ابتدائی حساب

مصنف : ابن انشا

سلسلہ : طنز و مزاح

شمارہ : مارچ 2010

حساب کے چار بڑے قاعدے ہیں

جمع، تفریق، ضرب، تقسیم

پہلا قاعدہ:

جمع

جمع کے قاعدے پر عمل کرنا آسان نہیں، خصوصاً مہنگائی کے دنوں میں۔سب کچھ خرچ ہو جاتا ہے، کچھ جمع نہیں ہو پاتا۔جمع کا قاعدہ مختلف لوگوں کے لیے مختلف ہے۔عام لوگ کے لیے 1-1\2=1+1کیونکہ 1\2 انکم ٹیکس والے لے جاتے ہیں۔

تجارت کے قاعدے سے جمع کریں تو 1+1 کا مطلب ہے گیارہ۔رشوت کے قاعدے سے حاصل جمع اور زیادہ ہو جاتا ہے۔قاعدہ وہی اچھا جس میں حاصل جمع زیادہ سے زیادہ آئے بشرطیکہ پولیس مانع نہ ہو۔ایک قاعدہ زبانی جمع خرچ کا ہوتا ہے۔ یہ ملک کے مسائل حل کرنے کے کام آتا ہے۔ آزمودہ ہے۔

تفریق

میں سندھی ہوں، تو سندھی نہیں ہے۔ میں بنگالی ہوں، تو بنگالی نہیں ہے۔میں مسلمان ہوں ، تو مسلمان نہیں ہے۔اس کو تفریق پیدا کرنا کہتے ہیں۔حساب کا یہ قاعدہ بھی قدیم زمانے سے چلا آ رہا ہے۔ تفریق کا ایک مطلب ہے، منہا کرنا، یعنی نکالنا ایک عدد میں سے دوسرے عدد کو۔ بعض عدد از خود نکل جاتے ہیں۔بعضوں کو زبردستی نکالنا پڑتا ہے۔ ڈنڈے مار کر نکالنا پڑتا ہے۔ فتوے دے کر نکالنا پڑتا ہے۔

ایک بات یاد رکھیے۔جو لوگ زیادہ جمع کر لیتے ہیں، وہی زیادہ تفریق بھی کرتے ہیں۔ انسانوں اور انسانوں میں،مسلمانوں اور مسلمانوں میں۔ عام لوگ تفریق کے قاعدے کو پسند نہیں کرتے، کیونکہ حاصل تفریق کچھ نہیں آتا، آدمی ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے۔

ضرب

تیسرا قاعدہ ضرب کا ہے۔ ضرب کی کئی قسمیں ہیں۔ مثلاً ضربِ خفیف، ضربِ شدید، ضرب ِ کاری وغیرہ۔ضرب کی ایک اور تقسیم بھی ہے۔پتھر کی ضرب، لاٹھی کی ضرب، بندوق کی ضرب۔علامہ اقبالؒ کی ضرب ِ کلیم ان کے علاوہ ہے۔حاصل ِ ضرب کا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ ضرب کس چیز سے دی گئی ہے یا لگائی گئی ہے۔آدمی کو آدمی سے ضرب دیں تو حاصل ضرب بھی آدمی ہی ہوتا ہے۔ لیکن ضروری نہیں کہ وہ زندہ ہو۔ضرب کے قاعدے سے کوئی سوال حل کرنے سے پہلے تعزیرات ِ پاکستان پڑھ لینی چاہیے۔

تقسیم

یہ حساب کا بڑا ضروری قاعدہ ہے۔ سب سے زیادہ جھگڑے اسی پر ہوتے ہیں۔ تقسیم کا مطلب ہے بانٹنا۔ اندھوں کا آپس میں ریوڑیاں بانٹنا۔ بندر کا بلیوں میں روٹی بانٹنا۔ چوروں کا آپس میں مال بانٹنا۔ اہلکاروں کا آپس میں رشوت بانٹنا۔مل بانٹ کر کھانا اچھا ہوتا ہے۔دال تک جوتوں میں بانٹ کر کھانی چاہیے، ورنہ قبض کرتی ہے۔تقسیم کا طریقہ کچھ مشکل نہیں ہے۔حقوق اپنے پاس رکھیے، فرائض دوسروں میں بانٹ دیجیے۔ روپیہ پیسہ اپنے کِیسے میں ڈالیے،قناعت کی تلقین دوسروں کو کیجیے۔

