قبول اسلام اور زاویہ فکر کی تبدیلی

مصنف : اے وان رڈلی

سلسلہ : انٹرویو

شمارہ : جنوری 2009

طالبان کی قید سے رہائی کے بعد قرآن کا مطالعہ کر کے اسلام قبول کرنے والی برطانوی صحافی اے وان رڈلی کاخصوصی انٹرویو۔ یہ انٹرویو اکتوبر ۲۰۰۸ میں لیا گیا۔ اس میں قابل غور بات یہ ہے کہ ایمان کس طرح نقطۂ نظر تبدیل کر دیتا ہے۔ نور اسلم خان نے یہ انٹرویو لیا اور انہوں نے ہی اس کا ترجمہ کیا۔

سوال: آپ اس وقت کن کاموں میں مصروف ہیں؟

جواب: میں اس وقت ‘دہشت گردی’ کے خلاف جاری جنگ کے موضوع پر دو دستاویزی فلمیں بنارہی ہوں۔ ایک فلم بدنام زمانہ امریکی قید خانے‘ گوانتا نا مو’ پر مبنی ہے جس کا نام ہے ـInside Wires ۔اس کے لیے میں امریکی حکومت کی ممنون ہوں کہ جس نے نہ صرف مجھے چار دنوں کے لیے گوانتا ناموبے کے اس قید خانے میں جانے کی اجازت دی بلکہ سب سے اہم بات یہ تھی کہ باہر بھی آنے دیا! دوسری دستاویزی فلم میں فلم ساز حسن غنی ( پاکستانی نژاد برطانوی صحافی جو برطانیہ میں ایک اسلامی ٹی وی چینل کے ساتھ کام کررہے ہیں) کے ساتھ بنا رہی ہوں جس کا موضوع ہے: ـ ‘ قیدی نمبر۶۵۰’جس کے بارے میں ہمیں یقین ہے کہ وہ ایک پاکستانی عورت ہے جس کو دو سال تک بغیر کسی الزام اور مقدمے کے، بگرام میں رکھا گیا۔ اگر گواہان کی گواہی پر یقین کیا جائے تو ان کو قید کرنے والے امریکیوں نے قواعد و ضوابط کے برعکس نہ صرف ان کی بار بار عصمت دری اور توہین کی ، بلکہ ان کے ساتھ مسلسل غیر انسانی سلوک بھی روا رکھا۔ اس قیدی عورت کو بالکل اس طرح کے ماحول میں رکھا گیا گیا جس میں مرد قیدیوں کو رکھا جاتا ہے ، ا ن کو ایسے کھلے بیت الخلا استعمال کرنے پر مجبور کیا گیا جس کو مرد بھی استعمال کرتے رہے ، ایک ایسا بیت الخلا جس میں نہ تو کوئی دروازہ ہو تا تھااور نہ پردہ کر کے اپنے آپ کو ڈھانکا جاسکے۔ غسل کرنے کے لیے بھی ایک ایسی جگہ دی گئی ، جس کے گرد نہ تو کوئی پردہ تھا، اور نہ کوئی پرائیویسی۔ہم سمجھتے ہیں کہ مسلمان عورت تو کیا، کسی بھی عورت کے ساتھ ایسا رویہ رکھنا انسانیت کی توہین ہے۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اس مظلوم عورت کو تلاش کرسکیں۔اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی جاننے کی کوشش کررہے ہیں اور امریکیوں سے بھی یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ ہمیں بتائیں کہ دیگر ‘ جنگجو دشمن خواتین’(جیسا کہ یہ انھیں کہتے ہیں) کو کہاں رکھا گیا ہے ؟ کن کن ممالک سے ان کا تعلق ہے؟ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کا سلوک صرف پاکستانی خواتین تک محدود نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ ، افریقہ اور ایشیا کے دوسرے ممالک کی خواتین بھی اس طرح کی صورت حال سے گزر رہی ہیں۔

سوال: آپ نے عیسائیت کو چھوڑ کر اسلام کو اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ آپ اسلام سے متاثر ہوئیں یا اسلام کے ماننے والوں سے ؟

جواب: میں نے اپنا عقیدہ بدلنے کا فیصلہ اس وقت کیا جب میں نے قرآن کو پڑھا اور سمجھا۔ مسلمانوں کو سمجھنے کا مرحلہ تو اسلام قبول کر نے کے بعدشروع ہوا۔

سوال: کیا آپ سمجھتی ہیں کہ اسلام ، مغرب اور اس کے طرز زندگی کے لیے ایک خطرہ ہے ؟ اگر نہیں تو اہل مغرب اور ان کی قیادت کے لیے اسلام کے پاس کیا پیغام ہے ؟

