عورت کہانی

مصنف : محمد اسداللہ

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : دسمبر 2010

             میں شرالہ جانے والی بس میں کھڑکی سے سر ٹکائے بیٹھا باہر تیزی سے بھاگتے مناظر کو خالی خالی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ماضی کے سارے واقعات کسی فلم کی اسکرین کی طرح میرے ذہن کے پر دے پر ابھرنے لگے۔ صائمہ باجی ہمارے پڑوس میں رہا کرتی تھیں۔ بچپن ہی سے میں انھیں خا لہ کہاکرتا تھا۔ دبلی، پتلی، شیریں لہجہ اپنائیت سے لبریز،ایسا محسوس ہو تا جیسے سر تا پا شفقت میں ڈوبی ہو ئی ہو ں۔ ایک چھوٹے سے مکان میں وہ رہا کر تی تھیں ،پھر جب خلیل بیگ سے ان کی شادی ہو گئی تو ہمارے پڑوس میں آ کر رہنے لگیں۔ ان کی والدہ جنھیں ہم نانی کہا کرتے تھے ،وہ بھی ان کے ساتھ رہتی تھیں۔اسی ضلع کے ایک چھوٹے سے قصبے مدنا پور میں ان کی پر ورش ہو ئی تھی، وہیں تعلیم حاصل کی اور پھر ہمارے گاؤں کے ایک پرائمری اسکول میں ان کا تقرر ہو گیا۔ایک محنتی ، ذہین اورشریف استانی کی حیثیت سے انھوں نے بچّوں اور بستی والوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنالی تھی۔ مجھے کسی نے ان کے متعلق بتا یا تھا کہ مدنا پور میں ا ن کے والد محنت مزدوری کر کے گزر بسر کیا کرتے تھے۔ ایک دن کسی کھیت میں بارش کے دوران پیڑ کے نیچے کھڑے تھے کہ اچانک اس پیڑ پر بجلی گر پڑی اور وہیں ختم ہو گئے۔ پھر حالات کی نہ جانے کتنی بجلیاں ان کے پس ماند گان پر گریں۔نانی جان نے بڑے صبر کے ساتھ خالہ جان اور ان کے بھائی عرفان کو پال پوس کر بڑا کیا۔ ایک غریب بیوہ کے راستے میں جو مصیبت کے پہاڑ آ سکتے ہیں وہ سب انھوں نے ہمّت کے ساتھ طے کئے۔

             وقت کے ساتھ عرفان کمانے کے لائق ہو ا تو انھوں نے اسے ایسے دیکھنا شروع کیا جیسے وہ آنگن میں لگے بور سے لدے مہکتے ہو ئے آ م کے پیڑکو دیکھا کر تی تھیں جس میں پہلی مر تبہ پھل آ نے والے تھے۔عرفان کی شادی ہو ئی اور دلہن گھر آ ئی۔ ان ہی دنوں ایک رات کچھ ایسی زبر دست ہو ا چلی کہ آم کا سارا بور زمین پر بچھ گیا۔ شادی کے چند دنوں بعد ہی بہو نے اس گھر میں ماں بیٹی کا رہنا دشوار کر دیا۔عرفان کی بیوی نے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ وہ دونوں عرفان کی محدود کمائی پر بوجھ ہیں۔چند ماہ گزرے ہو ں گے کہ بیوہ کی دعاؤں اور آنسوؤں نے ایک نیا راستہ کھول دیا۔ہمارے گاؤں میں صائمہ خالہ کا تقرر ایک پرائمری اسکول میں ہو گیا۔ وہاں ایک کرائے کا مکان لے کر وہ دونوں ماں بیٹی رہنے لگے۔ ملازمت کر تے ہو ئے دو تین برس گزرے ہو ں گے کہ ہمارے پڑوس میں رہنے والے مرزا خلیل بیگ سے صائمہ خالہ کا نکاح ہو گیا۔ ہم مرزا صاحب کو کسی حد تک جانتے تھے اس لئے اس خبر سے ہمیں کو ئی خو شی نہیں ہوئی۔ پھر وہی ہو ا جس کا ڈر تھا، شادی کے بعد مرزا صاحب نے پر پر زے نکالنے شروع کر دئے۔انھوں نے تو صائمہ خالہ کو سونے کا انڈا دینے والی مرغی سمجھ کر نکاح کیا تھا۔ ہمارے سماج میں اب سروس والی بیوی سے شادی کرنا بھی تلاشِ روز گار کی ایک مقبول قسم ہے۔بیوی کی کمائی ہاتھ لگی تو مرزا صاحب کا ہاتھ کھل گیا۔چند ہی مہینوں میں انھوں نے شراب اور بازاری عورتوں کے چکّر میں پھنس کر اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھانا شروع کر دیا۔صائمہ خالہ خاموشی سے سارے مظالم سہتی رہیں۔ ان کی بے بسی اور خاموشی نے بیگ صاحب کے حوصلے بڑھا دئے۔نانی نے ان کی حرکتوں کے خلاف آ واز اٹھا ئی مگر ان کی آواز میں وہ طاقت کہاں تھی کہ بیگ صاحب کا ہاتھ روک لیتی۔وہ بذاتِ خود داماد کے گھر میں پناہ گزیں تھیں۔ بیٹے کے گھر کی دہلیز پھلانگ کر آ ئی تھیں، اس طرف کا راستہ بند تھا۔ لے دے کر بیٹی کی تنخواہ کا ایک سہارا تھا اور وہی اس گھر میں ان کے رہنے کا جواز بھی تھا۔ بیگ صاحب بھی اس بات کو خوب جانتے تھے کہ نانی کو الگ کر دینے سے وہ لکڑی ٹوٹ جا ئیگی جس پر انھوں نے اپنے عیش و عشرت کا آ شیانہ بنایا تھا۔ صائمہ خالہ زندگی بھر ایک لدی ہو ئی شاخ کی طرح جھکی رہیں۔

