گفتگو کے اسلامی آداب

مصنف : خطیب محمد انصر

سلسلہ : دین و دانش

شمارہ : جنوری 2009

حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولؐ! جن چیزوں کو آپؐ میرے لیے خوفناک خیال فرماتے ہیں، ان میں سب سے زیادہ خوفناک کون سی چیز ہے؟ حضرت سفیان کہتے ہیں کہ آپؐ نے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا: ‘‘یہ’’۔ (ترمذی)

زبان ایک ایسی چیز ہے جسے قابو میں رکھا جائے تو اس سے بہت فوائد حاصل ہوتے ہیں اور اگر اسے ڈھیل دے دی جائے تو وہ ہمارے لیے خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ اس لیے اللہ اور اس کے رسولؐ نے زبان کو احتیاط سے استعمال کرنے یعنی گفتگو کرنے کے طریقے بتائے ہیں۔

گفتگو اور مسکراہٹ:

بد صورت انسان بھی جب مسکراتا ہے تو خوب صورت نظر آتا ہے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جو مسکرانا نہیں جانتا وہ دکان داری نہ کرے اور ایسے لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر مسکرانے کی مشق کریں۔ حضرت عبداللہ بن حارث بن جَز کہتے ہیں کہ میں نے رسولؐ اللہ سے زیادہ کسی اور کو مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا۔ (ترمذی)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسولؐ اللہ کو کبھی بھی اس طرح ہنستے نہیں دیکھا کہ آپؐ کے تالو نظر آجائیں، آپؐ صرف مسکراتے تھے (یعنی قہقہہ مار کر نہیں ہنستے تھے)’’۔ (بخاری)

زیادہ ہنسنا:

حضرت ابوذرؓ سے ایک طویل حدیث مروی ہے۔ اس حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے یہ نصیحت کی کہ ‘‘تم پر طویل خاموشی لازم ہے، اس لیے کہ یہ چیز شیطان کو دُور کرنے والی اور تمہارے کارِ دین (دین کے کاموں) میں تمہاری مددگار ہے۔

راوی نے عرض کیا: کچھ اور فرمائیں۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ‘‘زیادہ ہنسنے سے بچو، کیونکہ زیادہ ہنسنے سے دل مُردہ ہوجاتا ہے اور اس سے چہرے کا نور زائل ہوجاتا ہے’’۔ راوی نے عرض کیا: کچھ اور فرمائیں۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ‘‘سچی بات کہو اگرچہ وہ کڑوی ہو’’۔ (بیہقی)

لوگوں کو ہنسانا:

حضرت بہز بن حکیمؒ بواسطہ اپنے والد کے اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ‘‘خرابی ہے اُس کے لیے جو اپنی گفتگو میں لوگوں کو ہنسانے کی غرض سے جھوٹ بولے۔ خرابی ہے اُس کے لیے، خرابی ہے اُس کے لیے’’۔ (احمد، ترمذی، ابوداؤد، دارمی)

نرم مزاجی:

اللہ تعالیٰ سورۂ آلِ عمران میں رسولؐ اللہ کی نرم مزاجی کے تعلق سے فرماتا ہے: ‘‘یہ اللہ کی رحمت ہے کہ تم لوگوں کے لیے نرم مزاج ہو۔ اگر کہیں تم تندخو اور سخت دل ہوتے تو یہ سب تمہارے پاس سے چھٹ جاتے’’۔ (آل عمران: ۱۵۹)

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: کیا میں تم کو ایسے شخص کی خبر نہ دوں جو دوزخ کے لیے حرام ہے اور دوزخ کی آگ اس پر حرام ہے؟ (تو پھر آپؐ نے فرمایا: دوزخ کی آگ حرام ہے) ہر ایسے شخص پر جو مزاج کا تیز نہ ہو، نرم ہو، لوگوں سے قریب ہونے والا ہو، نرم خُو ہو’’۔ (ابوداؤد، ترمذی)

حضرت مولانا منظورنعمانیؒ اس حدیث کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ جو آدمی اپنے مزاج اور رویہ (برتاؤ) میں نرم ہو، اور اپنی نرم خوئی کی وجہ سے لوگوں سے خوب ملتا جلتا ہو، دُور دُور اور الگ الگ نہ رہتا ہو، اور لوگ بھی اس کی اس اچھی اورشیریں خصلت کی وجہ سے اس سے بے تکلف اور محبت سے ملتے ہوں، جس سے بات اور معاملہ کرتا ہو، نرمی اور مہربانی سے کرتا ہو، ایسا شخص جنتی ہے اور دوزخ کی آگ اس پر حرام ہے۔ (معارف الحدیث:۲؍۲۲۴)

مخاطب کا پاس و لحاظ:

گفتگو میں متکلم کو مخاطب کا پاس و لحاظ ہونا چاہیے۔ جو گفتگو مخاطب کا پاس و لحاظ کیے بغیر کی جاتی ہے، وہ کارآمد نہیں ہوتی اس لیے کہ بعض لوگ متکلم کی باتوں کو سمجھ نہیں پاتے یا انھیں متکلم کی گفتگو سے دلچسپی نہیں ہوتی۔

۱- مصروف اور سنجیدہ افراد مختصر گفتگو پسند کرتے ہیں اس لیے مخاطب کی مصروفیات کا لحاظ کرتے ہوئے جامع گفتگو کرنی چاہیے۔

۲- گفتگو مخاطب کے معیار کے مطابق ہونی چاہیے۔ کم عقل اور کم علم لوگوں اور بچوں کو بڑی بڑی باتیں بتانا یا تعلیم یافتہ و فطین لوگوں سے بے فائدہ گفتگو کرنا ، نامناسب حرکت ہے۔

اللہ کے رسولؐ فرماتے ہیں: ‘‘ہم انبیاء کی جماعت کو اس بات کا حکم ملا ہے کہ لوگوں کو ان کے مقام و مرتبہ کے مطابق ٹھہرائیں اور ان سے ان کی عقلوں کے لحاظ سے گفتگو کریں’’۔ (ابوداؤد)

۳- گفتگو میں مخاطب کی دلچسپی کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔

حضرت خارجہ بن زید کے والد حضرت زید بن ثابت فرماتے ہیں کہ: ‘‘رسولؐ اللہ کی عادت شریفہ یہ تھی کہ جب ہم دنیا کا ذکر کرتے تو آپؐ بھی ہمارے ساتھ دنیا کا ذکر فرماتے اور جب ہم آخرت کا ذکر کرتے تو آپؐ بھی ہمارے ساتھ آخرت کا تذکرہ فرماتے اور جب ہم کھانے پینے کا ذکر کرتے تو آپؐ بھی ہمارے ساتھ اس کا ذکر فرماتے’’۔ (ترمذی)

۴- ایسی بات بھی نہیں کرنی چاہیے جس سے مخاطب کو تکلیف ہو۔

سورۃ الانعام میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ‘‘اے ایمان والو! یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں، انھیں گالیاں نہ دو، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ تعالیٰ کو گالیاں دینے لگیں’’۔ (الانعام: ۱۰۸)

۵- زبان سے نکلے ہوئے جملے کارتوس کی طرح ہیں جو بندوق کی نالی سے نکل جانے کے بعد دوبارہ اس نالی میں داخل نہیں ہوسکتے، لہٰذا سوچ سمجھ کر گفتگو کرنی چاہیے۔ جو لوگ نتائج کی پروا کیے بغیر گفتگو کرتے ہیں یا متکلم کی گفتگو کو پوری توجہ سے نہیں سنتے، وہ گفتگو سے حاصل ہونے والے فائدوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔

مکّی دور کا واقعہ ہے کہ رسولؐ اللہ حج کے لیے آئے ہوئے لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کی غرض سے کسی قبیلے کے پڑاؤ پر تشریف لے گئے اور ان کے سامنے اپنی بات پیش کی، اس قبیلے کے ایک شخص نے کہا: ‘‘اگر ہم آپؐ کے کام میں آپ کا ساتھ دیں اور اللہ آپؐ کو مخالفین پر غالب کردے تو کیا آپؐ کے بعد حکومت ہماری ہوگی؟’’

اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: ‘‘یہ معاملہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جسے چاہے گا حکومت عطا کرے گا’’۔ اس پر اُس شخص نے کہا: توکیا ہم آپؐ کی خاطر اپنی گردن عربوں کا نشانہ بننے کے لیے پیش کردیں اور جب اللہ آپ کو غلبہ عطا کرے تو اقتدار ہماری جگہ دوسروں کو ملے؟‘‘جایئے، ہمیں آپ کی کوئی ضرورت نہیں’’۔

حج سے فارغ ہو کر یہ لوگ اپنے گاؤں واپس گئے اور اپنے ایک بزرگ کو یہ واقعہ سنایا تو وہ بوڑھا اپنا سر پکڑ کر کہنے لگا:‘‘کیا یہ گزرا ہوا موقع پھر ہاتھ آسکتا ہے؟ یہ ضرور حق ہے، تمہاری عقل اس وقت کہاں چلی گئی تھی؟’’

اپنا لحاظ بھی ضروری ہے:

متکلم کو اپنا لحاظ بھی رکھنا چاہیے، یعنی اپنی عمر، اپنا علم اور اپنی ذمہ داریوں کو مدنظر رکھ کر گفتگو کرنی چاہیے۔ جو شخص ان باتوں کا لحاظ نہیں کرتا وہ اپنا وقار خود مجروح کرتا ہے۔

۲- گفتگو کے دوران بے شک اپنا لحاظ رکھنا چاہیے مگر خودنمائی یعنی اپنی بڑائی کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔ بعض لوگ اپنی دولت، اپنا لباس،اپنا مضبوط جسم یا اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے تکبر کا اظہار کرتے ہیں۔ اسی طرح چند عورتیں اپنی دولت، اپنا حسن، اپنی چوٹی، اپنے زیورات اور اپنے لباس کی وجہ سے اکڑ کر چلتی ہیں اور گال پھلا پھلا کر باتیں کرتی ہیں۔ جنگ ِ بدر کے موقع پر مشرکینِ مکہ اور ان کی عورتیں اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے اپنی شان دکھاتے ہوئے نکلے مگر خود ختم ہوگئے۔

اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے فرماتا ہے: ‘‘تم اُن کی طرح نہ ہونا جو (جنگ ِ بدر کے موقع پر) اتراتے، اکڑتے اور لوگوں کو اپنی شان دکھاتے ہوئے اپنے شہر سے نکلے تھے اور لوگوں کو راہِ خدا سے روکتے اور بہکاتے تھے اور ان کے سارے اعمال اللہ کے احاطۂ علم میں ہیں۔ (الانفال:۴۷)

خودنمائی سے تعلق رکھنے والی ایک حدیث کے تعلق سے مولانا محمد فاروق خان صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ خودپسندی کو نبیؐ نے سب سے بڑھ کر سنگین اور مہلک مرض قرار دیا ہے۔ اس لیے کہ اس مرض میں مبتلا شخص کے اندر کچھ جاننے اور سمجھنے کی تڑپ باقی نہیں رہتی۔ جسمانی توانائی یا صحت ہو، مال و دولت یا اپنے زہد و تقویٰ کا زعم، وہ ان ہی پر نازاں ہوتا ہے اور یہی کبراور خودپسندی اس کے جینے کا نفسیاتی سہارا بن جاتی ہے، اسی لیے ایسے شخص کی اصلاح ایک دشوار کام نظر آتا ہے۔ (کلامِ نبوت: ۲؍۴۴۲-۴۴۳)

موقع و محل کا لحاظ:

گفتگو میں وقت، جگہ اور حالات کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے۔ جو لوگ ان باتوں کا لحاظ رکھتے ہیں،وہ اپنی جدوجہد میں اکثر اوقات کامیاب ہوتے ہیں اور جو لوگ ان باتوں کی پروا نہیں کرتے وہ مصائب اور پریشانیوں میں پھنس جاتے ہیں یا ان کی گفتگو بے فائدہ ہوجاتی ہے۔

۱- مصر کے بادشاہ یعنی عزیز ِ مصر کو حضرت یوسف ؑ کی صالحیت اور صلاحیت پر جب مکمل یقین ہوچکا تو اس نے حضرت یوسف ؑ کو اپنا مشیرِخاص بنالینے کی غرض سے طلب کیا اور کہا: ‘‘آپ کی امانت پر پورا بھروسہ ہے’’۔ (حضرت یوسف ؑ نے اس گفتگو کو عدل و انصاف قائم کرنے کا بہترین موقع سمجھا اور) کہا: ‘‘ملک کے خزانے میرے سپرد کیجیے، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں’’۔ (یوسف: ۵۴-۵۵)

حضرت یوسف ؑ کی درخواست کو بادشاہ نے قبول کیا اور انہیں اقتدار سونپ دیا۔ اسلامی انقلاب کے لیے فردِ واحد___ حضرت یوسف ؑ ___ نے جو کوشش کی، اس کو اللہ تعالیٰ نے شرفِ قبولیت بخشا۔

۲- مغل خاندان کے مشہور بادشاہ اکبر کے ‘‘دین ِ الٰہی’’ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے حضرت شیخ احمدؒ سرہندی عرف حضرت مجدد الف ثانی (۱۵۶۴ء تا ۱۶۲۴ء) اُٹھ کھڑے ہوئے تو علماءِ سو (دنیا پرست علماء) جاہل صوفیہ اور اہلِ بدعت وغیرہ کے گروہ نے آپؒ پر طرح طرح کے الزامات لگاکر نہ صرف انھیں بدنام کیا بلکہ قتل کا فتویٰ بھی دیا۔ چنانچہ مغل بادشاہ نورالدین عرف جہانگیر (۱۵۶۹ء تا ۱۶۲۷ء) نے آپ کو گوالیار (مدھیہ پردیش) کے قلعے میں بند کردیا۔ ایک سال بعد قید سے رہا کرکے تین یا چار سال تک لشکر یعنی فوجی کیمپ میں رکھا۔

لشکر میں قیام کے دوران بادشاہ جہانگیر کے ساتھ آپؒ کی صحبتیں رہیں۔ آپؒ نے اس موقع کا خوب فائدہ اٹھایا اور بادشاہ کو اسلامی تعلیمات سے واقف کرایا۔ بادشاہ آپؒ کی باتوں سے بہت متاثر ہوا اور شہزادہ خرم عرف شاہ جہاں کو حلقۂ معتقدین میں داخل کیا اور اسلامی شریعت کو رائج کرنے کے سلسلے میں متعدد اقدامات کیے۔

حضرت شیخ احمد سرہندیؒ بادشاہ سے قریب رہنے والے ایک شخص کو لکھتے ہیں کہ بادشاہ روح کی مانند ہوتا ہے اور باقی عوام جسم کی مثال۔ اگر روح میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے تو سارا جسم اس بگاڑ کا شکار ہوجاتا ہے۔ چنانچہ بادشاہ کی اصلاح کرنا تمام انسانوں کی اصلاح کے مترادف ہے۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت سرہندیؒ کو موقع عطا فرمایا تو آپؒ نے بادشاہ کی اصلاح کی۔ اس طرح سلطنت کے تمام عوام کی اصلاح کا فریضہ انجام دیا۔