جواب: اسلام سے زمین کے کسی بھی حصے کو خطرہ نہیں۔اسلام نہ صرف یہ کہ خود امن اور آشتی کا مذہب ہے بلکہ یہ ایک ایسا دین ہے جو امن اور برداشت کی تعلیم بھی دیتاہے، تاہم مسلمان اس قدر بھی امن پسند(pacifist) نہیں۔ لوگ ہم سے یہ توقع نہ رکھیں کہ ایک ایسی صورتحال میں بھی ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے خاموش تماشائی بن کر رہ جائیں جب ہماری سرزمین کی حرمت پامال کی جارہی ہو ، ہمارے لوگوں پر حملے ہو رہے ہوں، ہمارے بچوں کو گولیوں کا نشانہ بنا یا جارہا ہو، ہماری عورتوں کی عزتیں لوٹی جارہی ہو ں، اور ہمارے مردوں کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنا یا جارہا ہو۔ ایسی حالت میں ہم کیسے خاموش رہ سکتے ہیں؟ اسلام ظلم اور ظالم کے مقابلے میں امن کا علَم اٹھانے کی تعلیم بالکل نہیں دیتا۔

آج اگر کسی طرف سے ظلم اور زیادتی ہورہی ہے تو وہ کسی اور کی جانب سے نہیں بلکہ مغرب کی طرف سے ہورہی ہے۔ میرے علم میں تو ایسی کوئی بات نہیں کہ مسلمان مغربی ممالک پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔ میں یہ بھی نہیں جانتی کہ مسلمان آج کسی مغربی ملک پر قابض ہوچکے ہوں بلکہ اس کے برعکس میں جو کچھ دیکھ رہی ہوں وہ یہ ہے کہ امریکا، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک کی افواج آج عراق پر قابض ہیں، افغانستان پر قابض ہیں۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ مغرب نہ صرف یہ کہ فلسطین پر ہونے والے قبضے کو جائز مان رہا ہے بلکہ قابض کی ہر طرح سے معاونت بھی کر رہا ہے۔ ان حالات میں، میں یہ کیسے مان سکتی ہوں کہ اسلام سے مغرب یا ان کی تہذیب اورطرز زندگی کو کوئی خطرہ ہے۔ چیچنیا ، فلسطین ، کشمیر ،افغانستان اور اب عراق جیسے علاقوں میں تو کئی سالوں سے جہاد جاری ہے اور پوری دنیا سے مسلمان نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد جوق در جوق اس جہاد میں حصہ لینے کے لیے آرہی ہے۔ میرے علم میں تو یہ بات کبھی نہیں آئی کہ یہ نوجوان نیویارک ، برطانیہ یا یورپ پر حملہ کرنے کے لیے کبھی جمع ہوئے ہوں ، اس لیے میں سمجھتی ہو ں کہ مغرب یا اس کے طرز زندگی کو ان جہادیوں سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔

سوال: آپ کے خیال میں عالم اسلام کے خلاف مغربی قیادت کی طرف سے جاری الزامات اور زیادتیوں کا سلسلہ کب ختم ہو گا؟

جواب: میرے خیال میں مغرب کو آج اس بات کی بہت زیادہ ضرورت ہے کہ وہ برداشت اور تحمل کا مطلب سمجھنے کے ساتھ ساتھ اسلام کے بارے میں بھی زیادہ جاننے کی کوشش کرے تاکہ وہ یہ دیکھ سکے کہ اسلام اس کے لیے خطر ہ نہیں ہے۔ اگر مغرب کی قیادت اپنے ممالک کی بھلائی اور خیرخواہی کے حوالے سے اپنے ارادوں میں سچی ہوتی ، تو وہ یہ ضرور جان لیتی کہ اسلام تو ان کے مقاصد کی تکمیل کے لیے ایک بہت بڑا معاون اور مددگار ہے نہ کہ ایک ایسی چیز جس سے ڈرا جائے۔ باعمل مسلمان نہ تو شراب پیتے ہیں اور نہ منشیات استعمال کرتے ہیں۔ صحیح مسلمان قانون کی پابندی کرنے والے ہوتے ہیں، وہ بہت مفید اور اعلیٰ شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ ایک مسلمان اللہ کی خوشنودی کے لیے جتنے بھی کام کرتا ہے وہ سارے کام تو ایک انسان کو کمال (perfection) کی طرف لے کر جانے کا سبب بنتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان دواسازی، قانون، انجینیرنگ اور سا ئنس کے شعبوں میں کافی نام کماچکے ہیں۔ اگر آپ مغرب کی پیدا کردہ غلط فہمیوں کو ایک طرف رکھ کر تاریخ پر نظر ڈالیں تو آپ کو کئی عظیم مسلمان موجد ملیں گے ، ان کی عظیم ایجادات ملیں گی اور کئی ایسے سائنسی سنگ میل ملیں گے جن کی بنیاد مسلمانوں نے رکھی۔ بدقسمتی سے مغرب نے ان شعبوں سے متعلق پوری تاریخ نئے سرے سے لکھی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مغرب کو ریاضی اور سائنس مسلمانوں سے ملی ہے، مغرب میں نظر آنے والی ان عالیشان عمارتوں کی تعمیر کا یہ فن مسلمانوں کے علاقوں سے وہاں پہنچا ہے ، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خود یورپ کے اندر نشاۃ ثانیہ کی جوتحریک اٹھی ، اس کی بنیاد مسلمانوں نے رکھی تھی۔