            میرے آب و دانے نے مجھے اس زمین سے کسی پو دے کی طرح اکھاڑ کر شہر کا حصّہ بنا دیا تھا۔ گاہے بگاہے ان لو گوں کی خبریں مجھ تک پہنچتی رہتی تھیں۔ببلو کبھی کبھار شہر آ تا تو میرے گھر بھی چلا آ تا۔اسی کے ذریعے ایک دن مجھے پتا چلا کہ بیگ صاحب نے دوسری شادی کر لی اور ایک نیا گھر بنا کر نئی بیوی کو وہاں رکھ چھوڑا ہے۔پھرایک سال بعد خبر ملی کہ صائمہ خالہ کو بلڈ کینسر ہوگیا۔ بوڑھی نانی کے مقدّر میں نہ جانے اور کیا کیا لکھا تھا۔ ذہنی طور پر سبھی اس خبر کے لئے تیّار تھے کہ صائمہ خالہ اس دنیا میں نہیں رہیں۔

            اپنی مٹّی سے دور ہونے کی ایک جان لیوا کسک جو شہر کے ہنگاموں میں ایسے چھپ جاتی ہے جیسے بارش کی پہلی بوچھار سے گاؤں کی کچّی سڑکوں پر اڑتی دھول دب جاتی ہے، اب پھر ابھر آ ئی تھی۔بس دھیرے دھیرے اس بستی کے جانے پہچانے راستوں پر رینگ رہی تھی۔مجھے ایسا محسوس ہو گویا میں اپنے ماضی کے شہر میں داخل ہو رہا ہوں۔گاؤں کے راستے اب بھی ویسے ہی تھے ،دھول اڑاتے ہو ئے۔ لو گوں کو چہروں پر وقت اپنے سفر کے نشان چھوڑ گیا تھا۔ بس دھیرے دھیرے آ گے بڑھ رہی تھی۔اسٹیشن قریب آ یا تو میں نے اپنا بیگ اور خود کو سنبھال اور بس رکتے ہی نیچے اتر آیا۔ پہلے یہی قصبہ صائمہ خالہ اور نانی جان کے وجود سے کیسا بھرا بھرا لگتا تھا۔ مجھے ایسا محسوس ہو ا جیسے وہ دونوں اپنے ساتھ اس قصبے کی ساری رونقیں سمیٹ کر لے گئے۔صائمہ خالہ کے گھر پہنچا تو نانی جان کو غسل دیا جا چکا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں لوگ جنازہ لے کر قبرستان کی طرف چلنے لگے۔ صائمہ خالہ کے پہلو ہی میں انھیں سپردِ خاک کر دیا گیا۔ اسی دوران مجھے پتہ چلا کہ جب صائمہ خالہ کا جنازہ اٹھایا گیا تو نانی جان لڑکھراتی ہوئی دروازہ تک آ ئیں اور اشکبار نظروں سے بیٹی کے جنازہ کو جاتے ہو ئے دیکھتی رہیں۔ جب لوگ نظروں سے اوجھل ہو گئے تو ایک چیخ مار کر یہ کہا، ‘‘بیٹی صائمہ ! اب میں اس گھر میں کس منہ سے رہوں گی ؟’’ اور پھر وہ ایک کمزور مکان کی طرح وہیں ڈھ گئیں۔ انھیں اٹھا کر وہیں بستر پر لٹا دیا گیا اس کے بعد وہ ہوش میں نہیں آئیں۔

٭٭٭