مولانا ابولکلام آزاد

مصنف : محمد انس حسان

سلسلہ : مشاہیر اسلام

شمارہ : مئی2016

مشاہیر 
مولانا ابوالکلام آ زادکی ادبی خدمات 
محمد انس حسان 

مولاناابوالکلام آزاد(۱۸۸۸۔۱۹۵۸) کی ادبی زندگی کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔پہلا دور۱۹۰۰ء سے۱۹۱۶ء تک کا ہے۔ جب وہ اخباروں اور رسالوں میں لکھتےرہے۔ اس عرصہ میں انہوں نے بڑے بڑے ادیبوں اور انشاء پردازوں کی موجودگی میں اپنے قلم کا سکہ جمالیا (تذکرہ اسی دور کی یادگارہے)۔ اس دور کی تحریروں میں شدتِ احساس ، شدتِ اظہار ، لامتناہی تخیل اور بے ضبط مبالغہ سمیت رومانی اسلوب تحریر کے وہ تمام اجزاء بدرجہ اتم پاجاتے ہیں۔ جنہیں ناقدین ادب اس عالی صنف کی معراج قرار دیتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ان کا قلم صرف یہیں تک محدود رہا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ الہلال و البلاغ کی تحریروں میں اس کی متضاد اخلاقی شدت اور انتہائی خود اعتمادی جوبسا اوقات خود پسندی تک پہنچ جاتی ہے کی واضح چھاپ محسوس کی جاسکتی ہے۔ اس تضاد کی تا ویل یہی کی جاسکتی ہے کہ الہلال والبلاغ کے مضامین اور’’تذکرہ‘‘ کے عجوبانہ اسلوب کو رومانوی یا خطیبانہ اندازِ تحریر کی بجائے اگر زعیمانہ کہا جائے تو زیادہ موزوں ہوگا۔ تذکرہ کی مذکورہ عبارت کو پڑھئے جس سے ہمارے قول کی تائید ہوتی ہے۔

’’وہی دنیا جس کے میکدہ خود فراموشی نے غفلت کے جام لنڈھائے تھے، اپنے ہر جلوہ سے آنکھوں کو اپنے ہر نغمہ سے کانوں کو سر مستی و سر شاری کی پیہم دعوتیں دی تھیں۔ اب اس کا کونہ کونہ ، چپہ چپہ ، ہشیاری و بینش کا مرقع تھا۔ بصیرت و معرفت کا درس تھا۔ ذرے ذرے کو گرم گفتار پایا ، پتے پتے کو مکتوب و سطور دیکھا۔ پھولوں نے زبان کھولی ، پتھروں نے اٹھ اٹھ کر اشارے کیے۔ خاکِ پامال نے اڑاڑ کر گہرافشانیاں کیں۔ آسمانوں کو بارہا اترناپڑا، تاکہ سوالوں کا جواب دیں۔ زمین کو کتنی مرتبہ اچھا لنا پڑا ، تاکہ فضائے آسمانی کے تارے توڑ لائیں۔ فر شتوں نے باز وتھامے کہ کہیں لغزش نہ ہوجائے۔سورج چراغ لیکرآیا کہ کہیں ٹھوکر نہ لگ جائے۔‘‘(تذکرہ،ص۳۲۵)
اس کے ساتھ ساتھ الہلال میں مولانا کا جو طرز خطاب ہے وہ بھی ملاحظہ ہو۔
’’ اے عزیزانِ ملت! میں کیونکر تمہیں اپنے دل کے خونچکاں ٹکڑے دکھلاؤں، جس کے ہر ٹکڑے اور زخموں اور ناسوروں کے ہزاروں نشان ہیں۔اور پھر میں کیونکراپنا دل تمہارے پہلو میں رکھوں کہ تم اس صدائے الہٰی کو نہیں سنتے ، پر میں سنتا ہوں اور کانٹوں پر لوٹتا اور آگ کے شعلوں میں تڑپتا ہوں۔ تم میری آواز سن سکتے ہو، پر اس سوزش و اضطراب کے آتش کدے کو تو نہیں دیکھ سکتے، جو میرے اندر سلگ رہا ہے، اور جس کے شعلے اب اس قدر بھڑک اٹھے ہیں کہ میں ان کے دھوّیں کو نہیں دبا سکتا۔‘‘(الہلال کلکتہ ،شمارہ ۷جمادی الثانی۱۳۳۱ھ)