سوال: مغرب کی قیادت کی طرف سے جاری ان زیادتیوں کے جواب میں مسلم دنیا کی طرف سے دو طرح کا رد عمل سا منے آرہا ہے۔ ایک ردعمل حکمران طبقے کی طرف سے ہے جو ان کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں، اور ایک ان جماعتوں اور گروہوں کی طرف سے ہیں جو گلی محلے کی سطح پر عوام کی نمایندگی کرتے ہیں مگر ان کو ایک پالیسی کے تحت قومی دھارے میں شامل ہونے سے روکا جارہا ہے- دونوں کے ردعمل کو آپ کس نظر سے دیکھتی ہیں؟

جواب: جس کردار کی طرف آپ اشارہ کر رہے ہیں ،یہ وہ کردار ہے جو ہم آج حکمرانوں کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے امریکا کے اشاروں پر ناچتے ہوئے، عراق کو پلیٹ میں رکھ کر دشمن کے سامنے پیش کیا۔ یہی وہ لوگ تھے کہ جب لبنان پر کارپٹ (چپے چپے پر) بم باری ہورہی تھی تو انھوں نے نظریں دوسری جانب پھیرلیں۔ یہی وہ حکمران ہیں کہ جب فلسطین پر حملے ہو تے ہیں تو یہ اس سے بھی مسلسل چشم پوشی کرتے ہیں۔ یہ حکمران اپنے عوام کی جذبات کی ترجمانی نہیں کرتے، میں کہتی ہوں کہ یہ عوام کی خدمت کا دعویٰ کرتے ہیں ، مگر یہ ان کی خدمت کا کوئی طریقہ تو نہیں۔ ان میں اکثریت ان حکمرانوں کی ہے جو مغرب کی حمایت کی وجہ سے اقتدار کے ان ایوانوں میں پہنچے ہیں اور اس کے عوض یہ ان کے اشاروں پر کٹھ پتلیوں کی طرح ناچتے ہیں۔ میں تو یورپ اور امریکا کے اشاروں پر ناچنے والے ان حکمرانوں سے یہ کہنا چاہوں گی اور میری یہ بات ان کو کبھی بہت یاد بھی آئے گی کہ امریکا تو ایک ایسا بے وفا دوست ہے جو بہت جلدی بھول جاتا ہے۔ امریکا تو صدام حسین کا بھی بہت اچھا دوست تھا۔ دیکھو اس کا کیا انجام ہوا؟ (صدام کے دورمیں ) کُر دوں نے بھی امریکا پر بہت زیادہ انحصار کیا، مگر انھیں کیا ملا ؟ آج پھر ان کے ساتھ وہی کچھ دوبارہ ہونے والا ہے۔ امریکا نے عراق کے جنوب میں رہنے والے شیعہ مسلمانوں سے بھی وعدہ کیا تھا کہ وہ صدام کے خلاف ان کی مدد کرے گا اور جب وہ بالآخر صدام کے مقابلے میں کھڑے ہوگئے تب انھیں امریکی حمایت اور اسلحے کے لیے ترسنے کے سوا کچھ نہ ملا۔ امریکا کی طرف سے مدد اور اعانت کے وعدے نہ ہوتے تو وہ اس انقلاب اور تبدیلی کے لیے کبھی نہ اٹھتے۔ بہرحال دنیا نے دیکھا کہ امریکا نے ان کے ساتھ بے وفائی کی اور اس سلسلے میں جتنے بھی وعدے کیے تھے نہ صرف اس سے صاف مکر گیا بلکہ اسلحہ دینے سے بھی انکار کردیا۔ امریکا کے ساتھ دوستی ایک غیر یقینی بات اور سعی لاحاصل کے سوا کچھ نہیں۔میں نے اگست میں کچھ وقت غزہ میں گزارا۔ میں آپ کو یہ بتا نا چاہوں گی کہ اگر حماس کل انتخابات میں حصہ لیں تو وہ جیت جائیں گے۔ لوگ ان سے محبت کرتے ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ آج غزہ میں ایک عام آدمی کو جس تکلیف اور کرب کا سا منا ہے ، وہاں کی قیادت بھی اسی درجے کی تکلیف اور اذیت سے دوچار ہے۔ جن لوگوں نے حماس کو ووٹ دیا تھا ، وہ یہ بات سمجھتے ہیں کہ حماس کی قیادت اور ان کا طرزِ زندگی ایک عام آدمی کے طرزِ زندگی سے قطعاً مختلف نہیں۔

