کپڑوں کے ناموں کی داستان

مصنف : ڈاکٹر سید حامد حسین

سلسلہ : لسانیات

شمارہ : دسمبر 2010

پوشاک تیار کرنے اور اوڑھنے، بچھانے وغیرہ کے لیے جن طرح طرح کی قسموں کے کپڑے استعمال کیے جاتے ہیں، ان کی شناخت کے لیے مختلف نام وضع کیے گئے ہیں۔ ان ناموں کی ابتدا کس طرح ہوئی، ان کے اصلی معنی کیا تھے اور بعد میں ان میں کیا تبدیلیاں آئیں، یہ بجائے خود مطالعے کا ایک دلچسپ موضوع ہے۔ اگلے صفحات میں ایسے ہی بعض ناموں کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔

ان ناموں کی اگر درجہ بندی کی جائے تو تین قسم کے ناموں پر خاص توجہ دی جا سکتی ہے۔

(۱) ایسے نام جو ان کپڑوں کے بعض مقامات سے نسبت کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان میں سے بکرم، پاپلین، پرمٹا، چھانٹی (شان ٹنگ)، ڈنگری، ڈینم، زین، ساٹن، سوسی، کے لیکو، کیمرک، گاج، گبرون، مارکین، مسلن اور ورسٹڈ کا تفصیلی ذکر آگے کیا جا رہا ہے۔

(۲) ایسے نام جو کپڑوں کی بناوٹ یا ان کے ڈیزائن وغیرہ کو ظاہر کرتے ہیں، جیسے الوان، بادلا، بافتہ، بانات، بروکیڈ، بندھنا، پھلکاری، تافتہ (ٹافے ٹا)، ٹوئل، چکن، چوتارا، چوخانہ (چیک)، چوتہی، چھینٹ، خاکی، دو سوتی، زربفت، گاڑھا، گزی، گمٹی، لٹھا، مخمل، مشجر، ململ، ملیدہ، نرما، یک تارا وغیرہ۔

(۳) ہندوستان میں تیار ہونے والے کپڑوں کی ایک خصوصیت ان کے خوبصورت شاعرانہ نام تھے، جو ان کپڑوں کی نفاست کو بھی بڑی خوبی کے ساتھ ظاہر کرتے تھے، جیسے آبِ رواں، البیلی، بادلا، جامہ وار، نین سکھ، پرکالا، سرشاد، شیرو شکر، شبنم، تن زیب، طرح اندام، دھوپ چھاؤں، پھوار، تاش، رعنا، گلشن، گلبدن، موج لہر وغیرہ۔

ان ناموں میں سے بعض کی تفصیلات حروف تہجی کی ترتیب سے درج ذیل ہیں:

(۱) آب رواں: یہ ململ کی ایک بہت باریک اور خوبصورت قسم تھی۔ اس کا نام اس کی سبک نفاست کو ظاہر کرتا تھا۔ اس کپڑے کے بارے میں عام طور پر دو روایتیں مشہور تھیں۔ ایک تو یہ کہ جب اورنگ زیب نے اپنی بیٹی زیب النساء سے اس بات پر ناراضگی کی کہ وہ شہنشاہ کے سامنے ایسے لباس میں حاضر ہوئی جس میں سے اس کے جسم کا رنگ جھلکتا ہے تو شہزادی نے جواب دیا کہ اس نے آبِ رواں کے سات جامے زیب تن کیے ہوئے ہیں۔ دوسری کہانی نواب علی وردی خاں کے زمانے کی ہے۔ جب ایک جولاہے کی اس وجہ سے فہمائش کی گئی اور اسے شہر سے نکال دیا گیا کہ اس نے آب رواں کا ایک ٹکڑا گھاس پر پھیلا دیا تھا جسے گائے کھا گئی کیونکہ وہ کپڑے اور گھاس میں جو اس کے نیچے دکھائی دے رہی تھی تمیز نہ کر سکی۔ ان روایتوں میں چاہے کتنا ہی شاعرانہ مبالغہ ہو، آب رواں اپنے وقت کی نہایت نفیس ململ تھی اور یورپ کی تجارتی کمپنیاں اسے ہندوستان سے برآمد کرتی تھیں اور یہ انگریزوں میں ‘‘ابرون’’ کے نام سے معروف تھی۔

(۲) اطلس: ایک قسم کا ریشمی کپڑا اطلس کہلاتا تھا۔ جس عربی مادے سے یہ لفظ نکلا ہے، اس کے ایک معنی خاکستری مائل بہ سیاہی ہونا ہیں۔ ابتداء ً یہ نام اس کپڑے کے رنگ کو ظاہر کرتا تھا۔ بعض زبانداں اس مادے کے گنجے یا بِلا بال کے ہونے کے معنی کا بھی ذکر ظاہر کرتے ہیں۔ اس سے کپڑے کی اس خوبی کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ اس میں رواں نہیں ہوتا۔ سونے چاندی کے تاروں کے ساتھ بنایا جانے والا یہ کپڑا اٹھارہویں صدی میں ہندوستان سے یورپ کو برآمد کیا جاتا تھا اور یہ اطلس کے علاوہ انڈین ساٹن کے نام سے بھی معروف تھا۔

(۳) الوان: پشمینے یا اون کی چادر یا کمبل کو الوان کہتے ہیں۔ دراصل یہ عربی لفظ ‘‘لون’’ کی جمع ہے، جس کا مطلب ‘‘رنگ’’ ہوتا ہے۔ اس سے رنگے برنگے پشمینے کی جانب اشارہ ہے۔ بعد میں رنگ برنگی اونی چادر کے لیے استعمال ہونے لگا۔

(۴) بابر لیٹ (بابل لیٹ): یہ نام ایک قسم کی مشین سے بنی نفیس جال کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ دراصل یہ انگریزی الفاظ BOBBIN NET اور BOBBINET کی بدلی ہوئی شکل ہے۔ اس کے معنی ایسی جالی کے ہیں جو بابن (Bobbin) سے بنائی جائے۔ بابن اُس ریل کو کہتے ہیں جس میں تاگا وغیرہ لپیٹا جاتا ہے اور دونوں جانب اس میں نکیلے سرے نکلے ہوتے ہیں۔ جنھیں سوراخ میں ڈال کر بابن سمیت تاگا باہر نکالا جاتا ہے۔ مچھلی پکڑنے کے لیے جال ہاتھ سے بنانے کے واسطے مچھیرے بابن استعمال کرتے ہیں۔ ابتداء ً یہ جالی لیس کی شکل میں چھوٹے بابن (Bobbin) سے ہی بنائی جاتی تھی۔ اب مشین کے استعمال سے جالی زیادہ نفیس اور مضبوط بننے لگی ہے۔ لیکن اس کا وہی پرانا نام ہوتا ہے۔

