مذہبی استحصال کی عام مثالیں

مصنف : رشاد بخاری

سلسلہ : سماجیات

شمارہ : جون 2017

 

دنیا میں امتیاز اور استحصال کی جتنی شکلیں موجود ہیں ان میں مذہب اور عقیدے کے نام پر کیا جانے والا استحصال ایسا ہے جس کا ادراک استحصال کرنے والے کو خود نہیں ہو پاتا۔ میری ایسے مسیحی پادریوں سے ملاقات ہوتی رہتی ہے جو پاکستان میں بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اکثر نے مجھے کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ سنایا جو مذہب کے نام پر اقلیتی گروہوں کے استحصال کی کسی ایسی صورت کو پیش کر رہا تھا جو یہاں کی مسلم اکثریت کی سمجھ میں مشکل سے آتی ہے۔  مثلاً ایک پادری صاحب کی بیٹی ایک میڈیکل کالج میں زیر تعلیم ہے۔ اس کی ذہانت اور کامیابی پادری صاحب کے لیے، بجا طور پر، بڑے فخر کا باعث ہے۔ تاہم انہیں ایک پریشانی لاحق ہے کہ ان کی بچی اپنی جماعت میں واحد مسیحی لڑکی ہے اور اکثر دانستہ یا نا دانستہ، اپنے ساتھی طالب علموں کے طنزیہ اور استہزائیہ جملوں کا نشانہ بنتی رہتی ہے اور کڑھتی رہتی ہے۔ ایک حالیہ مثال میں اس کے اچھے گریڈز کی وجہ سے جب اس کی فیس کا کچھ حصہ معاف کر دیا گیا تو اس کے ہم جماعت ساتھیوں نے اسے اس کی قابلیت کا نتیجہ نہیں بلکہ عیسائی ہونے کی وجہ سے اس کے ساتھ خصوصی رعایت قرار دیا۔

 ایک اور مثال میں ایک مسیحی نوجوان کے دوستوں میں کئی مسلمان نوجوان بھی شامل تھے۔ ایک بار اس کے ایک مسلمان دوست نے اپنے مسیحی دوست کو جہنم کی آگ سے بچانے کے لیے اپنے مخلصانہ مذہبی جذبے کے تحت اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ مسیحی نوجوان نے اپنی گمراہی کا اقرار کرنے کے بجائے الٹا اسلام کے بارے میں کچھ ایسے کلمات کہے جن سے لگتا تھا کہ جیسے وہ (نعوذ باللہ) اسلام کو سچا اور آخری مذہب نہیں مانتا۔ بات پھیلنے اور بگڑنے لگی تو اس کا باپ جو ایک درزی تھا علاقے کے مسلمان عمائدین کی خدمت میں حاضر ہو کر معافی کا خواستگار ہوا۔ اس کی معافی کو اعتراف جرم سمجھا گیا، تاہم چونکہ وہ ایک خدمت گزار آدمی تھا اس لیے اسے مشورہ دیا گیا کہ وہ علاقہ چھوڑ کر کچھ عرصہ کے لیے کہیں اور چلا جائے کیونکہ اگرچہ وہ تو اس کی بات سمجھتے ہیں لیکن علاقے کے باقی لوگوں کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ کرتا کیا نہ کرتا اپنے نادان بیٹے کو کوستا، وہ اپنا بوریا بستر باندھ، بچوں کی انگلی پکڑ رات کی خاموشی میں، لاہور جیسے بڑے شہر اپنے ایک دور پار کے رشتہ دار کے ہاں جا پہنچا اور پناہ گزین ہوا۔