یہ بات بھی میرے علم میں آئی کہ آخری شرق اوسط سربراہ کانفرنس میں، جس میں حماس کے وزرا بھی شریک ہونے کے لیے گئے تھے ، دیگر عرب مما لک کے وزرا تو ایسے ہوٹلوں میں ٹھیرے جہاں ایک کمرے کا ایک رات کا کرایہ ایک ہزار امریکی ڈالر تھا، جب کہ حماس کے لوگ ایسے ہوٹل میں ٹھیرے جس کے کمرے کا کرایہ صرف ۷۰ امریکی ڈالر تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے لوگوں کی مشکلات سے آگاہ ہیں اور ان مشکلات کو کم کر نے کے لیے حتی المقدور کوشش کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان شاء اللہ آیندہ انتخابات میں حماس بھر پور طریقے سے فتح یاب ہوگی۔

سوال: آپ کے خیال میں مشرق اور مغرب کے درمیان تہذیبی تصادم کی وجہ سے جو خلیج پیدا ہوئی ہے اس کو پاٹنے اور دونوں تہذیبوں کے درمیان غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے کون سی حکمت عملی اپنائی جاسکتی ہے؟

جواب: کون سا تہذیبی تصادم ؟ تہذیبی تصادم کے لیے تو دو تہذیب یافتہ ممالک کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسلام تو بلاشبہ ایک تہذیب رکھتا ہے۔ اس کے مقابلے میں امریکا کا اپنے آپ کوتہذیب یافتہ سمجھنا تو دُور کی بات ہے، ان کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ تہذیب یافتہ کس کو کہتے ہیں۔ ان لوگوں نے جگہ جگہ کارپٹ بم باری کی، آزادیوں کو سلب کیا ، انسانی حقوق کو پامال کیا۔بش انتظامیہ نے( جنگ کے قواعد و ضوابط پر مبنی) جنیوا کنونشن کو پاؤں تلے روند دیا ، انھوں نے بین الااقوامی قوانین کو نظرانداز کیا ، وحشت پر مبنی تعذیب کے نت نئے طریقے اختیار کیے اور گوانتا نا موبے اس کا ایک کھلا ثبوت ہے۔ انھوں نے جھوٹ بول کر عراق پر ناجائز حملہ کیا جس کے نتیجے میں ۱۰ لاکھ سے زائد بے گناہ عراقی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ۲۰لاکھ عراقی ملک کے اندر بے گھر ہوئے اور ۲۰ لاکھ ملک سے باہر شام اور اردن کی طرف ہجرت پر مجبور ہوئے۔ اس کو کسی بھی طور پر کامیابی نہیں سمجھا جاسکتا۔ خود امریکا کے اندر ڈیٹریاٹ میں کالے لوگوں کی اوسط عمر (life expectancy) بنگلہ دیش میں رہنے والے لوگوں کی نسبت کم ہے۔ امریکا میں ڈیڑھ کروڑ لوگوں کو صحت کی بنیادی سہولیات میسر نہیں، ۲۰ لاکھ سے زائد امریکی جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ یہ دنیا بھر میں کسی بھی ایک ملک کے اندر جیلوں میں رہنے والی سب سے بڑی تعداد ہے۔ یہ سب نشانیاں کسی تہذیب یافتہ ملک کی تو نہیں۔ صرف ۲۰ فی صد کے قریب یا ۲۰ فی صد سے کم امریکیوں کے پاس پاسپورٹ ہوتے ہیں۔ ایک طرف امریکا کی فوج عراق پر حملے کی تیاری کررہی تھی، دوسری طرف اس کا صدر(جارج بش) دنیا کے نقشے پر عراق کو تلاش نہیں کر سکا۔یہی سوال جب عام امریکیوں سے پوچھا گیا تو ۱۰میں سے ۹امریکی بھی اس سوال کا جواب نہیں دے سکے۔ سب سے پریشان کن بات تو یہ تھی کہ ۱۰میں سے ایک امریکی نقشے پر خود اپنے ملک امریکا کو تلاش نہیں کرسکا۔

