غربت اور ہمارا رویہ

مصنف : ریاض سہیل

سلسلہ : حالاتِ حاضرہ

شمارہ : جون 2010

            کراچی میں غربت اور بد حالی سے تنگ تین خواتین نے اپنے آٹھ بچوں کو کفالت کے لیے فلاحی ادارے ایدھی کے حوالے کردیا میٹھادر میں واقع ایدھی سینٹر میں منگل کی شام ان خواتین نے اپنے بچے عبدالستار ایدھی اور ان کی اہلیہ بلقیس ایدھی کے سپرد کیے۔

            یاسمین اپنے چار بچوں بارہ سالہ فائزہ، سات سالہ رحمان، نو سالہ رمشا اور دس سالہ عدنان، گل تاج بی بی اپنے تین بچوں دو سالہ عمر خان، ساڑھے پانچ سالہ عثمان اور آٹھ سالہ نمرہ اور رخسانہ اپنی بچی وردہ اور ایک اور بچی کو چھوڑ گئی ہیں۔ والدہ یہ کہہ کر گئی ہیں کہ یہاں پڑھو یہ سکول ہے اکسٹھ سال سے سماجی خدمت کے شعبے سے وابستہ عبدالستار ایدھی کا کہنا ہے کہ ان بچوں کی ماؤں کا کہنا تھا کہ وہ انہیں تین وقت کھانا فراہم کرنے کی حیثیت میں نہیں ہیں۔

            ‘ تینوں خواتین کے پاس مکان کا کرایہ نہیں تھا، شوہر بیروزگار ہیں ایک کا شوہر تو معذور اور بیمار ہے۔ جبکہ کوئی مدد کرے والا نہیں تھا، انہوں نے کئی لوگوں سے مدد کے لیے کہا مگر کسی نے مدد نہیں کی۔’ کیا معصوم عثمان اپنے گھر لوٹ سکے گا؟ایدھی کے مطابق انہوں نے خواتین کو ایک ایک لاکھ روپے کی امداد کی پیشکش کی مگر ان کا کہنا تھا کہ‘ آپ بچے رکھیں وہ تکلیف سے نکل جائیں بعد میں رابطہ کریں گی۔’ایدھی کے مطابق یہ عورتیں جب چاہیں اپنے بچے آکر لے جاسکتی ہیں۔ بارہ سالہ فائزہ کا کہنا ہے کہ وہ کورنگی کے علاقے میں رہتے ہیں اور س کے والد فیکٹری میں کام کرتے تھے۔ اس کی والدہ یہ کہہ کر گئی ہیں کہ یہاں پڑھو یہ سکول ہے۔ چھوٹی بہن رمشا کا کہنا ہے کہ ‘پہلے سکول میں اچھا نہیں پڑھاتے تھے امی کہہ کر گئی ہیں کہ یہاں اچھا پڑھائیں گے، صبح کو امی ابو دونوں ملنے آئیں گے۔’ دونوں بنہوں کے تین بھائی اور دو بہنیں گھر پر ہیں۔ ساڑھے پانچ سالہ محمد عثمان کو بھی ان کی والدہ یہ ہی کہہ کرگئی ہیں کہ یہاں پر پڑھو، ان کا کہنا ہے گھر میں پیسے ہی نہیں ہوتے تھے اس لیے صرف ایک وقت ہی کھانا ملتا تھا۔ ایدھی ہوم میں پہلے سے چالیس بچے موجود تھے۔ اس سینٹر کی نگران بلقیس ایدھی کا کہنا ہے کہ ان بچوں کو کچھ دن یہاں پر رکھیں گے تاکہ یہاں کے ماحول میں گھل مل جائیں پھر ان کو دوسرے سینٹروں میں بھیج دیا جائیگا۔ ان کا کہنا تھا کہ بچوں کو یہاں گھر کا ماحول دینے کی پوری کوشش کی جاتی ہے مگر جب ماں باپ ملنے آتے ہیں تو پھر سیٹ ہونے میں ایک دو روز لگ جاتے ہیں۔ یہ بچے ضد کرتے ہیں، روتے بھی ہیں مگر مائیں اپنے ساتھ نہیں لے جاتی ہیں۔ رمشا اور فائزہ کو ان کی ماں نے پڑھنے کی تلقین کی۔ آٹھوں بچوں نے رنگیں کپڑے پہنے ہوئے تھے جو سینٹر کی جانب سے فراہم کیے گئے تھے۔ شہر بھر کے ٹی وی چینلز کی موجودگی اور ان کے سوالوں نے ان بچوں کو پریشان کردیا تھا۔ فائزہ کی آنکھیں رو رو کر سرخ ہوگئی تھیں کیونکہ وہ سمجھ رہی تھی کہ ‘جب رات ختم ہوگی اور صبح ہوگی تو نہ اس کا اپنا گھر ہوگا نہ ہی ماں۔’