ان دونوں طرزِ خطبات میں ایک چیز قدرے مشترک ہے اور وہ ہے مولانا کازورِ قلم۔ جہاں تک معنی و مفہوم کا تعلق ہے تو ان دونوں میں کو ئی مماثلت نہیں۔ اس دور میں مولانا پر عربیت اور فارسی کا بڑا غلبہ رہا اور ان ہر دو زبانوں کے ملاپ کے نتیجے میں جو ادب تخلیق ہوا اسے مولانا آزاد کے اصطلاحی ادب کا نام دیا جائے تو بہتر ہوگا۔اس کی مثالوں سے مولانا کی کتاب ’’تذکرہ‘‘ بھری پڑی ہے۔ عملی مشاہدہ کے لئے ذیل کی ان سطور پر غور فرما ئیں۔
’’یہی تخریج در تخریج ، تفریع در تفریع ، وقیاس در قیاس و استنباتِ رائیہ چند در چند ، و اقناع برمجرد، قواعدِ منطقیہ جزئیات وکلیات، تمثیل و تقسیم و ابعدوابْعد و اہجر وہجر ا صلین اساسین کتاب وسنت کی مصیبتِ عظمیٰ و زینتِ کبریٰ ہے۔ جس کی وجہ سے قرناً بعد قرنٍ و نسلاً بعد نسلٍ سخت و شدید غلطیاں بلکہ گمراہیاں واقع ہوتی رہیں۔ اور کارخانہ شرع میں فسادِ عظیم رونما ہوا۔‘‘(تذکرہ ،ص۹۹۔۱۰۰)
اس طرح کی ثقیل ومبہم عبارات’’ تذکرہ‘‘ میں جا بجا دیکھی جاسکتی ہیں۔ لیکن یہ طرزِ بیان نہ اس سے پہلے کسی کا تھا اور نہ بعد میں اس کا کوئی جانشین ہوا۔ مولانا اس مخصوص طرزِ تحریر کے خاتم تھے۔بہر حال یہ دور مولانا کے قلم کے شباب کا دور تھا اور اس دور کی تحریروں میں اخلاقی اور تخلیقی ادب کے جو نقوش انہوں نے چھوڑے ہیں وہ انہیں معاصرین سے ممتاز کرتے ہیں۔
مولانا کی ادبی زندگی کا دوسرا دور ۱۹۱۶ء سے ۱۹۳۶ء تک کا ہے جس میں وہ زیادہ تر قرآن مجید کے ترجمہ و تفسیر کے کام میں مصروف رہے۔ اس دور میں باوجود سیاسی جھمیلوں کے ان کا دماغ زیادہ تر قرآنی علوم و معارف میں ڈوبا رہا(ترجمان القرآن اسی دور کی یاد گار ہے)۔ اس کااثران کے ادبی طرز پر یہ پڑا کہ شدتِ احساس کا رخ خودبینی سے خدا بینی کی طرف مڑگیا۔ اور زور بیاں خود نمائی کی جگہ حق نمائی میں صرف ہونے لگا۔ چنانچہ اب لکھنے والے کے مخاطب لوگوں کے جذبات نہیں بلکہ ان کے ضمیر تھے اور اس مقصد سے پیچھے جو محرکات کار فرما تھے وہ اپنی عزت و عظمت کو بڑھاوا دینا نہیں بلکہ لوگوں کی مذہبی اور اخلاقی رو ح کا جگانا تھا۔’’ترجمان القرآن ‘‘کی مندرجہ ذیل سطور پڑھئے جس سے ان کے اس دور کے ادبی رجحان کا پتہ چلتا ہے۔