سوال: مغرب کی سیاسی قیادت پچھلے ۱۰۰ سال سے ایک صہیونی اقلیت کے ہاتھوں میں یرغمال بنی ہو ئی ہے، جس کے نتیجے میں آج پوری دنیا تباہی اور بربادی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ آپ مغرب کی سیاسی قیادت کو کیا مشورہ دینا پسند کریں گی کہ وہ اس شکنجے سے کیسے باہر آسکتی ہیں ؟

جواب: مغرب اور ان کی قیادت کو بھول جائیے۔ ان لوگوں کو نہ تبدیل ہو نا ہے اور نہ کچھ کر نا ہے۔ یہ تبدیلی ہم عوام کو لانی ہے۔ جب عوام رہنمائی کریں گے تو قائدین پیچھے چلیں گے۔ اسرائیل کی طرف سے ہمارے ساتھ بہت بے انصافیاں اور زیادتیاں ہوئی ہیں اور اب تو اسرائیل نے تباہی کے اس راستے کا خود انتخاب کیا ہے جس پر چلتے چلتے اس نے بالآخر خود ہی مٹ جانا ہے۔ اسے بہت جلد ایک حصار میں گھرجا نا ہے اورایک دوسری قوت کے ہاتھوں زمین کے نقشے سے مٹ جا نا ہے۔ یہ اپنے آپ کو خو د بھی تباہی سے دوچار کرنے والا ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ۵۰ہزار سے زائد غیر قانونی یہودی آباد کاروں کے اشتعال اور غصے کا رخ اب خود اسرائیل کی پولیس اور شہریوں کی طرف مڑ چکا ہے۔ یہ لوگ ان کے قابو سے باہر ہورہے ہیں اور بالآخر انھوں نے اندر ہی اندر پھٹ جا نا ہے۔ مغرب کی قیادت سے کوئی توقع مت رکھیے کہ وہ فلسطین یا مسلمانوں کے لیے کچھ کرے گی۔ تاریخ سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ انھوں نے پہلے بھی کچھ نہیں کیا اور اسرائیل کو روکنے کے معاملے میں بھی بے کار ثابت ہوچکے ہیں۔ ماہ اگست میں میں نے دنیا بھر سے امن کے لیے کام کرنے والے ۴۰ دیگر افراد کے ساتھ مل کر غزہ تک کشتیوں کے ذریعے سفر کیا اور اسرائیل کی جانب سے غزہ کے محاصرے کو توڑ دیا، اور یہی وہ ایک طریقہ ہے کہ پُرامن طور پر اس کام کو تکمیل تک پہنچایا جائے اور اس کے لیے کسی قیادت کا نہ تو انتظار کیا جائے اور نہ ان کی طرف ہمیں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یوں قیادت کو بالآخر ہمارے ساتھ آملنا ہے۔ ہم کو اس موقع سے فائدہ اٹھانا ہے اور قیادت کو ایجنڈا دینا ہے۔

سوال: ایک نو مسلم عورت ہونے کے ناطے ، کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ اسلام عورت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کی باگ ڈور خود سنبھال کر آزادی سے فیصلے کرے؟ نیز ایک عورت کے لیے اسلام کی دی ہوئی آزادی اور مغرب کی دی ہوئی آزادی ، میں کیا فرق ہے؟