ایک اور مثال اس غریب مسیحی مزدور کی ہے جسے راستے میں پڑی ہوئی پینا فلیکس کی ایک شیٹ ملی، شائد کسی کی انتخابی مہم کا بینر تھا جو کہیں سے ٹوٹ کر گلی کے کونے میں آگرا تھا۔ ان پڑھ مزدور اسے اٹھا کر گھر لے گیا اور اسے دھو کر دستر خوان کے طور پر فرش پر بجھا کر استعمال کرنے لگا۔ ایک بار وہ اور اس کے بیوی بچے اس پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ ان کی کوئی مسلمان پڑوسن ان کے گھر آئی اور یہ دیکھ کر کہ وہ مسیحی خاندان ایک ایسی شیٹ پر بیٹھے ہیں جس کے ایک کونے میں عربی میں ایک دعا رب زدنی علما (اے رب میرے علم میں اضافہ فرما) لکھی ہے سخت طیش میں آگئی اور پورے محلے میں مذہب کی بے حرمتی کا شور مچا دیا۔ اس غریب خاندان کو بھی اپنی جان اور عزت بچا کر اور اپنا گھر اور علاقہ چھوڑ کر وہاں سے جانا پڑا۔  اسی طرح ایک بارمحرم کے دوران لاہور کی ایک بستی میں جہاں مسلمان اور مسیحی اکٹھے رہتے ہیں، بجلی نہ ہونے کی وجہ سے پانی کی شدید قلت ہو گئی۔ محرم کے دوران مسلمانوں کی پیاس کا لحاظ کرتے ہوئے علاقے کے چرچ کے پادری صاحب نے ربڑ کے ایک پائپ کا بندوبست کیا اور جنریٹر پر چرچ کی موٹر چلا کر پانی مہیا کر دیا۔ وہاں قبرستان کے قریب ایک کھلی جگہ پر جہاں تک پائپ پہنچ سکا تھا لوگوں نے بالٹیوں اور گھڑوں کے ذریعے پانی بھرا۔ اگلے روز پادری صاحب کے گھر علاقے کے مسلمانوں کا ایک وفد پہنچا اور پر زور احتجاج کیا کہ ان کی وجہ سے قبرستان کی کئی قبریں بیٹھ گئی ہیں اور وہ فوراً ان قبروں کو ٹھیک کرا کر دیں ورنہ مشکل ہو سکتی ہے۔ پادری صاحب نے اس کی ذمہ داری لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ قبرستان میں اگر زیادہ پانی گیا ہے تو وہ پانی بھرتے ہوئے لوگوں کی بدنظمی کی وجہ سے گیا ہے۔ انہوں نے تو محض لوگوں کی ایک ضرورت پوری کرنے کی کوشش کی تھی۔ غرض کشیدگی پھیل گئی اور دوسرے روز چرچ سے وابستہ ایک مسیحی شخص کو کچھ لوگوں نے گلی میں پکڑ کر زدوکوب کیا۔ بات تھانے کچہری تک پہنچ گئی اور اب کوششیں کی جا رہی ہیں کہ دونوں کمیونٹیز کے لوگوں میں کسی طرح صلح کرا دی جائے جو سالوں سے وہاں اکٹھے رہ رہے ہیں۔

یہ محض چند مثالیں ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ کتنی آسانی سے لوگوں کے مذہبی جذبات کو انگیخت کیا جا سکتا ہے۔  اگر مذہبی رہنما اعلیٰ اخلاقی اقدار کی بنیاد پر لوگوں کی رہنمائی نہ کریں اور عقیدے اور عقیدت کے تصور کو لوگوں کو سماجی طور پر ایک دوسرے سے جوڑنے کے بجائے الگ کرنے کے لئے استعمال کریں تو معاشرے کے تار و پود بکھرتے دیر نہیں لگتی۔ میں حیران ہوں کہ میرے وہ مسلمان بھائی جو اکثریتی قوت کی بنیاد پر کسی غیر مسلم پڑوسی کے ساتھ ظلم یا زیادتی میں شریک ہوتے ہیں وہ قیامت کے روز شافع محشرﷺ کا سامنا کیسے کریں گے جو ایک حدیث کے مطابق کسی بھی ظالم مسلمان کے خلاف غیر مسلم مظلوم کے مدعی بنیں گے۔  

٭٭٭