’’فطرت صرف بناتی اور سنوارتی ہی نہیں ، بلکہ اس طرح بناتی سنوارتی ہے کہ اس کے پر بناؤ میں حْسن و زیبائی کاجلوہ اور اس کے ہر ظہور میں نظر افروزی کی نمو پیدا ہوگئی ہے۔ کائناتِ ہستی کو اس کی مجموعی حیثیت میں دیکھو یا اس کے ایک ایک گوشہ خلقت پر نظر ڈالو، اس کا کوئی رخ نہیں جس پر حسن و رعنائی نے ایک نقابِ زیبائش نہ ڈال دی ہو۔ ستاروں کا نظام اور ان کی سیرو گردش، سورج کی روشنی اور اس کی بو قلمونی ، چاند کی گرد اور اس کا اتار چڑھاؤ، فضائے آسمانی کی وسعت اور اس کی نیرنگیاں ، بارش کا سماں اور اس کے تغیرات ، سمندر کا منظر اور دریاؤں کی روانی ، پہاڑوں کی بلندیاں اور وادیوں کا نشیب۔۔۔ غرضیکہ تمام تماشاگاہِ ہستی جسن کی نمائش اور نظر افروزی کی جلوہ گاہ ہے، اور ایسا معلوم ہوتا ہے ، گویا اس پردہہستی کے پیچھے حسن افروزی و جلوہ آرائی کی کوئی قوت کام کررہی ہے۔ جو چاہتی ہے کہ جو کچھ بھی ظہور میں آئے، حسن و زیبائش کے ساتھ ظہور میں آئے، اور کارخانہِ ہستی کا ہر گوشہ نگاہ کے لئے نشاط ، سامعہ کے لیے سرور اور روح کے لیے بہشت راحت و سکون بن جائے۔‘‘(ترجمان القرآن،ج ۱،ص۷۰)
تیسرا دور ۱۹۳۶ء سے۵ ۹۴ ۱ء تک کا ہے۔ اس دور میں مختلف عوامل نے مولانا کی طبیعت اور ان کے ادبی اسلوب پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ عمر ، تجربہ اور قومی ذمہ داریوں کے بوجھ نے ان کے مزاج میں کافی اعتدال پیدا کردیا۔ نیز ۰۲ سال مسلسل قرآن مجید کے فہم و تفہیم میں مصروف رہنے سے ا ن کے مذہبی جذبات و احساسات پر سلوک کارنگ غالب آگیا تھا۔ اس دور میں مولانا کی زیادہ توجہ مغربی ادب کی طرف رہی اور اس مطالعہ کے نتیجے میں ان کی تحریر میں اعتدال کی وہ شان پیدا ہوگئی جو مغربی ادب میں انشاء پرداز کا منتہائے کمال سمجھاجاتاہے۔ ڈاکٹر سید عابد حسین لکھتے ہیں کہ:
’’ غبار خاطر کے اسلوب میں جوان کے اس زمانے کی طرز بیان کی پوری نمائندگی کرتا ہے۔ دریائے فصاحت کی روانی تو بدستور قائم ہے لیکن رو سے دریا کی تیزی اور تندی کی جگہ قصرِ دریا کے جز م و سکون نے لے لی ہے۔ اب صحت فکر ، ہمواری اور توازن نے مولانا کی تحریر میں اس ادیبانہ اسلوب کی شان پیدا کردی ہے۔جو جدید مغربی ادب میں بہترین انشاء پردازوں کا طرہ امتیاز ہے‘‘۔ (مولانا ابو الکلام آزاد ایک مطالعہ،ص۱۶۳)
ذرا غبار خاطر کی ان سطور کا مطالعہ کیجئے۔
’’جس قید خانے میں صبح ہر روز مسکراتی ہو، جہاں شام ہر روز پردہِ شب میں چھپ جاتی ہو۔ جس کی راتیں کبھی ستاروں کی قندیلوں سے جگمگانے لگتی ہوں، کبھی چاندنی کی حسن افروزیوں سے جہاں تاب رہتی ہوں، جہاں دوپہر ہر روز چمکے ، شفق ہر روز نکھرے ، پرند ہر صبح وشام چہکیں ، اسے قید خانہ ہونے پر بھی عیش ومسرت کے سامانوں سے خالی کیوں سمجھ لیا جائے؟‘‘ (غبار خاطر ،ص۱۲۶۔۱۲۷)