جواب: میں یہ کہوں گی کہ اسلام ایک عورت کو بہت اختیارات دے سکتا ہے، لیکن اختیار لینے سے پہلے ایک عورت کو علم سے اپنے آپ کو آراستہ کر نا ہوگا۔ اگر ایک عورت یہ چاہے کہ اس کا احترام کیا جائے اور اس کو عزت دی جائے تو ایک مسلمان ہونے کے ناطے اس کو اسلام اور اپنے دین کے حوالے سے کافی معلومات حاصل کرنے کی ضرورت ہوگی۔ایک دفعہ آپ اپنے رب اور دین کے ساتھ تعلق کو مضبوط کرلیں، اور اسلام کے بارے میں تمام معلومات کو جا ن لیں ، تب آپ اسلام کے دیے ہوئے تمام اختیارات کا تقا ضا کرسکتی ہیں۔ خود قرآن پاک عورتوں کے حقوق کے بارے میں ایک بنیادی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن اس بات کا خواہاں اور منتظر ہے کہ عورتیں اس کا مطالعہ کریں تاکہ اپنے حقوق کے بارے میں جان سکیں۔ میں اس بات کو تسلیم کرتی ہوں کہ مسلم دنیا کے بعض علاقوں میں عورتوں کو دبا کر اور محکوم بنا کر رکھا جاتا ہے۔ اس معاملے کو حل کرنے کے لیے عورتوں کو خود آگے بڑھ کر علم حاصل کر نا چاہیے اور اس کی روشنی میں اپنی ذمہ داریاں سنبھالنی چاہییں۔ ہم لوگوں (یعنی غیرمسلموں) سے یہ توقع نہیں کرسکتے کہ وہ اسلام کو جان لیں گے۔ وہ نہیں جانیں گے جب تک ہم خود اسلام کے بارے میں نہیں جان لیتے۔ میرے لیے جو لوگ زیادہ پریشانی کا باعث بنتے ہیں ، وہ ایسے سیکولر ( مسلمان) لوگ ہیں جو خود اسلام کے بارے میں کچھ نہیں جانتے لیکن چند آیات پڑھ کر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اب وہ اسلام کے حوالے سے کافی ماہر ہوگئے ہیں۔ میں تو ان خودساختہ مسلمان عورتوں سے بہت عاجز ہو ں جو مجھے یہ مشورے دیتی رہتی ہیں کہ مجھے حجاب نہیں پہننا چاہیے۔ جہاں تک حجاب کی بات ہے تو یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کے بارے میں جا ننے کے لیے ، میں نے ۶ مہینے تک گہری تحقیق کی، ایک ایک حدیث اور اس کے ذرائع دیکھے ، پردے کے حوالے سے قرآن میں حوالے دیکھے ، مسلم معاشرے میں تاریخی نقطۂ نگاہ سے پردے کی مثالیں تلاش کیں، مسلمان علما سے بحث کی ، اہلِ علم سے بات کی، علم کے متلاشی طلبہ و طالبات سے تبادلۂ خیال کیا تو یہ معلوم ہوا کہ ایک مسلمان عورت کے لیے پردہ لازمی ہے۔ اب نقاب کو پہننا ہے یا نہیں ، یہ فیصلہ تو ہر عورت کو خود کر نا ہو گا۔میں تو ان خواتین کی ذمہ داری لینے سے قا صر ہو ں جو اس کو نہ پہننا چاہیں کیونکہ میں نے تو روز آخرت ا للہ کو صرف ا پنے بارے میں جواب دینا ہے، کسی اور کے بارے میں نہیں۔ اب اگر کوئی خود نہ پہننا چاہے ، تو نہ پہنے مگر کم ازکم میرے سر سے تو حجاب اتار نے کی کوشش نہ کرے۔

سوال: آج کے دور میں مسلم خاندان کو کن کن چیلنجوں کا سامنا ہے اور اس دور جدید میں ان کا کس طرح مقابلہ کیا جاسکتا ہے؟

جواب: آج خاندان کا یہ ادارہ ایک بہت بڑے خطرے سے دوچار ہے اور یہ ہم سب کے لیے ایک چیلنج ہے۔ بچے آوارہ ہورہے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ والدین خاص طور پر باپ اپنے بچوں کے بارے میں بھی اسی قدر فکرمند ر ہے جس قدر وہ اپنی بچیوں کی عفت کے لیے پریشان ہوتے ہیں۔بچوں پر اعتماد کا عنصر بہت اہم ہے اور اس کا ہو نا لازمی ہے۔ میں خود بھی ماں ہوں ، اور میرے لیے یہ ایک خوفناک بات ہے کہ بچوں میں منشیات کے استعمال میں اضافہ ہورہا ہے ، نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں جنسی بے راہ روی میں اضافہ ہو رہا ہے ، شراب نوشی میں اضافہ اور تشدد کے رحجان میں حالیہ اضافہ ایک خوفناک حقیقت بنتی جا رہی ہے۔ آپ بچوں کودنیا سے الگ تو نہیں کرسکتے۔ پس بہتر حل یہی ہے کہ ان کو اسلام کے بارے میں بتایا جائے اور اس کے بعد امید کی جاسکتی ہے کہ جب وہ باہر نکلیں گے تو محفوظ رہ سکیں گے۔ ہمیں اپنے بچوں پر اعتماد کرنا پڑے گا۔ اپنی بچی کو محض اس لیے یونیورسٹی نہ بھیجنا کہ آپ خوف زدہ ہیں یا ان کی عفت کے بارے میں پریشان ہیں، یہ کوئی وجہ نہیں کہ آپ اپنی بچی کو تعلیم کے حصول سے منع کردیں۔ بدقسمتی سے برطانیہ کے اندر اس وقت کئی ایسی مثالیں ہیں جن کا میں حل ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی ہو ں ، جہاں پر والدین نہیں چاہتے کہ ان کی بچیاں یونی ورسٹی جائیں حالانکہ تعلیمی لحاظ سے وہ بہت اعلیٰ کارکردگی دکھا رہی ہیں۔ ان کے والدین خوف زدہ ہیں کہ اگر وہ ان کو گھر سے باہر نکلنے دیں گے تو وہ ایک بڑے خطرے سے دوچار ہو جائیں گی ، لیکن میں یہ بات کہہ چکی ہو ں کہ ہمیں اپنی بچیوں پر اعتماد کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ اچھی شہرت رکھنے والی بہت ساری یونیورسٹیاں ہیں ، جو اسلام کے لیے قوت کا باعث بن سکتی ہیں جہاں پر اسلام کو چاہنے والے یا اسلام سے محبت کرنے والے لوگ اور طلبہ تنظیمیں موجود ہوتی ہیں ، یہ بھی ایسے والدین کے لیے غنیمت ہیں کہ وہ اپنے بچوں پر اعتماد کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کے حوالے سے ان پر بھی ا عتماد کریں۔

