مولانا عبدالماجد دریاآبادی

مصنف : محمد طاہر بوستان

سلسلہ : مشاہیر اسلام

شمارہ : اگست 2010

            مولانا عبد الماجد دریابادی ایک بے مثل ادیب ، منفرد صحافی ، شگفتہ نگار نقاد و محقق ، بالغ نظر فلسفی، سوانح نگاراوربا کمال مفسر قرآن تھے۔ان کو ماضی کی صالح روایات کے ساتھ ساتھ ، عصری رجحانات کوپہچاننے اور پھر ان کو دل نشین انداز میں بیان کرنے پر قدرت کاملہ حاصل تھی۔ان کے بارے میں مولاناعلی میاں فرماتے ہیں۔‘‘ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ اپنے زمانے کی نادرہ روزگار اور صاحب کمال شخصیتوں میں سے ہیں ۔ ایک ادیب و صاحب قلم کی حیثیت سے بھی ، قرآن کے ایک مفسر و خادم کے لحاظ سے بھی،قدیم و جدید کے ایک جامع عالم کے طور پر بھی اور اپنے وقت اور صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھانے اور پہچاننے والے انسان کی حیثیت سے بھی، ایک کہنہ مشق صحافی اور ایک صاحب طرز ناقد و طنز نگار کی بنا پر بھی، وہ ہر طرح قابل قدر اور اعزاز کے مستحق ہیں۔’’

             مولانا صاحب کو مطالعہ قرآن سے بڑا شغف تھا۔ آپ نے استفادہ سب سے کیااور سب کی عظمت و خوبی کے معترف و مداح بھی رہے مگر خود فرماتے ہیں۔‘‘یہ عقیدہ ذہن میں تازہ رکھیے کہ نبی معصوم ﷺ کے بعد کوئی بھی معصوم اُمت میں نہ ہوا ہے نہ ہوسکتا ہے۔اس لیے فکر ، فہم اور اجتہاد کے لحاظ سے ہر بڑے سے بڑ امحقق بھی غیر معصوم ہی ہے۔ اس لیے پیروی کسی کے بھی قول کی، ہر حال میں کیے جانا اور صریح دلیل مخالف کے باوجودبھی کرتے رہنا طریق حق و صواب نہیں اللہ کے کلام کی شرح و تفسیر اگلوں اور پچھلوں کے کسی دور میں بھی آخری اور انقطاعی نہیں ہوسکتی۔کون اس علیم کل کے کلام کے سارے گوشوں اور پہلوؤں کو اپنے ذہن کی گرفت میں لا سکتا ہے۔ کس کا علم علیم مطلق کی کتاب کے سارے اطراف کا احاطہ کر سکتا ہے ؟نئے نئے گوشے فکر و نظر کے ہمیشہ ابھرتے آئیں گے اور نئے نئے میدان علم و تحقیق کو دعوت ہر دور میں دیتے رہیں گے۔ نئے نئے سوال برابر پیدا ہوں گے اور نئے نئے جواب کتاب الہُدٰی کے صفحوں میں تلاش سے برابر ملتے رہیں گے۔’’

            مولانا کے علمی و دینی کاموں کا دائرہ بہت وسیع اور گوناگوں ہے لیکن قرآن مجید کی اُردُو ، انگریزی تفسیر ان کا سب سے مہتم با لشان علمی و مذہبی کارنا مہ ہے ۔ان کی تفسیر کا بڑا امتیاز یہ ہے کہ اس میں مختلف اغراض و مقاصد کے لیے قدیم آسمانی کتب و صحف کے بہ کثرت حوالے دیے گئے ہیں۔

