میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو

مصنف : اوریا مقبول جان

سلسلہ : منتخب کالم

شمارہ : دسمبر 2010

ایک زمانے میں پوری مسلم امت، رنگ نسل، عقیدے یا فرقے کے تعصب سے بالاتر ایک پر سکون اور مطمئن دور سے گزر رہی تھی۔ اگر کہیں طوفان اٹھتا بھی تو وہ اقتدار کی کشمکش کا سیاسی طوفان ہوتا۔ بادشاہ مرتا تو اس کے بیٹے آپس میں لڑتے مرتے، یا سر اٹھاتی ریاستوں کو کچلنے کے لیے فوج کشی کرنا پڑتی۔ کبھی کبھی فاتحین اپنا گھر بار چھوڑ کر دنیا فتح کرنے نکل کھڑے ہوتے، سلطنت کو وسعت دیتے یا پھر بادشاہی خزانہ لوٹ کر واپس لوٹ جاتے۔ ملکوں، علاقوں یا ریاستوں کی جنگوں میں عام آدمی بھی مارا جاتا، لیکن بلا تخصیص رنگ، نسل، عقیدہ و فرقہ، جو مزاحمت کرتا یا جس کا گھر بے رحم فوج کے نشانے میں آ جاتا۔

مسلمانوں اور عیسائی یورپ کی صلیبی جنگیں ختم ہو چکی تھیں۔ سکندر، چنگیز خان اور ہلاکو بھی اپنی تلوار کی پیاس بجھا چکے تھے۔ ساری مسلم امہ میں اب ایک سکون تھا۔ ہر کوئی اپنے مذہب، عقیدے اور فرقے کے اصول و قواعد کے مطابق خوش و خرم زندگی گزار رہا تھا۔ کسی کو کسی دوسرے کا خوف اور ڈر نہیں تھا۔ یوں بھی مسلم تاریخ میں اس وقت تک فرقہ واریت کی بنیاد پر بے گناہ اور معصوم لوگوں کے قتل کا رواج نہ تھا۔ اگر عقیدے کی بنیاد پر جنگ بھی ہوئی تو خروج کی صورت میں اور میدان میں دو بدو، لیکن راہ چلتے یا گھروں میں بیٹھے شخص کو محض عقیدے کی بنیاد پر بے گناہ قتل نہیں کیا جاتا تھا۔ ہندوستان کا لکھنؤ ہو یا صفوی ایران کا اصفہان، عثمانی سلطنت کا ازمیر ہو یا سامانی حکومت کا سمرقند، ہر علاقے میں مسلمانوں کے ہر فرقے اور مکتبہ فکر کی عبادت گاہیں یا مساجد موجود تھیں اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی مثال تاریخ کی گواہی کے طور پر آج بھی واضح نظر آتی ہے۔ آپ تیونس اور مصر کے افریقہ چلے جائیں، فاطمی دور کی مساجد دیکھیں، ایران میں صفوی دور کے اصفہان کی مسجد ہو، سامانی دور کے سمرقند اور بخارا کی خوبصورت مساجد ہوں، یا پھر مغلیہ دور کی بادشاہی مسجد لاہور، مسجد وزیر خان یا دہلی کی جامع مسجد ۔ آپ ان کے فن تعمیر، ان پر کنندہ ہوئی آیات سے، ان کے رنگ، مینار، گنبد یا محرابوں سے فرق نہیں کر سکتے کہ یہ شیعہ مسجد ہے یا یہ سنی۔ ساری کی ساری مساجد یوں لگتا ہے صرف اللہ کے گھر کے طور پر بنائی گئی تھیں۔ اس تمام دور، بلکہ اس سے پہلے کے دور میں مسلمانوں اور خصوصاً مسلمان علما کے جو حلیے ملتے ہیں، ان کے عماموں، جبوں اور لباس کی رنگت کا جو بیان نظر آتا ہے، آج سے صرف سو سال پہلے کی جو تصویریں نظر آتی ہیں، آپ ان حلیوں میں سے، لباس کی وضع قطع سے، داڑھی کی تراش خراش سے، اس کی لمبائی سے اندازہ نہیں لگا سکتے تھے کہ کون شیعہ ہے، کون سنی۔ نہ کسی کی پگڑی کا رنگ علیحدہ تھا اور نہ ٹوپیوں کاسٹائل۔ نہ ایک فرقے کا ہر بندہ مونچھیں صاف کراتا تھا اور نہ دوسرے فرقے کا ہر شخص داڑھی کو کاٹنا حرام تصور کرتا تھا۔ یہ پورا دور ایسا تھا کہ نہ آپ انسانوں کو دیکھ کر پہچان سکتے تھے کہ یہ کس فرقے سے تعلق رکھتا ہے اور نہ مسجدوں کو دیکھ کر پتا چلتا تھا کہ یہ شیعہ مسجد ہے یا یہ سنی مسجد۔ مسلمانوں میں عقیدے کا اختلاف ہمیشہ سے رہا ،لیکن صرف اس وقت نظر آتا جب دو لوگ یا دو علما گفتگو کے لیے منہ کھولتے یا کوئی کتاب تحریر کرتے، ورنہ عام زندگی میں نہ کسی کی مسجد، مدرسے حتیٰ کہ کسی کے گھر پر بھی کوئی ایسی علامت نہ تھی کہ یہ فلاں فرقے یا گروہ سے تعلق رکھتا ہے۔ نہ کسی فرقے کے ماننے والوں نے اپنے لیے کوئی مخصوص لباس متعین کیا تھا۔ خاص رنگ کی پگڑی خاص طرح کا جبہ یا پھر خاص طریقے کی کلف لگی ٹوپی۔ جس کا جو جی چاہتا، پہنتا اور جیسی تراش خراش اس کو لباس اور چہرے پر اچھی لگتی ویسی وضع قطع اختیار کر لیتا۔