(۵) بادلا: ایک قسم کا ریشمی کپڑا جس پر چاندی کا کام ہوتا ہے۔ بادل سے یہاں دراصل آسمان مراد ہے، جس پر رات کو ستارے جگمگاتے ہیں۔ بادلے کی جھلملاہٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے آسمان کے ستاروں سے مشابہ قرار دیا گیا ہے۔ بادلا ان سونے چاندی کے تاروں کو بھی کہا جاتا ہے جنھیں کپڑے پر ٹانک کر نقش و نگار بنائے جاتے ہیں۔

(۶) بافتہ: اس کپڑے کا نام فارسی مصدر ‘‘بافتن’’ یعنی بُننا، بُنائی کرنا ہے۔ اور اس کا سیدھا سادہ مطلب بُنا ہوا ہے۔ بافتہ کافی عرصے تک یورپ کو برآمد کیا جاتا رہا۔ خاص طور پر بھڑوج کا سوتی بافتہ بہت مشہور تھا۔ بنگال میں بھی سوتی بافتہ تیار ہوتا تھا لیکن بنارس وغیرہ میں ریشمی بافتہ بھی بنایا جاتا تھا جس پر کلابتون یا کپڑتے کی بوٹیاں ہوتی تھیں اور اسے انگرکھوں اور عورتوں کے پاجاموں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔

(۷) بروکیڈ: یہ لفظ پہلے Brocado تھا اور یہ اسپینی لفظ Broca سے بنا تھا، جس کا مطلب ‘‘گھنڈی’’ ہوتا ہے۔ گھنڈی سے مراد کپڑے میں ابھرنے والا وہ ڈیزائن ہے جو بناوٹ میں مزید دھاگوں کو ضروری شکل پیدا کرنے کے لیے شامل کر کے بنایا جاتا ہے۔ اس طرح بوٹی کی جگہ کپڑے کی سطح سادہ کپڑے کی سطح سے نسبتاً زیادہ موٹی ہو جاتی ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس قسم کا کپڑا سب سے پہلے چین میں بنایا گیا تھا اور جیسا کہ ابتدائی تذکروں سے معلوم ہوتا ہے شروع میں رنگین کپڑے پر کشیدہ کاری کر کے اس قسم کا کپڑا بنایا جاتا تھا۔ کشیدہ کاری کے لیے بھی Broch کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس لیے یہ ابتدائی کشیدہ کاری اور اس سے مشابہت بھی Brocade کی اصل مانی جا سکتی ہے۔ بروکیڈ کی امتیازی خصوصیت بہرحال کپڑے کی بُناوٹ میں ہی شامل مختلف قسم کے ڈیزائن ہیں، چاہے ان ڈیزائنوں کو ابھارنے کے لیے سونے چاندی کے تاروں کا استعمال کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو۔

(۹) بکرم: یہ موٹا اور دبیز کپڑا عام طور پر پوشاک کے کسی حصے جیسے کالر یا کف وغیرہ کو اندر سے سخت رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ابتداء ً یہ کپڑا وسط ایشیا کے شہر بخارا جاتا تھا۔ یہ ایک موٹا کپڑا ہوتا تھا جس کو نفیس قالینوں کے نیچے بچھایا جاتا تھا تاکہ وہ فرش کے گرد و غبار سے خراب نہ ہوں۔ بخارا کی اسی نسبت سے اس کا جو نام پڑا اس نے اب بکرم کی شکل اختیار کر لی ہے۔

(۱۰) پاپلین: اس کپڑے کا نام فرانسیسی Popeline پر مبنی ہے۔ پاپلین کے لفظی معنی ہیں ‘‘پوپ کا’’۔ دراصل اب یہاں اوگ ناں (Avignon) نامی فرانس کا وہ شہر مراد ہے جو ایک زمانے میں پوپ کی علاقائی حکومت کا صدر مقام تھا۔ اسی شہر میں سترہویں صدی میں یہ کپڑا بننا شروع ہوا جو کہ بعد میں یورپ میں بڑا مقبول ہوا۔

(۱۱) پرمٹا: ایک قسم کا سوتی اونی کپڑا جس کا نام آسٹریلیا کے علاقے نیو ساؤتھ ویلز میں واقع شہر پر مٹا (Paramatta) پر مبنی ہے۔

(۱۲) تافتہ: فارسی مصدر تافتن سے ہے جس کا مطلب بٹنا اور بل دینا بھی اور چمکنا اور وشن ہونا بھی۔ ہندوستان میں یہ ریشمی کپڑا کافی قدیم زمانے سے رائج ہے اور اس کا ذکر ‘‘آئین اکبری’’ میں بھی ملتا ہے۔ یہ کپڑا یورپ میں درآمد کیا جاتا تھا اور اسے ٹافے ٹا (Tafetta) کا نام دیا گیا۔ سترہویں صدی میں اسے انگلستان میں درباری لباس میں استعمال کیا جاتا تھا۔ شروع میں یہ ایک سادہ کپڑا تھا، لیکن بعد میں اس میں بروکیڈ کی طرح ڈیزائن بھی ڈالے جانے لگے اور اس میں دھوپ چھاؤں جیسی چمک بھی دی جانے لگی۔

(۱۳) ٹول: پھول کے وزن پر یہ نام ہندوستان میں ایک قسم کے سرخ کپڑے کو دیا جاتا ہے۔ دراصل یہ انگریزی لفظ ٹوئل (Twill) پر مبنی ہے جو دراصل کپڑے کی ایک قسم کی بُناوٹ کا نام ہے جس میں ایک واضح ترچھی بُناوت کی لائن ابھرتی ہے۔ اس قسم کے کپڑے اونی اور سوتی دونوں طرح کے ہوتے ہیں۔ اونی ٹوئلوں میں سرج اور گیبر ڈین اور سوتی ٹوئلوں میں ڈینم مشہور ہیں۔

(۱۴) ٹوئیڈ: ایک کھردرا سا اونی کپڑا جو زیادہ تر جنوبی اسکاٹ لینڈ میں بنایا جاتا ہے۔ اس کا نام اسکاٹ لینڈ کے ایک باشندے کے انگریزی لفظ کی املا میں غلطی سے پڑا۔ اس قسم کے کپڑے کی بُناوٹ ٹوئل جیسی ہوتی ہے جس میں ایک ترچھی بُناوٹ ابھرتی ہے۔ ۱۸۲۳ ء میں اسکاٹ لینڈ کے ایک کپڑا بننے والے نے اس قسم کا کپڑا لندن کے ایک کپڑوں کے سوداگر جیمس لاک (James Locke) کو بھیجا اور Twilled کی املا اسکاٹش انداز سے Tweeled لکھی جسے لاک نے Tweed پڑھا۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے ذہن میں یہ خیال رہا ہو کہ اس کپڑے کا نام جنوب مشرقی اسکاٹ لینڈ میں بہنے والے دریا Tweed پر رکھا گیا ہے۔ اس غلط فہمی کے ساتھ یہ نام چل پڑا اور اس کپڑے کا تجارتی نام بن گیا۔

