہم نے تو پڑھ لیا تھا پھر اس کو ایک صاحب لے گئے،ا نھوں نے واپس نہیں کیا’’۔ راقم کی عادت اور معمول یہ ہے کہ جو کتاب کسی کو پڑھنے کو دیتا ہے اس کے پڑھ لینے کے بعد اس کو تقاضا کرکے واپس لینے کی کوشش کرتا ہے تاکہ پتا رہے کہ کتاب پڑھی گئی یا نہیں اور اس کے بارے میں کیا تاثرات ہیں کہ آئندہ اسی حساب سے کوئی کتاب وغیرہ دی جائے اور وہ کتاب کسی دوسرے شخص کے کام آجائے۔ شاید حاجی صاحب نے اسی تناظر میں یہ بات کہی تھی۔ لیکن موقع کو دوسرے پہلو سے استعمال کیا۔ عرض کیا وہ خط اور لا کر دے دوں؟ فرمایا: ہاں، اگر مل جائے تو کچھ لوگوں کو پڑھوانے کا ارادہ ہے۔ پتا چلا کہ اس خط کے ذریعے ہی سہی جماعت کے لٹریچر سے کچھ دلچسپی پیدا ہوگئی ہے۔ بہرحال لے جاکر پیش کردیا اور لٹریچر کے مطالعہ کا سلسلہ دراز ہوگیا۔

کالجوں کے تعلیم یافتہ بعض نادان لوگوں نے جن میں بیشتر ان کے شاگرد ہی تھے، اپنی تعلیم و تہذیب اور غیرتعمیری ذہنیت و سرشت کے تقاضوں کے عین مطابق ایک ہنگامہ برپا کیا کہ حاجی صاحب زیادہ بوڑھے ہوگئے ہیں مدرسے کا نظام بہتر طور پر نہیں چلا پا رہے ہیں۔ تعلیم کا معیار پہلے جیسا باقی نہیں رہا ہے۔ ان کو ہٹا کر دوسرا اچھا ہیڈماسٹر رکھیں گے۔ سمجھانے کی کوشش کی کہ پہلے متبادل آدمی تلاش کرلیں۔ حاجی صاحب کے موجودہ رہتے تجربہ کرلیں، ان کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جائے، ان کی نگرانی و تربیت میں کام لیا جائے۔ اگر وہ بہتر طور پر چلا سکے تو ذمہ داری لیتا ہوں، ان کو ہٹا دوں گا۔ ضرورت ہوگی تو کہیں اور لگا دوں گا مگر کہا گیا جب تک یہ رہیں گے دوسرا نہیں آپائے گا۔ یہ نہ رہیں گے تو کوئی نہ کوئی مل ہی جائے گا۔ بہت زور لگایا کہ اس سے بچوں اور ادارے کو نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔ یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے مگر معاملہ غیرتعمیری، غیرتخلیقی اور تخریبی ذہنیت، ضد اور عناد کا تھا، آخر مزاحمت و مقابلہ کیا۔بات بہت بڑھ گئی لیکن میدان نہ چھوڑا۔ حاجی صاحب کو بھی مضبوط پشت و پناہ و پشتیبان نظر آیا۔ زبردست ضرورت محسوس ہوئی۔ بات احتیاج تک پہنچ گئی۔ ہر دو چار روز میں ملنا ضروری ہوگیا۔ ہفتے میں ایک بار غریب خانے پر ضرور تشریف لے آتے۔ ایک بار مجھے بھی خدمت میں حاضر ہونا پڑتا۔ چند دن ہوجاتے تو شکایت اور تقاضے پر مشتمل پرچہ آجاتا۔ اب دباؤ بھی محسوس کر رہے تھے۔ جو کچھ کہتا غوروفکر کرتے اور اکثر مان لیتے۔ انکار کم ہی کر پاتے تھے۔ ایک دوسرے کے گھر اکثر آنا جانا ہوتا۔

