دو ہزار دس ، کہیں تو کچھ بدلے

مصنف : عارف شمیم

سلسلہ : احوال عالم

شمارہ : فروری 2010

            دنیا میں ایک ارب سے زائد افراد خوراک کی کمی کا شکار ہیں ساحر لدھیانوی نے ایک بار لکھا تھا:

گزشتہ جنگ میں گھر ہی جلے،مگر اس بار
عجب نہیں، کہ یہ تنہائیاں بھی جل جائیں


گزشتہ جنگ میں پیکر جلے، مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ پرچھائیاں بھی جل جائیں

            نئے سال کے متعلق لکھتے ہوئے ہمیشہ جی چاہتا ہے کہ کچھ مثبت ہی لکھیں۔ جہاں سب اچھا ہو، ٹھیک ہو، کوئی دکھ، کوئی تکلیف کسی کو نظر نہ آئے۔ دنیا ایک جنت ہو یا جنت نما بن جائے۔ لیکن کیا کروں کہ گزشتہ سال میں شاید ایسا کچھ ہوا ہی نہیں جس کی وجہ اسے خوش خوش رخصت کریں یا کم از کم مجھے تو ایسا ہی لگتا ہے۔ سال کے آخر میں بھی کراچی میں ایسی خون ریزی ہوئی کہ خدا کی پناہ۔ بس جی یہ ہی چاہا کہ یہ برا وقت جلد از جلد گزر جائے چاہے وہ سال کی صورت میں ہی ہو۔ لیکن یہ سب کچھ تو وہ ہے جو نظر آ رہا ہے۔ کچھ ایسی بھی چیزیں ہیں جو بموں کے دھماکوں میں دب گئی ہیں وہ شاید اس وقت اس طرح نظر نہیں آ رہیں جس طرح آنی چاہیئیں یا پھر ہمارے پاس انہیں دیکھنے کی فرصت نہیں ہے۔ ان میں سے سب سے ضروری شاید بھوک ہے۔ دنیا میں ہونے والے ہولناک واقعات نے ہمیں بھلا ہی دیا ہے کہ ان بموں سے پرے بھی ایک دنیا ہے جس میں دن بدن بھوک بڑھتی جا رہی ہے۔ اور یہ بھوک ہی ہے جس سے بغاوت اور بم جنم لے رہے ہیں۔مائل ملیح آبادی اپنی ایک غزل بھوک میں اسی کے حوالے سے کہتے ہیں:

بھوک سے باپوں کے جب ماؤف ہوتے ہیں دماغ
ذہن میں ان کے جلاتی ہوں بغاوت کے چراغ

            پورے ملک کے دور دراز علاقوں سے لوگ روزی کمانے کراچی آتے ہیں اور اس میں سمو جاتے ہیں۔ یہ ہی وہ لوگ تھے جنہوں نے کراچی کی بولٹن مارکیٹ جیسی جگہوں پر دکانیں بنائیں یا ان میں کام کرتے تھے۔ ایک دن ان کا کاروبار جل جاتا ہے اور وہ بے روز گار ہو جاتے ہیں۔ ان کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ کیا ہم سمجھتے ہیں کہ ان میں سے کسی کے دل میں یہ نہیں آئے گا کہ روزی کمانے کا یا اپنے پیاروں کا پیٹ بھرنے کا ایک آسان طریقہ بھی ہے۔ چوری کرو یا کسی بھی مذہب، فرقے یا صرف پیسے کی وجہ سے پھٹ جاؤ۔اقوامِ متحدہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں ایک ارب سے زائد افراد ایسے ہیں جو خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ اور ان کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ برِ اعظم افریقہ میں بھوک، افلاس اور غربت خطرناک حد تک پہنچ گئی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق اس وقت صرف کینیا میں ہی چالیس لاکھ کے قریب افراد ایسے ہیں جو انتہائی غربت کا شکار ہیں اور سوکھے اور افراطِ زر نے خوراک کو ان کی دسترس سے دور کر دیا ہے۔یہی حال بنگلہ دیش کا ہے جس کو دنیا کے سب سے زیادہ غریب ممالک کی فہرست میں رکھا گیا ہے۔ یہاں طوفان، سیلابوں اور دوسری قدرتی آفات نے مل کر دنیا میں سب سے زیادہ خوراک کی کمی کا شکار لوگ پیدا کیے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش میں جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ خفیف یا ناکافی وزن رکھنے والے بچے موجود ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اقوامِ متحدہ کا خوراک کا پروگرام صرف دس لاکھ افراد تک خوراک پہنچا پا رہا ہے جبکہ اس کی اشد ضرورت پچاس لاکھ افراد کو ہے۔ غور کریں پچاس لاکھ افراد جو اپنے اور اپنے خاندانوں کے لیے خوراک نہیں لے سکتے۔ اگر یہی حال رہا تھا تو اس سال مزید بیس لاکھ افراد خوراک کی کمی کا شکار ہوں گے اور یہ سلسلہ پتا نہیں کب تک چلتا رہے۔ذرا پاکستان کو ہی لے لیں۔ ایک سو اٹھاون ملین کی آبادی والے اس ملک میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک چوتھائی آبادی غربت کا شکار ہے جو کہ زندہ رہنے کے لیے بنیادی اشیا خریدنے سے قاصر ہے۔ دریا سوکھ رہے ہیں، لوگ زراعت کا پیشہ ترک کر کے زمینیں بیچ کر شہروں میں روٹی روزی کمانے کی فکر میں ہیں۔ اشیائے خورو نوش میں اضافے کی وجہ سے زیادہ تر عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔جب والدین کو معلوم ہو گا کہ وہ اپنے بچے کو کھانا نہیں دے سکتے تو وہ اسے بھوک سے بچانے کے لیے کچھ بھی کریں گے۔ خود کش بمبار بھی وہاں سے ہی پیدا ہوں گے اور والدین بچوں کو ایسے مدرسوں میں چھوڑ کر ضرور جائیں گے جو چاہے تعلیم دیں نہ دیں کم از کم کھانا تو ضرور دیں گے۔اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کے 121 اضلاع میں سے 95 اضلاع میں خوراک کا بحران ہے جس میں خوراک کی کمی، بھوک، بیماری، اور غربت شامل ہے۔ اس کا اثر ملک میں سکیورٹی کی صورتِ حال پر ہونا لازمی ہے۔ جب والدین کو معلوم ہو گا کہ وہ اپنے بچے کو کھانا نہیں دے سکتے تو وہ اسے بھوک سے بچانے کے لیے کچھ بھی کریں گے۔اب ذرا موسمی تبدیلی کو اس میں ڈال دیں۔ اگر مون سون ذرا وقت پر نہیں ہوتا تو فصلیں خراب ہوتی ہیں۔ فصلیں خراب ہوں تو خوراک پیدا نہیں ہوتی اور اگر خوراک پیدا نہیں ہوتی تو غربت، بھوک اور افلاس جنم لیتی ہے۔ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہم موسمی تبدیلی کی شدت کو روکنے کے لیے کیا کر رہے ہیں۔ کیا اس کا حل زرعی زمینیں بیچنے میں ہی ہے۔ لیکن یہ ہو رہا ہے اور پاکستان جیسے ملک میں جس کو بہت سے دیگر مسائل کا سامنا ہے بڑی تیزی سے ہو رہا ہے۔ شاید موسمی تبدیلی کی شدت بھی شدت پسندی کی وجوہات میں سے ایک ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک رپورٹ آئی تھی کہ وزیرستان میں ٹماٹر کی فصل کی وجہ سے علاقے میں امن ہے کیونکہ شدت پسند افراد نے کہا ہے کہ ابھی کیونکہ فصل تیار ہے اس لیے ابھی کسی قسم کی لڑائی نہیں لڑنی۔‘موسمی تبدیلی اور عالمی سکیورٹی جڑی ہوئی ہے’ویتنام میں قیام کے دوران ڈاکٹر نوین ہو نِنہ سے ملاقات ہوئی جو کہ فوڈ سکیورٹی اور موسمی تبدیلی جیسے موضوعات پر بین الاقوامی شہرت کے حامل ہیں۔ ان کے مطابق یہ دونوں موضوع جڑے ہوئے ہیں اور ان کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ موسمی تبدیلی خوراک کی سلامتی پر اثر انداز ہوتی ہے جو کہ بھوک اور دوسرے بحرانوں کو جنم لیتی ہے اور اس کا حتمی نتیجہ دہشتگردی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔وہ ویتنام کے میکانگ ڈیلٹا کی مثال دیتے ہیں کہ کس طرح درجہ حرات میں ذرا سی تبدیلی سے سیلاب اور طوفان آتے ہیں اور ان کی وجہ سے چاول کی فصل متاثر ہوتی ہے اور کیونکہ ویتنام دنیا میں سب سے زیادہ چاول پیدا کرنے والا دوسرا ملک ہے، اس کی پیداوار میں ذرا سی اونچ نیچ خطے میں خوراک کے بحران کی ذمہ دار ہو سکتی ہے۔ڈاکٹر ننہ کہتے ہیں کہ میں جب بھی مغربی ممالک کو کہتا ہوں کہ موسمی تبدیلی کے متعلق کچھ کرو تو میری بات ان سنی کر دیتے ہیں لیکن جب میں کہتا ہوں کہ یہ موسمی تبدیلی دراصل ان کی سکیورٹی سے جڑی ہے تو وہ یکدم ہمہ تن گوش ہو جاتے ہیں۔‘میں جھوٹ نہیں بول رہا ہوتا، ہمیں صرف دہشت گردی اور اقتصادی بحران کا علم ہے، موسمی تبدیلی بھی ایک بحران ہے اور بہت بڑا بحران ہے۔ موسمی تبدیلی کو روکنے کے لیے سرمایہ کاری کرنا بھی بالکل اسی طرح ہے جس طرح کسی اقتصادی پراجیکٹ میں سرمایہ کاری کرنا۔ اس کا فائدہ شاید ابھی پتا نہ چلے لیکن مستقبل میں ضرور سامنے آئے گا۔’غربت دہشت گردی کا منبع ہے، کیونکہ اگر لوگوں کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں ہو گا تو وہ طرح طرح کے غلط سلط خیالات ذہن میں لائیں گے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ دہشت گردی بھی موسمی تبدیلی سے جڑی ہوئی ہے۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں پانی پر جنگیں ہوئی ہیں اور ہو رہی ہیں اور شاید آگے بھی ہوں۔ ہمیں ان کے متعلق سوچنا ہے۔انہوں نے کہا کہ ‘اگر ہم نے کسان کو پیسے نہ دیے، تاجر اور خوراک پیدا کرنے والے میں خلاء کو کم نہ کیا تو آہستہ آہستہ لوگ زراعت کے پیشے کو ترک کرتے رہیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ خوراک کا بحران بڑھتا رہے گا جو دوسری برائیوں کو جنم دے گا۔’وہ کہتے ہیں کہ جب لوگ زراعت کا پیشہ ترک کرتے ہیں تو وہ سہانے مسقتبل کے خواب دیکھتے ہوئے دیہات اور قصبوں سے نقلِ مکانی کر کے شہروں کی طرف آ جاتے ہیں، دوسرے ممالک کی طرف نکل جاتے ہیں، جو کہ خود ایک بحران ہے۔ ‘لوگوں کو نقل مکانی کرنے کا حق ہے، ان سے یہ حق نہیں چھینا جا سکتا لیکن ‘گوڈ گورننس’ سے ایسے حالات ضرور پیدا کیے جا سکتے ہیں کہ وہ ایسا کرنے کا سوچیں ہی نہیں۔’

ان ہواؤں سے تو بارود کی بو آتی ہے

ان فضاؤں میں تو مر جائیں گے سارے بچّے

خدا کرے نیا سال سب کو راس آئے