            مولانا عبد الماجد دریا بادی جدید علوم سے بہ خوبی واقف تھے ۔مغربی تہذیب اور سائنس کی غیر معمولی ترقیوں نے جن نظریات اور تصورات کو جنم دیا ، ان کو مذہب کے لیے چیلنج سمجھا جانے لگا۔ انہوں نے اسلام کی تعلیمات کی برتری کو سائنسی نقطہ نظر سے ثابت کرنے کی جدو جہد کی۔ انہوں نے ملت اسلامیہ کی اصلاح کے لیے جو خدمات انجام دی ہیں ، ان کی صحیح قدر و قیمت کا اندازہ اس دور میں اتنا نہیں ہو سکا جتنا شاید آنے والی نسلیں کریں گی۔ ان کی تحریر بڑے بڑے خطبوں اور تقاریر سے زیادہ مؤثر ہے۔ سید امیر حسن نورانی عبد الماجد دریا بادی کے بارے میں لکھتے ہیں۔ ‘‘ بیسویں صدی میں جتنی سیاسی ، اسلامی اور عام اخلاقی اصلاح کی تحریکیں چلیں ، شاید ہی کسی اور زمانے میں چلی ہوں ۔بعض تحریکوں سے طرح طرح کی گمراہیاں پھیلیں ۔اس فضا میں کھرے کھوٹے کا فرق بتا ناکسی بڑے حق گو اور دانش ور کا کام تھا ۔ اس کام میں مولانا عبد الماجد دریابادی نے دوسرے بلند مرتبہ علماء کے دوش بدوش گراں قدر خدمات انجام دیں ۔’’

             مولانا عبد الماجد دریا بادی ان تبصرہ نگاروں میں ہیں جنہوں نے تبصرہ نگاری کے فن کو مقدس سنجیدگی اور وقار بخشا ہے ۔ یوں تو انہوں نے مقدمے ، دیباچے اور تنقیدی مضامین بھی لکھے ہیں لیکن ان کے قلم کے جوہر تبصروں میں کھلتے ہیں ۔ ان کی تبصرہ نگاری کی سب سے نمایاں خصوصیت ان کا بے تکلف انداز ہے وہ اشعار یا نثر سے جس طرح محظوظ ہوتے ہیں اس کا اظہار اپنے تبصرہ میں کردیتے ہیں۔

            مولانا عبد الماجد دریا بادی کی تصنیفی خدمات میں ان کی عالمانہ تفسیر ‘‘تفسیر ماجدی ’’ ہے ۔اس کی خصوصیات پر ایک جداگانہ اور مفصل مقالہ لکھا جا سکتا ہے۔یہ تفسیر ان کی زندگی کا آخری کارنامہ ہے اور یہ اُردُو و انگریزی دونوں زبانوں میں لکھی گئی ہے۔مصنف و مترجم ہونے کے علاوہ مولانا دریا بادی صحافی بھی تھے۔انہوں نے نصف صدی سے زیادہ مدت تک ‘‘سچ’’(لکھنؤ) پھر‘‘صدق’’ اور آخر میں ‘‘صدق جدید ’’ کی ادارت کی۔ان کے پڑھنے والوں کا ایک وسیع حلقہ برصغیر ہی میں نہیں ، یورپ اور امریکا تک موجود تھا۔

            عبد الماجد دریا بادی نے اُردُو کی بھی بڑی خدمت کی ۔ متضاد موضوعات پر انہوں نے جو کچھ لکھا ہے، وہ محض خانہ پُری کی حیثیت نہیں رکھتا، بلکہ سب کا سب معیاری ، قابل قدر اور اُردُو ادب میں قیمتی اضافے کی حیثیت رکھتا ہے اور بلا مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ کام کمیت و کیفیت کے لحاظ سے اتنا اہم اور مباحث اور معلومات کے نقطہ نظر سے اس قدر وسیع اور ہمہ جہت ہے کہ کسی ایک شخص کا کارنامہ نہیں معلوم ہوتا اور بہ قول مولانا غلام رسول مہر۔‘‘ مولانا عبد الماجد دریابادی کی ذات گرامی سے اُردُو کو اتنا فائدہ پہنچا کہ کہا جا سکتا ہے کہ کوئی بڑی جماعت بھی اس زبان کا دامن گراں بہا جواہرپاروں سے اس پیمانے پر شاید ہی بھر سکتی ، جس پیمانے پر مولانا عبد الماجد نے بھرا۔’’

            مولانا کے گہرے تاریخی شعور اور وسعت مطالعہ نے ‘‘سچی باتوں ’’کی انفرادیت اور مقبولیت کے نقش کو اور بھی گہرا کر دیا تھا۔ مولانا کا یہ کالم مرکزی موضوع کا تابع ہونے کے باوجود مواد کے تنوع اور اُسلوب بیان کی دل کشی اور ادبی چاشنی کے باعث برصغیر کے علمی حلقوں میں بڑی دل چسپی سے پڑھا جا تا تھا۔