(۱۵) ٹیرے لین: اس مصنوعی ریشے کو برطانیہ کے کیلی پرنٹرس ایسوسی ایشن کے جے، آر، ون فیلڈ (J.R. Whinfield) اور جے، ٹی ڈکنسن (J.T Dickin) نے دریافت کیا تھا۔ ٹیریف تھیلک ایسڈ (Terephthalic acid) اور ایتھے لین گلائی کول (Ethylene Glycol ) کے رد عمل سے ظہور میں آتا ہے۔ چنانچہ Terephthalic میں سے tere اور ethylene میں سے lene کے اجزا سے لے کر اس کا terelyne نام تجویز کیا گیا جو کہ سب سے پہلے ۱۹۵۱ ع میں استعمال کیا گیا۔ امریکہ میں شروع میں اسے ڈیکران (Dacron) کا نام دیا گیا۔

(۱۶) جارجٹ: اس کپڑے کو ۱۹۲۰ ء کے قریب میڈم جارجٹ دی لا پلانٹ (Georgette dela plante) کے نام پر کریب جارجٹ کا نام دیا گیا۔ میڈم جارجٹ پیرس میں عورتوں کا لباس ڈیزائن کرنے والی ایک مشہور خاتون تھیں۔ بعد اس کپڑے کا نام بجائے کریب جارجٹ کے مختصراً جارجٹ رہ گیا۔

(۱۷) جامدانی: یہ دراصل دانی سے بنا ہے حالانکہ جامہ دانی چمڑے کے اس صندوق کو کہا جاتا ہے جس میں پہننے کے کپڑے رکھے جاتے ہیں۔ جامدانی ڈھاکے کی نہایت قیمتی ململ شمار کی جاتی تھی۔ اس پھول دار کپڑے میں پھول اور بوٹے بناوٹ میں ہی ڈالے جاتے تھے۔ اس کی نفاست اور قیمت کو دیکھتے ہوئے اس کپڑے کو نہایت حفاظت کے ساتھ جامہ دانی میں رکھا جاتا تھا اور اسی مناسبت سے اس کا نام جامدانی ہوا۔

(۱۸) جامہ وار: یعنی جو پہننے میں مناسب ہو۔ یہ نام مختلف زمانوں اور مختلف علاقوں میں مختلف قسم کے کپڑوں کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ ‘‘آئین اکبری’’ میں جامہ وار گجرات کے سنہری تار والے کپڑے کو بھی کہا گیا ہے۔ اور ایک قسم کے اونی کپڑے کے لیے یہ نام استعمال کیا گیا ہے۔ فاربس واٹسن (Forbes Watson) نے کشمیر کی دھاری دار شال کو جامہ دار کہا ہے اور بتایا ہے کہ پنجاب میں پشم اور اون کی دھاری دار چادریں جامہ وار کہلاتی تھیں۔ ‘‘نور اللغات’’ میں ایک قسم کی پھول دار چھینٹ یا اونی پھول دار چادر کو جامہ وار بتایا گیا ہے۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ نام کپڑے کی اس خصوصیت کو دیکھتے ہوئے دیا گیا ہے کہ وہ زیب دیتا ہے۔

(۱۹) چکن: یہ فارسی لفظ کپڑے پر سوئی سے خوبصورت کام اور زردوزی کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ لیکن اسے ہندوستان میں پہلے ریشمی کپڑے پر کڑھائی کے لیے اختیار کیا گیا اور بعد میں یہ خوبصورت سوئی کے کام والی ایک خاص قسم کی ململ کے لیے استعمال میں آیا جس کا خاص مرکز لکھنؤ رہا ہے۔

(۲۰) چوتارا: ظاہر ہے کہ چار تار کا بنا ہوا چوتارا کہلاتا ہے۔ اس کپڑے کا ذکر ‘‘آئین اکبری’’ میں بھی ملتا ہے۔ آگرے کا سفید چوتارا یورپ کو برآمد کیا جاتا تھا۔

(۲۱) چوتہی: چا تہ والا۔ ایک قسم کا موٹا کپڑا جو بستر میں بچھانا کے کام آتا تھا۔

(۲۲) چھانٹی: یہ لفظ Shantung کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ شان تنگ چین کا ایک صوبہ ہے۔ شان ٹنگ نام کا سادہ موٹا ریشمی کپڑا چین سے آتا تھا۔ بعد میں یہ لفظ اس قسم کے سادہ سوتی کپڑے کے لیے مستعمل ہونے لگا۔

(۲۳) چھینٹ: چھینٹ ہندوستان میں عرصۂ دراز سے تیار ہو رہی ہے اور اس کا ذکر سولہویں صدی میں ‘‘آئین اکبری’’ میں ملتا ہے۔ چھینٹ کا لفظ ظاہر ہے کہ چھینٹ یا قطرے سے تعلق رکھتا ہے اور اس قسم کے کپڑوں پر رنگ کے باریک دھبوں سے بننے والے ڈیزائن کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ بعد میں اس قسم کا کپڑا چھاپ کر تیار کیا جانے لگا۔ جب یورپ کی تجارتی کمپنیوں نے ہندوستان میں بیوپار شروع کیا تو چھینٹ یورپ بھی برآمد کی جانے لگی۔ انگریزی طریقے سے اس کی جمع بنا کر اسے Chintz لکھا جانے لگا۔

(۲۴) خاکی: دھول کی رنگت کا، مٹیالا۔ شروع میں ہندوستان کی انگریزفوج کی وردی سرخ ہوا کرتی تھی اور اسی بنا پر انگریز فوجی لال کرتی والے کہلاتے تھے۔ ۱۸۵۷ ء کی بغاوت کے دوران انگریز سپاہیوں کے خلاف غم و غصہ سے بچنے اور عام لوگوں کو دھوکا دینے کی غرض سے نئے رنگ کی وردی میں نیم فوجی دستوں کو استعمال کرنے کے بارے میں لکھنؤ میں فیصلہ کیا گیا۔ اس کے لیے ایک ایسا رنگ زیر غور آیا جو سرخ رنگ کی طرح ایک دم نمایاں بھی نہ ہو اور ہندوستان کے گرد و غبار میں چھپ بھی جائے۔ یہ رنگ کس طرح طے کیا گیا، اس کی دلچسپ روایتیں بیان کی جاتی ہیں۔ ایک روایت کے مطابق سفید وردی کو کافی، ہلدی، مسالے شہتوت کے عرق وغیرہ میں ڈبو کر یہ رنگ مقرر کیا گیا۔ دوسری روایت کے مطابق یہ رنگ سیاہ و سرخ روشنائی اور گیروار رنگ ملا کر حاصل کیا گیا۔ اس قسم کی وردی سب سے پہلے دہلی کا محاصرہ کرنے والی اس پنجابی رجمنٹ کو دی گئی جس کو میرٹھ وانٹیئر ہارس رجمنٹ کا نام دیا گیا اور جسے ہندوستانی میں خاکہ رسالہ کہا جاتا تھا۔ ۱۸۸۳ء میں برطانیہ کے محکمۂ جنگ نے خاکی وردی کو عام فوجی لباس کے طور پر اختیار کرنے پر غور کیا اور بعض رسالے خاکی وردی استعمال بھی کرتے رہے۔

