خیر خواہی کا تقاضا

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : نومبر 2010

            اس دیس میں جنوری اور فروری کے مہینے بہت خوشگوار موسم لیے ہوتے ہیں خصوصاً صبح کے وقت تو عجب فرحت کا احساس ہوتا ہے ۔ اسی فرحت سے دامن بھرنے وہ سکول گیٹ کے باہر کھڑا تھا۔ بچوں کے سکول آنے اور سکول سے جانے کا منظر ہمیشہ سے اس کا پسندیدہ منظر رہا ہے ۔ جس دیس سے و ہ آیاتھا وہاں تو اس منظر میں بڑی اور چھوڑ ی گاڑیوں کے ساتھ رکشے ، موٹر سائیکل اور سائیکل بھی وافر تعداد میں ہوتے ہیں بلکہ گاڑیوں سے زیادہ ہوتے ہیں مگر یہاں اس نے دیکھا کہ ان غریب سواریوں کا کوئی وجود نہ تھا، صرف گاڑیا ں تھیں اور وہ بھی بڑی بڑی۔ لیکن ایک چیز یہاں بھی اسے اپنے وطن جیسی ہی نظر آئی او روہ تھی والدین کا اپنے بچوں کو سکول چھوڑنے کا اہتمام ۔

            اس نے دیکھا کہ ایک ماں ایک بچے کو انگلی لگائے اور دوسرے کو گود اٹھائے سکول چھوڑنے آ رہی ہے ۔ دونوں بچے بلک رہے ہیں کہ انہیں سکول نہیں جانا۔ مگر ماں کااصرار ہے کہ تمہیں ہر حال میں سکول جانا ہے ۔ گودو الا بچہ مچل مچل کر نیچے اترا جار ہا ہے اور ہاتھ والا ہاتھ چھڑا کر بھاگنے کی کوششوں میں مصروف ہے ۔ ماں کبھی اس کو دیکھتی ہے تو کبھی دوسرے کو سنبھالتی ہے۔ ایک کو پیار کرتی ہے تو دوسرے کو ٹافیا ں دیتی ہے مگر بچے ہیں کہ مان ہی نہیں پا رہے ۔وہ اسی طرح پچکارتی ، ڈانٹ ڈپٹ کرتی اور پیار سے بے حال ہوتی آخرانہیں سکول کے گیٹ تک لانے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔۔۔وہ بڑی محویت سے اس منظر کو دیکھ رہا تھا ، اس نے دیکھا کہ جب وہ ماں واپس ہوتی ہے تو اس کے چہرے پر جہاں ایک طرف سکون ہی سکون تھا وہیں اس کی آنکھوں سے آنسو بھی چھلک رہے تھے۔وہ بظاہر اس ماں کو دیکھ رہاتھا لیکن اس کے پس منظر میں اسے کتنی ہی مائیں یا د آر ہی تھیں۔ اسے وہ ماں یا د آئی جو بظاہر ان پڑھ تھی مگر کتنے شوق سے اپنے بیٹے کو پڑھایا کرتی تھی۔ اس ماں کے پاس اپنے بیٹے کے کپڑے استر ی کرنے کے لیے استر ی نہ تھی تو وہ اس کے کپڑے دھو کراستر ی کی طرح تہہ کر کے رات کو تکیے کے نیچے رکھ دیا کرتی تھی اور صبح اپنے بیٹے کو اسی تکیوی استر ی کے کپڑے پہنا کر سکول روانہ کیا کرتی تھی۔ وہ سکول سے آتا تو اس کی قلم اوردوات تیار کرتی، تختی صاف کرتی اور اسے دلاسا دیتی کہ اس کے پاس اگر نئی کتابیں نہیں ہیں تو کیا ہوا؟ مقصد تو پڑھنا ہی ہے اور وہ ان کتابوں سے بھی پورا ہو جاتا ہے ۔پھر اسے وہ دادی اماں یاد آئی جو دو بچوں کو انگلی لگائے،آہستہ آہستہ چلتے بلکہ گرتے پڑتے دُور مدرسے میں چھوڑنے جایا کرتی تھی اور ان سے کہا کرتی تھی کہ حفظ کر کے مجھے بھول نہ جانا،میری قبر پر آکر قرآن سنا جایا کرنا۔پھر اسے وہ ماں بھی یاد آئی جو دو دو بچوں کو باری باری گود اٹھائے اور تیسرے کو انگلی لگائے سکول اور مدرسے چھوڑنے جایا کرتی تھی ۔ سردی ہو یاگرمی، بارش ہو یا آندھی وہ ہر حال میں اپنی ڈیوٹی ادا کیا کرتی تھی ۔اس کی زندگی کے یہ دن بہت مشقت بھرے تھے ۔مگر بچوں کے بڑے ہوتے ہی اسے یہ یاد ہی نہ رہا کہ یہ مشقت بھی کبھی اس پر آئی تھی البتہ اب، جب اس کے بچے اس کے ساتھ منہ پھلا کے اونچی آواز میں بات کرتے ہیں تو نہ جانے اسے وہ مشقت کیوں یاد آ جاتی ہے ۔۔۔۔!

            اڑتے اڑتے سوچ کا پنچھی دور نکل گیا اور اسے رسول اللہﷺ یا د آئے جو ایک ایک فرد کے پیچھے پھرا کرتے ، ہر ہر جان کے لیے رویا کرتے اور ہر ہر نفس کی اصلاح کے لیے سجدوں میں گڑگڑایا کرتے ۔ قوم ان پر تیراور تلوار برسا رہی ہوتی اور وہ اپنے اللہ سے کہہ رہے ہوتے، کہ مولا ، یہ لوگ اصل میں مجھے پہچانتے نہیں ، اگر انہیں یہ احساس ہو جاتا کہ میں ان کا کتنا بڑا خیر خواہ ہوں تو میرے ساتھ یہ سلوک نہ کرتے۔

            رسول ﷺ کے یاد آتے ہی اسے قرار آ گیا اور وہ واپس سکول کی طرف چل پڑا۔ اب اس پر یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ خیر خواہی کا تقاضا یہی ہے کہ یہ ہر حال میں کی جائے، ہر ایک سے کی جائے، ہر طرح سے کی جائے ،اور آخری حد تک کی جائے او ر سمجھ میں نہ آئے تو رسولﷺ کو یاد کیا جائے۔ یہ بھی مشکل ہو تو کسی بھی سکول کے گیٹ پر کسی ماں کو دیکھ لیا جائے اورپھر دل کو یہ سمجھایا جائے کہ جس طرح انجان ، بیوقوف اور بچہ اپنی نادانی، حماقت، اور ضد سے باز نہیں آتا تو خیر خواہ اپنی خیر خواہی سے باز کیوں آئے ؟