ایک روز غریب خانے پر تشریف فرما تھے۔ ذہن اپنے مشن پر کام کرتا رہتا تھا۔ عرض کیا: آج کل مطالعہ میں کیا چل رہا ہے؟ فرمایا: کوئی خاص چیز تو نہیں ہے، جو ہاتھ آجاتا ہے پڑھ لیتے ہیں۔ عرض کیا: قرآن کریم کے حوالے سے دریافت کر رہا تھا۔ کون سا ترجمہ یا تفسیر زیرمطالعہ ہے؟ فرمایا: بھئی! ساری زندگی مطالعہ کرتے، پڑھتے پڑھاتے گزر گئی، کتنے ہی ترجمے و تفسیر پڑھ لیے اب تو کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ جو ترجمے پاس موجود ہیں کبھی انہی کو اُلٹ پلٹ کر دیکھ لیتے ہیں۔ عرض کیا کیا ایسا ترجمہ دے دوں جو اَب تک آپ نے نہیں پڑھا؟ یقینا سمجھ تو گئے ہوں گے کہ کس ترجمہ کی بات ہے لیکن معاملہ چھچھوندر والا بن گیا تھا کہ نہ نگلتے بنے نہ اُگلتے۔ اس حد تک بھی نہیں پہنچے تھے کہ کھل کر کہہ دیں ‘‘لاؤ، دے دو’’ اور حالات کے دباؤ کی وجہ سے ناراض بھی نہیں کرسکتے تھے۔ کچھ خاموشی ہی رہی لیکن میرے لیے موقع گرم لوہے پر چوٹ کا تھا۔ تفہیم القرآن کی پہلی جلد نکال کر ہاتھوں میں تھما دی۔ چارو ناچار گھر لے گئے۔ ۱۵،۲۰ دن بعد ان کی اہلیہ سے ان کی عدم موجودگی میں پوچھا: ‘‘یہ قرآن کا ترجمہ لائے تھے اس کو پڑھتے ہیں کہ نہیں؟’’ انہوں نے کہا: کیا یہ تیرے ہاں سے لائے تھے؟ عرض کیا: ہاں۔ بتایا جب سے لائے ہیں یوں ہی رکھا ہے۔ اسے تو کبھی کھول کر بھی نہیں دیکھا۔ احساس تو ہوا دل پر چوٹ لگی مگر یہی کہا: کوئی بات نہیں گھر میں تو رکھے ہوئے ہیں۔ کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا۔ایک بار معلوم ہوا ایک روز کھول کر دیکھ رہے تھے۔ پھر بتایا کئی بار کھول کر دیکھ چکے ہیں۔ یہاں تک کہ پتا چلا، اب تو روزانہ پابندی سے پڑھ رہے ہیں، باچھیں کھل گئیں۔ دل کی مراد بَر آئی۔ مگر براہ ِراست اس بارے میں کبھی کوئی بات نہیں کی۔ ایک روز بانس پیپر (خاکی کاغذ) چڑھی ہوئی، جلد گھر پر ملی اور بتایا گیا کہ حاجی صاحب یہ واپس دے گئے ہیں۔ ملاقات پر خود ہی فرمایا: ‘‘ہم نے تمہارا قرآن تمہارے گھر پہنچا دیا ہے’’۔ عرض کیا: ہاں، وہ مجھے مل گیا ہے۔ اب آپ سے یہ معلوم کرنا ہے کہ اس کو پڑھنے کے بعد آپ کا تاثر کیا ہے؟ اس کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ آپ کس نتیجے پر پہنچے؟ فرمایا: بھئی! اس کو پڑھنے کے بعد ہم تو اس نتیجے پر پہنچے کہ اب تک جو ترجمے اور تفسیریں ہم نے پڑھیں وہ تو( زبان، اندازِ بیان، نحو، صرف، لغت، فصاحت و بلاغت، تصوف، عقائد، فقہ،اصولِ فقہ، اصولِ تفسیر، منطق، فلسفہ وغیرہ کی طول طویل بحثوں اور عربی و فارسی کے لیے لمبے لمبے اقتباسات کی نقل کی بنیاد پر )تم مولوی لوگوں کے لیے ہیں۔ ہم جیسے لوگوں کے لیے تو عام فہم یہی ترجمہ اور تفسیر موزوں ہے’’۔ عرض کیا تو کیا دوسری جلد پیش کردوں؟خوش دلی سے فرمایا: ہاں، دوسری جلد دے دینا۔

بات آگے چلی تو عرض کیا: حضرت! چاہتا تھا کہ قصبے میں کہیں قرآن کا ترجمہ و تفسیر بیان کرنے کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ فرمایا: تم تو مولوی ہو، اللہ تعالیٰ نے تمہیں علم کی دولت سے نوازا ہے، تمہارا فرض ہے۔ یہ کام تم نہیں کرو گے تو اور کون کرے گا؟ مگر فلاں فلاں اصحاب سے اس بارے میں بات کی تھی، انہوں نے ساتھ نہیں دیا بلکہ مخالفت کی۔ فرمایا: ہمیں کسی کی مخالفت یا موافقت کی پروا نہیں کرنی چاہیے، کسی کی حمایت یا ناراضی پر توجہ نہیں دینی چاہیے۔ کیا تمہیں یاد نہیں ہمارے بزرگ تو ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے بیچ بازاروں اور چوراہوں پر کھڑے ہوکر اپنی بات کہنی شروع کردی، جس نے چاہا سنا جس نے چاہا نہ سنا، وہ چلتا بنا۔ عرض کیا تو کیا جنگل میں جو فلاں مسجد تقریباً ویران رہتی ہے اس میں شروع کردوں؟ فرمایا: نہیں ایسا بھی نہیں ہونا چاہیے کہ سب کچھ ضائع ہی ہوجائے کچھ اور سوچو۔ عرض کیا: فلاں مسجد موزوں معلوم ہوتی ہے اور خیال یہ ہے کہ دہلی سے مولانا اخلاق حسین قاسمی کو دعوت دی جائے۔ مولانا ہمارے یہاں بار بار آتے رہے ہیں۔ لوگ ان سے مانوس بھی ہیں وہ مفسرقرآن ہیں، ایک عرصے تک ریڈیو پر ان کی تفسیر نشر ہوتی رہی ہے۔ دہلی کی مختلف مساجد میں ترجمہ و تفسیر بیان کرتے رہے ہیں، وہ افتتاح فرما دیں۔ ایک افتتاحی جلسہ ہوجائے، پروگرام کا تعارف اور تشہیر ہوجائے تو اچھا سلسلہ چل نکلے گا۔ فرمایا: بہت اچھی تجویز ہے۔ مولانا سے میرا سلام کہہ دینا۔ میرا بھی ان سے اچھا تعلق ہے، تم پر بھی شفقت فرماتے ہیں۔ تاریخ لے لو ایک اچھا جلسہ کرلیں گے۔جولائی کی بات تھی، برسات ہو رہی تھی۔ مولانا اخلاق حسین قاسمی سے عرض کیا تو کمالِ شفقت کے ساتھ اپنے مخصوص انداز میں فرمایا: ‘‘میاں برسات ختم ہوجانے دو، جب تم کہو گے چلے چلیں گے’’۔ مگر قادرِ مطلق کو کچھ اور ہی منظور تھا، یکم اگست ۱۹۹۲ء کو حاجی صاحب کا ۸۳ سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔

حاجی صاحب کے رہتے ہوئے بہت سے دینی، تعلیمی، معاشرتی، سیاسی پروگرام کرائے۔ پروجیکٹ پیش کردیا اور بے فکر ہوگیا۔ حاجی صاحب فرماتے: ٹھیک ہے فکر کی کیا بات ہے۔ سب ٹھیک ٹھاک ہوجائے گا۔ وقت پر اسٹیج سجا سجایا ملتا، حاجی صاحب کے بعد اس سرپرستی سے محرومی کے باعث یتیم سا ہوگیا۔روزانہ صبح دہلی ڈیوٹی کے لیے آنا رات کو گھر لوٹ کر گھر میں جاکر سو جانا، ملاقاتوں کے مواقع کم ہی مل پائے۔ آبائی وطن ایک سرائے بن کے رہ گیا۔

جماعت ِ اسلامی سے وابستہ علاقے کے بزرگ ارکان آج بھی فرماتے ہیں کہ ہمارے کام میں حاجی صاحب ہی سب سے بڑی رکاوٹ بنے رہے، انھوں نے ہمیں کبھی کام نہیں کرنے دیا مگر الحمدللہ صبروتحمل اور تسلسل کے ساتھ بتدریج کوشش اور موقع کی مناسبت سے کام کرنے کی سوچ، حکمت و مصالحت نے حاجی صاحب کو بہت بڑا معاون بنا دیا تھا مگر قسمت میں لبِ بام پہنچنے پر ناکامی ہاتھ لگنا لکھا تھا، کام تو ہو رہا ہے مگر جس بڑی کامیابی کے ساتھ آگے بڑھنے کے حالات پیدا ہوگئے تھے ویسے آج تک میسر نہ آسکے۔

جن لوگوں نے ان کی مخالفت کی اور ان کے پیچھے پڑے وہ اپنی بدنصیبی و نااہلی کا خود عملاً اعلان بنے ہوئے ہیں ۔ ۱۵ سال گزرنے پر بھی اس ادارے کوبہتر تو کیا اس پیمانہ کا بھی نہیں چلا پا رہے ہیں اور نہ ہی ضد میں جو مسجد ضرار کھڑی کرنے کی کوششیں کیں ان کے بارے میں مسجداسس علی التقویٰ کا نمونہ پیش کرپا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں ہدایت الی صراط مستقیم عطا فرمائے اور مرحوم کو غریق رحمت فرمائے۔ کوتاہیوں، لغزشوں اور سیئات کو حسنات سے مبدل فرمائے اور درجات رفیعہ عطا فرمائے۔

حاجی صاحب نے اپنے پیچھے کتابوں کا ایک بیش قیمت ذخیرہ چھوڑا تھا۔ بہت سی قیمتی اور نایاب و کمیاب کتابیں بھی تھیں۔ کوئی اولاد نرینہ نہیں ہے۔ کچھ نااہل لوگوں نے اس ذخیرہ پر جو ایک اچھی خاصی لائبریری کی حیثیت رکھتا تھا غاصبانہ قبضہ کرلیا اور اپنی نااہلی کی بدولت سب ضائع کردیا۔ ایک مسجد میں لے جاکر رکھ دیا نہ مطالعہ کا شوق نہ حفاظت کی ذمہ داری کا احساس۔ اب ایک بھی کتاب نہیں ہے جس کے جو ہاتھ لگا اُٹھا کر چلتا بنا، سب کباڑ بنا دیا ۔ اناللہ وانا الیہ راجعون!

٭٭٭

(بشکریہ ، ماہنامہ زندگی نو،انڈیا، مئی ۲۰۰۸ء)