مراکش سے لے کر برونائی تک پوری امت میں ایسی ہی یک رنگی تھی۔ نہ مسجدوں اور گھروں سے عقیدے کی شناخت ہوتی تھی اور نہ شکل و صورت اور لباس کے سٹائل اور رنگت سے۔ مذہبی جلوس تو اس وقت رواج ہی نہیں پائے تھے۔ البتہ مخصوص ایام میں عبادات اور مجالس کا اہتمام ضرور ہوتا تھا۔ سب سے زیادہ حیران کن بات یہ کہ آپ پوری مسلم دنیا میں مسلمان صوفیہ، بزرگوں اور اماموں کے مزارات پر چلے جائیں آپ کو ان میں علاقائی طرز تعمیر میں تو فرق نظر آئے گا، لیکن آپ ان کی محرابوں، گنبدوں، میناروں یہاں تک کہ ان آیات سے جو مزاروں پر کنندہ ہوں یہ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ یہ بزرگ شیعہ تھے، سنی تھے، قادری ، چشتی، سہروردی یا نقشبندی تھے۔ خانقاہوں کے لنگر اور میلوں پر تو رنگ، نسل، مذہب اور عقیدہ کا بھی پتا نہ چلتا تھا۔ ہندو، سکھ، عیسائی، مسلمان سب اس رنگا رنگی میں شریک تھے۔

 آپ حیران ہوں گے کہ برصغیر میں انگریز کی آمد سے قبل اور مسلم امہ میں خلافت عثمانیہ کے اختتام کے ساتھ فرقہ واریت کی یہ بیماری ایسے پھیلی کہ ہمارے گھر بازار، علاقے تقسیم ہو گئے۔ ہماری شکلیں، لباس یہاں تک کہ رشتے داریاں تک علیحدہ ہو گئیں۔ اب تو صرف شیعہ، سنی نہیں رہے بلکہ دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور پتا نہیں کتنے فرقوں میں تقسیم ہو گئے۔ ہر کسی نے اپنے اسلاف کے لباس کو اپنے لیے مخصوص کر لیا اور آج آپ کسی مذہبی عقیدے کی مسجد کو دیکھیں تو آپ پہچان لیں گے کہ کس کی ہے۔ آپ گھروں کے اوپر لگے جھنڈوں، نمبر پلیٹوں اور علامتوں سے اندازہ لگا لیں گے کہ یہاں کون رہتا ہے۔ دیو بندی کی ٹوپی علیحدہ ہے، بریلوی کی پگڑی کا رنگ اور شیعہ کا جبہ اور عمامہ مختلف ہے۔ اہل حدیث کی داڑھی کی لمبائی سے اس کا اندازہ ہوتا ہے اور تبلیغی جماعت کی مخصوص سمٹی سمٹائی پگڑی اور صاف مونچھوں سے پتہ چلتا ہے ۔

