کیا پردہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے؟

مصنف : پروین رضوی

سلسلہ : نقطہِ نظر

شمارہ : دسمبر 2010

پردہ ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے یا نہیں؟ اس کا فیصلہ کرنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ پردہ ہے کیا چیز؟

پردہ عربی زبان کے لفظ حجاب کا لفظی ترجمہ ہے۔ جس چیز کو عربی میں حجاب کہتے ہیں، اسی کو فارسی اور اردو میں پردہ کہتے ہیں۔ حجاب کا لفظ قرآن مجید کی اس آیت میں آیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں بے تکلف آنے جانے سے منع فرمایا او رحکم دیا تھا کہ اگر گھر کی خواتین سے کوئی چیز مانگنی ہو تو حجاب (پردے) کی اوٹ سے مانگا کرو۔ (سورۂ احزاب، آیت ۵۳)

اسی حکم سے پردے کے احکام کی ابتدا ہوئی، اور پھر جتنے احکام اس سلسلے میں آئے، ان سب کے مجموعے کو احکام حجاب (یعنی پردے کے احکام) کہا جانے لگا۔ پردے کے یہ احکام سورۂ نور اور سورۂ احزاب میں تفصیل کے ساتھ موجود ہیں، جن میں عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے گھروں میں وقار کے ساتھ رہیں اور اپنے حسن ور آارئش کی ویسی نمائش نہ کرتی پھریں، جس طرح زمانۂ جاہلیت کی عورتیں کرتی تھیں۔ گھروں سے باہر نکلنا ہو تو اپنے اوپر ایک چادر ڈال لیں اور بجنے والے زیور پہن کر نہ نکلیں۔ گھروں کے اندر بھی محرم مردوں اور غیر محرم مردوں کے درمیان امتیاز کریں۔ محرم مردوں اور گھروں کے ملازموں اور میل جول کی عورتوں کے سوا کسی کے سامنے زینت کے ساتھ نہ آئیں۔ (زینت کے وہی معنی ہیں جو ہماری زبان میں آرائش و زیبائش اور بناؤ سنگھار کے ہیں، اس میں خوش نما لباس، زیور اور میک اپ تینوں چیزیں شامل ہیں)

محرم مردوں کے سامنے بھی عورتوں کو حکم دیا گیا کہ اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈال کر رکھیں اور اپنا ستر چھپائیں۔ گھر کے مردوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ ماں بہنوں کے پاس جب بھی آئیں تو اجازت لے کر آئیں تاکہ اچانک ان کی نگاہ ایسی حالت میں نہ پڑے جب کہ وہ جسم کا کوئی حصہ کھولے ہوئے ہوں۔ یہ وہ احکام ہیں جو قرآن حکیم میں دیے گئے ہیں اور انھی کا نام پردہ ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تشریح فرماتے ہوئے فرمایا: ‘‘عورت کا ستر چہرے، کلائی کے جوڑ تک ہاتھ اور ٹخنے تک پاؤں کے سوا اس کا پورا جسم ہے، جسے باپ بھائی تک سے چھپا کر رکھنا چاہیے اور ایسے باریک اور چست کپڑے نہیں پہننے چاہییں جس سے جسم نمایاں ہو۔’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محرم مردوں کے سوا کسی اور مرد کے ساتھ تنہا رہنے سے عورتوں کو منع فرمایا اور محرموں کے بغیر تنہا یا کسی غیر آدمی کے ساتھ سفر کرنے سے روک دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو اس بات سے بھی منع فرمایا کہ وہ گھر کے باہر خوشبو لگا کر نکلیں۔ مسجد کے اندر نماز یا جماعت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے لیے الگ جگہ مقرر فرمائی تھی اور اس بات کی اجازت نہیں دی تھی کہ عورت مرد مل جل کر ایک صف میں نماز پڑھیں۔ نماز سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور سب مرد اس وقت تک بیٹھے رہتے جب تک عورتیں چلی نہ جاتیں۔

یہ احکام جس کا جی چاہے قرآن مجید کی سورۂ نور اور سورۂ احزاب میں اور حدیث کی مستند کتابوں میں دیکھ سکتا ہے۔ آج جس چیز کو ہم پردہ کہتے ہیں اس میں چاہے عملی طور پر افراط و تفریط ہو گئی ہو لیکن اصول اور قاعدے سب وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ پاک کے مسلم معاشرے میں جاری کیے تھے۔ میں خدا اور رسولؐ کا نام لے کر آپ کی زبان بند کرنا نہیں چاہتی، مگر یہ کہے بغیر بھی نہیں رہ سکتی کہ آج ہمارے اندر یہ آواز اٹھنا ‘‘پردہ ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے’’ ہماری دوزخی ذہنیت کی کھلی علامت ہے۔