۳- حضرت نوحؑ کی کشتی اُن لوگوں کو لیے چلی جارہی تھی جو آپ ؑ پر ایمان لے آئے تھے۔ ایک ایک موج پہاڑ کی طرح اُٹھ رہی تھی۔ نوحؑ کا بیٹا دُور فاصلے پر تھا۔ نوحؑ نے پکار کر کہا: ‘‘بیٹا! ہمارے ساتھ سوار ہوجا، کافروں کے ساتھ نہ رہ’’۔ اس نے پلٹ کر جواب دیا: ‘‘میں ابھی ایک پہاڑ پر چڑھ جاتا ہوں جو مجھے پانی سے بچا لے گا’’۔ نوحؑ نے کہا: ‘‘آج کوئی چیز اللہ کے حکم سے بچانے والی نہیں ہے سوائے اس کے کہ اللہ ہی کسی پر رحم فرمائے’’۔ اتنے میں ایک موج دونوں کے درمیان حائل ہوگئی اور وہ بھی ڈوبنے والوں میں شامل ہوگیا’’۔ (ہود: ۴۲-۴۳)

جو لوگ موقع و محل کا لحاظ نہیں کرتے، وہ یا تو کسی بڑی مصیبت میں پھنس جاتے ہیں یا ذلت و رسوائی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جو نوجوان چبوتروں، ہوٹلوں یا سڑکوں پر وقت، حالات، زمانے کی رفتار اور اللہ تعالیٰ کی پسند و ناپسند جیسی باتوں کی پروا کیے بغیر گفتگو میں مصروف رہتے ہیں، وہ لوگ اپنے گھر اور معاشرے والوں کی نظروں سے بھی گر جاتے ہیں۔

ان اصولوں سے ناواقف عورتیں اپنی ساس و نند کی شکایات یا بچوں کی شرارتوں کا ذکر اُس وقت شروع کردیتی ہیں، جب ان کے شوہر دن بھر کی جدوجہد سے نجات پاکر گھر میں قدم رکھتے ہیں۔ ایسی بے موقع گفتگو سے نفرتیں اور دُوریاں پیدا ہوتی ہیں اور مسائل کے بوجھ میں کمی کے بجائے، اضافہ ہوجاتا ہے۔

اشاروں کو سمجھنا:

بعض مواقع پر کھل کر بات کہنا نامناسب ہوتا ہے، ایسے حالات میں لوگ اشارہ کنایہ سے گفتگو کرتے ہیں۔ اللہ کے رسولؐ بھی کسی بات کو صراحت سے پیش کرنا مناسب نہیں سمجھتے تو کنایے میں فرماتے تھے۔

۱- مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں کو مدینے میں بھی سکون سے زندگی گزارنے کا موقع نہیں دیا اور ان کے جان و مال کو نقصان پہنچانے لگے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے رسولؐ اللہ دفاعی کارروائی کے لیے تیار ہوگئے۔ اس وقت آپؐ کا ساتھ دینے والے صحابہ کی تعداد۳۱۳ تھی، جس میں ۸۲صحابہ مہاجر تھے اور ۲۳۱ انصار تھے۔ اللہ کے رسولؐ نے دشمنانِ اسلام سے مقابلہ کرنے کے تعلق سے مشورہ طلب کیا۔ مہاجرین میں سے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ نے نہایت عمدہ بات کہی۔ حضرت مقداد کہنے لگے: اے اللہ کے رسولؐ! ہم آپؐ سے وہ بات نہیں کہیں گے جو بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہی تھی کہ تم اور تمہارا رب جاؤ اور لڑو، ہم یہیں بیٹھے ہیں’’۔ (المائدہ:۲۴)

یہ تینوں کمانڈر مہاجرین میں سے تھے، جن کی تعداد لشکر میں کم تھی۔ اللہ کے رسولؐ انصار کی رائے معلوم کرنا چاہتے تھے اس لیے کہ ان کی تعداد زیادہ تھی اور بیعت عقبہ کے لحاظ سے مدینے سے باہر نکل کر لڑنا ان کے لیے لازم نہ تھا۔ لہٰذا آپؐ نے کنایۃً فرمایا: ‘‘لوگو! مجھے مشورہ دو’’۔ انصار کے کمانڈر حضرت سعد بن معاذؓ اشارے کو سمجھ گئے اور عرض کیا: ‘‘اے اللہ کے رسولؐ! کیا آپ کا اشارہ ہماری طرف ہے’’۔ آپؐ نے فرمایا: ‘‘ہاں’’۔انہوں نے کہا: ‘‘اے اللہ کے رسول! آپ کا جو ارادہ ہے،اس کے لیے پیش قدمی فرمایئے۔ اگر آپ ہمیں ساتھ لے کر سمندر میں کودنا چاہیں تو ہم اس میں بھی آپ کے ساتھ کود پڑیں گے، ہمارا ایک آدمی بھی پیچھے نہ رہے گا’’۔

۲- جنگ ِ بدر سے پہلے مشرکینِ مکہ کے حالات کا پتا لگانے کے لیے اللہ کے رسولؐ نے حضرت علیؓ ، حضرت زبیر بن عوامؓ اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ وغیرہ کو روانہ کیا۔ یہ حضرات بدر کے کنویں پر پہنچے۔ وہاں دو غلام مکی لشکر کے لیے پانی بھر رہے تھے۔ صحابہؓ نے انہیں گرفتار کرلیا اور رسولؐ کی خدمت میں حاضر کیا۔ رسولؐ اللہ نے ان سے قریش کے متعلق دریافت کیا۔ ان لوگوں نے کہا: ‘‘یہ ٹیلہ جو وادی کے آخری دہانے پر دکھائی دے رہا ہے قریش اسی کے پیچھے ہیں’’۔ آپ نے دریافت کیا: ‘‘لوگ کتنے ہیں؟’’انہوں نے کہا: ‘‘بہت ہیں’’۔ آپؐ پوچھا: ‘‘تعداد کتنی ہے؟’’ انہوں نے کہا: ‘‘ہمیں معلوم نہیں’’۔ آپؐ نے فرمایا: ‘‘روزانہ کتنے اُونٹ ذبح کرتے ہیں؟’’ انہوں نے کہا: ‘‘ایک دن نو اور ایک دن دس’’۔ آپؐ نے فرمایا: ‘‘تب لوگوں کی تعداد نو سو اور ایک ہزار کے درمیان ہے’’۔

اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عربوں کی عادت کے مطابق ایک اُونٹ سو آدمیوں کے لیے کافی ہوتا تھا، اسی طریقے سے اللہ کے رسولؐ نے اندازہ لگا لیا کہ ۹ اُونٹ سے ۹۰۰ آدمی اور ۱۰ اُونٹوں سے ہزار آدمی ہوں گے۔

۳- جنگ ِ بدر کے واقعے سے چند دن پہلے ملک شام سے ایک بڑا تجارتی قافلہ مکہ واپس جا رہا تھا۔ اس قافلہ کا قائد ابوسفیان بن حرب تھا۔ ابوسفیان نے مدینہ کے قریب پہنچ کر راستے کا حال دریافت کیا۔ اطلاع دینے والے نے کہا کہ ٹیلے کے قریب دو سوار نظر آئے جنھوں نے اپنے جانور بٹھائے اور مشکیزے میں پانی بھر کر چلے گئے۔ابوسفیان ٹیلے کے پاس پہنچا اور وہاں پڑی ہوئی مینگنیاں اُٹھا کر توڑی تو اس سے کھجور کی گٹھلی برآمد ہوئی۔ ایک روایت یہ ہے کہ مینگنیوں میں گٹھلی کے اثرات نظر آئے۔ ابوسفیان نے کہا: ‘‘یہ یثرب (مدینہ) کا چارہ ہے، پھر اس نے اپنے قافلہ کا رخ ساحل کی طرف موڑ دیا’’۔

مینگنیوں سے ابوسفیان کو یہ اندازہ ہوگیا کہ یہ ضرور مسلمانوں کے اُونٹوں کی مینگنیاں ہیں۔ وہ اپنے قافلے کو مسلمانوں سے بچانے کے لیے عام شاہراہ چھوڑ کر ساحل کے راستے سے نکل کر مکہ پہنچ گئے۔

طنز و طعنہ:

طنزیہ کلمات دو قسم کے ہوتے ہیں: ان میں ایک قسم وہ ہے جس کا اثر مخاطب کو ضرور ہوتا ہے مگر اس کے دل کو صدمہ یا تکلیف نہیں پہنچتی، مثلاً:

۱- حضرت عبداللہ بن مسعود نے اپنا مکان بنوایا اور حضرت عمارؓ بن یاسر کو اپنا مکان دکھانے کے لیے لے گئے۔ مکان دیکھ کر حضرت عمارؓ نے فرمایا: ‘‘سخت چیز بنائی اور لمبی (زندگی کی) اُمید کی’’۔

۲- یرموک کی فتح کے بعد حضرت ابوعبیدہؓ بن جراح نے حضرت خالدؓ بن ولید کو قنسرین کی طرف روانہ کیا اہلِ قنسرین چند دن قلعہ بند ہوکر مدافعت کرتے رہے۔ اس وقت حضرت خالدؓ نے ان کو یہ پیغام بھیجا: ‘‘تم اگر بادلوں میں جا چھپو گے، جب بھی اللہ تعالیٰ ہمیں اُٹھا کر تمہارے پاس پہنچا دے گا یا تمہیں ہمارے پاس اُتار دے گا’’۔

۳- ایران کے مشہور تجارتی مرکز اُبلّہ کے حاکم کو حضرت خالد بن ولیدؓ نے خط روانہ کیا جس میں لکھا: ‘‘اگر تم سلامتی چاہتے ہو تو اسلام قبول کرلو۔ اگر یہ منظور نہیں تو جزیہ دو اور مسلمانوں کی پناہ میں آجاؤ۔ اگر یہ بھی منظور نہیں تو پھر جو نتیجہ ہوگا، اس کے تم خود ذمہ دار ہو گے۔ میں ایک ایسی قوم اپنے ساتھ لے کر آیا ہوں جو موت کو اتنا ہی پسند کرتی ہے جتنا تم زندگی کو پسند کرتے ہو’’۔

طنز کی دوسری قسم وہ ہے جس میں متکلم کے جملوں سے مخاطب کو صدمہ پہنچتا ہے:

۱- مشرکین مکہ کے تعلق سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ‘‘یہ لوگ جب تمہیں دیکھتے ہیں تو تمہارا مذاق بنا لیتے ہیں (کہتے ہیں): ‘‘کیا یہ شخص ہے جسے خدا نے رسول بنا کر بھیجا ہے’’۔ (الفرقان:۴۱)

۲- مدینے کے ایک منافق نے رسولؐ اللہ کی اُونٹنی کھو جانے پر طعنہ دیا تھا: ‘‘یوں تو آسمانوں کی خبر دیتے پھرتے ہیں لیکن اتنا بھی پتا نہیں کہ اُونٹنی اس وقت کہاں ہے’’۔ اس کے جواب میں حضوؐر نے فرمایا تھا کہ: ‘‘بخدا میرا حال یہ ہے کہ میں اس کے سوا کچھ نہیں جانتا، جو کچھ کہ اللہ مجھے بتا دے اور اب اللہ تعالیٰ نے مجھے اُونٹنی کے بارے میں اطلاع دے دی ہے۔ وہ اس وادی میں ہے اور ایک درخت کے ساتھ اس کی باگ الجھ گئی ہے’’۔ چنانچہ رفقا تلاش کو گئے تو اس کو اسی حالت میں پایا۔ (محسنِ انسانیت:۲۹۲)

طنزیہ جملے نفرتیں اور دُوریاں پیدا کرتے ہیں اور رشتے کاٹتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ‘‘آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القاب (ناموں) سے یاد کرو’’۔ (الحجرات: ۱۱)

۳- حضرت عائشہؓ نے ایک بار اُم المومنین حضرت صفیہؓ کو پست قد کہہ دیا تو حضوؐر نے فرمایا: ‘‘عائشہ تم نے ایسی بات کہی کہ اگر سمندر میں ڈال دی جائے تو اس کا سارا پانی تلخ ہوجائے’’۔ (احمد، ترمذی، ابوداؤد)

۴- رسولؐ اللہ سے نکاح کے بعد جب حضرت صفیہؓ مدینہ پہنچیں تو دیگر ازواجِ مطہرات اور انصار کی عورتیں انہیں دیکھنے کے لیے آئیں۔ اس وقت رسولؐ اللہ نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا: ‘‘عائشہ تم نے اس کو کیسا پایا؟’’ حضرت عائشہؓ نے جواب دیا: ‘‘یہودیہ’’ ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: ‘‘یہ نہ کہو، وہ مسلمان ہوگئی ہے اور اس کا اسلام اچھا اور بہتر ہے’’۔ ایک موقع پر رسول ؐ اللہ نے اُم المومنین حضرت زینبؓ بنت حجش سے فرمایا: ‘‘زینب تم صفیہ کو ایک اُونٹ دے دو’’۔ حضرت زینبؓ بہت سخی تھیں مگر اس وقت ان کی زبان سے یہ نکل گیا: ‘‘یارسولؐ اللہ! کیا میں اس یہودیہ کو اپنا اُونٹ دے دوں؟’’ یہ کلمہ رسولؐ اللہ کو پسند نہ آیا اور دوتین ماہ تک آپؐ نے حضرت زینبؓ سے بات چیت نہ کی۔ پھر آپؐ نے ان کا قصور معاف کردیا’’۔ (ابوداؤد)

مزاح:

دوستوں کی محفلوں میں یا تفریح کے مواقع پر دوسروں کو ٹھیس پہنچانے والی باتیں زبان سے نکل جاتی ہیں اور بعض باتیں خود متکلم کے لیے وبالِ جان بن جاتی ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

۱- اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نہ مرد، دوسروں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں۔ دوسری عورتوں کو مذاق اڑائیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اُن سے بہتر ہوں’’۔ (الحجرات:۱۱)

۲- مشہور صحابی حضرت خباب بن ارتؓ لوہار کا کام کرتے تھے۔ اُن کی کچھ رقم عاص بن وائل کے ذمے تھے۔ ایک مرتبہ عاص بن وائل نے حضرت خبابؓ کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا: ‘‘اگر سب مرنے کے بعد پھر زندہ ہونے والے ہیں تو جب میں اور تم دوبارہ زندہ ہوں گے، تو اس وقت مجھ سے اپنی رقم کا مطالبہ کرنا۔ اس دن میرے پاس مال و دولت اور اولاد کی بہتات ہوگی۔ تمہاری رقم فوراً ادا کردوں گا’’۔

اللہ تعالیٰ سورۂ مریم میں فرماتا ہے: ‘‘پھر تم نے دیکھا اُس شخص کو جو ہماری آیات کو ماننے سے انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تو (آج بھی خوش حال ہوں اور آئندہ بھی) مال و اولاد سے نوازا ہی جاتا رہوں گا؟ کیا اسے غیب کا پتا چل گیا ہے یا اس نے رحمن سے کوئی عہد لے رکھا ہے؟…… ہرگز نہیں، جو کچھ یہ بکتا ہے، اسے ہم (اعمال نامہ میں) لکھ لیں گے اور اس کے لیے سزا میں اور زیادہ اضافہ کریں گے’’۔ (مریم:۷۷-۷۹)

اسلام کے پیغام کا انکار کرنا ہی بڑی غلطی ہے، اس پر مزید یہ کہ اللہ کا مذاق اڑانا اور بڑی غلطی ہے۔ اسی لیے اس آیت میں اللہ تعالیٰ سزا میں اور زیادہ اضافے کی وعید سناتا ہے۔

علماء لکھتے ہیں کہ نہ صرف عاص بن وائل ایسی حرکتیں کرتا تھا بلکہ مشرکینِ مکہ کا ہر سردار اسی جنون میں مبتلا تھا۔

