پارٹیاں یا پراپرٹیاں

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : جون 2010

 

سیاسی جماعتوں میں آمریت کا کھیل
    ہم تو پہلے ہی سی جمہوریت کی موجودہ شکل پر ایمان نہیں رکھتے لیکن مزے کی بات تو یہ ہے کہ جمہوریت کی بقا کے لیے بننے والی او رجمہوریت کے ٹکڑوں پر پلنے والی سیاسی جماعتوں کا بھی جمہوریت پر کماحقہ ایمان نہیں او راس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ یہ جماعتیں خود اپنی صفوں میں انتخابات کرانے کی مخالف ہیں۔پچھلے دنوں پارلیمنٹ نے آئین میں اٹھارہویں ترمیم پاس کی ، اس ترمیم میں ایک شق یہ بھی ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے اندرونی انتخابات کرانے کی پابندی سے مستثنی ہو جائیں گی۔ اور سیاسی جماعت کا قائد رکن پارلیمان نہ ہوتے ہوئے بھی پارٹی فیصلے سے انحراف کرنے والے رکن پارلیمنٹ کیخلاف تادیبی کارروائی کرسکے گا۔ ( یاد رہے کہ یہ پابندی آمر پرویز مشرف نے لگائی تھی لیکن اچھی بات محض اس لیے نہیں رد کی جا سکتی کہ وہ کسی آمر کی بات تھی)۔ نہ صرف تمام جماعتوں نے بلکہ نام نہاد دانشوروں ،کالم نگاروں ، میڈیا اور پریس کے ٹھیکداروں نے بھی دم سادھے رکھا ،گویا تالاب میں سب ننگے ہیں اور سب چاہتے ہیں کہ جمہوریت دوسروں کے لیے ہو ان کے لیے نہ ہو۔ پورے ایوان میں صرف مخدوم جاوید ہاشمی اور خواجہ سعد رفیق نے اس شق کے خلا ف ووٹ دیا۔ ان کی جرات قابل تحسین ہے۔ عوام کو سوچنا چاہیے کہ وہ ان جماعتوں کے دم چھلے کیوں بنے پھرتے ہیں جو خود الیکشن کی مخالف ہیں۔ملکی الیکشن کے غم میں گھلنے والوں کو آخر اپنے ہاں الیکشن زہر کیوں نظر آتا ہے اس کی ایک خاص وجہ ہے کہ اس طرح پارٹی ، پارٹی بن جاتی ہے اور پراپرٹی نہیں رہتی۔ جبکہ ان کا مقصد پارٹی کے نام پر پراپرٹی کی تشکیل ہوتا ہے۔ہماری ملکی تاریخ میں کم وبیش تمام قومی اور علاقائی سیاسی جماعتوں کی نوعیت پارٹی سے زیادہ پراپرٹی کی ہے اور ان پر برس ہا برس سے بلکہ ان کی تشکیل کے روز اول سے لے کر ایک یا چند خاندانوں کی حکومت ہی نظر آتی ہے ۔ اسی حکومت کا دوام ان کا مطمح نظر ہوتا ہے، یہی ان کی تمام مساعی کا ہدف ہوتا ہے حتی کہ ملکی مفاد بھی اسی کے گرد گھومتا نظر آتا ہے ۔جیلیں کاٹنے ، مارکھانے اور گھر بار لٹانے والے اگر پارٹی الیکشن کی بات کریں تو مقہور و معتوب ٹھہرتے ہیں۔ کیونکہ اس طرح یہ امکان پیدا ہوجاتا ہے کہ عام کارکن بھی لیڈر بن سکے جبکہ شہنشاہوں کے ہاں تو اس کی اجازت نہیں ہوتی ۔ عام آدمی تو عام ہوتا ہے اور کارکن تو بس کارکن۔ اس کو اسی مقام پر رہنا چاہیے ۔ شہنشاہ تو شہنشاہ ہوتا ہے اور اسی کی نسل کا حق ہے کہ حکومت کرے اس کے لیے شہنشاہی کو جمہوریت کہنا پڑے تو کوئی حرج نہیں۔
    اگر ہم موجودہ معروف جماعتوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تویہ حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی کہ اس بنیادی جمہوری حق کو سب نے ہمیشہ دبا کر رکھا ہے ۔ جمیعت علمائے ہند اور اب جمیعت علمائے اسلام تو اپنے نام ہی سے غیرجمہوری جماعت نظر آتی ہے اور اب تو حقیقتاً ہے بھی ۔ ایک جماعت مفتی محمود کا نام بیچتی ہے تو دوسری جمیعتوں کو کچھ اور نام بیچنے کے لیے مل گئے ہیں۔پیپلز پارٹی روز اول سے لے کر آج تک الیکشن سے محروم ہے اور اب تو پیپلز پارٹی ، پارٹی نہیں بلکہ بقول شخصے ایک خاندان کے عشق میں مبتلا ہجوم کا نا م ہے ۔ مسلم لیگ بھی اسی راہ پر گامزن ہے ۔ اسے بھی کبھی اندرونی الیکشن کرانے کی توفیق نصیب نہ ہوئی اور نہ ہی اس کے لیے آواز اٹھانے کی ۔ اس حوالے سے نئی پرانی سب مسلم لیگیں برابر ہیں۔ ایک جماعت اسلامی رہ جاتی ہے جو اس لحاظ سے کامل جمہوری جماعت ہے مگر وہ عوام کو پسند نہیں آتی ۔
    ہم سمجھتے ہیں کہ وطن عزیز کی بقا اورترقی حقیقی جمہوریت سے وابستہ ہے نہ کہ جمہوریت کے نام پر قائم آمریت سے ۔ اس لیے وقت کا تقاضا ہے کہ جمہوریت کے دل دادہ حضرات ، دانشور ، کالم نگار ، مفکراور کارکن سب آگے بڑھیں اور متفقہ طور پر پارٹیوں کی آمریت کے خلاف اور اندورنی الیکشن کے حق میں آواز اٹھائیں اور جو پارٹی اس پر کان نہ دھرے اس کا بائیکاٹ کریں۔ اور اگر آپ نے جانتے ہوئے بھی اس پہ بات نہ کی تو ہم یہ کہنے پر مجبور ہو ں گے کہ 
شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے 
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی

 اور یہ تحریر گواہ ہے کہ ہم شریک جرم نہیں۔