یہ اس امت کا حال ہے جس کے کوفہ شہر میں ایک دفعہ عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے۔ آپ کافی عمر رسیدہ ہو گئے تھے اور مسلمانوں پر بھی اب خاصی دولت کی فراوانی کاخمار طاری ہونے لگا تھا۔ کوفہ کے لوگوں نے عبد اللہ ابن مسعودؓ سے کہا ، آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرب ترین صحابیوں میں سے ہیں۔ آپ سے تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمائش کر کے قرآن سنتے تھے۔ آپ ہمیں آج اس طرح نماز پڑھائیں جیسے آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پڑھتے تھے۔ عبد اللہ بن مسعودؓ نے پہلے پگڑی اتاری، جبہ اور قمیض اتاری اور ایک چادر باندھ کر کھڑے ہو گئے۔ نماز ختم ہوئی تو لوگوں کے حیران چہروں کو دیکھ کر بولے: ‘‘تم کیا سمجھتے ہو ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پورے کپڑے میسر تھے۔’’

 مخصوص لباس اور مخصوص وضع قطع کی بیماری اور مخصوص عبادت گاہوں کی بیماری ہم میں کہاں سے آئی، یہ ایک طویل بحث ہے، لیکن یہ چھوت کی بیماری جو مغرب ہم میں لے کر آیا، اس میں یہ بہت عام تھی۔ ہر فرقے کا لباس او رعلامتیں علیحدہ تھیں۔ صلیب تو بہت بعد کی بات ہے، پہلے عیسائی راہب ایک مخصوص نشان لے کر چلتے تھے جسے کانسٹنٹائن نے خواب میں دیکھا اور وہ عیسائی ہواتھا۔ مخصوص ٹائی، مخصوص مفلر سب وہیں سے آیا، بلکہ فرقہ واریت کی بنیاد پر اس مہذب دنیا کا پہلا قتل عام 1572 میں ہوا جسے بار تھولومیو قتل عام کہتے ہیں۔

رومن کیتھولک کے ہاتھوں پچیس ہزار پروٹسنٹ مارے گئے اور پوپ گریگوری 13 نے کہا کہ اس قتل عام کی مجھے پچاس جنگوں کی فتح سے زیادہ خوشی ہے۔ اور پھر مشہور مصور گیروٹی و ساری کو کہا کہ گرجوں کی دیواروں اور چھتوں پر اس قتل عام کو پینٹ کرو۔ یہی زمانہ تھا جب گے فاکس اور دیگر نے مل کر برطانوی پارلیمنٹ کو بارود سے اڑانے کی کوشش کی تھی تاکہ انگلستان کی پروٹسنٹ حکومت کو ختم کر کے رومن کیتھولک حکومت قائم کی جائے۔ اس دور سے لے کر آج کے امریکہ کے ہیٹریج پارک کی تحریک تک، فرقہ واریت کی نفرت مخصوص علامتوں کی پہچان اور اس کی بنیاد پر قتل کی روایت زندہ ہے اور یہ چھوت کا مرض ہم میں ایسا سرایت کر چکا ہے کہ ہم ماضی میں بھی جھانکتے ہیں تو اسی عینک سے اور اپنے موجودہ تعصب کے حق میں دلیلیں ڈھونڈ کر لاتے ہیں۔ اپنی وضع قطع کے جواز بھی، اپنی مخصوص مسجدوں کے جواز بھی، طریقے کے جواز بھی جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تم قیامت کے نزدیک اپنی مسجدوں کو ایسے سجاؤ گے جیسے رومیوں کے گرجا گھر۔ کیا ایسا نہیں ہے۔ اقبال نے خوب کہا تھا کہ اللہ تمھاری ان عبادت گاہوں سے بیزار ہے ؂

میں ناخوش و بیزار ہوں مر مر کی سلوں سے

میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو

(بشکریہ روزنامہ ‘‘ایکسپریس’’ 11 ستمبر 2010)

٭٭٭