۳- ہنسی مذاق کے مواقع پر بعض باتیں یا عمل مارپیٹ اور خون خرابے کا سبب بن جاتے ہیں۔ ابن ہشام نے ابوعون سے روایت کی ہے کہ ایک عرب عورت بنوقینقاع (مدینہ کے یہودیوں کا ایک فرقہ) کے بازار میں دودھ لے کر آئی اور بیچ کر (کسی ضرورت کے لیے) ایک سنار کے پاس، جو یہودی تھا، بیٹھ گئی۔ یہودیوں نے اس کا چہرہ کھلوانا چاہا مگر اس عورت نے انکار کردیا، اس پر اُس سنار نے چپکے سے اس کے کپڑے کا کنارہ اس کی پشت پر گانٹھ دیا اور اسے کچھ خبر نہ ہوئی۔ جب وہ عورت اٹھی تو اس کی شرم گاہ کھل گئی اور یہودیوں نے قہقہہ لگایا۔ اس پر اس عورت نے چیخ و پکار مچائی جسے سن کر ایک مسلمان نے اس سنار پر حملہ کیا اور اسے مار ڈالا۔ جواباً یہودیوں نے اس مسلمان کو ختم کردیا۔ مقتول مسلمان کے گھروالوں نے شور مچایا اور یہود کے خلاف مسلمانوں سے فریاد کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اور بنوقینقاع کے یہودیوں میں بلوہ ہوگیا۔ (الرحیق المختوم: ۳۷۲)

غصہ:

آدمی کو جب غصہ آجاتا ہے تو اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے، ایسے موقعے پر بعض لوگوں کی زبان بے لگام ہوجاتی ہے۔ غصہ عقل کو صحیح طور پر سوچنے اور فیصلہ کرنے میں رکاوٹ بنتا ہے۔ اسی لیے اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ہے: ‘‘پہلوان اور طاقت ور وہ (شخص) نہیں ہے، جو لوگوں کو کشتی میں پچھاڑ دے بلکہ قوی وہ ہے جو غصہ کے موقعے پر اپنے آپ کو قابو میں رکھے’’۔ اس حدیث کو حضرت ابوہریرہؓ نے روایت کیا ہے۔ (بخاری، مسلم)

آدمی کو جن وجوہات سے غصہ آتا ہے، اُن میں سے چند یہ ہیں:

۱- طنز و طعن ۲- نافرمانی ۳- زبان درازی ۴- ظلم و ستم اور مفاد پرستی وغیرہ۔

۱- حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسولؐ نہ تو فحش گو تھے، نہ لعنت کرنے والے تھے اور نہ بدکلام تھے۔ جب کسی پر آپؐ کو غصہ آتا تو بس اتنا فرماتے: ‘‘کیا ہوا اُسے، خاک آلود ہو اُس کی پیشانی’’۔

۲- حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسولؐ نے اپنی ذات کے لیے کسی چیز کا کبھی انتقام نہیں لیا۔ الاّ یہ کہ اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کا ارتکاب کیا جا رہا ہو، تو آپؐ اللہ کے لیے انتقام لیتے تھے۔ (بخاری، مسلم، مؤطا، ابوداؤد)

۳- مشہور واقعہ ہے کہ ایک بار ایک بدو آیا اور رسولؐ اللہ کی چادر کھینچ کر اکھڑپن سے کہنے لگا: ‘‘محمدؐ! یہ مال خدائی مال ہے۔ تمہیں کچھ اپنے مال یا اپنے باپ کے مال میں سے نہیں دینا ہے۔ لاؤ! ایک بارِشُتر (اُونٹ) مجھے لدوا دو’’۔ رسولؐ نے تھوڑی دیر بعد ٹھنڈے انداز میں فرمایا: ‘‘بے شک یہ مال خدا کا مال ہے اور میں اس کا غلام ہوں’’۔ پھر حکم دیا کہ ایک بار شتر جو اور ایک بار شتر کھجوریں بدو کو دے دی جائیں۔ (محسنِ انسانیت: ۵۹۵)

۴- مکہ کے ایک مسلمان جن کا نام حضرت عتبہ بن اسید ثقفی تھا اور کنیت ابوبصیر تھی، صلح حدیبیہ کے بعد مدینہ چلے آئے۔ اس معاہدہ کے مطابق مکہ سے آنے والوں کو رسولؐ اپنے ساتھ رکھ نہیں سکتے تھے اس لیے آپؐ نے فرمایا: ‘‘ابوبصیر تمہیں معلوم ہے کہ صلح نامہ کی شرط کے مطابق میں تمہیں اپنے پاس روک نہیں سکتا۔ اگر روکوں تو یہ عہدشکنی ہوگی جو ہمارے دین میں جائز نہیں۔ اس لیے اس وقت تم واپس جاؤ۔ عنقریب اللہ تعالیٰ تمہاری اور دوسرے مظلوم مسلمانوں کی رہائی کی کوئی صورت پیدا کرے گا’’۔

حضرت عتبہ ارشاد نبویؐ کی تعمیل میں قریش کے ان دو آدمیوں کے ساتھ چل پڑے، جو انہیں مکہ واپس لانے کے لیے بھیجے گئے تھے، راستے میں حضرت عتبہؓ نے ایک آدمی کو قتل کردیا تو دوسرا آدمی جان بچا کر رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ماجرا بیان کیا۔

حضرت عتبہ بھی واپس مدینہ پہنچے اور رسولؐ اللہ سے عرض کرنے لگے: ‘‘یارسولؐ اللہ! آپؐ نے معاہدے کی شرط پوری کردی اور اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوگئے۔ اللہ نے مجھے ہمت دی اور میں آزاد ہوگیا’’۔

قریش کے آدمی کو قتل کر کے حضرت عتبہؓ کا اس طرح واپس آنا قریش کو مشتعل کرنے کا باعث ہوسکتا تھا۔ اس لیے آپؐ نے ارشاد فرمایا: ‘‘اسے (حضرت عتبہ کو) کوئی ساتھی مل جائے تو یہ جنگ کی آگ بھڑکا دے گا’’۔ یہ سن کر حضرت عتبہؓ وہاں سے نکل کر ساحلِ سمندر آگئے اور ‘‘عیص’’ کو اپنا مستقر بنا لیا۔

اللہ کے رسولؐ نے غصے پر قابو پانے کا طریقہ بھی بتایا ہے۔ حضرت ابوذرؓ کی روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: ‘‘جب تم میں سے کسی کو کھڑے ہونے کی حالت میں غصہ آئے تو وہ بیٹھ جائے۔ اگر بیٹھنے سے غصہ ختم ہوجائے تو ٹھیک ہے ورنہ لیٹ جائے’’۔ (ابوداؤد)

عروۃ بن محمد ابن السعدیؓ کی روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: ‘‘غصہ شیطان کے اثر سے ہوتا ہے اور شیطان آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آگ پانی سے بجھائی جاتی ہے، لہٰذا جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو وہ وضو کرلے’’۔ (ابوداؤد)

غصہ دُور کرنے میں یہ بات بھی معاون سمجھی جاتی ہے کہ آدمی اپنی سوچ اور خیالات کا رُخ دوسری طرف موڑ دے۔ نیز یہ بھی صحیح ہے کہ اعصابی تناؤ کو ختم کرنے کے لیے سخت جسمانی محنت کی جائے۔ مولانا محمد عثمان نجاتی لکھتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ نے ان دونوں طریقوں کو بھی اپنایا ہے۔ (حدیث نبوی اور علم النفس: ۱۳۰)

دوبدو جواب دینا:

۱- شبلی نعمانیؒ اپنی مشہور کتاب ‘‘الفاروق’’ میں بخاری کے ‘‘باب اللباس’’ کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ اپنی بیوی کو سخت بات کہی۔ انھوں نے بھی برابر کا جواب دیا۔ اس پر (حضرت عمرؓ) نے کہا کہ اب تمہارا یہ رتبہ پہنچا۔ وہ بولیں کہ تمہاری بیٹی (اُم المومنین حضرت حفصہؓ) تو رسولؐ سے دوبدو ایسی باتیں کرتی ہے۔ (الفاروق، ص ۵۲۰)