یہ آواز خدا اور رسولؐ کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ ہے۔ اور اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ خدا اوررسولؐ نے ہماری ترقی کے راستے میں روڑے اٹکا دیے ہیں۔ اگر واقعی ہم ایسا سمجھتے ہیں تو آخر کیوں خواہ مخواہ مسلمان بنے ہوئے ہیں اور کیوں اس خدا اور رسول کو ماننے سے انکار نہیں کر دیتے جنھوں نے ہم پر ایسا ظلم کیا ہے؟ اس سوال سے یہ کہہ کر چھٹکارا حاصل نہیں کیا جا سکتا کہ خدا اور رسولؐ نے پردے کا حکم ہی نہیں دیا۔ میں ابھی عرض کر چکی ہوں کہ پردہ کس چیز کا نام ہے اور اس کے تفصیلی احکام جس کا جی چاہے قرآن مجید اور احادیث کی مستند کتب میں نکال کر دیکھ سکتا ہے۔ حدیث کی صحت سے کسی کو انکار بھی ہو تو قرآن کے کھلے کھلے احکام کو آخر وہ کہاں چھپائے گا! پردے کے یہ احکام جو اسلام نے ہمیں دیے ہیں، ان پر تھوڑا سا بھی غور کیجیے تو سمجھ میں آ سکتا ہے کہ ان کے تین بڑے بڑے مقاصد ہیں:

اول: یہ کہ عورتوں اورمردوں کے اخلاق کی حفاظت کی جائے اور ان خرابیوں کا دروازہ بند کیا جائے جو مخلوط معاشرے میں عورتوں اور مردوں کے آزادانہ میل جول سے پیدا ہوتی ہیں۔

دوم: عورتوں اور مردوں کے عمل کے دائرے الگ الگ کیے جائیں تاکہ فطرت نے جو فرائض عورت کے سپرد کیے ہیں، انھیں وہ سکون کے ساتھ انجام دے سکے اور جو خدمات مرد کے سپرد کی ہیں، انھیں وہ اطمینان کے ساتھ بجا لا سکے۔

تیسرا: گھر اور خاندان کے نظام کو مضبوط اور محفوظ کیا جائے جس کی اہمیت زندگی کے دوسرے نظاموں سے کم نہیں، بلکہ کچھ بڑھ کر ہی ہے۔ اسلام عورت کو اس کے پورے حقوق بھی دیتا ہے اور اس کے ساتھ گھر اور خاندان کے نظام کو بھی محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔ یہ مقصد اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک کہ پردے کے احکام اس کی حفاظت کے لیے موجود نہ ہوں۔

خواتین و حضرات! میں آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ ٹھنڈے دل سے ان مقاصد پر غور کریں۔ اخلاق کا مسئلہ کسی کی نگاہ میں اہمیت نہیں رکھتا تو اس کا کوئی علاج نہیں، مگر جس کی نگاہ میں اس کی کوئی اہمیت ہے، اسے سوچنا چاہیے کہ ایسے مخلوط معاشرے میں جہاں بن سنور کر عورتیں آزادانہ پھریں اور زندگی کے ہر شعبے میں مردوں کے ساتھ کام کریں، وہاں اخلاق بگڑنے سے کیسے اور کب تک بچ سکتے ہیں؟ ہمارے اپنے ملک میں یہ صورت حال جتنی بڑھتی جا رہی ہے، جنسی جرائم بھی بڑھتے جا رہے ہیں اور ان کی خبریں آپ آئے دن اخبارات میں پڑھتے ہوں گے۔ یہ کہنا کہ ان خرابیوں کا اصل سبب پردہ ہے، جب پردہ نہ رہے گا تو لوگوں کا دل عورتوں سے بھر جائے گا، بالکل غلط ہے۔