اس کو مجموعی طور پر بوئر جنگ (ٗBoer War) (۱۸۹۹ء تا ۱۹۰۲ء) میں اختیار کیا گیا۔ فلپائن میں مقیم امریکی فوجوں نے بھی خاکی وردی استعمال کرنا شروع کر دی لیکن انھوں نے اسے چینی کپڑے (Cloth Chino) کا نام دیا۔

(۲۵) دنگڑی: ہندوستان میں آج ہم اس لفظ کو بھول چکے ہیں۔ لیکن ہندوستان سے جانے والا یہ لفظ دنگڑی یا دنگریز کے شکل میں انگلینڈ یا امریکہ میں تعارف کا محتاج نہیں۔ دنگڑی کا تعلق ممبئی کے قریب واقع ایک مقام ڈونگر گڑھ سے ہے۔ خود ڈونگڑ کا لفظ ڈونگری سے نکلا ہے جس کا مطلب چھوٹی پہاڑی ہوتا ہے۔ ڈونگر گڑھ میں ایک قسم کا موٹا کپڑا عام استعمال کے لیے بنایا جاتا تھا۔ اسی قسم کا دبیز کپڑا خیموں اور کشتیوں کے بادبانوں کے کام آتا تھا۔ انگریزوں نے اسے مضبوطی کی وجہ سے پسند کیا اور اسے پہلے ملاحوں کی وردی کے لیے اور پھر کارخانوں اور کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے لباس کے لیے استعمال کیا۔ پھر تو یہ بحری فوج اور سمندری جہازوں کے عملے کا مستقل یونیفارم بن گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکہ کے لوگ بھی اس سے واقف ہوئے اور وہ نوجوان طبقہ جس میں موٹے کپڑے کے پتلون اور جاکٹ مقبول ہیں ان میں ڈنگریز بھی بہت مقبول ہوئیں۔

(۲۶) دو سوتی: وہ کپڑا جس میں دوہرا سوت یا دوہرا دھاگا لگا ہو۔ یہ موٹے قسم کا سستا کپڑا چادر وغیرہ کی شکل میں عام استعمال میں آتا تھا یا اسے خیموں یا فرش وغیرہ میں لگایا جاتا تھا۔

(۲۷) دیبا: یہ ایک قسم کا نہایت قیمتی کپڑا ہوتا تھا جو کہ ریشم اور سونے کے تاروں سے تیار کیا جاتا تھا اور اس میں طرح طرح کے حسین پھولوں وغیرہ کے ڈیزائن ہوتے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ دیبا اصل ‘‘دیوباف’’ تھا یعنی وہ کپڑا جسے دیو یا جن نے بُنا ہو۔ یہ کپڑا اتنا خوبصورت ہوتا تھا کہ شروع میں اسے انسانی کاریگری کا کمال سمجھنے کے بجائے کسی جن وغیرہ کے غیر معمولی کمال کا نمونہ ہونے کا اس پر گمان ہوتا تھا۔

(۲۸) ڈوریا: ڈور دھاگے کو کہتے ہیں۔ لیکن ڈوریا میں ڈر کی تخصیص ان رنگین ڈوروں کی وجہ سے تھی جو تھان کے طول میں ایک قسم کی دھاری کا ڈیزائن ڈالنے کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔

(۲۹) ڈینم: یہ موٹا اور مضبوط کپڑا شروع میں نیلی جینس وغیرہ میں بڑا مقبول ہوا۔ اب یہ سوٹ وغیرہ کے لیے بھی استعمال ہو رہا ہے۔ اسے شروع میں نیم کا سرج (Serge de nimes) کہتے تھے کیونکہ اسے سترہویں صدی میں فرانس کے مقام نیم میں کانوں اور کارخانوں میں کام کرنے والوں کے لیے نیل میں رنگ کر اوپر پہننے والی پوشاک بنانے کے لیے تیار کیا جاتا تھا۔

(۳۰) ریان: یہ سب سے پہلا ایسا ریشہ ہے جسے انسان نے بنایا۔ اسے بنانے میں سب سے پہلے فرانس کے ہیلئری دی شاردونے (Count hilaire de char donnet) نے کامیابی حاصل کی۔ اور ۱۸۸۴ ء میں اس کا پیٹنٹ حاصل کیا تھا۔ شروع میں اسے مصنوعی ریشم کا نام دیا گیا۔ لیکن ۱۹۲۴ء میں Retail Dry Goods Association نے اس کے لیے ‘‘ریان’’ کا نام انتخاب کیا۔ فرانسیسی لفظ Rayon کا مطلب کرن یا شعاع ہوتا ہے۔ اس نام کے انتخاب کی ایک وجہ تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس مصنوعی ریشے کی تار کو شعاع کے مماثل قرار دیا گیا اور دوسرے اس لفظ میں cotton کی طرح آخر میں on تھا۔ (خو لفظ کاٹن بالآخر کپاس کے لیے عربی لفظ ‘‘قطن’’ تک پہنچتا ہے)

(۳۱) زربفت: پرانے زمانے کا ایک قیمتی کپڑا جو سونے کے تار شامل کر کے بُنا جاتا تھا۔ اسے ‘‘بزربافتہ’’ کے معنوں میں زربفت کہا جاتا تھا۔

(۳۲) زین: ایک قسم کا موٹا مضبوط Twill بُناوٹ کا سوتی کپڑا جسے انگریزی میں ڈرل Drill کہتے ہیں۔ اردو نام زین دراصل اسی کپڑے کے ایک اور نام Jenefustian سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کو مختصراً جین (Jean) کہتے ہیں جس کی جمع آج کل نوجوان میں مقبول امریکی پوشاک جینس (Jeans) کی شکل میں دیکھی جا سکتی ہے۔ خود لفظ جین اٹلی کے شہر جے نوا (Genoa) سے نسبت کو ظاہر کرتا ہے۔