اس ادیبانہ اسلوب میں علمی طرزِ بیان کی تمام بنیادی صفات بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں، پوری عبارت میں صحتِ فکر اور الفاظ و معانی کا ایسا خوبصورت توازن پایا جاتا ہے کہ تمام عبارت سے اگر ایک لفظ بھی ہٹا دیا جائے تو مزا کر کرِا ہوجاتا ہے۔ مولانا کے اسلوبِ تحریر میں قرآن کے لب و لہجہ کی واضح چھاپ محسوس کی جاسکتی ہے۔چنانچہ اس حوالہ سے پروفیسر رشید احمد صدیقی کے مطابق مولانا نے لکھنے کا انداز ،لب و لہجہ اور مواد کلام پاک سے لیا جو ان کے مزاج کے مطابق تھا۔ مولانا پہلے شخص اور آخری شخص ہیں جنہوں نے براہِ راست قرآن کو اپنے اسلوب کا سرچشمہ بنا یا۔ وہی اندازِ بیاں اور زورِ کلام اور وعید و تہدید کے تازیانے جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ پہاڑوں کو رعشہ سیماب طاری کردیتا ہے۔ ذرا ان سطور پر غور فرمائیں :
’’میں وہ صور کہا سے لاؤں ، جس کی آواز چالیس کروڑ دلوں کو خواب غفلت سے بیدار کردے ؟ میں اپنے ہاتھوں میں وہ میں قوت کیسے پیدا کروں، جن کی سینہ کوبی کے شور سے سر گشتگانِ خواب موت آورہوشیار ہوجائیں ؟ آہ! کہاں ہیں وہ آنکھیں جن کو دردِ ملت میں خونباری کا دعویٰ ہے؟ کہاں ہیں وہ دل ، جن کو زوال ملت کے زخموں پر ناز ہے؟ کہاں ہیں وہ جگر، جو آتشِ غیرت و حمیت کی سوزش کے لذت آشنا ہیں۔‘‘(ابوالکلام آزاد کے ادبی شہہ پارے،ص۱۱۸)
مولانا ماہر القادری نے انسان کی قلبی کیفیات کو دو اجزاء میں تقسیم کیا ہے ، قنوطیت اور رجائیت۔ ان کے نزدیک کل دنیاکے مختلف النوع و متائن الجنس انسان ان دو کیفیات میں مبتلا ہیں۔ چنانچہ بعض انشاء پردازوں نے قنوطیت اور بعض نے رجائیت کو اپنا موضوع قرار دیا ہے۔ اگرچہ قنوطیت و یاس انگیز مضامین اسباقِ عبرت ہوتے ہیں مگر اعلیٰ خیالات ، مستحکم عزائم اور بلند حوصلگی میں ان سے کوئی مدد نہیں مل سکتی۔ بلکہ اس کے بر عکس دل اضطراب اور حزن و ملال کی کیفیت سے دو چار ہو جاتا ہے۔ مولانا کی طبیعت رجائیت کی طرف زیادہ مائل ہے اور وہ یاس انگیز مضامین کو قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ وہ غمگین موضوعات پر قلم ہی نہیں اٹھاتے۔مشہد اکبر اور ترکوں کی حریت و استقلال اور شہادتوں پر ان کے قلم نے خون کے آنسو برسائے ہیں۔ لیکن ان مضامین کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ وہ غمگین سے غمگین تر مضمون لکھتے وقت بھی امید و رجا کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ وہ کسی حادثہ یا مشکل کی منظر کشی سے زیادہ اس کے مناسب اور دیر پا حل کی طرف توجہ دیتے ہیں۔مثال کے طور پر جنگِ طرابلس میں مسلمانوں کی خون ریزی پر بجائے اشک و ندامت کے آنسو بہانے کے مولانا اس خون ریزی اور سفا کی کو مسلمانوں کی حیاتِ نو بتلاتے ہیں۔چنانچہ لکھتے ہیں:
’’جنگِ طرابلس ایک خون ریزی تھی ،لیکن غور کیجئے تو اسی خون ریزی نے اسلام کے نئے دورِ حیات کی بنیاد رکھدی ہے۔ دنیا میں اصلی طاقت اخلاقی طاقت ہے اور اصل فتح، اخلاقی فتح ہے۔ اس جنگ کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے مردہ جذبات میں روح پھونک دی ہے، اور ایک اصلی اور اخلاقی حرکت تمام عالم اسلامی میں پیدا کردی ‘‘۔ (مولانا ابو الکلام آزاد ایک مطالعہ ،ص۱۳۶)
رجائیت کا یہ طبعی میلان مولانا کی تمام ادیبانہ زندگی پر حاوی ہے۔ اور اس کی شہادت الہلال کے وہ مضامین ہیں جنہوں نے ہندوستان کے تاریک دور میں بالخصوص مسلمانوں اور بالعموم دیگر اقوام کیلئے روشن چراغ کا کردار ادا کیا۔
مولانا کی نثر کی ایک اور بڑی خوبی الفاظ و معانی کی درست نشست و بر خاست اور پر جمال الفاظ کے چناؤ کے ساتھ ساتھ بر محل قوی دلائل سے قاری کو اپنی بات قائل کرلینا ہے۔ واقعہ نگاری اور منظر کشی میں ان کاکوئی ثانی نہیں۔ ان کی تحریریں جوش و جذبات سے معمور ہوتی ہیں۔ بقول مولانا ماہرالقادری :
’’ ان کا لفظ لفظ جوش و اثر میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے اور ساتھ ہی واقعات کی تصو یر بھی نگاہوں کے سامنے کھنچ جاتی ہے۔ جہاد کا ذکر کریں گے تو محسوس ہوگاکہ مجاہدین کی تلواریں واقعی بے نیام ہیں، ان کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے زمین کی طنابیں لرز رہی ہیں۔ تکبیر کے نعروں سے روزمگاہ میں گونج پیدا ہوگئی ہے۔ باطل کا پرچم سرنگوں ہورہا ہے اور حق کی فتح ہورہی ہے۔۔۔۔ان کا انداز تحریر دلوں کوہلادینے اور کپکپادینے والا ہوتاہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ کائنات کے ذرّہ ذرّہ کو جوش سے معمورکردیں اور دنیا کا ہر تغافل آمیز سکون حرکت آمیز سکون حرکت سے مبدل ہوجائے‘‘۔(ہمایوں(لاہور)، نومبر۱۹۳۴ء، ص۸۴۰)
مولاناکے ادبی مقام کاان کے معاصر انشاء پردازوں نے بھی اعتراف کیا ہے۔
۱ ۔اردو کے مشہور انشاء پرداز مولانا عبدالماجد دریابادی نے مولانا کی نثر کے بارے میں لکھا ہے کہ قادر الکلام کا لفظ ہمارے ہاں شاعروں ہی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ نثر نگاروں میں کسی پر اس کا اطلاق اگر پوری طرح ہوسکتا ہے تو وہ ابوالکلام کی ذات ہے۔(نقوش(لاہور) ،ستمبر ۱۹۶۵ء ،ص۵۱۶)
۲ ۔ ڈاکٹر سید عبداللہ نے ان الفاظ میں ان کے اسلوب کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔’’ابوالکلام کو خد ا نے عظیم شخصیت عطا کی ہے۔مگر جس جوہر خاص نے ان کی شخصیت کو عظیم تر بنا یا ہے۔ وہ ان کا عظیم اسلوب ہے۔جس میں ان کاعزم آہنیں،ان کاعلمی تبحر،ان کا تجدد(Modernism) ان کی دلکش جمالیت ، ان کی داعیانہ خطابت ، تحیر خیزی اورہیبت انگیزی بطور عناصر ترکیبی کار فرما ہوکر ان کے طرزِ بیان کو وہ ارفع مقام بخشتی ہے جو قدیم عرب کے شعلہ نفس خطیبوں اور قدیم یونان و روما کے ’’آزر فشاں ‘‘ انشاء پردازوں کوحاصل تھا ‘‘۔(ادب لطیف (لاہور) مئی ۱۹۵۴ء،ص۱۶)