            مولانا عبد الماجد دریا بادی کی تصانیف میں غذائے انسانی ، محمود غزنوی ، فلسفہ جذبات ، مکالمات بر کلے ، فلسفیانہ مضامین، مبادی فلسفہ، فلسفہ اجتماع، فلسفہ اور اس کی تعلیم، ہم آپ، پیام امن، تاریخ تمدن، تاریخ یورپ، فیہ ما فیہ، تصوف اسلام،منطق، زود پشیماں ،مقالات ماجد، نشریات ما جد، مضامین عبد الماجد ، اکبر نامہ ،خطوط مشاہیر ، سفر حجاز، مکتوبات سلیمانی، حکیم الامت نقوش و تاثرات ، محمد علی ذاتی ڈائری، انگریزی ترجمہ قرآن، تفسیرماجدی (انگریزی) تفسیر ماجدی(اُردُو)، جغرافیہ قرآنی ، بشریت انبیاء، مشکلات القرآن، قصص و مسائل، تمدن اسلام کا پیام بیسویں صدی کے نام، تحفہ خسروی ، فرائض والدین، مشاہیرسائنس، نورانی جہیز، معاصرین اور آپ بیتی قابل ذکر ہیں۔

            ۱۹۲۰ ؁ ء سے لے کر عمر کے آخری شب و روز تک اگر مولانا صاحب کی تحریروں کی کتابیات مختصر تعارف کے ساتھ ترتیب دی جائے تو اچھا خاصا کم از کم متوسط سائز کا ایک کتابچہ تیار ہوجائے گا۔مولانا عبد الماجد دریا بادی نے اکبر الہ آبادی پر خاصا لکھا۔اکبر کی دانش آموز ، حکمت آفریں شاعری کے وہ دل دادہ تھے ۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ اس میں دونوں بزرگوں کے تہذیبی اور معاشرتی خیالات میں یگانگت ہی کو دخل تھا۔اس یگانگت کی جلوہ فرمائیاں تو بعد کی ہیں ، ابتدائی مکاتبت کے وقت یعنی ۱۹۱۳ ؁ ء میں مولانا صاحب فلسفی قسم کے دہری تھے،لیکن آٹھ نو برس کے تعلقات نیاز مندی کے دوران بہ قول مولانا صاحب‘‘ اکبر سے بہت کچھ سیکھا ، بہت کچھ لیا ، اکبر ، اکبر کے کلام سے بھی اور اکبر کی ذات سے بھی۔’’

            مولانا صاحب کے اُسلوب کا یہ خاص رنگ بھی انہیں سے مخصوص ہے کہ وہ فارسی اور اُردُو کے اشعار اور مصرعوں کا استعمال ایسا بر محل کرتے ہیں کہ یہ استعمال سر تا سر آمد محسوس ہوتا ہے ۔ اور اس سے اگر ایک طرف اُن کی نثر میں گہری معنویت اور ایک خاص سرور و کیفیت پیدا ہوجاتی ہے تو دوسری طرف شعر یا مصرع خود افق نثر پر ایک تابندہ ستارے کی طرح جگمگا اُٹھتا ہے ۔سفر حجاز اور حکیم الامت جیسی کتابوں میں بھی مولاناکے انشاء کا یہ حسن اسی طرح سچ ، صدق اور صدق جدیدمیں ان کے شذرات اور مضامین مثالیں کہاں تک دی جائیں۔

            مولانا صاحب کی تحریروں میں خاص طور پر سچ ، صدق اور صدق جدید کے شذرات اور مضامین میں ہمیں ایک جوش ایمانی ملتی ہے، یہاں تک کہ بعض اوقات ان کا مذہبی جوش وفوراعتدال اور ادبی اُسلوب کی حد سے باہر نکلتا محسوس ہوتا ہے ۔ عالم دین اور مفسر قرآن کی حیثیت سے مولانا عبد الماجد دریا بادی کو عرب دنیا میں بھی نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ اس کا بین ثبوت یہ ہے کہ حکومت مراکش نے دنیا کی بہترین تفسیروں کو سامنے رکھ کر یہ فیصلہ کیا ہے کہ مولانا صاحب مرحوم کی تفسیرکو شائع کر کے وسیع پیمانے پر تقسیم کیاجائے۔