(۳۳) ساٹن: یہ سمجھاجاتا ہے کہ اس لفظ کی اصل عوامی لاطینی کا لفظ Setino ہے جس کے معنی ریشم ہوتے ہیں اور جو قدیم لاطینی لفظ Seta سے نکلا ہے جس کے معنی بال یا ریشے کے تھے۔ لیکن یہ خیال بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ لفظ اصلاً چینی ہے۔ اور چین میں واقع ایک مقام سے تعلق رکھتا ہے۔ ابن بطوطہ نے اس کا نام زیتون تحریر کیا ہے اور ماکوپولو نے اس کو زیٹن (Zayton) لکھا ہے۔ دوسرے لوگوں نے اس کا املا Tzu-Ting یا Sztum وغیرہ تحریر کیا ہے۔ اس سے غالباً فوکی ان (Fokien) علاقے کی بندرگاہ چوان چاؤ مراد ہے۔ اس بندرگاہ سے یورپی تاجر چینی کپڑے لے جاتے تھے جنھیں عربوں سے زیتونیہ اسپین کے باشندوں Acey Tuni، فرانسیسی میں Zatony اور قرون وسطیٰ کی اطالوی زبان میں سیٹانی (Zetani) نام دیا گیا تھا۔ انگریزی میں پہلے اسے Zetin کہا جاتا تھا جس نے بالآخر Satin کی شکل اختیار کی ۔ ہندوستان پہنچنے پر یہ لفظ ساٹن (ٹے پر زبر کے ساتھ) یا ساٹھن ہو گیا۔

(۳۴) سرج: ایک قسم کا مصنوعی ٹوئل (Twill) بُناوٹ کا اونی کپڑا۔ ابتداء ً یہ نام ریشمی کپڑے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا کیونکہ یہ نام ایک لاطینی لفظ Seres سے نکلا تھا۔ یہ نام مشرقی ایشیا کی کسی ایسی قوم کے لیے استعمال کیا جاتا تھا جس نے سب سے پہلے ریشم کا استعمال شروع کیا تھا۔ قیاس کیا جاتا تھا کہ اس سے چینی لوگ مراد تھے۔

(۳۵) سوسی: سید سلیمان ندوی یاقوت حموی کی تصنیف معجم البلدان کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ شمالی افریقہ میں ایک مقام سوسہ تھا جو کہ ساتویں صدی ہجری کے آس پاس پارچہ بافی کا بڑا مرکز تھا اور یہاں بیش قیمت کپڑا بُنا جاتا تھا جس کے ایک تھان کی قیمت دس دینار تھی۔ ہنری یول نے اپنی تصنیف ہابن جابس (Hobson jobson) میں سوسہ کو بال کا شہر شوشن (Shushan) سے منسلک کیا ہے۔ جس کا ذکر بائبل میں ملتا ہے۔ اور جو بابل سے ہونے والی کپڑوں کی تجارت کا مرکز تھا لیکن جبکہ ساتویں صدی کے ہجری میں مقبول سوسہ کے کپڑے کی شہرت ہندوستان پہنچنے اور اس کے نام کو معیار کی ضمانت کے طور پر یہاں کے کسی قسم کے کپڑے کے ساتھ وابستہ ہونے کے امکانات ہیں۔ حضرت دانیال کے زمانے کے یعنی دور قبل از مسیح کے سوسہ کی شہرت کا ہندوستان پہنچ کر اتنے طویل عرصے تک برقرار رہنا ممکن نظر نہیں آتا۔ سوسی بہرحال ہندوستان میں کوئی بڑا قیمتی کپڑا نہیں رہا۔ بلکہ وہ ایک ایسا کپڑا تھا جو عوام کی دسترس میں تھا۔ یہ نام ریشم اور سوت کے ایک ملے جلے دھاری دار کپڑے کو دیا جاتا تھا جو خاص طور پر پنجاب میں عورتوں کے پائجامے کے لیے مقبول تھا۔ دھاریوں کے اعتبار سے اسے دوخانی یا تین خانی بھی کہا جاتا تھا۔ بٹالہ اور فرید کوٹ اس کپڑے کے اہم مراکز تھے۔

(۳۶) سیفون: یہ انگریزی نام شفان (Chiffon) کی بدلی ہوئی شکل ہے۔ اس باریک کپڑے کے لیے جو کہ ۱۸۹۰ء کے قریب رواج میں آیا، فرانسیسی سے نام مستعار لیا گیا جس میں Chiffon کا مطلب چندی یا چیتھڑا ہوتا ہے۔ لیکن بعد میں اسے باریک کپڑے کی وہ دھجیاں مراد لی جانے لگیں جو عورتوں کے لباس میں آرائش کے لیے چھالروں وغیرہ کی شکل میں لگائی جاتی تھیں۔ اسی سے اس باریک نفیس کپڑے کا نام نکلا۔

(۳۷) سین فواڈ: کپڑے کو سکڑنے سے بچانے کا یہ طریقہ اس کے امریکی موجد سینفر ڈایل کلیوٹ (Sanfordl Cluette) کے نام پر رائج ہے۔

(۳۸) شنیل: اس روئیں دار یا ریشمی کپڑے کا نام فرانسیسی سے لیا گیا ہے جہاں Chenille کا مطلب کملا کیڑا یعنی Caterpillar ہوتا ہے۔ کملا کیڑے کے جسم پر بھی بڑے بڑے روئیں ہوتے ہیں۔ اور یہ کپڑا بھی اس سے مشابہت رکھتا ہے۔ اس فرانسیسی لفظ کی اصل لاطینی لفظ Canicula ہے جس کے معنی چھوٹے سے کتے یا کتے کے پلے کے ہوتے ہیں۔ (انگریزی لفظ caterpillar قدیم فرانسیسی کے ایک لفظ سے نکلا ہے جس کے معنی بڑے بالوں والی بلی کے ہوتے ہیں)۔

(۳۹) شیر و شکر: ہنری یول نے اس کو Seer Sucker لکھ کر اسے سر اور ‘‘سُکھ’’ سے متعلق کرتے ہوئے یہ معنی دیے ہیں کہ جو سر کو آرام دے۔ شیر و شکر ایک قسم کا خوبصورت ریشمی کپڑا تھا جو یورپ کے تاجر ہندوستان لے جاتے تھے۔ ابتداء ً یہ ایک سوتی کپڑا ہوتا تھا جی بُناوٹ میں بلبلے ڈالے جاتے تھے۔ اس سے کپڑے کی سطح جگہ جگہ ابھر آتی ہے اور خوبصورت لگتی تھی۔ لیکن چند دھلائیوں کے بعد وہ بیٹھنے لگتے تھے اور اگر استری کر دی جائے تو بالکل دب جاتے تھے۔ بعد میں اس کپڑے میں بیچ بیچ میں سکڑنے والے دھاگوں کی دھاریاں ڈالی جاتی تھیں، جس سے کچھ دھاریوں میں کپڑا ہموار رہتا اور کچھ میں سمٹ جانے کی وجہ سے خوبصورتی شکنیں پڑ جاتی تھیں۔ کپڑے کی شکل میں اس طرح دو کیفیات ظاہر ہونے کو اس کے نام شیر و شکر سے ظاہر کیا گیا تھا جو دوسری جانب دودھ اور شکر کی ایک دوسرے میں پوری طرح حل ہو جانے کی کیفیت کی طرف اشارہ کر کے کپڑے کی مکمل خوبصورتی کو واضح کرتا ہے۔