حضرت عبداللہؓ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا: ‘‘ہم قریش کے لوگ اپنی عورتوں کو دبا کر رکھنے کے عادی تھے۔ جب ہم مدینہ آئے تو ہمیں یہاں ایسے لوگ ملے جن پر اُن کی بیویاں حاوی (غالب) تھیں، اور یہی سبق ہماری عورتیں بھی ان سے سیکھنے لگیں۔ ایک روز میں اپنی بیوی پر ناراض ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ مجھے پلٹ کر جواب دے رہی ہے۔ مجھے یہ بہت ناگوار ہوا کہ وہ مجھے پلٹ کر جواب دے۔ اس نے کہا: آپ اس بات پر کیوں بگڑتے ہیں کہ میں آپ کو پلٹ کر جواب دوں؟ خدا کی قسم! رسولؐ اللہ کی بیویاں حضوؐر کو جواب دیتی ہیں اور اُن میں سے کوئی حضوؐر سے دن بھر روٹھی رہتی ہے۔ (بخاری کی روایت ہے کہ حضوؐر اس سے دن بھر ناراض رہتے ہیں) یہ سن کر میں گھر سے نکلا اور حفصہؓ کے ہاں گیا۔

میں نے اس سے پوچھا کہ کیا تو رسولؐ کو دوبدو جواب دیتی ہے؟ اس نے کہا: ہاں۔ میں نے پوچھا: اور کیا تم میں سے کوئی دن دن بھر حضوؐر سے روٹھی رہتی ہے؟ (بخاری کی روایت ہے کہ حضوؐر دن بھر اُس سے ناراض رہتے ہیں) اس نے کہا: ہاں۔ میں نے کہا: نامراد ہوگئی اور گھاٹے میں پڑ گئی وہ عورت جو تم میں سے ایسا کرے’’۔ (تفہیم القرآن،ج ۶، ص ۲۴)

۲- فتحِ مکہ کے بعد لوگ اسلام میں داخل ہونے لگے اور آپؐ صفا پر بیٹھ کر مردوں سے بیعت لیتے رہے۔ مردوں کی بیعت سے فارغ ہونے کے بعد آپؐ نے عورتوں سے بیعت لینی شروع کی۔ حضرت عمرؓ آپؐ سے نیچے بیٹھے ہوئے تھے اور آپؐ کے حکم پر عورتوں سے بیعت لے رہے تھے۔ اس دوران ابوسفیان کی بیوی ہندہ بنت ِ عتبہ بھیس بدل کر آئی۔ بیعت کے آغاز میں رسولؐ اللہ نے فرمایا: ‘‘میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گی’’۔ پھر آپؐ نے فرمایا: ‘‘اور چوری نہ کرو گی’’۔ اس پر ہندہ بول اُٹھی: ‘‘ابوسفیان (ہندہ کے شوہر) بخیل آدمی ہے۔ اگر میں اس کے مال سے کچھ لے لوں تو؟’’ ابوسفیان نے (جو وہیں موجود تھے) کہا: ‘‘تم جو کچھ لے لو وہ تمہارے لیے حلال ہے’’۔ رسولؐ مسکرانے لگے۔ آپؐ نے ہندہ کو پہچان لیا اور فرمایا: ‘‘اچھا…… تو تم ہو ہندہ’’۔ (ہندہ اسی لیے بھیس بدل کر آئی تھی کہ رسولؐ اللہ اسے پہچان نہ پائیں) وہ بولی: ہاں،اے اللہ کے نبیؐ (حالت ِ شرک میں) جو کچھ ہوچکا، اسے معاف فرما دیجیے، اللہ آپ کو معاف فرمائے’’۔

اس کے بعد آپؐ نے فرمایا: ‘‘اور زِنا نہ کرو گی۔ اس پر ہندہ نے کہا: بھلا کہیں حُرہ (آزاد عورت) بھی زنا کرتی ہے۔ پھر آپؐ نے فرمایا: ‘‘اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرو گی’’۔ ہندہ نے کہا: ‘‘ہم نے تو بچپن میں انہیں پالا پوسا لیکن بڑے ہونے پر آپ لوگوں نے انہیں قتل کردیا۔ (ہندہ کا بیٹا حنظلہ بن ابی سفیان کو جنگ ِ بدر میں مسلمانوں نے قتل کردیا تھا) اس لیے آپ اور وہ ہی بہتر جانیں۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ ہنستے ہنستے لیٹ گئے اور رسولؐ نے بھی تبسم فرمایا: اس طرح ہندہ رسولؐ اللہ کی ہر بات کا جواب دیتی رہی۔ پھر واپس ہوکر ہندہ نے اپنا بت توڑ دیا۔ وہ اسے توڑتی جارہی تھی اور کہتی جارہی تھی ہم تیرے متعلق دھوکے میں تھے۔ (الرحیق المختوم: ۶۳۹)

دوبدو جواب دینے کی عادت والے مرد و عورت موقع محل کا لحاظ کیے بغیر زبان چلاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ خود بھی مصیبت کا شکار ہوجاتے ہیں اور اپنے معاشرے کو بھی مصیبت میں پھنسا دیتے ہیں۔

۳- حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ جب رسولؐ اللہ نے قریش (مشرکینِ مکہ) کو بدر کے دن شکست دے دی اور مدینہ تشریف لائے تو بنوقینقاع کے بازار میں یہود کو جمع کیا اور فرمایا: ‘‘اے جماعت ِ یہود، اس سے پہلے اسلام قبول کرلو کہ تم پر بھی ویسی ہی مار پڑے جیسی قریش پر پڑچکی ہے۔ انھوں نے کہا: اے محمدؐ! تمہیں اس بنا پر خودفریبی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ تمہاری مڈبھیڑ قریش کے اناڑی اور ناآشنائے جنگ لوگوں سے ہوئی اور تم نے انہیں مار لیا۔ اگر تمہاری لڑائی ہم سے ہوگئی تو پتا چل جائے گا کہ ہم مرد ہیں اور ہمارے جیسے لوگوں سے تمہیں پالا نہ پڑا تھا۔

چند دن بعد خود اُنہی لوگوں نے ایک مسلمان عورت کو چھیڑا جس کے نتیجہ میں فساد ہوگیا۔ فساد کے بعد رسولؐ اللہ نے مجاہدین کو روانہ کیا۔ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ وہ جس قوم کو پسپا کرنا چاہتا ہے تو اُس قوم والوں کے دلوں میں رعب ڈال دیتا ہے۔ بنوقینقاع کے یہودیوں کا حال یہی ہوا۔ مجاہدین اسلام نے انھیں گھیر لیا۔ ڈر کے مارے یہودیوں نے ہتھیار ڈال دیئے۔

۴- حنین وطائف کے معرکے کے بعد رسولؐ اللہ نے مالِ غنیمت تقسیم کیا تو مؤلفۃ القلوب کی قرآنی مد کے تحت نومسلم روسائے مکہ کو اس میں سے بہت سا حصہ دیا تاکہ اُن کے دل مزید نرم ہوں۔ انصار کے کچھ لوگ غلط فہمی کا شکار ہوگئے۔ کہنے لگے: ‘‘رسولؐ اللہ نے قریش کو خوب انعامات دیے اور ہمیں محروم رکھا…… مشکلات میں ہم یاد آتے ہیں اور مال غنیمت دوسرے لوگ لے جاتے ہیں’’۔

رسولؐ اللہ کو ان باتوں کا علم ہوا تو آپؐ نے انصار سے تحقیق کی۔ انصار نے کہا کہ آپؐ نے جو سنا وہ صحیح ہے مگر یہ باتیں ذمہ دار لوگوں نے نہیں کیں۔ کچھ نوجوانوں نے ایسے فقرے کہے ہیں۔