مغربی ممالک میں پوری بے پردگی تھی، لیکن وہاں لوگوں کے دل نہیں بھرے اور ان کی خواہشات کے تقاضوں سے عریانی تک نوبت پہنچی اور اب جنسی آوارگی کے کھلے لائسنس سے بھی دل نہیں بھرا۔ آج وہاں کثرت سے جنسی جرائم ہو رہے ہیں جن کی رپورٹیں امریکہ، انگلستان اور دوسرے ملکوں کے اخبارات میں آتی رہتی ہیں۔ کیا یہ قابل اطمینان حالت ہے؟ یہ صرف اخلاق ہی کا سوال نہیں، ہماری پوری تہذیب کا سوال ہے۔ مخلوط معاشرہ جتنا بڑھ رہا ہے عورتوں کے لباس اور بناؤ سنگھار کے اخراجات بھی بڑھ رہے ہیں۔ اس لیے جائز آمدنیاں ناکافی ہو گئی ہیں اور رشوت، غبن اور دوسری حرام خوریاں بڑھ رہی ہیں۔ حرام خوریوں نے ہماری ریاست کے پورے نظام کو گھن لگا دیا ہے اورکوئی قانون ٹھیک طرح سے نافذ ہونے نہیں پاتا۔ پھر یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ جنھیں اپنی خواہشات کے معاملے میں نظم و ضبط کی عادت نہ ہو، وہ دوسرے معاملات میں نظم و ضبط کے پابند کیسے ہو سکتے ہیں؟ جو شخص اپنے گھر کی زندگی سے وفادار نہ ہو، اس سے اپنی قوم اور ملک کے سلسلے میں وفاداری کی توقع کہاں تک کی جا سکتی ہے؟

 عورت اور مرد کے عمل کے دائرے الگ کرنا خود فطرت کا تقاضا ہے۔ فطرت نے ماں بننے کی خدمت عورت کے سپرد کر کے خود ہی بتا دیا کہ اس کے کام کی اصل جگہ کہاں ہے اور باپ بننے کا فرض مرد کے ذمے ڈال کر خود اشارہ کر دیا ہے کہ اسے کن کاموں کے لیے مادری فرائض سے سبکدوش کیا گیا ہے۔ دونوں قسم کی خدمات کے لیے عورت اور مرد کو جداگانہ ساخت کا جسم دیا گیا ہے۔ الگ الگ قوتیں، الگ الگ صفات اور الگ الگ نفسیات دی گئی ہے۔ فطرت نے جسے ماں بننے کے لیے پیدا کیا ہے، اسے صبر و تحمل بخشا ہے، اس کے مزاج میں نرمی پیدا کی ہے، اسے وہ چیز دی ہے جسے مامتا کہتے ہیں۔ وہ ایسی نہ ہوتی تو ہم اور آپ پل کر بخیریت جوان نہ ہو سکتے تھے۔ یہ کام جس کے ذمے ڈالا گیا ہے، اس کے لیے وہ کام موزوں نہیں جن کے لیے سختی اور سخت مزاجی کی ضرورت ہے۔ یہ کام اسی کے لیے موزوں ہیں، جسے ماں بننے کے لیے پیدا نہیں کیا گیا اور جسے ان بھاری ذمہ داریوں سے آزاد رکھا گیا ہے جو ماں بننے کا لازمہ ہیں۔

اگر آپ اس تقسیم کو مٹانا چاہتے ہوں تو پھر یہ فیصلہ کر لیجیے کہ اب دنیا کو ماؤں کی ضرورت نہیں۔ لیکن تھوڑی ہی مدت گزرے گی کہ انسان ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم کی ہلاکت کے بغیر ہی ختم ہو جائے گا۔ اس تقسیم کو مٹانے کی کوشش دراصل عورت کے ساتھ بہت بڑی ناانصافی ہے کہ وہ اس پورے بوجھ کو بھی اٹھائے جو فطرت نے ماں بننے کے سلسلے میں اس پر ڈالا ہے اور جس میں مرد ایک رتی برابر بھی اس کے ساتھ کوئی حصہ نہیں لے سکتا اور پھر وہ مرد کے ساتھ آ کر سیاست اور تجارت، صنعت اور حرفت اور لڑائی دنگے کے کاموں میں بھی برابر کا حصہ لے۔