سوال: آپ نے اسلام قبول کر نے کے بعد انسانیت کی وکالت کا علَم اٹھایا اور ان لوگوں کے لیے آواز اٹھائی جن کا کوئی پشتیبان نہیں تھا ، آپ نے محمد بن قاسم کی طرح پاکستان کی بیٹی کی آواز پر لبیک کہا اور آج ڈاکٹر عافیہ صدیقی کامقدمہ پوری انسانیت کا مقدمہ بن چکا ہے۔ آج اس مظلوم عورت کا نام انسانیت کے مردہ ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے- کیا آپ فاٹا اور قبائلی علاقوں کی ان خواتین کے لیے بھی آواز اٹھانے کا کوئی ارادہ رکھتی ہیں جن کو امریکا کے ایما پر بم باری کا نشانہ بنا یا گیا اور اب وہ اپنے ملک کے اندر بے گھر ہوکر در بہ در ٹھوکریں کھا رہی ہیں؟

جواب: جی ہاں میں یہاں پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا تذکرہ کر نا چاہوں گی ، یہ عورت کمال کی عورت ہے ، جس نے مشرق اور مغرب کو دیکھا ، جس نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ وہ اعلیٰ یونیورسٹی تک پہنچ گئی۔ اس نے بوسٹن یونیورسٹی میں بھی تعلیم حاصل کی، ایک ایسی عورت جو خود مختار اور قوت والی تھی مگر اُسے ‘دہشت گردی’ کے خلاف اس جنگ میں بڑی بے دردی کے ساتھ گھسیٹا گیا۔ یہ سب کچھ دیکھ کر میں دوسری مسلمان خواتین کویہ پیغام دینا چاہوں گی کہ ایک لمحے کے لیے بھی مت سوچنا کہ یہ سب کچھ آپ کے ساتھ نہیں ہوسکتا۔ دہشت گردی کے خلاف جاری یہ جنگ کس قدر خوفناک اور اہداف اور حدود کی قید سے آزاد ہے ، جس میں صرف بے گناہ اور معصوموں کو لقمہ اجل بنایا جارہا ہے۔ اس کے بارے میں آپ سب کو اچھی طرح سے معلوم ہو نا چاہیے۔

جہاں تک پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہونے والے مظالم کا تعلق ہے ، تو چند دن قبل کسی نے مجھ سے پوچھا کہ پاکستان کے یہ طالبان کہاں سے آئے ہیں ؟ میں نے ان کو جواب دیا کہ یہ تو سب امریکا کا کیا دھرا ہے۔ اگر ہم ماضی کا جائزہ لیں تو۲۰۰۴ء میں امریکا نے وزیرستان میں بم باری کی تھی جس کے نتیجے میں ۱۴ بے گناہ بچے اور خواتین لقمۂ اجل بن گئی تھیں۔اگلے دن ان سب کا اجتماعی جنازہ تھا جس میں ہزاروں کی تعداد میں وزیرستان کے قبائل شریک تھے۔ امریکا نے اس جنازے پر بھی بم باری کی۔ بس یہی وہ دن تھا جب خون بہانے اور بے گناہوں پر تشدد کرنے کی اس پالیسی کے نتیجے میں پاکستان کے طالبان نے جنم لیا۔ اب باقاعدہ ایک سازش کے تحت امریکا ان علاقوں میں امن کے نام پر پاکستان کی فوج کو بہت ہی گھٹیا طریقے سے استعمال کر رہا ہے اور مجھے یقین ہے کہ اس طرح طاقت کے استعمال سے آپ ان علاقوں میں امن نہیں لاسکتے کیونکہ قبائلی علاقوں میں اگر کسی پر بندوق تان لی جاتی ہے تووہ بندوق کی نالی دیکھ کر یہ کبھی نہیں سوچتا کہ اب ہتھیار ڈال دینا چاہیے ، کیونکہ جہاں تک بندوق کی زبان میں بات کرنے کی بات ہے ، یہ ان لوگوں کے لیے کوئی نئی بات نہیں ، ان کو بندوق سے کبھی نہیں ڈرایا جا سکتا۔ قبائلی علاقوں میں رہنے والے ان لوگوں سے اپنی بات منوانے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ آپ ان کے ساتھ بیٹھ کر بات کریں ، ان کو یہ احساس دلائیں کہ آپ ان کا احترام کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو پیسے کے ذریعے نہیں خریدا جاسکتا۔ میں یہ سوچ رہی ہوں کہ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ امریکا کی ‘دہشت گردی’ کے خلاف اس جنگ کے نتیجے میں آج ایک پاکستانی دوسرے پاکستانی کو مارنے پر تُلا ہوا ہے۔ یہ غلط ہے ، ایسا نہیں ہو نا چاہیے۔