۳۔ آل ا حمد سرور مولانا کی نثر کو اردو ادب میں اجتہاد کے نام سے موسوم کرتے ہیں، چنانچہ لکھتے ہیں کہ جدید اردو نثر عربی اور فارسی سے جو کچھ لے سکتی تھی وہ ابوالکلام نے لے لیا۔عرب کے سوزِ دروں اور عجم کے حسنِ طبیعت ، دونوں کو اردو میں سمولینا اور اردو کو عربی اور فارسی کا غلام نہ ہونے دینا معمولی کام نہیں۔(ابوالکلام آزاد ادبی و شخصی مطالعہ ،ص۶۰۵)
۴۔ سجاد انصاری نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے کہ میرا عقیدہ ہے کہ اگر قرآن نازل نہ ہوچکا ہوتا، یا ابوالکلام کی نثر اس کے لیے منتخب کی جاتی یا اقبال کی نظم۔(ابوالکلام آزاد ادبی و شخصی مطالعہ ،ص۱۷)
یہ واقعہ ہے کہ مولانا کی ادبی خدمات کو اردو ادب میں کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے ادبی شہہ پاروں کو اردو ادب میں سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ اس باب میں وہ اپنے فن کے مجتہد تھے اور ان کا یہ فن ان سے شروع ہوکر انہی پر ختم ہوگیا۔ یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہندوستان میں ایک ہی وقت میں دو عبقری شخصیات ہوئی ہیں۔ ابوالکلام اور اقبال۔ اور ان دونوں کے ڈھب پر اگر آج بھی کوئی لکھاری لکھنا چاہے تو فوراً پکڑا جائے گا۔ گویا ان کا اندازِ تحریرکاپی(copy) نہیں کیا جاسکتا۔ ایک اور چیز جو ان دونوں میں مشترک ہے وہ ہے بامقصد نثر نگاری اور بامقصد شاعری۔ چنانچہ مولانا کی نثر میں اور اقبال کی شاعری میں مقصدیت کو جو مقام حاصل ہے وہ اور کسی نثر نگار یا شاعر کے ہاں نہیں ملتا۔ اگرچہ سر سید احمد خان اور اس قبیل کے دیگر افراد کے ہاں بھی یہ بامقصد ادب ملتا ہے مگر یہ مقصدیت محض اصلاح معاشرہ تک محدود تھی اور مسلمانوں کے زوال کی دیگر وجوہات پر اس کی نظر نہیں تھی۔ جبکہ آزاد اور اقبال کے ہاں جو مقصدیت ملتی ہے اس میں قوم و ملت کے زوال کے تمام اسباب و عوامل پر بحث کی گئی ہے۔ اور اس لحاظ سے یہ اردو ادب کے ساتھ ساتھ ملتِ اسلامیہ پر بھی ایک ایسا عظیم احسان ہے۔ جس کا بدلہ نہیں چکا یا جاسکتا۔بطور مثال میں مولانا کے چند ادبی ونثری نمونے پیش کرتا ہوں۔ جن سے ان کے ادبی مقام اور خدمات کا پتہ چلتا ہے۔