آپ کو مکمل پہاڑا مع گُر یاد ہو تو کسی کو تقسیم کی کانوں کان خبر نہیں ہو سکتی۔ آخر کو ۱۲ کروڑ کی دولت کو ۲۲ خاندانوں نے آپس میں تقسیم کیا ہی ہے۔ کسی کو پتا چلا؟

ابتدائی الجبرا

یہ بھی ایک قسم کا حساب ہے چونکہ طالب علم اس سے گھبراتے ہیں اور یہ جبراً پڑھایا جاتا ہے، اس لیے الجبرا کہلاتا ہے۔

حساب اعداد کا کھیل ہے۔ الجبرا حرفوں کا کھیل ہے۔ ان میں سب سے مشہور حرف ‘‘لا’’ ہے۔ جسے ‘لا’ لکھتے ہیں۔ اس کے معنی کچھ نہیں بلکہ یہ ایسا ہے .... کہ کسی اور لفظ کے ساتھ لگ جائے تو اس کے معنی بھی سلب کر لیتا ہے۔ جس طرح لا مکاں، لادوا، لا ولد وغیرہ۔ بعض مستثنیات بھی ہیں۔ مثلاً لاہور، لاڑکانہ، لالٹین، لالو کھیت وغیرہ۔ اگر ان لفظوں کے ساتھ لا نہ ہو تو ہور، ڑکانہ، لٹین اور لو کھیت کے کچھ معنی نہ نکلیں۔آزمائے کو آزمانا جہل کہتے ہیں۔ لیکن الجبرا میں آزمائے کو ہی آزماتے ہیں۔ اچھے خاصے پڑھے لکھوں کو نئے سرے سے اب ج سکھاتے ہیں بلکہ ان کے مربعے بھی نکلواتے ہیں۔الجبرا کا ہماری طالب علمی کے زمانے میں کوئی خاص مصرف نہ تھا۔اس سے صرف اسکولوں کے طلبہ کو فیل کرنے کا کام لیا جاتا تھا۔ لیکن آج کل یہ عملی زندگی میں خاصا استعمال ہوتا ہے۔ دکاندار اور گداگر اس قاعدے کو زیادہ استعمال کرتے ہیں۔پیسہ لا، اور لا اور لا۔بعض رشتوں میں الجبرا یعنی جبر کا شائبہ ہوتا ہے ، جیسے : مَدر اِن لا، فادر اِن لا وغیرہ۔ مارشل لاء کو بھی الجبرا ہی کا ایک قاعدہ سمجھنا چاہیے۔

ابتدائی جیومیٹری

جیومیٹری لکیروں کا کھیل ہے۔ علمائے جیومیٹری کو ہم لکیر کے فقیر کہہ سکتے ہیں۔ دنیا نے اتنی ترقی کر لی، ہر چیز بشمول سائنس اور مہنگائی کہاں سے کہاں پہنچ گئی، لیکن جیومیٹری والوں کے ہاں اب تک زاویہ قائمہ ۹۰ درجہ کا ہوتا ہے اور مثلث کے اندرونی زایوں کا مجموعہ ۱۸۰ درجے سے تجاوز نہیں کر پایا۔ امریکہ اور روس ہر معاملہ میں لڑتے ہیں، اس معاملے میں ملی بھگت ہے۔ ہم اپنے ملک میں اپنی پسند کا نظام لائیں گے تو اپنی اسمبلی میں ایک قانون بنوائیں گے، چند درجے ضرور بڑھائیں گے۔ مستطیل بھی پرانے زمانے میں جیسی چورس ہوتی تھی ویسی آج کل ہے۔ گول کرنا تو بڑی بات ہے کسی کو یہ توفیق تک نہ ہوئی کہ اس کے چار سے پانچ یا چھ ضلعے کر دے۔ ایک آدھ فالتو رہے تو اچھا ہی ہے۔ مغربی پاکستان کے ضلعوں میں ہم رد و بدل کرتے ہیں تو مستطیل وغیرہ کے ضلعوں میں کیوں نہیں کر سکے۔

جیومیٹری میں بنیادی چیزیں ہیں: خط، نقطہ، دائرہ، مثلث وغیرہ۔ اب ہم تھوڑا تھوڑا حال ان کا لکھتے ہیں:

خط

خط کی کئی قسمیں ہیں:

 خط ِ مستقیم، بالکل سیدھا ہوتا ہے، اس لیے اکثر نقصان اٹھاتا ہے۔ سیدھے آدمی بھی نقصان اٹھاتے ہیں۔

خط ِ منحنی: یہ ٹیڑھا ہوتا ہے بالکل کھیر کی طرح، لیکن اس میں میٹھا نہیں ڈالا جاتا۔

خط تقدیر: اسے فرشتے پکی سیاہی سے کھینچتے ہیں۔ یہ مستقیم بھی ہوتا ہے منحنی بھی۔ اس کا مٹانا مشکل ہوتا ہے۔

خط ِ بیرنگ: اس پر لگانے والے ٹکٹ نہیں لگاتے۔ ہمیں دگنے پیسے دینے پڑتے ہیں۔

خط ِ شکستہ: یہ وہ خط ہے جس میں ڈاکٹر لوگ نسخے لکھتے ہیں۔ تبھی تو آج کل اتنے لوگ بیماریوں سے نہیں مرتے جتنے غلط دواؤں کے استعمال سے مرتے ہیں۔

خط ِ استوا: یہ اس لیے ہوتا ہے کہ کہیں تودنیا میں دن رات برابر ہوں، کہیں تو مساوات نظر آئے۔

خط کی دو اور قسمیں مشہور ہیں

حسینوں کے خطوط: یہ دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن میں دور، بہت دور افق کے پار جانے کا ذکر ہوتا ہے، جہاں ظالم سماج نہ پہنچ سکے۔ یہ تصویر بتاں کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں۔ دوسرے وہ جو حسینوں کے چہروں پر ہوتے ہیں اور جن کو چھپانے کے لیے ہر سال کروڑوں روپے کی کریمیں، لوشن، پوڈر وغیرہ صرف کیے جاتے ہیں۔

متوازی خطوط: یہ ویسے تو آمنے سامنے ہوتے ہیں، لیکن تعلقات نہایت کشیدہ۔ ان کو کتنا بھی لمبا کھینچ کے لے جائیے یہ کبھی آپس میں نہیں ملتے۔ کتابوں میں یہی لکھا ہے۔ لیکن ہمارے خیال میں ان کو ملانے کی کوئی سنجیدہ کوشش بھی نہیں کی گئی۔ آج کل بڑے بڑے ناممکنات کو ممکن بنا دیا گیا ہے تو یہ کس شمار قطار میں ہیں۔

نقطہ (.)

نقطہ یعنی بِندی یعنی پوائنٹ۔ یہ محض کسی جگہ کی نشاندہی کے لیے ہوتا ہے۔ جیومیٹری کی کتابوں میں آیا ہے کہ نقطہ جگہ نہیں گھیرتا۔ ایک آدھ نقطہ کی حد تک یہ بات صحیح ہو گی لیکن چھ نقطوں سے تو آپ سارا پاکستان گھیر سکتے ہیں۔

دائرہ

دائرے چھوٹے بڑے ہر قسم کے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ قریب قریب سبھی گول ہوتے ہیں۔ ایک اور عجیب بات ہے کہ ان میں قطر کی لمبائی ہمیشہ نصف قطر سے دگنی ہوتی ہے۔ جیومیٹری میں اس کی کوئی وجہ نہیں لکھی گئی۔ جو کسی نے پرانے زمانے میں فیصلہ کر دیا، اب تک چلا آ رہا ہے۔ ایک دائرہ اسلام کا دائرہ کہلاتا ہے۔ پہلے اس میں لوگوں کو داخل کیا کرتے تھے، آج کل داخلہ منع ہے، صرف خارج کرتے ہیں۔

مُثَلَّث

تکون کے تین کونے ہوتے ہیں۔ چار کونوں والی بھی ہوتی ہوں گی، لیکن ہمارے ملک میں نہیں پائی جاتیں۔ کم از کم ہماری نظر سے نہیں گزریں۔مثلثیں کئی طرح کی ہوتی ہیں: مثلاً عشق کی مثلث: عاشق، معشوق اور رقیب۔ فلم بھی یہی مثلث ہوتی ہے، لیکن وہاں ان تینوں کو پیسے ملتے ہیں۔ رقابت سے شادی تک فلم ساز کے خرچ پر ہوتی ہے۔

٭٭٭