(۴۰) فلالین: یہ انگریزی لفظ Flannel کی بدلی ہوئی شکل ہے۔ اس انگریزی لفظ کی اصل کے بارے میں یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ اس کی ابتدا یا تو قدیم فرانسیسی لفظ Flain سے ہوئی ہے جس کا مطلب کمبل ہوتا ہے یا ویلز کی زبان کے لفظ Gnalanen اور Gwlan سے جس کا مطلب اون ہوتا ہے۔ شروع میں فلالین ایک ڈھیلی بناوٹ کا اونی کپڑا ہوتا تھا جسے عام طور پر اندر پہننے والے کپڑوں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اب سوتی قالین بھی تیار ہوتا ہے۔

(۴۱) کاڈرائے: یہ بتایا جاتا ہے کہ انگریزی لفظ Corduroy فرانسیسی فقرے Cord du roy کی بدلی ہوئی شکل ہے جس کے معنی بادشاہوں کا کپڑا ہے۔ خیال ہے کہ ابتداء ً یہ ایک ریشمی کپڑا ہوتا تھا اور اسے فرانسیسی بادشاہ شکار کے دوان پہنتے تھے۔ بعد میں اسے خدام کی وردی کے لیے بھی استعمال کیا جانے لگا۔ لیکن اب یہ ایک کھردرا موٹا ابھری ہوئی دھاریوں والا اور کافی چلنے والا ایسا سوتی کپڑا ہے جو عام استعمال میں آتا ہے۔ آکسفرڈ ڈکشنری فرانسیسی فقرے کو قیاسی قرار دیتی ہے اور یہ امکان ظاہر کرتی ہے کہ یہ نام انگریزی خاندانی نام Corderoy سے بھی تعلق رکھ سکتا ہے۔

(۴۲) کتاں: ایک قسم کا نہایت باریک کپڑا جس کے ساتھ طرح طرح کی خوش فہمیاں اور شاعرانہ روایات وابستہ ہیں۔ فرہنگ آصفیہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ گھاس سے تیار کیا جاتا ہے اور اسے پہنا جائے تو یہ جسم کی رطوبت اور پسینہ کو جذب کرتا ہے چنانچہ اگر کوئی موٹا آدمی دبلا ہونا چاہے تو جاڑے کے موسم میں کتاں کا کورا کپڑا پہنے اور گرمی میں دھلا ہوا اور اگر دبلا نہ ہونا چاہے، تو اس کے برخلاف کرے۔ فرہنگ آنند راج میں بتایا گیا ہے کہ بعض مقامات پر کتاں یعنی السی کے پودے پر سے چھال نکال کر ریشہ ریشہ کی جاتی ہے اور اسے ریشم کی طرح دھاگا بنایا جاتا ہے اور کپڑا بُنا جاتا ہے جسے کتاں کہتے ہیں (اس کا تلفظ تے پر زبر اور تشدید طرح ہے) یہ کپڑا نہایت نفیس اور نازک ہوتا ہے اس کی نزاکت کے بارے میں شعرا نے اپنے اشعار میں یہاں تک کہا ہے کہ اگر کتاں پر چاند کی روشنی پڑ جائے تو وہ شق ہو جاتا ہے۔ لیکن جن لوگوں نے اسے آزمایا انھوں نے اسے غلط پایا۔ پودوں سے حاصل کیے گئے ریشوں سے بنایا گیا کپڑا بہرحال پرانے زمانے میں اسی نفاست اور قیمت کی وجہ سے خاص کشش رکھتا تھا۔ انگریزی تحریرات میں گراس کلات (Grass cloth) کے نام سے اس کا حوالہ سولہویں صدی سے ملتا ہے۔ یہ کپڑا عام طور پر چین سے آتا تھا جہاں اسے سیاپو (Sia Pu) یعنی ‘‘گرمی کا کپڑا’’ کہتے تھے۔ سولہویں صدی کے سیاحوں نے اس قسم کے کپڑے کی اڑیسہ اور بنگال سے برآمد کا بھی ذکر کیا ہے۔

(۴۳) کریپ: ایک قسم کا باریک ریشمی دار کپڑا۔ اس کی اصل لاطینی لفظ Crispa ہے جس کے معنی گھونگریالے یا لہر دار کے ہیں۔ انگریزی میں اسے Crape لکھا جاتا ہے اور اس سے وہ کالا باریک کپڑا مراد لیتے ہیں جو ماتمی لباس میں استعمال ہوتا ہے۔ اٹھارہویں صدی میں Crape ایک قسم کے باریک اونی کپڑے کے لیے بولا جانے لگا جس کو پادریوں کا لباس تیار کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ انیسویں صدی میں جب کالے ماتمی رنگ کے کریپ کے علاوہ دوسرے رنگ کے کپڑے بھی مقبول ہوئے تو ان کے لیے فرانسیسی لفظ Crepe اختیار کیا گیا۔ اب کریپ کی کئی قسمیں رائج ہیں جن میں کریپ جارجٹ شامل ہے جس کو صرف جارجٹ بھی کہا جاتا ہے۔

(۴۴) کمخواب: سنہری تاروں والے اس روایتی بروکیڈے کے نام کی ابتدا معنی اور تلفظ و املا کے بارے میں کافی اختلاف ہے۔ یہ کمخا، کمخاب، اور کمخواب کی شکل میں لکھا اور کاف پر زبر اور زیر کے ساتھ بولا جاتا رہا ہے۔ کم اور خواب کے الفاظ مد نظر رکھتے ہوئے بعض لوگ اس سے یہ معنی لیتے ہیں کہ ایک ایسا ریشمی کپڑا ہے جس سے نیند کم آتی ہے اور اس کا جواز یہ پیش کرتے ہیں ہک اس میں استعمال ہونے والے اون یا ریشم کے ریشے ایسے لمبے سخت اور اور کھردرے ہوتے ہیں کہ وہ سونے نہیں دیتے۔ یوسف علی کم خواب کے معنی یہ لیتے ہیں کہ جس نے اس کپڑے کو نہیں دیکھا وہ اس کا تصور نہیں کر سکتا (یعنی اسے خواب میں بھی نہیں دیکھ سکتا)۔ اس کے برخلاف فرہنگ آنند راج میں رشیدی کے حوالے سے درج کیا گیا ہے یہ کم خاب ہے اور خاب کا مطلب رواں ہوتا ہے یعنی اس کپڑے میں رواں کم ہوتا ہے۔ فارسی میں اسے کمخا بھی لکھا جاتا ہے جو کہ کمخاب کا مخفف ہے۔ انگریزی میں یہ لفظ Kincob کی شکل میں ملتا ہے اور یورپ میں غالباً تیرہویں صدی میں رائج ہوا۔ ڈوزی نے ہاف مین کی سند پر یہ بتایا ہے کہ اس کی اصل چینی لفظ ‘کِن۔ خا’’ ہے اور ‘‘کِن’’ کا مطلب سونا (سونے کی دھات) ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ قریب قیاس ہے کہ یہ لفظ چین سے ‘‘کِن’’ خاکی شکل میں چلا۔ ایران وغیرہ دوسرے ممالک نے اس کو کم خاکی شکل میں اختیار کیا۔ ایران میں اس نے پہلے کم خاب کی شکل لی اور پھر لفظ خواب سے مماثلت نے اسے کمخواب بنا دیا۔