سوال: ہم اسلام کا یہ پیغام دنیا بھر میں پھیلے ہوئے آپ جیسے حق کے متلاشی ہزاروں لاکھوں نوجوان عورتوں اور مرودں تک کیسے پہنچا سکتے ہیں ، کہ وہ بھی حق کے ساتھی بن کر، آپ کی طرح کلمۂ حق بلند کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکیں ؟

جواب: اپنے آپ کو ہر وقت اسلام کا سفیر اور نمایندہ سمجھ کر۔ ہمیں ہر کام یہ بات پیشِ نظر رکھ کر کرنا چاہیے کہ د نیا ہمیں ایک مسلمان کے طور پر دیکھ رہی ہے ، جانچ رہی ہے۔ کسی گلی سے گزرتے ہوئے اگر آپ کوڑا کرکٹ پھینکتے ہیں ، تو یہ کسی زید یا بکر جیسے فردکی غلطی نہیں کہلائے گی بلکہ اس کو ایک مسلمان کا قصور سمجھا جا ئے گا۔ ہم سب کو ایک بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہم میں سے ہر ایک فرد اسلام کا سفیر ہے اور لوگ ہمیں ہمارے کردار اور رویوں سے جانچیں گے۔ میری دوبہنیں ہیں۔ جب میں نے اسلام قبول کیا، ان میں سے ایک بہت خوف زدہ ہوئی ۔ میرے ساتھ رہتے ہوئے اس کو اس حقیقت کا سامنا کرنے میں کافی دقت محسوس ہو رہی تھی کہ میں اب اسلام قبول کرچکی ہوں۔ میری دوسری بہن ۲۰سال تک ایک ایسے گھر میں رہ چکی تھی ، جن کے ہمسائے بہت اچھے اور بہتر مسلمان تھے۔ جب اس کو یہ معلوم ہوا کہ میں اسلام لاچکی ہوں، تو کہنے لگی کوئی بات نہیں ، میرے ہمسائے بھی تو مسلمان ہیں اور وہ بہت ہی اچھے لوگ ہے۔ یہی وہ اچھا احساس تھا جس کی وجہ سے اس کو میرے مسلمان ہونے کے باوجود کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا۔ اگر ہمارے بچوں کی اچھی تربیت ہوگی اور وہ اچھے اخلاق کا مظاہرہ کریں گے ، تو دوسرے لو گ یہی کہیں گے کہ ان مسلمان بچوں کو دیکھیں۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اسلام اور مسلمان کی پہچان ایک ہو جائے ، اچھے رویے، اچھا کردار ،کامل شخصیت ہماری پہچان بن جائیں۔

سوال: مسلمان نوجوانوں کے لیے آپ کا کیا پیغام ہے ، بالخصوص ان نوجوانوں کے لیے جو مغرب کی پیروی کو کامیابی کی ضمانت سمجھتے ہیں ؟

جواب: میرا پیغام یہ ہے کہ آپ کے پاس جو کچھ ہے ، اس پر فخر کریں۔ جو ترکہ آپ کو ملا ہے یہ بہت عظیم ہے۔ اللہ نے آپ کو مسلمان کی حیثیت سے پیدا کر کے اسلام کی دولت سے نوازا۔ مجھ سے پوچھیں کہ اسلام کی یہ دولت مجھے کس قدر مشکل سے ملی۔ یاد رکھیں، یہ زندگی اور اس کی منزلیں تو گزر جانے والی ہیں۔ ہم تو صرف مسافر ہیں اور اس سفر کے اختتام پر ہم سب کو احتساب کے ایک مشکل مرحلے سے گزرنا ہے ، جس میں اس سفر کے دوران ہر قدم کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اس زمین پر ۷۰، ۸۰ سال پوری زندگی کہلاتی ہے ، مگر ابد کی وہ زندگی اس سے کہیں زیادہ لمبی اور نہ ختم ہو نے والی ہے۔ یاد رکھیں سب سے بہتر زندگی وہ ہے جو اللہ کی رسی کو پکڑ کر گزاری جائے

(بشکریہ ، ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور دسمبر ۲۰۰۸)