ازہر درانی

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : یادِ رفتگاں

شمارہ : دسمبر 2010

 

    دسمبر ۱۹۹۱ کے آخر میں اس نے مجھے یہ نظم سنائی تھی 
دوسالوں کے سنگم پر میں
جانے کیا کیا سوچ رہا ہوں
پچھلے سال بھی ایسی ہی اک
سرد دسمبر کی شب تھی جب
دو سالوں کے سنگم پر میں
جانے کیا کیا سوچ رہا تھا
 سوچ رہا تھا وقت کا پنچھی 
ماہ وسال کے پنکھ لگا کر 
اپنی ایک مخصوص ڈگر پر
 اڑتا ہے
دو سالوں کے سنگم پر میں 
بیتی باتیں یاد کروں تو
ڈرتا ہوں
ڈرتا ہوں کہ جانے والے سال کا سورج 
آنے والے سال کے پہلے سورج کو 
اپنے تن کی ساری حدت بخش نہ دے
ڈرتا ہوں کہ
آنے والا موسم بھی
جانے والی زرد رتوں کا عکس نہ ہو
موسم گل کی صورت کے برعکس نہ ہو
صحنِ چمن میں شعلوں ہی کارقص نہ ہو
سوچ رہا ہوں پچھلے سال اس لمحے 
دو سالوں کے ایسے ہی اک سنگم پر 
کیسے کیسے لوگ شریک ِ محفل تھے
کتنے ہیں جو آج یہاں موجود نہیں
سوچ رہا ہوں اگلے سال اسی لمحے
دو سالوں کے ایسے ہی اک سنگم پر 
جب لکھے گا کوئی نظم تو سوچے گا
پچھلے سال کی آخری نظمیں لکھنے والے 
کتنے ہیں جو آج یہاں موجود نہیں
    اور پھر اگلے برس دسمبر میں پچھلے سال کی آخری نظمیں لکھنے والا یہ شاعر بھی دنیاسے رخصت ہو چکا تھا۔
    میری اس سے پہلی ملاقات دسمبر ۱۹۸۲ میں ہوئی تھی اورپھر دس سالوں کی رفاقت میں نہ جانے اس نے مجھے کتنی ہی نظمیں اور غزلیں سنائی تھیں۔لیکن ایک چیز جو اس کی شاعری پر ہمیشہ حاوی رہی وہ موت کاذکر تھااور یہ ذکر اس نے مختلف رنگوں اور اسالیب میں کیا تھا۔مثلاً
جسم کی ناؤ دیمک خوردہ
روح اک ہے بے قابو پتوار
سوچوں کی موجیں پایاب
چاروں اُور فنا منجدھار
ہار چکی ہے ہر تدبیر
جیت گئی آخر تقدیر
مٹی سونا ہو سکتی ہے
لیکن سونا رہ نہیں سکتی
سونا ،سونا ہوتا ہے 
مٹی ،مٹی ہوتی ہے
    اور جب اس نے مجھے‘ تختی’ سنائی تھی تو مجھے محسوس ہو ا کہ کچھ ہونے والا ہے انہیں دنوں اس نے اپنا نیا مکان بنوایاتھااس پہ نیم پلیٹ لگوانے کا مرحلہ آیاتو اس نے کہا
اپنے ہاتھوں سے جو میں نے 
گھر کے دروازے پہ اپنے
لٹکائی ہے شوق سے اپنے نام کی تختی
راہنما ہے میرے ملنے والوں کی
لیکن موت جو ناگن بن کر
ٍٍٍٍ ڈس لیتی ہے انساں کو
مجھ کو بھی تو ڈس لے گی
کل جب میں اس دنیا سے اٹھ جاؤں گا
میرا ملنے والا بھی کوئی نہ ہو گا
گھر کے دروازے پہ میرے نام کی تختی
بوجھ بنے گی گھر میں رہنے والوں پر
جیسے اس تختی سے میں نے 
باپ کانام مٹاکر اس پر اپنا نام لکھایا ہے
اک دن یونہی میرا وارث
میرا نام مٹا کر اس پر اپنانام لکھائے گا
لکڑی کی یہ ظالم تختی
جب تک قائم ہے نہ جانے کتنی نسلیں کھائے گی