(۴۵) کے لیکو (کالیکو): یہ سادہ سوتی کپڑا سولہویں سترہویں صدی کو یورپ سے ہندوستان کے مغربی ساحل سے برآمد ہوتا رہا۔ مغربی ساحل پر گوا کے بعد سب سے اہم بدرگاہ کالی کٹ تھا (کیرالا کے اس شہر کا نام اب پھر کوزی کوڈ کر دیا گیا ہے) جسے فرانسیسی Calicot لکھتے اور فرانسیسی زبان کے تلفظ کے قاعدے سے آخری حرف کو چھوڑ کر اسے کالیکو پڑھتے تھے۔ انگریزوں نے اس لفظ کو تلفظ کے اعتبار سے اختیار کیا حالانکہ سترہویں صدی میں بعض تحریرات میں اس کپڑے کے لیے کالی کٹ کا لفظ بھی ملتا ہے لیکن اسے لکھنے والوں کی صحت پسندی کے رجحان کا نتیجہ سمجھا جا سکتا ہے۔ بعض ڈکشنریاں یہ بتاتی ہیں کہ یہ کپڑا کالی کٹ میں بنتا تھا لیکن حقیقت ہے کہ کپڑا مغربی اور جنوبی ہندوستان کے مختلف مراکز پر بنتا تھا اور کالی کٹ کی بندرگاہ سے یورپ برآمد کیا جاتا تھا۔

(۴۶) کیمرک: اس کپڑے کو فرانس کے شہر Cambrai میں بنائے جانے کی وجہ سے اس کو Cambric کہا گیا۔ لیکن تاریخی اعتبار سے اس کپڑے کو سب سے پہلے فلینڈرس کے شہر Kameryk میں بنانا شروع کیا گیا۔

(۴۷) کینوس: ایک قسم کا موٹا کپڑا جو بادبانوں، خیموں اور جوتوں وغیرہ کے بنانے میں کام آتا ہے۔ اس لفظ کی لاطینی Canabis اور یونانی Kannabis ہے جس کا مطلب سن کا پودہ ہوتا ہے۔ اس قسم کا سخت اور کھردرا کپڑا شروع میں سن کے ریشے سے بنایا جاتا تھا۔

(۴۸) گاچ: بہت ہی ڈھیلی بُنائی کا جالی جیسا ہلکا کپڑا جیسا اکثر زخموں کی مرہم پٹی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ انگریزی لفظ Gauze کی شکل ہے جو کہ کہا جاتا ہے فلسطینی شہر غزہ سے اس کی نسبت کو بتاتا ہے۔

(۴۹) گاڑھا: ایک قسم کا موٹا معمولی طرح سے بنایا ہوا سوتی کپڑا جو سستا ہوتا تھا اور جسے غریب لوگ استعمال کرتے تھے۔ اس کو گاڑھا دبیز ہونے کی وجہ سے کہا گیا اور اس طرح ململ کی نرمی اور نفاست کے مقابلے میں تضاد پیدا کیا گیا۔

(۵۰) گبرون: ایک قسم کا ٹوئل کپڑا جو استر وغیرہ لگانے کے کام آتا ہے۔ اسے غالباً خلیج فارس پر واقع شہر Gambroon کی مناسبت یہ نام دیا گیا۔ ہندوستان میں یہ کپڑا لدھیانہ کلاتھ کے نام سے بھی معروف تھا۔

(۵۱) گزی: بہت موٹا دیسی گاڑھا۔ دراصل یہ فارسی لفط ‘‘گبز’’ سے ‘‘گبیزی’’ تھا جو عام استعمال میں گزی ہو گیا۔ ‘‘گبز’’ کے معنی موٹا اور دبیز ہوتے ہیں۔ اس نے عربی میں غض کی شکل اختیار کی اور وہ بگڑ کر اردو میں گف ہو گیا جس کا مطلب دبیز اور موٹا لیاجاتا ہے اور جو بالخصوص کپڑے کے موٹا ہونے کے بارے میں بولا جاتا ہے۔

(۵۲) گِمٹی: ایک قسم کی موٹی چادر جس میں ابھری ہوئی دھاریاں اور بیل بوٹے ہوتے ہیں۔ یہ انگریزی لفظ Dimity کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ خود یہ لفظ یونانی کے دو لفظوں Dis یعنی دو اور Mtos (یعنی تانا۔ وہ دھاگا جو کپڑے کے طول میں ڈالا گیا ہے) سے بنا ہے اور اس طرح یہ ہندوستانی لفظ ‘‘دو سوتی’’ جیسے معنی رکھتا ہے۔

(۵۳) لٹھا: انگریزی لفظ Long Cloth۔ ہندوستان میں لانگ کلاتھ، لانگ کوٹ وغیرہ شکلوں میں رائج ہوا اور بالآخر ‘‘لٹھا’’ کی مختصر شکل اختیار کر لی۔ اس لفظ کو انگریزوں نے شروع میں ایک قسم کے کپڑے کے لیے استعمال کیا تھا جو ہندوستان سے انگلستان برآمد کیا جاتا تھا۔ ہندوستان سے برآمد کیے جانے والے دو قسم کے کپڑے ہوتے تھے، ایک تو ململ وغیرہ کے چھوٹے ٹکڑے جنھیں فارسی اصطلاح پارچہ جات کی بنیاد پر Piece goods کہا جاتا تھا اور دوسرے ایسے کپڑے جن کا طول مروج لمبائی سے زیادہ ہوتا تھا۔ انھیں لانگ کلاتھ کانام دیا گیا۔ لیکن ہندوستان سے تجارت کے متعلق بعض تحریرات اور بعض دوسرے بیانات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انگریزوں نے لانگ کلاتھ کا لفظ لنگی یا لنگی جیسے کپڑے کے لیے بھی استعمال کیا ہے۔ بعد میں جب انگلستان کی ملوں میں بنے ہوئے تھان جب ہندوستان برآمد کیے گئے تو انگریزوں نے ان کو بھی لانگ کلاتھ کا نام دیا۔ اور خاص طور پر لنکا شائر، مانچسٹر اور گلاسکو سے آنے والے سفید شرٹنگ کو ہندوستانی لانگ کوٹ یا لٹھا کہنے لگے۔