خدا کے لیے ذرا ٹھنڈے دل سے سوچئے، انسانیت کی خدمت کا آدھا حصہ تو وہ ہے جسے پورے کا پورا عورت سنبھالتی ہے، کوئی مرد اس میں ذرہ برابر بھی اس کا بوجھ نہیں بٹا سکتا۔ اب باقی آدھے میں سے آپ کہتے ہیں کہ اس کا آدھا بار بھی عورت اٹھائے۔ گویا تین چوتھائی، کیا انصاف ہے؟ عورت بے چاری اس ظلم کو خوشی خوشی برداشت کرنے بلکہ لڑ جھگڑ کر اپنے اوپر لینے کے لیے یوں مجبور ہوئی کہ آپ نے عورت کو اپنی جگہ کام کرتے ہوئے اسے عزت دینے سے انکار کر دیا۔ آپ نے بچوں والی کا مذاق اڑایا اور گھر گرہستن کو ذلیل قرار دیا۔ آپ نے ان ساری خدمات کو گھٹیا درجہ دیا، جو وہ خاندان کے لیے انجام دیتی تھی اور جن کی انجام دہی آپ کی سیاست، معیشت اور جنگ کے لیے بلا واسطہ مفید نہ تھی۔

مجبوراً وہ غریب عزت اور قدر و منزلت کی تلاش میں ان کاموں کے لیے آمادہ ہوئی جو مرد کے کرنے کے تھے کیونکہ معاشرہ مرد بنے بغیر اور مردانہ خدمات انجام دیے بغیر اسے عزت دینے کو تیار نہ تھا۔ اسلام نے عورت پر یہ مہربانی کی کہ عورت رہتے اور زنانہ خدمات انجام دیتے ہوئے ہی اسے مرد کے برابر بلکہ ماں ہونے کی حیثیت سے مرد سے کچھ بڑھ کر عزت دی۔ اب آپ کہتے ہیں کہ عورت کاگھر میں رہنا ‘‘ترقی’’ میں حائل ہے۔ آپ کا اصرار ہے کہ عورت ماں بھی بنے اور مجسٹریٹ بھی اور پھر ناچ گا کر مردوں کا دل بہلانے کے لیے بھی وقت نکالے۔ آپ اس پر اتنا بوجھ ڈالتے ہیں کہ وہ کسی خدمت کو بھی بخوبی انجام نہیں دے سکتی۔ اسے وہ کام دیتے ہیں جن کے لیے وہ پیدا نہیں کی گئی۔ آپ اسے اس میدان میں کھینچ لاتے ہیں جہاں وہ مرد کا مقابلہ نہیں کر سکتی، جہاں مرد اس سے آگے ہی رہے گا۔ جہاں عورت کو اگر داد ملے گی بھی تو نسوانیت کی رعایت سے ملے گی یا پھر کمال کی نہیں بلکہ جمال کی ملے گی اور یہ آپ کے نزدیک ‘‘ترقی’’ کے لیے ضروری ہے۔

لیکن گھر اور خاندان جن کی اہمیت کو آپ ‘‘ترقی’’ کے جوش میں بھول گئے ہیں، دراصل وہ کارخانے ہیں جہاں انسان تیار ہوتے ہیں۔ یہ کارخانے جوتے اور پستول بنانے کے کارخانوں کی نسبت ترقی کے لیے زیادہ ضروری ہیں! ان کارخانوں کے لیے جن صفات، نفسیات اور قابلیتوں کی ضرورت ہے، وہ فطرت نے سب سے بڑھ کر عورت کو دی ہیں۔ انھیں چلانے کے لیے جس خدمت، محنت اور مشقت کی ضرورت ہے، اس کا سب سے زیادہ بوجھ فطرت نے عورت ہی پر ڈالا ہے۔ ان کارخانوں میں کرنے کے کام بہت ہیں۔ کوئی فرض شناسی کے ساتھ انھیں کرنا چاہے جیسا کہ ان کاحق ہے تو اسے سر کھجانے کی مہلت نہ ملے۔ حقیقت یہ ہے کہ انھیں جتنی زیادہ قابلیت، سلیقے اور دانش مندی کے ساتھ چلایا جائے، اتنے ہی زیادہ اعلیٰ درجہ کے انسان تیار ہو سکتے ہیں اور اس کے لیے عورت کو زیادہ سے زیادہ عمدہ تعلیم و تربیت دینے کی اشد ضرورت ہے۔