اس کے بعد آپؐ نے یہ تقریر کی: ‘‘کیا یہ سچ نہیں ہے کہ پہلے تم لوگ گمراہ تھے، اللہ نے میرے ذریعے سے تم کو ہدایت دی؟ تم منتشر اور پراگندہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعے سے تم کو متحد اور متفق کیا۔ تم مفلس تھے، خدا نے میرے ذریعے سے تم کو آسودہ حال کیا؟ (ہرسوال پر انصار کہتے جاتے تھے کہ بے شک اللہ اور اس کے رسولؐ کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے)’’۔

‘‘(آپؐ نے پھر فرمایا): نہیں، تم یہ جواب دو کہ اے محمدؐ! تم کو جب لوگوں نے جھٹلایا تو ہم نے تمہاری تصدیق کی، تم کو جب لوگوں نے چھوڑ دیا تو ہم نے پناہ دی۔ تم جب مفلس ہوکر آئے تھے تو ہم نے ہر طرح کی مدد کی۔ تم جواب میں یہ کہتے جاؤ اور میں یہ کہتا جاؤں گا کہ ہاں تم سچ کہتے ہو’’۔

‘‘لیکن اے گروہِ انصار! کیا تم کو یہ پسند نہیں کہ لوگ اُونٹ اور بکریاں لے جائیں اور تم محمدؐ کو لے کر اپنے گھروں کو جاؤ۔ انصار بے اختیار چیخ اُٹھے کہ ہم کو صرف محمدؐ درکار ہیں’’۔ (بخاری)

بڑے لوگوں اور محسنوں کو دوبدو جواب دینے اور اُن کے دلوں کو تکلیف پہنچانے والے کلمات کہنے کی عادت اس دور کے کئی نوجوان لڑکوں و لڑکیوں کے علاوہ مردوں و عورتوں میں بھی موجود ہے۔ اگر دینی تعلیم ہر مرد و عورت کے لیے عصری علوم کی تعلیم کی طرح لازمی ہوتی تو انصار کے یہ الفاظ: ‘‘ہم کو صرف محمدؐ درکار ہیں’’۔ ہر جگہ سنائی دیتے۔

بدکلامی:

اللہ تعالیٰ سورۂ بنی اسرائیل میں فرماتا ہے: ‘‘اور اے محمدؐ! میرے بندوں سے کہہ دو کہ زبان سے وہ بات نکالا کریں جو بہترین ہو۔ دراصل یہ شیطان ہے جو انسانوں کے درمیان فساد ڈلوانے کی کوشش کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ (بنی اسرائیل:۵۳)

اللہ تعالیٰ اس آیت میں یہ فرماتا ہے کہ کفارومشرکین اور اسلام کے مخالفین کیسی ہی ناگوار باتیں کریں مگر اے ایمان والو! تم وہی بات کہو جو بہترین ہو۔ ناپ تول کر الفاظ نکالو اور غصے میں آکر بے ہودگی کا جواب بے ہودگی سے نہ دو کیوں کہ شیطان نفرت اور دشمنی پیدا کرنے اور بڑھانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔

۲- حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ مومن بندہ نہ زبان سے حملہ کرنے والا ہوتا ہے نہ لعنت کرنے والا اور نہ بدگو اور نہ گالی بکنے والا۔ (ترمذی)

۳- حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ‘‘اپنے والدین کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے’’۔ لوگوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! کیا کوئی شخص اپنے والدین کو بھی گالی دیتا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ‘‘ہاں!ایک شخص دوسرے کے باپ کو گالی دیتا ہے، جواب میں وہ اُس کے باپ کو گالی دیتا ہے اور یہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ جواب میں اس کی ماں کو گالی دیتا ہے۔(مسلم)

۴- حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ‘‘جو شخص کسی کو کافر کہہ کر پکارے یا اُسے دشمنِ خدا کہے اور وہ شخص واقعتا ایسا نہ ہو تو اس کا کہا ہوا (جملہ) خود اسی پر لوٹ پڑتا ہے۔ (بخاری، مسلم)

جاہلوں سے واسطہ:

جھگڑالو اور گالی گلوچ کرنے والوں سے لوگ ملنا پسند نہیں کرتے کیونکہ کہ اُن کے دلوں میں پہلے ہی سے یہ خیال ہوتا ہے کہ یہ سماج کے بُرے لوگ ہیں۔ ایسے ہی ایک بُرے شخص کے تعلق سے حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک شخص نے رسولؐ اللہ سے ملاقات کی اجازت چاہی، آپؐ نے (ہم لوگوں سے) فرمایا کہ یہ اپنے قبیلے کا بُرا فرزند ہے۔ یا فرمایا کہ یہ شخص اپنے قبیلے کا بُرا آدمی ہے۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ اس کو آنے کی اجازت دے دو، پھر جب وہ آگیا تو آپؐ نے اس (شخص) کے ساتھ گفتگو بہت نرمی سے فرمائی۔

(جب وہ چلا گیا) تو حضرت عائشہؓ نے آپؐ سے عرض کیا کہ یارسولؐ اللہ! آپؐ نے تو اس شخص سے بڑی نرمی کے ساتھ بات کی حالانکہ پہلے آپ نے اسی کے بارے میں وہ بات فرمائی تھی (کہ وہ اپنے قبیلے کا بہت بُرا آدمی ہے)۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے نزدیک درجہ کے لحاظ سے بدترین آدمی قیامت کے دن وہ ہوگا، جس کی بدزبانی اور سخت کلامی کے ڈر سے لوگ اس سے ملنا چھوڑ دیں۔ (بخاری، مسلم، ابوداؤد)

اس حدیث کی تشریح میں مولانا منظور نعمانیؒ تحریر فرماتے ہیں کہ جس آدمی کا شریر اور بُرا ہونا معلوم ہو، اس سے بھی گفتگو نرمی ہی سے کرنی چاہیے۔ آگے تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت ابوالدرداءؓ سے خود امام بخاریؒ نے نقل کیا ہے کہ وہ فرماتے تھے: ‘‘یعنی ہم بہت سے ایسے لوگوں سے بھی ہنس کر ملتے اور بولتے ہیں، جن کے احوال اور اعمال کے لحاظ سے ہمارے دل اُن پر لعنت کرتے ہیں’’۔

البتہ اگر کسی خاص موقع پر سختی اور اظہار ناراضی ہی میں مصلحت نظر آئے تو وہاں سختی کا رویہ اختیار کرنا بھی صحیح ہوگا۔ (معارف الحدیث، ج ۲، ص ۲۳۸-۲۳۹)

زید بن وہب سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہؓ سے یہ کہتے سنا کہ اللہ کے رسولؐ نے ہم سے فرمایا: ‘‘(دنیا سے) میرے گزرنے کے بعد تم لوگوں کو خوش حالی اور فارغ البالی سے سابقہ پیش آئے گا اور ایسی چیزیں تمہیں نظر آئیں گی جنھیں تم دل سے ناپسند کرو گے۔

لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! ایسے حالات میں ہمارے لیے آپؐ کا کیا حکم ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ان لوگوں کے حقوق ادا کردینا اور اپنا حق اللہ سے طلب کرنا۔ (بخاری)

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ‘‘اور اے نبیؐ! نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اُس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے’’۔ (حٰم السجدہ:۳۴) یعنی بُرائی کرنے والے کو معاف کردینے سے بھی اعلیٰ درجے کی نیکی یہ ہے کہ جو تم سے بُرا سلوک کرے، موقع آنے پر تم اس کے ساتھ احسان کرو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ برادرانِ یوسفؑ نے جب حضرت یوسف ؑ کو پہچان لیا تو بہت شرمندہ ہوئے اور کہا: بے شک ہم خطاکار تھے۔ حضرت یوسفؑ نے کہا: ‘‘آج تم پر کوئی گرفت نہیں، اللہ تمہیں معاف کرے۔ وہ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے۔ جاؤ میری یہ قمیص لے جاؤ اور میرے والد کے منہ پر ڈال دو۔ اُن کی بینائی (جو ختم ہوچکی تھی) پلٹ آئے گی اور اپنے سب اہل و عیال کو میرے پاس لے آؤ۔ (یوسف: ۹۲-۹۳)