    اور پھر جب یہ تختی لٹکائی گئی تو اس کا وارث اس کا نام مٹا کر اپنا نام نہ لکھا سکا کیونکہ اپناوارث پیدا کرنے سے قبل ہی یہ شاعر خود ہی اس دنیا سے سدھار چکا تھا۔سوچتا ہوں کہ منفرد لہجے اور اسلوب والا یہ بالغ نظر شاعر اگر پینتیس سال کی عمر میں انتقال نہ کرتاتوآج اس کاایک نام ہوتا اور اس کا شمار یقینافن شاعری کے استاد شعرا میں ہوتا۔چند دن پہلے پی ٹی وی پرایک مشاعر ہ دیکھتے اور سنتے ہوئے کتنی ہی یادیں تاز ہ ہو گئیں۔اس میں کتنے ہی چہرے ایسے نظر آئے جو میرے اس شاعر کے پاس زانوئے تلمذ تہ کیاکرتے تھے اور یہ ان کی شاعری کی اصلاح کیا کرتا تھامگر آج یہ شاعر اس کا نام لینابھی گوارا نہیں کرتے ۔
    ازہر درانی لب و رخسار اور زلف و گیسو کا شاعر نہ تھا بلکہ دینی حمیت ، قومی غیر ت اور اسلو ب تازہ کا علمبردار تھا۔ہر اہم موقع پر اس کی حمیت اسے مجبور کرتی کہ وہ باطل کا منہ توڑ جواب دے ۔مثلاً فیض نے کہا
اک فرصت گنا ہ ملی وہ بھی چار دن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے 
اس پہ ازہر نے کہا تھا
اپنے منکروں کی بھی کرتا ہے پرورش
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے 
ضیاء الحق کے مارشل لا پر بھر پورطنز تو عرصہ دراز تک سب حلقوں سے داد وصول کرتی رہی بلکہ کسی نے کہا کہ اگر ازہر اورکوئی شعر نہ بھی کہتا تو اس کا ایک یہی شعر اسے زندہ رکھنے کے لیے کافی تھا۔شعر تھا
شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے 
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی
نئی تہذیب کی قباحتوں پر بھر پور طنز کچھ اس طرح سے کی
لٹ گئی عصمت اقدار و شرافت ازہر
کاش جاتے نہ میرے گاؤں کو پکے رستے
    ازہر سے میرے بہت سے رشتے تھے ، وہ میرا شاعر تھا، دوست تھا، مشیر تھا، کولیگ تھااور برادر نسبتی تھا،اس کی موت کے ساتھ ہی بہت سے رشتے ختم ہو کر رہ گئے لیکن نہ جانے اس کی شاعری کے ساتھ تعلق جوں کاجوں کیوں باقی رہااور پھر شاعری کے حوالے سے شاعر سے بھی ۔اسی تعلق کو نبھانے میں اکثر اس کی قبر پر جاتا رہامگر جس طرح وقت کے ساتھ ساتھ کتبوں پہ لکھے حرف مٹ جایا کرتے ہیں اس طرح اس کی قبر بھی قبروں کے بیچ مٹ کر رہ گئی ۔اس کی قبر پہ کتبہ لگانے کی توفیق نہ مجھے ہوئی تھی اور نہ ہی کسی اور کو۔ سوچا تھاجب وہ قبر کی طرح دل سے بھی مٹ جائے گا تو یہ بوجھ بھی خود ہی محو ہو جائے گا کہ میں اس کی قبر پہ نشانی کیوں نہ لگا سکا لیکن اٹھارہ برس ہو گئے اور میں اس کو دل سے نہ مٹاسکا او ر لگتا ہے کہ آئندہ بھی شایدایسا نہ ہو سکے ۔ اس سے اندازہ ہوا کہ بعض لوگ ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ دل و ہ چیز ہے کہ جس پر بعض اوقات اپنا زور بھی نہیں چلتا۔