نیند

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : فروری 2010

            بلندو بالا عمارتوں والے اس جدید شہر میں ایک اور ایسی ہی عمارت تعمیر ہو رہی تھی ۔اس نے دیکھا کہ وہاں کچھ مزدور کام میں مصروف تھے اور کچھ ایک دیوار کے سائے میں لیٹے بڑی گہری نیند سو رہے تھے جن کی نیند کو نہ تو مشینوں کی آواز متاثر کر رہی تھی ،نہ ٹریفک کا شور و غل اور نہ ہی پچاس ڈگری سینٹی گریڈ کی گرمی۔ تھوڑی ہی دور اس نے ایسا ہی ایک اور منظر دیکھا۔ ایک پاور پلانٹ کی دیوار سے چمٹا ایک اور انسان فٹ پاتھ پر سو رہا تھا۔اس کا آدھا بدن سائے میں تھا اور آدھا دھوپ میں مگر وہ دنیاو مافیہا سے بے خبر خراٹے لے رہا تھا۔ اس جگہ کا انتخاب غالباً اس نے اس لیے کیا تھا کہ وہاں ایک ایگزاسٹ فین اندر نصب بڑے بڑے ائیر کنڈیشنروں کی ٹھنڈی ہوا باہر پھینک رہا تھا۔

             اس نے سوچا کہ نیند کتنی بڑی نعمت ہے اور یہ نعمت مادی وسائل سے محروم ان انسانوں کو کتنی فراوانی سے میسر ہے ۔اور پھر اسے وہ شخص یا د آیا جو ہر رات کہا کرتا تھا کہ لو پھر رات آ گئی ۔ مجھے پھر جاگنا ہو گا اور یہ رات کیسے کٹے گی۔ یہ شخص ایک مہلک حادثے کا شکار ہوگیاتھا۔ اس کی ٹانگیں ، بازو، پاؤں ، سر اور پسلیاں سب کچھ متاثر تھا۔ جب وہ ہسپتال سے گھر منتقل ہوا تو اس پر ایک مہینا ایسا گزراتھا جس میں اس کو نیند نہیں آتی تھی۔ساری ساری رات جاگتے گزر جاتی ۔ بعض اوقات غنودگی طاری ہوتی تو پاؤں اور ٹانگ کی تکلیف پھر ہشیار کر دیتی۔ اس کی ایڑی پرایک زخم تھا جس میں شدید جلن اور خارش ہو تی تھی۔ اس کی بیوی ایڑی کو سہلا دیتی تو تھوڑا سکون ہوجاتا مگر تھوڑی ہی دیر میں پھر وہی صورت ہوتی۔ خود تووہ مجبور تھا مگر وہ ساتھ اپنی بیوی کو بھی جگائے رکھتا۔ اس کی آنکھ لگتی تو وہ پھر اس کو آواز دیتا وہ بیچاری پھر جاگ اٹھتی اور اس کے پاؤں اور ٹانگ کو کبھی اونچا کر دیتی توکبھی نیچا۔اسے اپنی فرشتہ صفت بیوی کی تکلیف کا پورا احساس تھا مگر مجبوری ، مجبوری ہوتی ہے ۔ اللہ کسی کو مجبور نہ کرے لیکن ایسی مجبوری میں اگر کوئی ساتھ جاگنے والا مل جائے تو یہ بھی کتنی بڑی نعمت ہے۔ اور اس جاگنے والے کو یہ نعمت میسر تھی۔

            نیند اللہ کریم کی بڑی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے ۔ یہ نعمت اگر میسر ہو تو بڑے سے بڑا دکھ بھی ،دکھ نہیں رہتا ۔نیند انسا ن کو ایسی وادی میں لے جاتی ہے جہاں نہ کوئی درد ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی فکرو غم۔ انسان اس وادی سے نہ صرف یہ کہ تروتازہ ہو کر لوٹتا ہے بلکہ ایک نئی توانائی بھی لے کر آتا ہے جو اسے نئے سرے سے دکھ درد ، فکر و غم اور مسائل حیات کا سامنا کرنے کے لیے تیار کر دیتی ہے ۔ نیند سے محرومی اچھے بھلے انسان کو پاگل کر کے رکھ دیتی ہے اور انسان تمام تر آسایشوں اور مادی وسائل ہو نے کے باوجود خود کو ایک مجبور محض پاتا ہے اور چاہتا ہے کہ کوئی اس سے جتنا چاہے مال لے لے اور چندگھڑیوں کی نیند عطا کر دے لیکن مالک ہی نہ چاہے تو کوئی کیا کر سکتا ہے اور کوئی کیا دے سکتا ہے ۔

            انسان اپنی تمام تر سائنسی تحقیق او رعلمی ترقی کے باوجود نیند کی اصلیت او رماہیت کو سمجھنے سے قاصر ہے ۔ وہ کو ن سی طاقت ہے جو اس پر نیند طاری کر دیتی ہے اور وہ کون سی طاقت ہے جو اسے نیند سے بیدا ر کر دیتی ہے ۔ کتنے ہی انسان ہیں جن کی نیند کو کوئی شور و غل متاثر نہیں کرتا اور وہ بڑے آرام کی نیند سوئے رہتے ہیں لیکن جوں ہی انہیں ان کا نام لے کر پکارا جائے تو وہ بیدار ہو جاتے ہیں ۔ یہ کون سی طاقت ہے جو انہیں بتاتی ہے کہ یہ آواز تمہارے لیے ہے او روہ آواز تمہارے لیے نہیں تھی ۔

             نیند کی لاکھ سائنسی ، طبی او رنفسیاتی توجیہات کر لی جائیں لیکن اس جاگنے والے شخص کو یقین ہے کہ یہ اللہ کے براہ راست حکم سے میسر آتی ہے اور اس کے حکم سے ہی منقطع ہوتی ہے ۔ اسی لیے تو اللہ نے نیند کو اپنی نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی قرار دیا ہے ۔ و من آیاتہ منامکم باللیل والنھار ۔۔۔(اور اس کی نشانیوں میں سے تمہارا رات اور دن کو سونا ہے ) روزانہ سونے والے بھی اگر غور کریں تو اپنی نیند سے ہی اپنے مالک کو پہچان سکتے ہیں ان فی ذلک لایات لقوم یتفکرون۔۔۔(اس میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غوروفکر کرنے والے ہیں) اور جاگنے والے چاہیں تو مالک سے تعلق استوار کر کے گولیوں اور نشے سے نجات حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ نیندتو ہے ہی سکون کی چیزو جعلنا نومکم سباتا۔۔(اور تمہاری نیند کو باعث سکون بنایا)