مشرکینِ مکہ کے بعد بہت سے لوگ مسلمان ہوئے اور وہ لوگ بھی اپنے اسلام کا اظہار کرنے لگے جو ابھی تک درپردہ مسلمان تھے۔ نتیجتاً اسلامی لشکر کی تعداد دس ہزار تک جاپہنچی جبکہ فتح مکہ سے پہلے تین ہزار سے زیادہ نہ ہوسکی تھی۔ (الرحیق المختوم)

درگزر کرنا:

کوئی شخص ایسی حرکت کرتا ہے یا کوئی بات ایسی کہتا ہے جس سے ہمیں تکلیف ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں جوابی کارروائی کے طور پر کچھ کرنے یا کچھ بولنے کے بجائے درگزر کرنا چاہیے۔ یہی اللہ اور اس کے رسولؐ کی تعلیم ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ‘‘اے نبیؐ! نرمی و درگزر کا طریقہ اختیار کرو، معروف کی تلقین کیے جاؤ اور جاہلوں سے نہ الجھو’’۔ (الاعراف:۱۹۹)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی نے مسجد میں پیشاب کردیا۔ لوگ اس پر بگڑنے لگے۔ آپؐ نے فرمایا: ‘‘اسے چھوڑو اور اس کے پیشاب پر ایک بڑا ڈول پانی بہا دو۔ تم تو آسانی پیدا کرنے کے لیے بھیجے گئے ہو، سختی کے لیے تمہیں نہیں بھیجا گیا ہے’’۔ (بخاری)

بحث مت کیجیے:

گفتگو کے دوران مخاطب کو آپ کی کسی بات پر اعتراض ہو اور وہ کسی دلیل کو قبول کرنے پر آمادہ نہ ہو تو گفتگو ختم کردیجیے یا گفتگو کا موضوع بدل دیجیے تاکہ تعلقات باقی رہ سکیں اور وقت ضائع نہ ہو۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ‘‘پس اے نبیؐ! جو شخص ہمارے ذکر سے منہ پھیرتا ہے اور دنیا کی زندگی کے سوا جسے کچھ مطلوب نہیں ہے، اسے اس کے حال پر چھوڑ دو’’۔ (النجم:۲۹)جو لوگ حق قبول کرنے کے لیے بالکل تیار نہ ہوں، اللہ ان کے تعلق سے یہ کہنے کا حکم دیتا ہے کہ ‘‘تمھارے لیے تمھارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین’’۔ (الکافرون:۶)

اعتراف:

کوئی بات زبان سے نکل گئی یا کوئی ایسی حرکت ہوگئی جو واقعی غلط ہے تو اس غلطی کو مان لینا چاہیے،اسی کو اعتراف کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بادشاہ مصر کے دریافت کرنے پر سب عورتوں نے یک زبان ہوکر کہا: ‘‘حاشاء اللہ! ہم نے تو اس میں (یعنی حضرت یوسف ؑمیں) بدی کا شائبہ تک نہ پایا’’۔ عزیز کی بیوی بول اُٹھی: ‘‘اب حق کھل چکا ہے، وہ میں ہی تھی جس نے اس کو پُھسلانے کی کوشش کی تھی، بے شک وہ بالکل سچا ہے’’۔ (یوسف: ۵۱)اسی طرح یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا۔ اپنے والد حضرت یعقوب ؑ سے معافی مانگی اور اللہ تعالیٰ سے گناہ بخشوانے کی استدعا کی۔‘‘ابا جان! آپ ہمارے گناہوں کی بخشش کے لیے دعا کریں، واقعی ہم خطاکار تھے۔ اس نے (حضرت یعقوب ؑنے ) کہا: ‘‘میں اپنے رب سے تمہارے لیے معافی کی درخواست کروں گا۔ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے’’۔ (یوسف: ۹۷، ۹۸)

جو شخص اپنی غلطی تسلیم نہیں کرنا چاہتا، اس کو جھوٹ اور بناوٹی باتوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ بعض اوقات اپنی غلط کوششوں کے نتیجے میں وہ اور زیادہ پریشانی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

جو شخص اپنی غلطی کو مان کر آئندہ نہ کرنے کا عزم و وعدہ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے معاف کردیتا ہے اور اللہ کے اکثر بندے بھی اعتراف کرنے والوں کو معاف کردیتے ہیں۔

غیرحاضر شخص کا ذکر:

گفتگو کے دوران کسی غیرحاضر شخص کا ذکر ہو اور اس سے آپ کو نااتفاقی و ناچاقی ہو، تب بھی صرف اُن کی بھلائیوں اور اچھائیوں ہی کا ذکر کرنا چاہیے۔

۱- رسولؐ اللہ کے شاعر حضرت حسان بن ثابت انصاریؓ نے واقعۂ افک کے موقع پر ان لوگوں کی ہاں میں ہاں ملا دی جو حضرت عائشہؓ کو بدنام کر رہے تھے مگر حضرت عائشہؓ ہمیشہ ان کے ساتھ عزت اور تواضع ہی سے پیش آتی رہیں۔ لوگوں نے یاد دلایا کہ یہ تو وہ شخص ہے جس نے آپ کو بدنام کیا تھا، تو حضرت عائشہ نے یہ جواب دے کر ان کا منہ بند کردیا کہ: ‘‘یہ وہ شخص ہے جو دشمنِ اسلام شعراء کو رسولؐ اللہ اور اسلام کی طرف سے منہ توڑ جواب دیا کرتا تھا’’۔

۲- حضرت عائشہؓ کی اپنی روایت ہے کہ ازواجِ رسولؐ میں سب سے زیادہ زینبؓ ہی سے میرا مقابلہ رہتا تھا، مگر واقعۂ افک کے سلسلے میں جب رسولؐ اللہ نے ان سے پوچھا کہ عائشہ کے متعلق تم کیا جانتی ہو تو انھوں نے کہا: ‘‘یارسولؐ اللہ! خدا کی قسم! میں اس کے اندر بھلائی کے سوا اور کچھ نہیں جانتی’’۔

غیرمحرم مردوں سے گفتگو:

عورتوں کو اگر غیرمحرم مردوں سے کچھ کہنے کی ضرورت (پیش آئے تو بہ تکلف ایسا لب و لہجہ اختیار کرنا چاہیے جو روکھا اور ذرا سخت ہو تاکہ سننے والے کے دل میں کوئی بُرا خیال نہ آئے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ‘‘اے نبیؐ کی عورتو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو، تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے بلکہ صاف سیدھی بات کرو’’۔ (الاحزاب: ۳۲)

قتادہ اور حسن بصری رحمہا اللہ کہتے ہیں کہ جو عہد حضوؐر نے بیعت لیتے وقت عورتوں سے لیے تھے، ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ وہ غیرمحرم مردوں سے بات نہ کریں گی۔ قتادہؓ نے وضاحت یہ کی ہے کہ حضوؐر کا یہ ارشاد سن کر حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے عرض کیا: ‘‘یارسولؐ اللہ! کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم گھر پر نہیں ہوتے اور ہمارے ہاں کوئی صاحب ملنے آجاتے ہیں؟’’آپؐ نے فرمایا: ‘‘میری مراد یہ نہیں ہے، یعنی عورت کا کسی آنے والے سے اتنی بات کہہ دینا ممنوع نہیں ہے کہ صاحب ِ خانہ گھر میں موجود نہیں ہیں’’۔ (ابن جریر ، ابن ابی حاتم)

٭٭٭

(زندگی نو، فروری ۲۰۰۸ء)