             نوے سالہ عبدالستار ایدھی کا کہنا ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو بھوک اور مہنگائی کی وجہ سے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ اس ملک میں سات سو ارب روپے کی زکوۃ بنتی ہے ‘مگر بہت سے لوگ دینے کو تیا رنہیں۔’ ایدھی سینٹر سے اب تک بائیس ہزار بچے گود لیے گیے ہیں، عبدالستار ایدھی کا کہنا ہے کہ بچوں کو گود لینے کا سلسلہ جاری ہے، مگر جو بچے جھولے میں ڈالے جاتے ہیں لوگ صرف انہیں ہی گود لیتے ہیں۔

             سٹیٹ بینک کے مطابق گزشتہ کچھ عرصے میں غدائی اشیا کی قیمتوں میں پینتیس فیصد اضافہ ہوا ہے، مہنگائی اور غربت پر قابو پانے کے لیے حکومت نے بینظیر بھٹو سپورٹ پروگرام کے نام سے ایک امدادی پروگرام شروع کرنے کا اعلان کیا ہے مگر اس کا فائدہ ابھی تک بہت سے لوگوں تک نہیں پہنچ سکا ہے۔

             پچیس تیس برس پہلے غربت اگر زیادہ نہیں تو کم ازکم اتنی ہی تھی جتنی آج ہے۔ لیکن اس دور کے غریب عجیب تھے۔ پڑوس سے آٹا، چائے، چینی، برتن، کرسیاں یا بستر ادھار لینا معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ انتہائی نادار بچوں کے رھن سہن اور تعلیم و تربیت میں چچا، ماموں یا نانا دادا یا ہمسائے اپنی تنگدستی کو بھول کرخاموشی سے ہاتھ بٹاتے تھے۔ محلے کے ہرگھر کا احوال دوسرے پر کھلا تھا۔خوشحال دوکاندار کا بچہ اپنے پڑوسی مزدور کے بچے کے ساتھ بستہ اچھالتا ہوا ایک ہی پیلے سرکاری سکول کا رخ کرتا تھا۔ سینئر بچے کورس کی پرانی کتابیں محلے کے غریب بچوں کو خاموشی سے عطیہ کر دیتے تھے۔ کسی کسی گھر میں بچوں کا ایک آدھ رسالہ آتا تھا۔ اور محلے کے سب بچے اس پر اپنا حق سمجھتے تھے۔ ٹی وی پر بچوں کے لئے بھی روزانہ کوئی نہ کوئی پروگرام ضرور آتا تھا اور جس گھر میں ٹی وی ہوتا شام کو اس کے دروازے محلے کے تمام بچوں پر وا ہوجاتے تھے۔ پھر ہماری زندگیوں سے ہمدرد چچا، ماموں، دادا، نانا، مشترکہ پیلا سکول، بچوں کے رسالے، نو عمروں کے ٹی وی پروگرام، اشیائے ضرورت اور کورس کی کتابیں بانٹنے کا جذبہ اور خاموش دست گیری کی روایت غائب ہوتی چلی گئی۔غربت عیب زدہ اشتہار ہوگئی۔ نمناک آنکھوں کی جگہ نفسا نفسی، محلے داری کی جگہ ایدھی سینٹر، خاموش دستگیری کی جگہ آدم بو آدم بو چیختے چینلز اور ہمدرد آنکھوں کی جگہ کاروں کے بند شیشے آگئے۔

            اب یہ خیال ہی نہیں آتا کہ ہمسائے میں کل کس کا بچہ بیماری سے مرگیا۔ سامنے رہنے والا مزدور اپنے چار بچوں سمیت کیوں اچانک غائب ہوگیا۔ کونے پر بیٹھا خوانچہ فروش لڑکا تین دن سے کیوں دکھائی نہیں دے رہا۔ کام والی ماسی ایک ہفتے سے کہاں ہے۔ تین گھر چھوڑ کے ہر دوسرے تیسرے روز کس کے رونے کی آواز آتی ہے۔بس یہی ہوتا ہے کہ اچانک اخبار میں بچہ برائے فروخت کی تصویر دیکھتے ہی، ریلوے لائن پر خودکشی کرنے والے خاندان کی داستان پڑھتے ہی یا ایدھی ہوم میں چھوڑے جانے والے بچوں کوٹی وی پر دیکھ کر ہماری ہمدردی جاگ اٹھتی ہے اور ہم فون اٹھا کر یوں کہتے ہیں، دیکھیے ہم نے بچوں کے عالمی دن کے موقع پر ایک واک آرگنائز کی ہے آپ پلیز ضرور آنا اور گڑیا کو لانا مت بھولنا۔۔۔