(۵۴) مارکین: ایک قسم کا انگلستان سے بن کر آنے والا چکنا موٹا کپڑا جو میز کرسیوں کو چھپانے کے کام آتا تھا۔ یہ امریکن کلاتھ تھا جس سے بگڑ کر و مارکین ہو گیا۔

(۵۵) مخمل: مخمل کا تعلق عربی لفظ خمل سے ہے جس کا مطلب کپڑے کا رواں ہوتا ہے اور مخمل روئیں دار کپڑے کو کہتے ہیں۔ اردو میں یہ ململ کے وزن پر مخمل ہو گیا ہے۔ انگریزی لفظ Velvet بھی لاطینی لفظ Villus تک پہنچتا ہے جس کے معنی جانور کے لٹکنے والے ہوتے ہیں اور کیونکہ مخمل پر بھی گھنا رواں ہوتا ہے اس لیے اس کے واسطے یہ نام اختیار کیا گیا۔

(۵۶) مرسرائزڈ: سوتی کپڑے کو ریشمی کپڑے جیسی چمک نرمی اور پختگی دینے کے لیے کاسٹک پوٹاش یا کاسٹک سوڈا وغیرہ میں سوت کو ڈبونے کے اس طریقے کی ۱۸۴۴ء میں جان مر سر (John Mercer) نے ایجاد کی تھی، جس کا زمانۂ حیات ۱۷۹۱ء سے ۱۸۶۶ء کا تھا۔ انگلستان کے شہر Acc Rington کے اسی کے لیکو چھپائی کرنے والے اور کیمسٹ کے نام پر اس طریقے کو مرسرائزڈ کہا گیا۔ انگریزی میں Mercer کا لفظ علیحدہ بھی مستعمل ہے اور اس سے سوتی ریشمی کپڑوں کا تاجر مراد لیا جاتا ہے۔

(۵۷) مشجَّر: وہ کپڑا جس پر بیل بوٹے بنے ہوں۔ عربی میں ‘‘شجر’’ کا لفظ درخت کے لیے آتا ہے اور مشجر سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ جس پر درخت جیسے گل بوٹے اور شاخ اور پتے وغیرہ بنائے گئے ہوں۔

(۵۸) مشروع: یہ ایک عربی لفظ ہے جس کا مفہوم ہے وہ جو شرع کے مطابق ہو۔ مشروع میں ریشم کے ساتھ سوت بھی شامل کیا جاتا ہے اس لیے اسے مرد پہن سکتے ہیں اور اس سے نماز ہو سکتی ہے۔ جبکہ خالص ریشم کے کپڑے مردوں کے لیے جائز نہیں ہیں۔

(۵۹) ململ: پلیٹس نے اس لفظ کی اصل سنسکرت لفظ مُردو بتائی ہے جس کے معنی بہت ملائم کے ہیں۔ ہندی میں خیال پرزور دینے کے لیے اکثر لفظ کی تکرار کی جاتی ہے چنانچہ اس کپڑے کو مرد مُرد کہا گیا جو کثرت استعمال سے ململ بن گیا اور جس کے معنی ایسا کپڑا سمجھے جانے لگے جو اتنا مہین ہو کہ اسے بار بار ہاتھ سے ملنے پر اس کو محسوس کیا جا سکے۔ انگریزی میں اس کے لیے لفظ مسلن (Muslin) بولا جاتا ہے۔ جو اس کپڑے کی عراق کے شہر موصل سے نسبت کی جانب اشارہ کرتا ہے۔

(۶۰) ملیدہ: ایک قسم کا پشمینہ کپڑا جو مل کر ملائم کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ نام فارسی مصد مالیدن (ملنا) سے مشتق مالیدہ سے بنا ہے۔

(۶۱) ملیشیا: دوسری جنگ عظیم کے دوران ایک موٹا سیاہی مائل مٹیالے رنگ کا ایک کپڑا رائج ہوا۔ اسے ایسے فوجیوں کی وردی کے طور پر استعمال کیا گیا جو باقاعدہ فوج کے ساتھ معاون دستے کاکام کرتی تھی اور جس کو Militia (ملے شیا) کہتے ہیں۔ چنانچہ اس کپڑے کا نام بھی ملیشیا پڑ گیا جو ہندوستان میں ملیشیا ہو گیا۔

(۶۲) نائلان: اس مصنوعی ریشے کے نام کے بارے میں عام لوگوں میں یہ نظریہ ہے کہ اس میں شامل این او وای (N/Y) سے نیویارک اور آخر کے لان (Lon) سے لندن مراد ہے کیونکہ یہ ریشہ ان دو شہروں میں تقریباً ایک ساتھ بنایا گیا۔ لیکن یہ نظریہ اسی طرح قیاسی ہے جس طرح خبر کے لیے انگریزی لفظ news کے بارے میں یہ خیال کیا ہے کہ اسے انگریزی الفاظ نارتھ (شمال) ایسٹ (مشرق)، ویسٹ (مغرب) اور ساؤتھ (جنوب) کے ابتدائی حروف سے بنایا گیا ہ۔ اس مصنوعی ریشے کو امریکہ کے ہارڈورڈ یونیورسٹی کے ایک کیمسٹ Wallace H. Carothers نے ایجاد کیا تھا جسے امریکہ کی کیمکل کمپنی Du pont نے خرید لیا۔ کمپنی نے کمپنی میں کام کرنے والوں کو اس ریشے کے لیے ایک ایسا نام تجویز کرنے کی دعوت دی تھی جس کے آخر میں cotton اور Rayon کی طرح on ہو چنانچہ ۱۹۳۸ء میں اس ریشے کو Nylon کہنا طے پایا۔ NYL کا جزو دراصل Vinyl سے لیا گیا تھا جو کہ ایک ایسا مادہ ہے جو کئی مصنوعی ریشوں کی بنیاد ہے۔

(۶۳) وائل: جھلک دار کپڑے کی ایک قسم، جس کا نام فرانسیسی لفظ Voile پر مبنی ہے جس کے لغوی معنی نقاب ہیں۔

(۶۴) ورسٹڈ: لمبے اور تقریباً یکساں لمبائی کے بالوں کو بل دے کر بنائے گئے اونی دھاگے سے بنائے جانے والا یہ کپڑا Worsted کہا جاتا ہے۔ یہ انگلستان میں Nor folk علاقے میں واقع گاؤں Worstead میں شروع میں بنایا گیا اور اسی نسبت سے اس کا نام پڑا۔

٭٭٭