۱۔ کارسازِ قدرت کی بھی یہ کرشمہ سازیاں ہیں! کچھ خاک امید کی لی اور کچھ خاکستر حسرت کی۔ دونوں کی آمیزش سے ایک پتلا بنایا۔ اور انسان نام رکھ کر اس ہنگامہ زارِ ارضی میں بھیج دیا۔ کبھی امید کی روشنی سے شگفتہ ہوتاہے کبھی نا امیدی کی تاریکی سے گھبرا جاتا ہے۔۔۔ پس اے ساکنان غفلت آباد ہستی ! وائے راہروان سفر مدہوشی و فراموشی !!مجھے بتلاؤ کہ تمہاری ہستی کی حقیقت اگر یہ نہیں ہے تو پھر کیاہے؟۔۔۔ نہیں معلوم آغازِ عالم سے آج تک یہ سوال کتنے دلوں کے اضطراب و التہاب کا باعث ہوا ہوگا؟ مگر سچ یہ ہے کہ اپنے کان ہی بہرے ہیں، ورنہ کائناتِ عالم کا ذرہ ذرہ اس سوال کا جواب نفی میں دے رہا ہے۔(ابوالکلام آزاد کے ادبی شہہ پارے ۱۷۷) 
۲۔ آہ ! کاش مجھے وہ صور قیام قیامت ملتا، جس کو میں لیکر پہاڑوں کی بلند چوٹیوں پر چڑھ جاتا ، اس کی ایک صدائے رعد آسائے شکن سے۔ سر گشتگانِ خواب ذلت و رسوائی کو بیدار کرتا۔ اور چیخ چیخ کر پکارتا کہ اٹھو ! کیونکہ بہت سوچکے ، اور بیدار ہو ! کیونکہ اب تمہارا خدا تمہیں بیدار کرنا چاہتا ہے۔ پھر تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ دنیا کو دیکھتے ہو پر اسکی نہیں سنتے ، جو تمہیں موت کی جگہ حیات ، زوال کی جگہ عروج اور ذلت کی جگہ عزت بخشنا چاہتا ہے!(ابوالکلام آزاد کے ادبی شہہ پارے،ص۲۹۷)
۳۔ میں وہ صور کہاں سے لاؤں ، جسکی آواز چالیس کروڑ دلوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کردے ؟ میں اپنے ہاتھوں میں وہ قوت کیسے پیدا کروں۔ جن کی سینہ کوبی کے شور سے سرگشتگانِ خواب موت آور ہشیار ہوجائیں ؟ کہاں ہیں وہ آنکھیں جن کو دردِ ملت میں خونباری کا دعویٰ ہے؟ کہاں ہیں وہ دل ، جن کو زوالِ ملت کے زخموں پر ناز ہے؟ کہاں ہیں وہ جگر ، جو آتشِ غیرتِ و حمیت کی سوزش کے لذت آشنا ہیں؟(الہلال کلکتہ،جنوری۱۹۱۳ء)
۴۔ اس بارگاہِ سود و زیاں کی کوئی عشرت نہیں جو کسی حسرت سے پیوستہ نہ ہو۔ یہاں زلال صافی کا کوئی جام نہیں بھرا گیا جو دردِکدورت اپنی تہہ میں نہ رکھتا ہو۔بادہ کیمیابی کے تعاقب میں ہمیشہ خمار ناکامی لگا رہا اور خندہبہار کے پیچھے گریہ خزاں کا شیون برپا رہا۔ (بیس بڑے مسلمان،ص۷۶۰۔۷۶۱)
۵ ۔ جب لوگ کا مجوئیوں اورخوش و قتیوں کے پھول چن رہے تھے، تو ہمارے حصے میں تمناؤں اور حسرتوں کے کانٹے آئے۔ انہوں نے پھول چن لئے اور کانٹیں چھوڑدیئے۔ہم نے کانٹے چن لئے اور پھول چھوڑ دیے۔(غبار خاطر،ص۱۰۱)
۶۔ تم بارش کے وجود سے انکار نہیں کرتے، لیکن منتظر رہتے ہو کہ پانی برسنے لگ جائے ، تو اقرار کریں۔ لیکن میں ہواؤں میں پانی کی بو سونگھ لینے کاعادی ہوں اور صرف بادلوں ہی کو دیکھ لینا میرے علم کے لئے کافی ہوتا ہے۔ پس اگر پچھلا تجربہ بس کرتا ہے تو اس سے عبرت پکڑو اور اگر ابھی اور انتظار کرنا چاہتے ہو تو انتظار کر دیکھو۔(بیس بڑے مسلمان،ص۷۶۰)