ان کارخانوں کوسکون و اطمینان اور اعتماد کے ساتھ چلانے کے لیے اسلام نے پردے کا نظام قائم کیا تاکہ عورت پوری دل جمعی کے ساتھ اپنا کام کر سکے، اس کی توجہ غلط سمتوں میں نہ بٹے اور مرد بھی پوری طرح مطمئن ہو کر زندگی کے اس شعبے کو اس کے ہاتھوں میں چھوڑ دے، لیکن اب آپ ‘‘ترقی’’ کی خاطر اس نظم و ضبط کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے ختم ہوجانے کے بعد دو کاموں میں سے ایک کام آپ کو بہرحال کرنا ہو گا، یا تو ہندو تہذیب اور پرانی عیسائی اور یہودی تہذیب کی پیروی کر کے عورت کو غلام بنا دیجیے تاکہ خاندانی نظام بکھرنے نہ پائے یا پھر اس کے لیے تیار ہو جائیے کہ انسان بنانے کے کارخانے تباہ و برباد ہو کر جوتے اور پستول بنانے کے کارخانے آباد ہوں۔ میں آپ سے صاف کہتی ہوں کہ اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ اسلام عورت کو جو قانونی اور معاشی حقوق دیتا ہے، انھیں برقرار رکھتے ہوئے آپ اسلام کے بنائے ہوئے نظم و ضبط کو توڑ دیں اور پھر آپ کا خاندانی نظام برباد ہونے سے بچا رہ جائے۔ ترقی کا جو معیار بھی آپ کے سامنے ہو، اسے نگاہ میں رکھ کر طے کر لیجیے کہ آپ کیا کھونا چاہتے ہیں اور کیا پانا چاہتے ہیں۔

‘‘ترقی’’ بہت وسیع لفظ ہے، اس کا کوئی ایک مفہوم نہیں۔ مسلمان ایک زمانے میں خلیج بنگال سے لے کر اٹلانٹک تک حکمران رہے ہیں۔ سائنس اور فلسفے میں وہ دنیا کے استاد تھے۔ تہذیب و تمدن میں کوئی دوسری قوم ان کی ہمسر نہ تھی۔ معلوم نہیں کہ اس چیز کا نام کسی کی لغت میں ترقی ہے یا نہیں! اگر یہ ترقی تھی تو میں عرض کروں گی کہ یہ ترقی اس معاشرے نے کی تھی جس میں پردے کا رواج تھا۔ اسلامی تاریخ بڑے بڑے اولیا، مدبرین، علما، حکما اور مصنفین و فاتحین کے ناموں سے بھری پڑی ہے۔ یہ عظیم الشان لوگ جاہل ماؤں کی گودوں میں پل کر تو نہیں نکلے تھے۔ خود عورتوں میں بھی بڑی بڑی عالمہ اور فاضلہ خواتین کے نام ہمیں اسلامی تاریخ میں ملتے ہیں جو علوم و فنون اور ادب میں کمال رکھتی تھیں۔

پردے نے اس ترقی سے مسلمانوں کو نہیں روکا تھا اور آج بھی اسی طرز کی ترقی ہم کرنا چاہیں تو پردہ ہمیں اس سے نہیں روکتا۔ ہاں، البتہ اگر کسی کے نزدیک ترقی بس وہی ہے جو اہل مغرب کی ہے، تو بلاشبہ اس میں پردہ بری طرح حائل ہے۔ پردے کے ساتھ ویسی ترقی ہمیں یقینا حاصل نہیں ہو سکتی، مگر یہ بات مت بھولیے کہ مغرب نے یہ ترقی اخلاقی اور خاندانی نظام کو خطرے میں ڈال کر کی ہے۔ وہ عورت کو اس کے دائرۂ عمل سے نکال کر مرد کے دائرۂ عمل میں لے آیا ہے۔ اس طرح اس نے اپنے دفتر اور کارخانے چلانے کے لیے دوگنے ہاتھ تو حاصل کر لیے اور بظاہر بڑی ترقی کر لی مگر گھر اور خاندان کا سکون کھو دیا ہے۔ آج بھی اگر وہاں گھر آباد ہیں تو صرف گھر گرہستن عورتوں کی بدولت۔ مردوں کے ساتھ کمانے والی عورتیں کہیں بھی گھر کا نظام نہیں چلا رہیں اور نہ چلا سکتی ہیں۔ ان کے نکاح طلاقوں پر ختم ہو رہے ہیں، ان کے بچے تباہ ہو رہے ہیں، ان کے لیے ٹھکانا اگر ہے تو کلب میں یا ہوٹل میں، گھر ان کے لیے سکون کی جنت نہیں رہے۔ انھوں نے اپنے عیش کے لیے بہتر انسان تیار کرنے کا کام چھوڑ دیا۔ اس ترقی پر کوئی ریجھتا ہے تو ریجھے!

٭٭٭